Tag: نیٹ میٹرنگ پالیسی

  • نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر صارفین  کے لئے فائدہ یا نقصان دہ؟

    نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر صارفین کے لئے فائدہ یا نقصان دہ؟

    پاکستان میں توانائی کا بحران کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 2015 میں نواز شریف حکومت نے آئی پی پی منصوبے متعارف کروائے، جس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا۔ جب ان منصوبوں کے ثمرات سامنے آنے لگے تو مسلم لیگ (ن) نے انتخابات سے قبل بجلی کی قیمتوں میں کمی اور سولر پاور کو فروغ دینے کے وعدے کیے تاکہ عوام پر معاشی بوجھ کم ہو۔

    تاہم، حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ حال ہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دی گئی، جس کے نتیجے میں سولر پینلز سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ہو جائے گی۔

    نئی ترمیم کے تحت بائی بیک ریٹ 10 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے، یعنی حکومت نئے سولر صارفین سے بجلی 27 روپے کی بجائے 10 روپے میں خریدے گی، جبکہ انہی صارفین کو واپڈا کی بجلی 42 روپے فی یونٹ (آف پیک) اور 48 روپے فی یونٹ (پیک آورز) کے حساب سے فراہم کی جائے گی، اس پر 18 فیصد ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز بھی لاگو ہوں گی۔

    یہ فیصلہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کیا گیا، جس کا مقصد عمومی صارفین کے لیے بجلی کو سستا بنانا ہے۔ تاہم، اس سے گرڈ کی بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں کو نقصان ہوا، کیونکہ نیٹ میٹرنگ صارفین میں 80 فیصد کا تعلق ملک کے 9 بڑے شہروں سے ہے۔

    یہ واضح کیا گیا ہے کہ نظرثانی شدہ فریم ورک کا اطلاق موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا، وہ اپنی سات سالہ معاہدہ مدت پوری کرنے کے بعد اس نئے نظام کا حصہ بنیں گے۔

    مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سولر انرجی کو عوام کے لیے ریلیف کا ذریعہ قرار دیتی رہی ہے اور اس کے فروغ کے وعدے کرتی رہی ہے۔ 2015 اور 2016 میں بھی یہی مؤقف اپنایا گیا کہ سولر پاور عوام کے لیے فائدہ مند ہے اور اس سے مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا۔

    حال ہی میں مریم نواز نے ایک بڑے سولر منصوبے کا اعلان کیا، جس کے تحت 300 یونٹ تک کے صارفین کو ریلیف دیا جائے گا۔ تاہم، حیران کن طور پر صرف ایک ہی سال میں حکومت نے سولر انرجی کی حوصلہ افزائی سے حوصلہ شکنی تک کا سفر طے کرلیا۔

  • نیٹ میٹرنگ پالیسی : کیا لوگوں کو سولر پینلز سے دور رکھنے کا منصوبہ ہے؟

    نیٹ میٹرنگ پالیسی : کیا لوگوں کو سولر پینلز سے دور رکھنے کا منصوبہ ہے؟

    وفاقی حکومت نے سولر سسٹم کے ذریعے بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت 27 کے بجائے بجلی 10 روپے فی یونٹ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہی بجلی اسے حکومتی ریٹ 65 روپے پر فراہم کی جائے گی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس نیٹ میٹرنگ پالیسی کے اثرات سے متعلق تجزیہ نگاروں سے تفصیلی گفتگو کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اس فیصلے سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت حکومت ان سولر صارفین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے سولر پینلز لگانے سے متعلق حکومت کی جانب سے لوگوں کو ترغیب دی جاتی تھی اور متعدد اسکیمیں متعارف کرنے کا عندیہ دیا گیا تاہم اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔

