Tag: نیو دہلی

  • پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    میری بڑی آپا ملکہ زمانی صاحبہ،
    آداب!

    میں اصل خیر سے دلّی پہونچ گئی اور سب چھوٹے بڑوں کو تن درست دیکھ کر اور ان سے مل جل کر خوش بھی ہو لی، مگر اللہ جانتا ہے کہ میرا دم آپ میں ہی پڑا ہے۔

    کیا کروں آپا جان! سسرال والوں کا پاس آن پڑا، نہیں تو زچہ خانہ میں آپ کو چھوڑ کر خدائیوں میں بھی نہ آتی۔ ویسے تو خدا رکھے دولہا بھائی نے نوکر چاکر، ماما اصیلیں آپ کی ٹہل کے لیے بہت سی لگا رکھی ہیں مگر جو ہم دردی ماں بہنیں کرتی ہیں وہ نوکریں کب کرسکتی ہیں۔ خیر بہت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب کے اٹھوارہ کو سلامتی سے آپ بڑا چلّہ نہا لیں گی اور پلنگ کو لات مار کر کھڑی ہو جائیں گی۔

    میاں ننّھے مجھے ہر وقت یاد آتے ہیں اور ان کی ہُواں ہُواں میرے کانوں میں بسی ہوئی ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے گا جب میں اسے پھر موٹا تازہ آپ کی گود میں دیکھوں گی۔

    نوشابہ کے بیاہ کا حال تو پیچھے لکھوں گی، پہلے آپ یہ سن لیجیے کہ میں کن توائیوں سے دلّی پہونچی۔ اوّل تو پندرہ میل بگّی میں چلنا پڑا۔ بیٹھے بیٹھے نگوڑا دم گھبرا اٹھا۔ ڈگڈگیوں دن ہوگا جو پشاور کے اسٹیشن پر پہونچی۔ بگّی کا دروازہ کھول کر آپ کے بہنوئی بولے:

    “برقعہ اوڑھ کر اتر پڑو۔” میں نے کہا: “ڈولی ذری پاس لگوا دو تو میں جھپ سے اس میں بیٹھ جاؤں۔”

    ہنس کر کہنے لگے: “یہ دلّی کا اسٹیشن نہیں ہے جہاں ہر وقت ڈولیاں مستعد رہتی ہیں۔ یہاں تو بس اللہ کا نام ہے۔ بے ڈولی کے ہی چلنا پڑے گا۔” مرتا، کیا نہ کرتا۔ برقع اوڑھ لپیٹ کر بگّی سے اتر، ان کے ساتھ ہو لی، مگر مارے شرم کے چلنا دوبھر تھا۔ کہیں پیر ڈالتی تھی اور کہیں پڑتا تھا۔

    اسٹیشن کے اندر پہونچی تو وہ دھوم دھام اور آدمیوں کی چلت پھرت کہ الٰہی توبہ۔ لمبی ساری ایک کرسی بچھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔ مجھے بیٹھے ہوئے دو ہی گھڑی گزری ہوں گی جو ایک موٹا سا مردوا کالے کپڑے پہنے جھپ سے میرے پاس آن ٹُھسا۔ وہ میری دہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اشارہ سے کہا:

    “ یہ ظلم ہے، اس پر خدا کی مار ہے جو پرائی عورت کے پاس آن گھسڑا۔” انھوں نے چپکے سے جواب دیا۔

    “اس بینچ پر بیٹھنے کا حق سب کو حاصل ہے، عورت ہو یا مرد، کچھ برا ماننے کی بات نہیں۔” ڈاک گاڑی کے آنے کا وقت تو رات 9 بجے مقرّر تھا، مگر معلوم ہوا رستہ بگڑ گیا ہے، اس لیے دس بجے آئے گی۔

