Tag: نیکی

  • حال کچھ سخاوت کا….

    حال کچھ سخاوت کا….

    نہایت بزرگ نیکیوں میں سے سخاوت بھی ایک ہے۔ اس جائے ہم معنی سخاوت کے یہ نہیں لیتے کہ کسی شخص کی روپیہ پیسے یا کھانے کپڑے سے مدد کرنا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اور کو اچھی صلاح بتا دے یا گمراہی سے راہ پر لےآوے یا اسے علم سکھاوے یا کسی اور مصیبت میں سے خلاص کرے تو یہی شخص سخی ہے۔

    الغرض جو شخص اپنا کسی طرح کا ہرج ذاتی کر کے دوسرے کے آرام کے واسطے کوشش کرے وہ شخص بے شک سخی ہے۔ جس وقت تعریف سخاوت کی ہوچکی تو لازم ہے کہ ہم اس کے فوائد کثیر کا جو خلقت کو پہنچتے ہیں بیان کریں، اور غور کرو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی سخاوت کی انسان کو اس نظر سے بخشی ہے کہ جو جو انسان موافق احکام اور قوانین اللہ تعالیٰ کے، بیکس اور مصیبت زدہ ہوں، ان کی حیات اور گزارہ کے واسطے اور انسان جن کے قویٰ درست ہیں کوشش کریں۔ اگر سخاوت انسان میں نہ ہوتی تو حقیقت یہ ہے کہ انسان انسانیت سے خالی ہوتا۔ ہزارہا اشخاص جو کوشش نہیں کر سکتے ہیں بہ سبب نہ ہونے کھانے یا پوشاک کے جہان فانی سے کوچ کرتے اور کسی کو ان کے باب میں کچھ خیال بھی نہ ہوتا۔

    اطباء غریبوں اور محتاجوں کی نبض تک بھی نہ دیکھتے اور نہ کوئی اسپتال محتاجوں کے لئے ہوتا۔ بازاروں اور کوچوں میں لاشیں محتاجوں اور فقیروں کی نظر آتیں جو بہ سبب زیادتیِ بھوک یا نہ ہونے پوشاک کے یا نہ ہونے علاج ان کی بیماری کے مر جاتے۔ یہ دنیا جو کہ باغ کی مانند بذریعہ استعمال اس نیکی بزرگ کے کھلی ہوئی ہے، مانند ایک دوزخ کے نظر آتی ہے، اور انسان چرند اور پرند جانوروں میں کچھ فرق نہیں ہوتا اور چند روز میں خلقت خدا کی برباد ہو جاتی ہے۔ علاوہ اس آرام اور خوشی کے جو بیکسوں وار محتاجوں کو بذریعہ سخاوت کے پہنچتی ہیں۔

    ایک فائدہ عظیم یہ ہے کہ سخی آدمی کو عجیب طرح کا سرور حاصل ہوتا ہے کہ وہ نہ تو ناچ دیکھنے سے آتا ہے اور نہ پلاؤ کھانے سے اور نہ شراب پینے سے۔ یہ خوشیاں پائیدار مانند ہوا کے ہیں۔ جب تک ہم ناچ دیکھتے ہیں ہم خوش ہوتے ہیں لیکن انسان ہمیشہ قابل ناچ دیکھنے کے نہیں ہوتا۔ انسان پر ہزار طرح کی مصیبتیں اور تکالیف ہوتی ہیں۔ ان تکلیفات کے وقت ناچ سے سرور نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس وقت پلاؤ بدمزہ معلوم ہوتا ہے اور شراب کڑوی، لیکن جو سرور سخاوت سے حاصل کرتا ہے وہ ہر مصیبت کو خوشی سے سہہ سکے گا کیوں کہ اس کو یہ دل جمعی ہے کہ میں نے موافق مرضی اللہ تعالیٰ کے کام کیا ہے۔ اگر اس کو نہایت سخت بھی بیماری ہو یا وہ نہایت مفلس ہو، اسے کچھ پروا نہیں ہوگی کیونکہ اس کا دل قوی ہے اور خیال کرتا ہے کہ بیماری اور مفلسی فقط جسم کو رنج دے سکتی ہے اور چند روز کی ہیں۔ بعد اس کے مجھے اس نیکی کے ثمرہ میں بہت کچھ ملے گا۔

