Tag: ن لیگ

  • ن لیگ اور حکومتی اتحادیوں کا مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی پر عدم اعتماد کا  اظہار

    ن لیگ اور حکومتی اتحادیوں کا مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی پر عدم اعتماد کا اظہار

    اسلام آباد : ن لیگ اور حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی چکر کرانا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ن لیگ اور حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی میں اکثریت نے رائے دی ہے کہ پی ٹی آئی کمیٹی بے وقعت ہے، بانی چکر کرانا چاہتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے تجویز دی ہے کمیشن کے معاملے پر چیف جسٹس کو خط لکھنا چاہیے۔

    لیگی رہنما نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی خط کو تسلیم کریں اور یقین دہانی کرائیں تو پھر عمل کیا جائے، اگر خط پر سب کا اتفاق ہو تو چیف جسٹس کوکمیشن تشکیل دینے کا کہا جائے۔

    ذرائع نے مزید بتایا کہ نوازشریف کو بھی تجویز دی گئی تو انہوں نے بھی اتفاق رائے کا کہا۔

  • ن لیگ سے اتحاد میں ہمیشہ نقصان ہوا ہے: گورنر پنجاب

    ن لیگ سے اتحاد میں ہمیشہ نقصان ہوا ہے: گورنر پنجاب

    گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں ن لیگ سے اتحاد میں ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔

    گورنر پنجاب و پیپلز پارٹی کے رہنما سردار سلیم حیدر خان نے اے آر  وائی نیوز کے باخبر سویرا  کے پروگرام میں گفتگو میں کہا ٹائمنگ کی بات نہیں، موجودہ حکومت کو پوری طرح سپورٹ کررہے ہیں۔

    گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں اس نظام کو چلانا ہے اور پی ٹی آئی سے متعلق جو معاملات ہیں اس میں بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، پیپلز پارٹی سمجھتی ہے سسٹم کو چلانا ہے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری نہیں ہوگی تو چپ نہیں رہ سکتے، آخری حد تک کوشش ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جائیں، کوئی شک نہیں کہ ن لیگ سے الائنس میں ہمیشہ پی پی کو نقصان ہوا ہے۔

    گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ دو مختلف پارٹیز ہیں، دونوں کے نظریات مختلف ہیں، ہمارے ورکرز کے دلوں میں ہے کہ ہمارے لیڈرز کے ساتھ ناانصافیاں ہوئیں۔

    انہوں نے کہا کہ جب بھی ن لیگ کے ساتھ بیٹھے ہیں مجبوری میں بیٹھے ہیں اور اس بار بھی مجبوری میں ن لیگ کے ساتھ بیٹھنا پڑا ہے، ملک کی خاطر پیپلزپارٹی کو ہمیشہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے۔

    سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ جائز چیزوں پر مسلسل عمل نہیں کرینگے تو پھر کتنا برداشت کیا جاسکتا ہے، پچھلی حکومت میں ن لیگ سے پی پی کا پہلا الائنس ہمارے لئے بھیانک خواب تھا، ن لیگ نے گزشتہ اتحاد میں پیپلزپارٹی کو نظر انداز کیا۔

    گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ کمیٹی بنتی ہے، میٹنگ ہوتی تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، اس دفعہ بھی کمیٹیاں بنی ہیں دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کو تعاون کا یقین دلایا مگر یکطرفہ رابطےکا کوئی فائدہ نہیں، جہاں چیزیں ٹھیک نہیں وہاں بولوں گا۔

  • ن لیگ اور پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل پر سیاست کیوں نہیں کرتیں: سعد رفیق

    ن لیگ اور پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل پر سیاست کیوں نہیں کرتیں: سعد رفیق

    مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کا مسئلہ سب سے اہ، ہے، ن لیگ اور پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل پر سیاست کیوں نہیں کرتیں۔

    ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتیں باریاں لے رہی ہیں پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت اپنے دستور پر عمل کرنے اور پڑھنے کو تیار نہیں ہیں، سیاسی جماعتوں کو درباری اور خوشامدی چاہیے انہیں سیاسی کارکن نہیں چاہیے، جماعت اور اس کی فیملی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔

    خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے ادھر کے پی میں وہ قوتیں زور پکڑ رہی ہیں جن کا آئین پاکستان پر یقین ہی نہیں، ن لیگ، پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل پر سیاست کیوں نہیں کرتیں ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز مضبوط ہو رہے ہیں اس کی وجہ بھوک اور نا انصافی ہے، شہباز شریف معیشت ٹھیک کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی ہمیں دفن نہیں کر سکا اور نہ ہم کسی کو دفن کر سکتے ہیں، ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی جمہوریت نہ چل سکتی ہے نہ ڈیلیور کر سکتی ہے ادھر ہمارا پڑوسی ترقی کر گیا ہے دشمن ہے لیکن آگے نکل گیا ہے۔

    خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ اپنی لیڈر شپ کی عزت کریں لیکن انکی پوجا نہ کریں۔

  • ن لیگ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ طے شدہ نکات پر عمل درآمد کیوں نہیں کر رہی؟

    ن لیگ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ طے شدہ نکات پر عمل درآمد کیوں نہیں کر رہی؟

    اسلام آباد: صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ ن کے ساتھ چپقلش بدستور جاری ہے، پی پی کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں جو نکات طے ہو گئے تھے ان پر عمل درآمد کیا جائے، تاہم ن لیگ اسے نظر انداز کر رہی ہے۔

    25 اگست کو گورنر ہاؤس لاہور میں دونوں پارٹیوں کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی ایک ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ 3 ملاقاتوں کی طرح یہ بھی نشستن، گفتن، برخاستن رہی۔

    پی پی ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی کوآرڈینیشن کمیٹی کی ملاقات بے نتیجہ رہی ہے، ن لیگ سے ہونے والی ملاقات سے ظہرانہ زیادہ پرتکلف تھا، گورنر پنجاب نے ملاقات کی میزبانی کا بھرپور حق ادا کیا۔

    پی پی ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات میں بھی طے شدہ نکات پر عمل درآمد پر ایک بار پھر اتفاق کیا گیا، تاہم پنجاب حکومت پی پی اور ن لیگ کے معاہدے کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے، ملاقات میں پی پی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بے رخی کے شکوے بھی سامنے آئے، اور کہا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کو ملنا گوارہ نہیں کرتیں۔

    پی پی نے اس ملاقات میں پارٹی کی خواتین اراکین پنجاب اسمبلی کو فنڈز فراہمی کا مطالبہ کیا، تو ن لیگی کمیٹی نے فنڈز دینے کی پھر یقین دہانی کرا دی۔ پی پی نے پنجاب حکومت اور صوبائی انتظامیہ کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا، اور مطالبہ کیا کہ ن لیگ پنجاب سے متعلق طے شدہ نکات پر عمل درآمد کرائے۔

    ذرائع کے مطابق ملاقات میں ن لیگ مشکل حالات سے گزرنے کے شکوے کرتی رہی کہ پی پی نے حکومت کا حصہ نہ بن کر بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا ہے، اور پی پی کو زیادہ مسائل ہیں تو وفاق اور پنجاب حکومت کا حصہ بنے، اور اس طرح اپنے مطالبات پورے کر لے۔ تاہم پی پی کا مؤقف تھا کہ کسی صورت وفاق اور پنجاب حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔

    واضح رہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اجلاس 25 اگست کو گورنر ہاؤس لاہور میں ہوا تھا، کوآرڈینیشن کمیٹیوں کے 4 اجلاس بے نتیجہ نکلے ہیں۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی

    پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی

    وزیرآباد: گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

    گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان نے وزیر آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے کو پارٹی اجلاس اور سی ای سی میں لے کر جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں پی ٹی آئی کو دو حصوں میں رکھ کر سوچیں، جو 9 مئی واقعات میں ملوث ہیں انہیں سزائیں دیں لیکن جو محب وطن ہیں ان کےخلاف کارروائی مناسب نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    اس کے علاوہ حکومت نے مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

    شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

    اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

    مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

    پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

    پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

    پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

    حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

    اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

    ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کے ذاتی خیالات، اس کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں کے لئے بڑی خوشخبری آگئی

    50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں کے لئے بڑی خوشخبری آگئی

    اسلام آباد : ماہانہ 50 ہزار روپے سے تک کمانے والوں کے لئے بڑی خوشخبری آگئی، بجٹ میں بڑا ریلیف ملنے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔

    جس میں پارلیمانی پارٹی کو بجٹ سے متعلق امور پر بریف کیا گیا، وزیرِ اعظم نے پارلیمانی پارٹی کو بجٹ کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔

    اجلاس میں 50 ہزار تک تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نہ لگانے کی تجویز دی گئی ، یہ تجویز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

    اس سے قبل ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی 20 فیصد اضافے کی سفارش کی ہے۔

    جس کے بعد بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصداضافے کا امکان ہے۔