    اس حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار رانا شہباز  نے کہا کہ حکومت کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ صارفین سے خریدی جانے والی دس روپے فی یونٹ والی بجلی ضرورت پڑنے پر ان ہی کو 65 روپے میں فروخت کی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت چاہے جتنی کوشش کرلے وہ سولرائزیشن کو نہیں روک سکتی، نیٹ میٹرنگ پالیسی سے ہوگا یہ کہ لوگ بجلی کی اسٹوریج کی طرف نہیں جائیں گے، حکومتی فیصلے سے پروسس کم ضرور ہوجائے گا لیکن ختم پھر بھی نہیں ہوگا۔

    سابق وفاقی وزیر اور سیکریٹری جنرل عوام پاکستان پارٹی مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ حکومت کی سولر پاور سے متعلق 156 ارب کے بوجھ والی بات سراسر جھوٹ ہے، اور ان کی نرالی منطق یہ ہے جن لوگوں نے سولر سسٹم لگایا ہے وہ اگر نہیں لگاتے اور بجلی ہم سے خریدتے تو ہماری اتنی سیل ہوجاتی۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال حکومت نے سولر صارفین سے 1.2 ارب یونٹ خریدے تھے اس میں سے 200 ارب یونٹ لائن لاسز کی مد میں کھوئے ہیں اگر ان کو 90 پیسے کے بوجھ کی اتنی ہی فکر ہے تو پہلے اپنے لائن لاسز پر قابو پائیں۔

  • نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر سسٹم صارفین کیا کریں؟ ماہر توانائی کا اہم مشورہ

    نیٹ میٹرنگ پالیسی : سولر سسٹم صارفین کیا کریں؟ ماہر توانائی کا اہم مشورہ

    ملک بھر میں عوام کی بڑی تعداد نے بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے اپنی جیب سے بھاری رقوم خرچ کرکے گھروں اور دفاتر پر سولر پینل لگا رکھے ہیں، لیکن اب حکومت نے نیٹ میٹرنگ سے متعلق نئی پالیسی کی منظوری دی ہے۔

    نیٹ میٹرنگ پالیسی سے مراد ہے کہ صارفین سولر پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی کو اپنے گھر میں استعمال کریں گے اور ساتھ ہی حکومت کو مخصوص رقم کے بدلے وہ اضافی بجلی بھی دیں جو آپ کے سولر سسٹم نے بنائی ہے۔

    اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے نیٹ میٹرنگ صارفین سے بجلی کی خریداری سے متعلق ایسی پالیسی کی منظوری دی ہے جس کے تحت صارفین سے بجلی کا ایک یونٹ 27 روپے کے بجائے صرف 10 روپے میں خریدا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام رپورٹرز میں ماہر توانائی و ماحولیات ڈاکٹر بشارت حسن نے حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی پر تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے بجلی کی عدم دستیابی، لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پپیش نظر لاکھوں روپے خرچ کرکے سولر سسٹم لگوائے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے اتنے پاور پلانٹس کیوں لگنے دیے اور ان سے کئی سالوں کے معاہدے کیے گئے اور ان پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس بھی دی جارہی ہے یہ قومی خزانے کا بہت بڑا نقصان ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ کہنا کہ سولر سسٹم لگانے والوں کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہوا یہ غلط ہے کیونکہ حکومت نہ بجلی کی چوری روکتی ہے بلکہ واپڈا ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے یہ نقصان انہیں کیوں نظر نہیں آتا؟۔

    ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بشارت نے بتایا کہ اب تک دو لاکھ 83 ہزار صارفین ایسے ہیں جو 4ہزار 300 میگا واٹ بجلی سولر سے پیدا کررہے ہیں اور اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ لوگ بیٹریز کا استعمال شروع کردیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات طے ہے کہ سولر سسٹم اب اس ملک سے نہیں جائے گا اور یہی اس ملک کا مستقبل ہے کیونکہ اس میں فیول فری ہے۔

    واضح رہے کہ وفاقی حکومت کے اعلامیے کے مطابق بجلی کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کو کہا گیا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً نیٹ میٹرنگ صارفین کے ٹیرف کا جائزہ بھی لیتی رہے تاکہ اسے مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