    یہ بات تو سب آدمیوں پر روشن ہوگی کہ جس وقت کوئی کار سخاوت کا کوئی آدمی کرتا ہے، اس کو ایک عجیب طرح کی خوشی حاصل ہوتی ہے اور یہ خوشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بعض مکار یہ کہا کرتے ہیں کہ انسان نمود اور اپنی تعریف بہت چاہتا ہے، اس واسطے اوروں کو دکھلانے کے لیے وہ سخی ہو جاتا ہے۔ اس جائے ہم دو سوال کرتے ہیں۔ اوّل تو یہ ہے کہ اور شخص کیوں اس کی تعریف کرتے ہیں اور تعریف بھی دلی۔ یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب انسان کے دل پر یہ نقش ہے کہ سخاوت ایک بڑی نیکی ہے اور سخی آدمی لائق تعریف کے ہے۔ علاوہ اس کے اکثر یہ واقع ہوتا ہے کہ بوقت سخاوت سوائے سخی اور اس شخص کے، جس پر سخاوت کی گئی ہے دوسرا آدمی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں بھی اس شخص کو نہایت خوشی ہوتی ہے۔

    اب ہم دریافت کرتے ہیں اس بات کو کہ کون کون اشخاص مستحق سخاوت کے ہیں۔ یعنی وہ کون آدمی ہیں کہ جن کی مدد کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ اب واضح ہو کہ فقط وہ آدمی جو اپنی زندگی کے لئے کوششیں نہیں کر سکتے ہیں، وہی مستحق سخاوت کے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ مستحق سخاوت کے ہیں جن پر یکایک کوئی آفت ناگہانی آجاوے یا ایسے شخص ہیں جو ایک دفعہ کی مدد سے قابل اس بات کے ہو جائیں گے کہ آئندہ کو وہ اپنے گزارے کے واسطے کوشش کر سکیں گے یا وہ آدمی جو ایسی مصیبت میں ہیں کہ وہ فقط اپنی کوشش سے اپنے تئیں اس مصیبت سے خلاص نہیں کر سکتے۔ سوائے ایسے آدمیوں کے اور آدمیوں پر جو اپنی کوشش سے اپنا گزارہ کر سکتے ہیں، سخاوت کرنا فقط بے فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی خطا ہے اور موجب رنج اور مصیبت خلقت کا ہے۔

    اکثر اشخاص اہل ہند کی یہ رائے ہے کہ خواہ کسی شخص پر سخاوت کرو، سخاوت ہر صورت میں مفید اور اچھی ہے۔ واضح ہو کہ یہ ان کی بڑی غلطی ہے۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ علّت غائی سخاوت کی پہنچانا آرام اور جہاں تک بنے وہاں تک کم کرنا رنج اور مصیبت خلق خدا کا ہے۔ اب یہ بات صریح ظاہر ہے کہ غیرمستحق کو فائدہ پہنچانا گویا مستحق کو محروم رکھنا ہے۔ کس واسطے اس دنیا میں وہ اشخاص جو مستحق سخاوت کے ہیں یعنی جو اپنی کوشش سے اپنا گزارہ نہیں کر سکتے، تھوڑے سے نہیں ہیں بلکہ بے شمار ہیں۔ پس اس صورت میں یہ بات کوئی سخی نہیں کہہ سکتا کہ میں سب محتاجوں اور مستحقوں پر سخاوت کر چکا۔ اس واسطے میں اب ان آدمیوں کے لئے مدد کرتا ہوں جو محتاج نہیں ہیں یعنی جو اپنے گزارہ کے لئے کوشش کر سکتے ہیں۔