    میں نے اپنے دل میں کہا غریبوں نے روزہ رکھے دن بڑے آئے۔ وہ جو مثل مشہور تھی، ہنوز دلّی دور، آج اصل ہوگئی۔ کس کا کھانا، کس کا پینا۔ انھوں نے کہا بھی کہ کھانا کھالو، مگر میں نے الٹ کر انھیں یہی جواب دیا کہ صاحب میرا تو ستّر سے بہتّر مردوؤں میں ہواؤ نہیں پڑتا کہ بیٹھ کر نوالے ماروں۔ ریل میں بیٹھنے کو کوئی کونا مل جائے گا تو کھا لوں گی، نہیں فاقہ ہی بھلا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے ٹانگیں شل ہوگئیں۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں مگر ریل نہ آنی تھی پر نہ آئی؛ اور غضب یہ ہوا کہ اسٹیشن میں قدم قدم پر بجلی کے ہنڈے روشن ہوگئے؛ رات کا دن بن گیا۔ وہ اجالا کہ زمین پر سوئی پڑے تو الگ دکھائی دے۔

    فرنگی، ریل کے بابو، چپراسی، خلاصی، قلی، مسافر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پڑے پھرتے ہیں۔ کیا مقدور جو کوئی ڈھب پردہ کا نکل آئے۔ جوں جوں ریل کے آنے کا وقت قریب آتا جاتا تھا، اسٹیشن کے اندر مسافر بھرے چلے آتے تھے۔

    ڈاک گاڑی کے آنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں گے جو اسٹیشن کا سارا چبوترہ آدمیوں سے بھر گیا۔ گھنٹی بجی اور ریل اس قہر کے ساتھ دندناتی ہوئی اسٹیشن میں داخل ہوئی کہ در و دیوار لرز گئے۔ میں سمجھی یہ لوہے کا سائبان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں، دہل سے ٹوٹ کر اور اُڑ اُڑا کر سر پر آرہے گا۔ پھر جو مسافر بھاگے ہیں اور آپا دھاپی مچی ہے تو حشر برپا ہوگیا۔ تُو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ سب سے آگے تو چار قُلی، اُن کے سروں پر ہمارے ٹرنک، بکس، بچھونے، اِن کے پیچھے وہ، اُن کے پیچھے مَیں۔

    ابھی ریل کا درجہ کوئی پانچ قدم پر ہوگا جو آگے سے ریلا آیا تو آپ کے بہنوئی الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ ان کا ہٹنا کہ میں پیچھے سَرکی۔ اگر اگلے آدمی اور ذرا دھکیلیں تو میں پس ہی گئی ہوتی، مگر خدا نے بال بال بچالیا۔

    بارے ہزار مشکل اور مصیبت کے ساتھ ریل کے اندر پہونچی تو معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے اس درجہ میں دس آدمی اور ٹھسے بیٹھے ہیں۔ بیٹھنے کیا کھڑے رہنے کا بھی ٹھکانہ نہیں۔ وہ الگ بغلیں جھانک رہے ہیں، میں جدا حیران کھڑی ہوں۔ اس میں انھیں کچھ خیال آیا اور ساتھ ہی ایک بھلے مانس نے کہا:

    “حضرت ان کو اوپر والے پلنگ پر چڑھا دیجیے۔” کیا بیان کروں کس مصیبت سے اوپر پہونچی۔ وہ پلنگ دو موٹی موٹی لوہے کی زنجیروں میں پڑا جھول رہا تھا۔ میری سلیم شاہی جوتی کی نوک جو ایک زنجیر میں اٹکی تو جوتی پنجہ سے نکل، نیچے جو ایک بوڑھے آدمی بیٹھے تھے اُن کی سفید ڈاڑھی پر جا گری۔

    وہ بیچارے جھینپ کر یہ کہنے لگے: “ریل کے سفر میں پردہ نشین عورتوں کے لیے انگریزی جوتی اچھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس سے چلا اچھا جاتا ہے، دوسرے بھاگ دوڑ میں پاؤں سے نکلنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔”

