Tag: نیویارک فیشن ویک

  • نیویارک فیشن ویک 2016 کا میلہ حجاب والے ملبوسات مقبول

    نیویارک فیشن ویک 2016 کا میلہ حجاب والے ملبوسات مقبول

    نیویارک: ہر سال کی طرح امسال بھی دنیا کے سب سے بڑے فیشن ویک کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے معروف ڈیزائنرز نے اپنی کلیکشن پیش کیں تاہم انڈونیشیا کی مسلم ڈیزائنرکے حجاب کے ساتھ نت نئے ملبوسات نے حاضرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک میں فیشن ویک برائے سال 2016 کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے آئے نامور ڈیزائنرز نے اپنے ملبوسات پیش کیے اور حاضرین کے دل جیتنے کی کوشش کی تاہم انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ سے تعلق رکھنے والی مسلمان خاتون ڈیزائنر انیسہ حسیبنا کی جانب سے پیش کیے گئے ملبوسات فیشن شو حاضرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

    F-1
    بشکریہ انیسہ حسیبنا انسٹا گرام

    انیسہ کی جانب سے مسلم ثقافت پر مبنی ملبوسات تیار کیے گئے تھے جن کے ساتھ حجاب لازم تھا، فیشن شو میں حاضرین اُس وقت حیران ہوئے جب مسلم خاتون ڈیزائنر کے ملبوسات زیب تن کی ماڈلز ریمپ پر حجاب کے ساتھ جلودہ گر ہوئیں۔

    نیویارک فیشن شو کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب ماڈلز سر پر حجاب پہنے ریمپ پر آئیں اور کامیاب کیٹ واک کر کے فیشن  کی دنیا میں نئی تاریخ رقم کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب پوری کاسٹ اسکارٹ پہن کر ریمپ پر اتری اور حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔

    F-3

    جکارتہ سے تعلق رکھنے والی مسلم خاتون ڈیزائنر کی جانب سے پانجاموں، انگرکھوں اور گاؤنز جیسے ملبوسات پیش کیے گئے تھے جن پر شاندار کشیدہ کاری کی گئی اور اُن کے ساتھ حجاب بھی شامل تھے، جس کی وجہ سے ملبوسات کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوا اور  اسلامی فیشن کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوششوں پر انیسہ کے ملبوسات کو خوب پذیزائی ملی۔

    F-2

    یاد رہے ایک ایسے وقت جب عالمی سطح پر مسلم خواتین کے لباس یا ان کے حجاب سے متعلق بحث جاری ہے، بہت سے لوگ حجاب کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر حسیبنا کے قدم کو تاریخی نوعیت کا حامل قرار دے رہے ہیں، انڈونیشیا کی 30 سالہ انیسہ کی یہ کولیکشن فیشن کی دنیا میں ”حیا کی مہم“ کا حصہ ہے جس کی قیادت انیسہ جیسے انڈونیشیا کے ڈیزائنر کررہے ہیں۔

  • جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    نیویارک: امریکی شہر نیویارک میں جاری نیویارک فیشن ویک بڑے بڑے مشہور ڈیزائنرز کے ملبوسات سے سجا ایسا شو ہے جس میں شرکت کرنا ہر ڈیزائنر اپنا خواب سمجھتا ہے۔ ہر سال اس میں کئی نئے ڈیزائنرز بھی اپنا ڈیبیو کرتے ہیں۔

    اس شو میں شریک ہونے والے ڈیزائنرز بین الاقوامی شہرت کے مالک بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈیزائنر اوڈے شکار بھی ہیں جو عراقی نژاد ہیں۔

    اپنے فیشن ڈیزائننگ کے کیریئر کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے وہ انوکھے ڈیزائنز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں شریک ہوئے۔

    oday-2

    oday-3

    لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دربدری، جدوجہد اور تکلیف کی ایک طویل داستان ہے۔

    شکار کے والدین صدام حسین کے دور میں بغداد سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اس وقت اوڈے شکار بہت کم عمر تھے۔