    جب یہ حال ہے اس دنیا کا، تو صاف ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص سخاوت بے جا کرے گا، وہ گویا محتاجوں کے استحاق تلف کرتا ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک شخص فقط اتنا مقدور رکھا ہے کہ دس روپیہ مہینہ خیرات اور سخاوت میں خرچ کرے۔ اب اسے یہ بات بے جا ہے کہ یہ دس روپیہ بیس آدمیوں ہٹے کٹوں کو دیوے، کہ وہ اگر ذرا بھی محنت کریں تو اپنی قوت گزاری کر سکتے ہیں۔ اسے چاہئے کہ دس بیکسوں کو مثل اندھوں، لنگڑوں لولوں اور کوڑھیوں اور آدمیوں کے جو اپنے گزارے کے واسطے کوشش نہیں کر سکتے دیوے۔ اب اگر کوئی سخی پہلی قسم کے آدمیوں پر سخاوت کرے تو جو مستحق ہیں سخاوت کے، ان کو محروم رکھے گا۔ جو اشخاص محنت کر سکتے ہیں اگر ان کو وہ دس روپیہ نہ دے تو وہ ناچار ہو کر کوشش کریں گے اور اپنا گزارہ کر سکیں گے لیکن وہ بے چارے جن کے قویٰ درست نہیں وہ بے شک مر جائیں گے۔ اب اس کا عذاب اس شخص پر جس نے سخاوت بے جا کی ہے پڑے گا۔

    مرقومہ بالا پر یہاں کے لوگوں کو خصوص اہل ہنود کو نہایت غور کرنا چاہئے کیونکہ اہل ہنود چھانٹ چھانٹ کے ایسے آدمیوں پر سخاوت کرتے ہیں جو ہٹے کٹے ہیں اور جو خوب اچھی طرح سے کوشش کر سکتے ہیں۔ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ یہاں کے صاحب سرمایہ دار اور مہاجن وغیرہ سیکڑوں سنڈ مسنڈوں کو جو باباجی کھانا کھلاتے ہیں نقدی پیش کرتے ہیں، اگر کوئی دیکھے تو ان فقیروں کے یہ قوی ہوتے ہیں کہ وہ مانند پہلوانوں کے ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کرنا چاہئے کہ ان کاہل وجود اور مفت خوروں کی مدد کرنا محتاجوں کو ان کے استحقاق سے محروم رکھنا ہے۔ اکثر اہل ہنود یہ سمجھتے ہیں کہ ان فقیروں کی دعا سے نجات ہوتی ہے اور خدا خوش ہوتا ہے۔ افسوس ہزار افسوس! کیا ان کی عقل ہے کہ ان جہنمیوں کی دعا خدا کے یہاں قبول ہوگی۔ واضح ہو کہ خدا منصف ہے اور چاہتا ہے کہ مستحق اپنے استحقاق سے کبھی محروم نہ رہے اور جو باعث محروم رکھنے کا ہو اس پر اس کا غضب بے شک آتا ہے۔

    (یہ مضمون ریاضی داں، استاد اور مضمون نگار ماسٹر رام چندر کا ہے جو انھوں نے بغرض و نیّتِ اصلاحِ سماج تحریر کیا تھا)

  • ان منفرد نیکیوں سے دوسروں کا ماہ رمضان شاندار بنا دیں

    ان منفرد نیکیوں سے دوسروں کا ماہ رمضان شاندار بنا دیں

    ماہ رمضان کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور ایسے میں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ عبادات کرے بلکہ کار خیر کے کاموں میں حصہ لے اور غریبوں کی مدد کرے تاکہ اس مقدس ماہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوسکے۔

    اس مبارک ماہ میں زکواۃ بھی دی جاتی ہے جبکہ صدقات و عطیات کا سلسلہ بھی عروج پر جا پہنچتا ہے جس کا مقصد اپنے ساتھ ساتھ غربا و مساکین کو ماہ رمضان اور عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔

    رمضان میں یوں تو غربا و نادار افراد کی مالی مدد کرنا، لوگوں کو افطار کروانا اور مسجدوں کے لیے رقم خرچ کرنا عام بات ہے، لیکن آج ہم آپ کو اس ماہ مبارک کے لیے ایسی منفرد نیکیوں سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جو نہ صرف آپ کی نیکیوں کا پلڑا بھاری کریں گی بلکہ دیگر افراد کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد دیں گی۔

    یاد رکھیں کہ ہر وہ کام جس سے کسی دوسرے شخص کی مدد ہو اور اسے کسی مشکل سے نجات ملے، آپ کی بھی نجات کا ذریعہ بنے گا۔

    صدقے کی رقم سے کسی کو کاروبار کروائیں

    کاروبار کرنا سنت رسول ﷺ ہے۔ آج کل اس مہنگائی کے دور میں ایک لگی بندھی تنخواہ میں گزارا کرنا مشکل ہے جس کی وجہ سے اکثر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی کریں تاکہ زندگی کی گاڑی آسانی سے چل سکے۔