    ابھی میں سنبھل کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی، جو ایک اور آفت کا سامنا ہوا۔ آگے آگے ایک بابو، اس کے پیچھے ایک فرنگن بھبوکا رنگ، سادہ پن میں لاکھ لاکھ بناؤ، چھلّا جیسی کمر اور وہ بھی چمڑے کی پیٹی سے کسی ہوئی، گلے میں ڈھیلا سا ایک کوٹ جس کی سنجاف سمور کی تھی، سیاہ سایہ گھیر دار سر پر ٹوپی اور ٹوپی میں دو تین گلاب کے پھول اوڑھے ہوئے، مگر گلاب کے لال لال پھول اس کے چہرہ کی بہار کے سامنے بالکل پھیکے دکھائی دیتے تھے۔ ہاتھ میں ننھا سا کالے چمڑے کا ایک بیگ۔ ان کے پیچھے ان کے صاحب۔

    بابو نے ٹکٹ کاٹنے کی قینچی گاڑی کے کواڑ میں زور سے مار کر کہا: “تم ہندوستانی دیکھتا ہے، نہ بھالتا ہے، گاڑی میں یونہی گھس جاتا ہے۔ اترو اس میں سے، یہ صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا گاڑی ہے۔”

    اس صدا کو سن کر میرا تو جی چھوٹ گیا۔ نیچے جو لوگ بیٹھے تھے پہلے وہ اپنا اپنا اسباب سنبھالتے ہوئے نکل کر بھاگے۔ آپ کہیں گی کہ جو کمرا صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا ہوتا ہے، اس پر لکھا ہوا ہوتا ہے اور تمہارے میاں تو انگریزی پڑھے ہیں، وہ تمہیں انجانوں کی طرح اس کمرے میں لے کر کس طرح گھس گئے؟

    آپا جان! مسافروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ رات کا وقت، ہول جول میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ بندریا کی طرح پھر اس پلنگ پر سے نیچے اتری۔ یہ بھلا ہوا تھا کہ قُلیوں کو ابھی چُکایا نہیں تھا اور وہ ریل سے لگے کھڑے تھے۔ نہیں تو اسباب کا اتارنا دوبھر ہو جاتا اور ریل ہنک جاتی۔ نکلتے نکلتے بابو نے ہمارے پیچھے دھیری لگا دی۔ “ڈاک گاڑی جاتا ہے جلدی اترو۔”

    اب کی دفعہ مجھے ایک زنانہ کمرا مل گیا۔ جس میں میرے سوائے عورت کیا کوئی چڑیا بھی نہ تھی۔ پاس ہی مردانہ کمرا تھا وہ اس میں بیٹھ گئے۔ ڈاک گاڑی چل دی۔ چلتی ریل میں ہمارا اسباب دھر دیا اور ایک قلی ریل کے پٹرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مزدوری لے کر جھپ سے کود گیا۔

    اب کیا تھا، بلی کے بختوں چھینکا ٹوٹا۔ بے مہتا اکیلا کمرا مل گیا۔ کھانا بھی کھایا، پان بھی کھائے۔ اگلے اسٹیشن پر انھوں نے آکر بستر بند میں سے میرا بچھونا کھول کر بچھا دیا اور جو میں پاؤں پھیلا کر سوئی ہوں تو دلّی تک مجھے ہوش نہ ہوا۔ جب ریل اسٹیشن پر آکر ٹھہر گئی تو انھوں نے مجھے آکر جگایا کہ اٹھو گھر آگیا۔

    اسی میں میاں ناصر بھی آن پہونچے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر کہنے لگے: “باجی جان! آداب۔ میں ڈولی لے آیا ہوں۔ ”میں نے کہا شکر ہے۔


    (یہ افسانہ نما بیانیہ (خط) ہے جس میں پشاور سے دلّی جانے والی بلقیس زمانی نے اپنی بہن کو ٹرین کے سفر کا احوال لکھا ہے اور کچھ واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ پارہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی کتاب "دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ” سے لیا گیا ہے)