    گلف کی جنگ کے خاتمہ پر شکار کو ان کے 2 بھائیوں کے ساتھ واپس عراق بھیجا گیا تاکہ وہ اپنی ثقافت سے آشنا ہوسکیں۔

    اس دور کی یادیں آج بھی شکار کے ذہن میں تازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے دھویں اور بارود کی ایک نادیدہ مہک محسوس ہونے لگتی ہے‘۔

    سنہ 50 کی دہائی میں فیشن کیسا تھا؟ *

    انہوں نے اس وقت عراق میں جو خواتین دیکھیں وہ اب بھی ان کی یادوں میں موجود ہیں۔ یہ اس وقت بھی موجود ہوتی ہیں جب وہ کپڑے ڈیزائن کر رہے ہوتے ہیں۔

    وہ اپنے بچپن کی اس یاد کو یوں بیان کرتے ہیں، ’دلکش آئی لائنر سے سجی آنکھیں اور خوبصورت بال، وہ خواتین بہت فیشن زدہ تھیں باوجود اس کے، کہ وہ اس کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرتی تھیں۔ وہ کسی پرانے کپڑے کو بھی ایسے انداز میں پہنتی تھیں کہ وہ فیشن معلوم ہوتا تھا۔ وہ خواتین حجاب سے آزاد تھیں‘۔

    بالآخر 2 سال بغداد میں گزارنے کے بعد شکار اردن آگئے جہاں انہوں نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔

    oday-4

    بعد ازاں وہ امریکا آگئے۔ اس وقت شکار کی عمر 18 سال تھی۔ انہوں نے لاس اینجلس میں فیشن انسٹیٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ مرچنڈائزنگ میں داخلہ لیا۔ 2003 میں جب ان کا گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا تھا، انہیں ایک میوزک ویڈیو کے کپڑے ڈیزائن کرنے کا موقع مل گیا۔

    امریکا اور عراق کی جنگ شکار کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’اس دور میں، میں عجیب الجھن کا شکار ہوگیا۔ آپس میں برسر پیکار دونوں ممالک میرے اپنے ہی تھے۔ ایک میرا آبائی وطن تھا، دوسرے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع دیا‘۔

    شکار کے مطابق، ’مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کہاں کھڑا ہوں، اور مجھے کہاں ہونا چاہیئے۔ بعض دفعہ میں یہ بھی بھول جاتا کہ درحقیقت میں ہوں کون‘۔

    فیشن ڈیزائننگ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اوڈے شکار اپنا برانڈ شروع کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ وہ تھائیرائیڈ کینسر میں مبتلا ہیں۔

    ریڈی ایشن تھراپی کے لیے انہیں کافی عرصہ اسپتال میں تقریباً معذوری کی حالت میں گزارنا پڑا۔

    وہ بتاتے ہیں، ’اسپتال میں گزارے گئے دن میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ میں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا تھا اور یہ خیال ہی میرے لیے بہت خوفناک تھا کہ میں اپنے ہاتھوں کو کبھی حرکت نہیں دے سکتا، یعنی کچھ ڈیزائن نہیں کر سکتا‘۔

    بالآخر 2009 میں انہوں نے اپنا برانڈ لانچ کردیا اور اگلے ہی سال 2010 میں انہیں اس وقت بین الاقوامی شہرت مل گئی جب ہالی ووڈ اداکارہ سینڈرا بلاک نے ایم ٹی وی مووی ایوارڈز میں ان کا ڈیزائن کردہ لباس زیب تن کیا۔

    oday-1

    اوڈے اپنے ملبوسات کے لیے دو دنیاؤں کے امتزاج کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی مشرق وسطیٰ پر مغربی اثر۔ ان کے مطابق ان کے تیار کردہ ڈیزائنز اسلامی آرکیٹیکچر اور مغربی آرٹ کا امتزاج ہوتے ہیں۔

    رواں برس بھی وہ اپنے منفرد انداز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں جلوہ گر ہوئے اور ناقدین نے ان کے ملبوسات کو پسندیدگی کی سند بخشی۔