    کاروبار کی ضرورت ان افراد کو زیادہ ہوتی ہے جو کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور انہیں کوئی اچھی ملازمت نہیں مل پاتی۔

    اس سال اپنی زکواۃ اور صدقہ و خیرات کی مد میں دی جانے والی رقم سے کسی مستحق شخص کو ایسا کاروبار کروا دیں جو جلد نفع دینے لگے۔

    لوگ عموماً صدقے کی رقم کو تھوڑا تھوڑا کر کے بہت سے لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں جو بہت مختصر عرصے تک کام آتی ہے۔ اس کے بعد مستحق اور نادار افراد ایک بار پھر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

    ایک ہی بار کسی شخص کو کاروبار کروا دینے سے آپ ایک پورے خاندان کو ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچا کر باعزت زندگی دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کی پورے سال کی زکواۃ کا بہترین مصرف ہوگا۔

    غریب طالبعلم کی فیس ادا کریں

    اسی طرح آپ اپنے صدقات کی رقم سے کسی نادار بچے کی پورے سال کی فیس بھی ادا کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ صدقات و عطیات خرچ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے خاندان اور قریبی عزیز و اقارب میں نظر دوڑائیں۔

    اگر آپ کا کوئی عزیز کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کر کے غیروں کو صدقات دے رہے ہیں تو یقیناً ایسی نیکی بے فائدہ ہے۔

    کسی ایسے گھر کے ہونہار بچے کو جو بہت مشکل سے زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہو، پورے سال کی فیس ادا کر کے آپ ایک بڑے بوجھ سے نجات دلا سکتے ہیں۔

    درخت لگائیں

    درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ درخت جب تک زندہ رہے گا اور لوگوں کو سایہ اور پھل فراہم کرے گا، اپنے لگوانے والے کی آسانی و بخشش کا سامان کرتا رہے گا۔

    چونکہ آج کل موسم گرما بھی عروج پر ہے، ایسے میں کسی عوامی مقام پر درخت لگوانے سے آپ بے شمار بزرگ، بیمار، اور روزہ دار افراد کی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں۔

    عوامی مقام پر شیڈ لگوائیں

    سخت موسم گرما کے پیش نظر کسی عوامی مقام پر شیڈ بھی لگوایا جاسکتا ہے۔ سبز رنگ کا ترپال لوگوں کو دھوپ اور گرمی سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرے گا اور لوگ بے اختیار آپ کی سلامتی کی دعائیں دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

    اس ضمن میں بس اسٹاپ، کسی مسجد کے باہر یا صحن میں، کسی تعلیمی ادارے کے باہر جہاں طلبا کا ہجوم کھڑا ہو کر سواری کا انتظار کرتا ہو یا کسی ایسے مقام کا انتخاب بہتر ہوگا جہاں لوگ قطاروں میں لگ کر کوئی کام کرواتے ہوں۔

    پانی کے اسٹالز

    گزشتہ چند سالوں سے رمضان سخت موسم گرما میں آرہا ہے جس کی وجہ سے بزرگ، بیمار اور کمزور افراد روزے رکھنے سے معذور ہیں۔

    ایسے تمام افراد اور غیر مسلموں کے لیے کسی بس اسٹاپ کے نزدیک پانی کا اسٹال قائم کرنا یقیناً ایک احسن قدم ہوگا۔ پانی کی سبیل قائم کرنا پورے سال ہر موسم میں لوگوں کی پیاس بجھانے اور آپ کی بخشش کا سبب بنے گا۔

    ضرورت مند کے گھر کی مرمت کروائیں

    صدقات کی رقم کا ایک مصرف کسی ایسے غریب شخص کے گھر کی مرمت کروادینا بھی ہے جو عرصے سے مرمت کا منتظر ہو۔

    پاس پڑوس میں یا کسی غریب رشتہ دار کے گھر کی مرمت کروا دینا یقیناً نیکی ہے۔

    سحری کروائیں

    ماہ رمضان میں افطار تو سب ہی کرواتے ہیں تاہم سحری کروانا بھی نیکی ہے۔ لمبے سفر پر، گھر سے دو یا کسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے سڑک پر موجود افراد کو سحری کروانا آپ کی نیکیوں میں اضافہ کرے گا۔