  • الٹرا ساؤنڈ میں معدے میں کلبلاتی چیز دیکھ کر مریض کے ہوش اڑ گئے، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    الٹرا ساؤنڈ میں معدے میں کلبلاتی چیز دیکھ کر مریض کے ہوش اڑ گئے، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    نیو دہلی: بھارت میں ایک شخص معدے میں تکلیف پر اسپتال گیا تو الٹرا ساؤنڈ میں معدے میں کلبلاتی چیز دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نئی دہلی میں ایک 20 سالہ شخص کے الٹراساؤنڈ میں انکشاف ہوا کہ اس کے معدے کے اندر ایک دل دہلا دینے والی چیز مسلسل کلبلا رہی ہے۔

    مذکورہ شخص پیٹ میں درد، دست اور الٹیوں کی شکایت کے ساتھ اسپتال گیا تھا، لیکن الٹرا ساؤنڈ کیا گیا تو دل دہلا دینے والا انکشاف ہوا، الٹرا ساؤنڈ کی یہ ویڈیو دیکھنا بھی دیکھنے والے کو پریشان کر دیتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم 1979 کی بلاک بسٹر شائی فائی فلم ایلین کا منظر دیکھ رہے ہوں۔

    نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق الٹرا ساؤنڈ کی تصویر اور ویژول میں ایک بڑا کلبلاتا طفیلی کیڑا دکھائی دیتا ہے، جو معدے میں مسلسل حرکت کر رہا ہے، مریض کے ابتدائی ٹیسٹس میں معلوم ہوا تھا کہ خون کے سفید خلیات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن جب ڈاکٹرز نے الٹرا ساؤنڈ کیا تو انھوں نے جو منظر دیکھا اس نے انھیں بھی بے اختیار پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

    ڈاکٹر نے رپورٹ میں لکھا کہ معدے میں ٹیوب جیسی کوئی چیز مسلسل حرکت کر رہی ہے۔ یہی نہیں ڈاکٹرز کو اس وقت بھی جھٹکا لگا جب انھوں نے مریض کے پاخانے کے سیمپل کا معائنہ کیا، سیمپل راؤنڈ ورم (گول کیڑوں) کے انڈوں سے بھرا ہوا تھا۔

    اس قسم کے طفیلی کیڑے انسانوں میں عام ہیں، امریکی ادارے سی ڈی سی کے مطابق اندازاً 80 کروڑ سے ایک ارب 20 کروڑ لوگوں کی آنتوں کی نالیوں میں یہ کیڑے پائے جاتے ہیں۔

    اگست میں چین میں ڈاکٹروں نے ایک شخص کے دماغ سے 5 انچ لمبا کیڑا نکال لیا تھا، اور یہ 17 برس سے اس کے دماغ میں پل رہا تھا، اور حال ہی میں چین میں ایک 60 سالہ شخص کی آنکھ میں سے 20 زندہ کیڑے نکالے گئے تھے۔

  • پاکستان پر الزام : بھارتی میڈیا کو اس کی اپنی ہی وزارت دفاع نے رُسوا کردیا

    پاکستان پر الزام : بھارتی میڈیا کو اس کی اپنی ہی وزارت دفاع نے رُسوا کردیا

    نیو دہلی : واویلا کرنے والے بھارتی میڈیا کو پاکستانی اسلحے سے متعلق من گھڑت خبریں چلانے پراپنی ہی وزارت دفاع نے رُسواکردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کے مصداق مودی سرکار کا پاکستان مخالف پروپیگنڈہ خود بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے بے نقاب کر دیا۔ برطانوی خبررساں ادارہ بھی بھارتی جنگی جنون کو منظرعام پر لےآیا۔

    اُڑی سیکٹرحملے کے بعد بھارتی حکام نے الزامات پاکستان پرلگائے تو دشمنی میں بھارتی میڈیا نے بھی تمام حدیں پار کردیں۔ بھارتی وزارت دفاع نے اپنے میڈیا کو جھوٹا قرار دے دیا حملہ آوروں کے قبضے سےملنے والے اسلحے پرمیڈان پاکستان کاٹھپہ لگادیاگیا۔