    اعلامیے کے مطابق نئی پالیسی کا نفاذ پرانے نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا اور نیٹ میٹرنگ میں منسلک ہونے والے نئے صارفین پر اس پالیسی کا اطلاق ہوگا۔

    حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے بجلی کے دوسرے عام صارفین پر اضافی بوجھ پڑ رہا تھا۔

  • ’’نیٹ میٹرنگ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی‘‘

    ’’نیٹ میٹرنگ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی‘‘

    اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مسلم لیگ ن بلال اظہر کیانی نے کہا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر میں گفتگو کرتے ہوئے بلال اظہر کیانی کا کہنا تھا کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی لائی جاتی بھی ہے تو ٹیرف میں تبدیلی نہیں آئےگی، جون 2023 تک نیٹ میٹرنگ 900 میگا واٹ تک تھی۔

    بلال کیانی نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں نیٹ میٹرنگ میں دگنا اضافہ ہوا، اس مالی سال کے آخر تک نیٹ میٹرنگ 2 ہزار میگاواٹ تک آجائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کا پےبیک دورانیہ ایک سے ڈیڑھ سال ہے، ہوسکتا ہے کہ سولرنیٹ میٹرنگ کا پےبیک دورانیہ 3 سے 4 سال تک چلا جائے۔

    بلال اظہر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ ہر ملک کا قانون ہے کہ سولر سسٹم میں بھی ایک حد سے آگے نہیں جاسکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے سولر انرجی پر ٹیکس سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر پالیسی بیان دے دیا۔

    سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے اویس لغاری نے بتایا تھا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے وقت میں نیٹ میٹرنگ کا آغاز ہوا، پچھلے 2 سالوں میں سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ میں 100 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔

    اویس لغاری کا کہنا تھا کہ کس نے بات کی کہ ہم نیٹ میٹرنگ ختم کر رہے ہیں؟ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ یہ معاملات زیرِ غور ہی نہیں آیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے آئی ایم ایف کو گردشی قرضہ روکنے کی بات کی ہے، اس وقت ہم آئی ایم ایف سے کسی قسم کی بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔

    وزیر توانائی نے مزید کہا کہ نجی سولر سسٹم سے 1500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، سولر سسٹم میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں ریفارم کریں گے، اگلے 5 سال میں توانائی شعبے میں اصلاحات لائیں گے اور اس کا گردشی قرضہ اوپر نہیں جانے دیں گے۔

    اویس لغاری کے پالیسی بیان سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃالعین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب لوگ بجلی افورڈ کر سکتے ہیں اور نہ ہی سولر، عوام مخالف حکومتی پالیسیز کی وجہ سے لوگ پہلے ہی متنفر ہیں۔

    چند ہفتے قبل خبریں سامنے آئی تھیں کہ حکومت سولر سے پیدا ہونے والی بجلی پر ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم بعد میں پاور ڈویژن نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔

    پاور ڈویژن نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاور ڈویژن نے ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی، ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہے جن سے غریب کو مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔

    پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشا سولر پینل لگا رہے ہیں، گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی پر 1 روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے، اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے 3 کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔

    پاور ڈویژن کے مطابق یہ 1.90 روپے غریبوں کی جیب سے نکل کر متوسط اور امیر طبقے کی جیبوں میں جا رہے ہیں، یہی سلسلہ رہا تو غریب صارفین کے بلوں میں کم از کم 3.35 روپے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔

    اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ 2017 کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا، اس کے بعد اب ایک ایسا مر حلہ آیا ہے کہ سولرائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہوا، اب نئے نرخ دینے کی ضرورت ہے، اور ہم پورے نظام کو اسٹڈی کر رہے ہیں، اور ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہے جن سے غریب کو مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔

    پاور ڈویژن نے اعلامیے میں کہا تھا کہ ڈیڑھ سے 2 لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کو تحفظ دیا جائے گا۔