    مستحق رشتہ دار کے گھر میں سرپرائز افطار کروائیں

    رمضان میں لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر افطار کرتے ہیں جس کے لیے میزبانوں کو اچھا خاصا اہتمام کرنا پڑ جاتا ہے۔

    ایسے میں اگر کسی روز آپ گھر یا بازار سے افطار کے تمام لوازمات لے کر معاشی طور پر کمزور کسی رشتہ دار کے گھر جا پہنچیں تو اس سے ملنے والی خوشی آپ کو نہال کردے گی۔

    محلے کی صفائی کریں

    گو کہ گلیوں محلوں کو صاف رکھنا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، تاہم ایسی صورتحال جب انتظامیہ غافل ہو، اور آپ کی گلی کا کچرا بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنے، آنے جانے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرے اور تغفن کے باعث سانس لینا دوبھر کردے، یقیناً آپ کی توجہ کی متقاضی ہے۔

    رمضان میں رات کے اوقات میں گلی کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر اپنے محلے کی صفائی کر کے نمازی حضرات اور خواتین کے لیے چلنے میں آسانی پیدا کرنا اور محلے کو بدبو اور گندگی سے نجات دلانا آپ کی نیکیوں میں اضافہ کرے گا۔

    غریب بچوں کے لیے عید کا اہتمام

    کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے۔ اپنے نادار رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کے بچوں کی فہرست بنائیں اور عید سے چند روز قبل انہیں مارکیٹ لے جا کر ان کی پسند سے عید کی تیاری کروائیں۔

    بچے عید پر اپنی پسند کے لباس پہن کر اور تیار ہو کر آپ سے ملنے آئیں گے جو آپ کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کردے گا۔

    بچوں کو کارخیر کی جانب راغب کریں

    ماہ رمضان کے دوران بچوں کے اسکولوں کی چھٹیاں بھی ہیں لہٰذا یہ وقت بچوں میں غریبوں سے ہمدردی اور ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کا بہترین وقت ہے۔

    رمضان میں شام یا رات کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بچوں کو بھی ان کے والدین کی اجازت سے ساتھ لیں اور اپنے ساتھ کار خیر کے کاموں میں شریک کریں۔

    محلے کی صفائی کرنے یا درخت لگوانے کے موقع پر بچے بڑوں سے زیادہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ درخت لگانے کے بعد روزانہ ایک بچے کی ڈیوٹی لگائی جاسکتی ہے کہ وہ درخت کو پانی ڈالے۔

    اسی طرح اگر آپ غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو خریداری سے لے کر تقسیم کے آخری مرحلے تک بچوں کو ساتھ رکھیں۔

    انہیں غریب اور پسماندہ بستیوں کا دورہ کروائیں تاکہ وہ زندگی کی مشکلات کو سمجھیں اور خود کو حاصل نعمتوں کی قدر کرنا سیکھیں۔

    بچوں کو فلاحی کام کرنے کے فوائد بتائیں اور سمجھائیں کہ دوسروں کی مدد کر کے آپ کسی پر احسان نہیں کر رہے بلکہ یہ خود کو دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

    کتاب کا تحفہ دیں

    کسی کتاب دوست شخص کو کتاب تحفے میں دینا بھی ایک احسن عمل ہے خصوصاً آج کے دور میں جب کتابوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور متوسط طبقہ اپنے اس شوق سے بھی محروم ہو رہا ہے۔

    رمضان میں کسی عزیز کے گھر جاتے ہوئے کھانے پینے کی اشیا لے جانے کے بجائے کتاب بھی لے جائی جاسکتی ہے۔ اگر میزبان کے گھر میں بچے موجود ہیں تو بچوں کے لیے رنگین تصویری کتابوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔

    خون کا عطیہ دیں

    خون کا عطیہ دینا حادثات میں زخمی ہوجانے والے اور خون کی کمی کا شکار افراد کی جان بچا سکتا ہے۔

    روزے کے دوران خون دینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا یہ نیک کام شام کے اوقات میں روزہ کھل جانے کے بعد سرانجام دیں۔