    چارروز بعد بھارتی وزارت دفاع کوخیال آگیا کہ اس جھوٹ کو ثابت کیسے کیا جائے ناکامی پراپنے ہی میڈیا کی کلاس لے لی۔ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق اڑی سیکٹر سے کوئی ہتھیار بر آمد نہیں ہوا اور نہ ہی کسی چیز میں میڈ ان پاکستان کا نشان ملا ہے۔

    دوسری جانب بھارتی حکام کی جاری کردہ معلومات اور تحقیقات رپورٹ میں بھی کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ بھارتی حکام نے کہا تھا کہ اکثر فوجی خیمے میں آگ لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں نے فوجیوں کو اسٹور میں بند کر کےعمارت کو آگ لگا ئی تھی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فی الحال حملے کی ذ٘مہ داری کسی پر ڈالنے کے لیے کافی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

    ادھربرطانوی خبررساں ادارے نے بھی بھارتی جنگی جنون کوبھی بے نقاب کردیا، بی بی سی پرشائع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج نے کئی جگہوں پر بھاری اور درمیانے درجے کے ہتھیار اگلے مورچوں پر پہنچانا شروع کر دیئے۔

    رپورٹ کے مطابق جمعرات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے زیادہ وقت ملٹری آپریشن روم میں گزارا جہاں وہ لائن آف کنٹرول پر فوج کی نقل و حرکت کی تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیتے رہے۔

    رپورٹ میں کہا گیاہے کہ توپوں کو اُڑی سیکٹرکے چڑی میدان، موہرا اور بونیار میں نصب کیاجا رہا ہے۔ سونہ مرگ میں بھی بڑے ہتھیاروں کی تنصیب ہورہی ہے۔ ان مقامات سے آزاد کشمیر میں پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

     

  • بھارتی انتہا پسند بے قابو، طالب علم رہنما کی زبان کاٹنے پرانعام مقرر

    بھارتی انتہا پسند بے قابو، طالب علم رہنما کی زبان کاٹنے پرانعام مقرر

    نیو دہلی : بھارت میں انتہاپسندی عروج پر ہے، بی جے پی یوتھ ونگ کے رہنما نے نریندرمودی کیخلاف بیان پر طالب علم رہنما کنہیا کمارکی زبان کاٹنے پر پانچ لاکھ روپے انعام مقرر کردیا۔

    دوسری جانب بھارتی حکومت نے امریکی مذہبی آزادی کمیشن کوویزہ دینے سے انکارکردیا۔ بھارت میں انتہاپسندوں کا جنون دن بدن مزید بے لگام ہوتا جارہا ہے۔

    بی جے پی کے غنڈے سچ بولنے والے اپنے ہی لوگوں کی جان کے درپے ہوگئے۔ بی جے یوتھ ونگ کے رہنما کلدیپ ورشنے نے اعلان کیا ہے کہ دہلی یونیورسٹی یونین کے صدرکنہیا کمارکی زبان جو شخص کاٹے گا اسے پانچ لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔

    بی جے پی رہنما کا کہنا ہے کہ کنہیا کمار نے اپنی تقریرمیں نریندرمودی کی بے عزتی کی جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ کنہیا کمارکوافضل گروکے حق میں پروگرام کرنے پرگرفتارکیا گیا تھا اوروہ جمعرات کورہا ہوئے تھے۔

    مودی سرکاربھی انتہا پسندی میں اپنے چیلوں سے کچھ کم نہیں۔ مذہبی آزادی کا بدترین ریکارڈ رکھنے والی بھارت سرکارنے امریکا کے سرکاری کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے وفد کوویزا دینے سے ہی انکارکردیا۔

    وفد کے چئیرمین نے مودی سرکارکے فیصلے کومایوس کن قراردیتے ہوئے کہا کہ وفد اس سے پہلے پاکستان،سعودی عرب سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرچکا ہے۔