  • پیپلز پارٹی کا پنجاب میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ

    پیپلز پارٹی کا پنجاب میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے سے متعلق غیر سنجیدہ ہے، اور انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

    پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی اور ن لیگ میں پنجاب کے امور پر برف پگھل نہیں سکی ہے، اور صوبے میں پاور شیئرنگ فارمولے پر دونوں میں ڈیڈلاک برقرار ہے۔

    پی پی ذرائع کے مطابق پنجاب پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا، ن لیگ پنجاب کے حوالے سے مناسب رسپانس نہیں دے رہی ہے، دونوں پارٹیوں کی رابطہ کمیٹیوں میں 4 ملاقاتیں ہوئیں جو بے نتیجہ رہیں، ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ رابطہ کمیٹی سے ملاقاتیں نشستن، گفتن، برخاستن تھیں۔

    پی پی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ن لیگ پنجاب پاور شیئرنگ فارمولے سے متعلق غیر سنجیدہ ہے، جس نے پی پی کو مایوس کر دیا ہے، پارٹی قیادت کو بھی ن لیگ کے غیر سنجیدہ رویے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے کہا ن لیگ کی غیر سنجیدہ رویے کے ساتھ بات چیت بے سود رہے گی۔

    ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب میں پی پی ورکرز کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی جاری ہیں، اور ن لیگ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اسپیس نہیں دے رہی، پیپلز پارٹی کو ضلعی سطح پر قائم شدہ کمیٹیوں میں بھی شامل نہیں کیا جا رہا، نہ ہی پنجاب کی انتظامیہ کو پی پی کا خیال رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی آئندہ بجٹ میں نظر انداز ہو رہے ہیں، اور انھیں تاحال فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔

  • ’محسن نقوی صرف ن لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ۔۔۔۔۔‘ رانا ثنا اللہ نے کیا کہا؟

    ’محسن نقوی صرف ن لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ۔۔۔۔۔‘ رانا ثنا اللہ نے کیا کہا؟

    مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے حسن نقوی صرف ن لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات پر بھی وزیر بنے ہیں۔

    اے آروائی نیوز کو خصوصی انٹرویو میں مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم اس تاثر کو ختم کرنے میں ناکام رہے کہ نگراں حکومت ن لیگ کی نہیں جس کا سیاسی نقصان ہوا، محسن نقوی صرف ن لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات پر بھی وزیر بنے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایسی ترمیم ہونی چاہیے کہ نگراں حکومتی شخصیت کسی بھی منتخب حکومت کا حصہ نہ ہو ورنہ اس طرح تو ہر نگراں حکومت اپنی سیٹ پکی کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے گی۔

     

    سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پارٹی میٹنگ میں میری رائے تھی اتحادی حکومت نہیں بنانی چاہیے، یہ بات بھی درست نہیں کہ اس الیکشن سلیکشن ہوئی ہے، یہ سب سازشی تھیوریاں ہیں کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ چاہوں تو اپنی شکست پر 10 باتیں نکال سکتا ہوں لیکن میں نے اپنی شکست کو تسلیم کیا، جاوید لطیف الیکشن سے متعلق غلط کہتے ہیں زیادتی کرتے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہوا، اس الیکشن میں جتنا مجھے اپنے ہارنے کا یقین ہے اتنا ہی جاوید لطیف کی ہار کے صحیح ہونے کا ہے، جاوید لطیف کا گلہ ہے وہ ہار گئے لیکن رانا تنویر کیوں جیت گئے۔

    صدر ن لیگ پنجاب نے کہا کہ رانا تنویر بھی ہار جاتے تو جاوید لطیف سکون میں ہوتے، میں انکا درد سمجھتا ہوں، ان کا دکھ رانا تنویر کے ڈی نوٹیفائی ہونے سے ختم ہونے والا ہے، جاوید لطیف کو وہ بات کرنی چاہیے جو دوسرا مان بھی لے۔

  • ن لیگ اور پی ٹی آئی کارکنوں میں جھگڑا، لیگی کارکن جاں بحق

    ن لیگ اور پی ٹی آئی کارکنوں میں جھگڑا، لیگی کارکن جاں بحق

    ظفروال: نارووال کے حلقہ پی پی 54 میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نارووال کے حلقہ پی پی 54 میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھگڑے کے نتیجے میں 60 سالہ لیگی کارکن سر میں ڈنڈا لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ جاں بحق لیگی کارکن کی شناخت 60 سالہ محمد یوسف سے ہوئی ہے، پولیس نے لاش تحویل میں لے کر تحقیقات شروع کردی۔