Tag: ن م راشد

  • سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    ن م راشد کبھی اپنے دور کے دیگر شعرا کی طرح مقبول عام نہیں رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا جو امتزاج ہے وہ فکری اور جذباتی رجحانات کے تصادم، ردّعمل اور ہم آہنگی کا اک مسلسل عمل ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے خاص استعداد کے ساتھ دماغ سوزی کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ اردو کی جدید نظم ہیئت کے اظہار کے نئے زاویوں اور زبان و بیان کے تجربات میں ہمیشہ راشد کی مرہون منت رہے گی۔

    راشد صاحب کی اردو، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر گہری نظر تھی۔ شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع اور ان کے کلام میں تفکر کا عنصر غالب رہا۔ بڑے بڑے نام اور علمی و ادبی شخصیات ن م راشد سے مرعوب تو تھے ہی، لیکن ان کی شاعری اور فکر کو تنقید کا نشانہ پر بھی رکھا اور اکثر ن م راشد کے افکار اور ان کی شاعری کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ اس ضمن یہ دل چسپ واقعہ ادبی تذکروں پر مبنی کتب میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک روز منٹو صاحب (سعادت حسن منٹو) بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔” شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد جمع ہوئے۔

    "راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے، منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔

  • ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    اردو شاعری میں راشد کو نظم نگاری کے باعث جو مقام ملا، اسے اُن کی شاعری پر تنقید اور اعتراضات ماند نہیں کرسکے۔ ن م راشد رجحان ساز اور اردو نظم کے بڑے شاعر کہلائے۔

    ممتاز ادیب اور مشہور افسانہ نگار غلام عبّاس نے راشد سے متعلق اپنی یادیں رقم کرتے ہوئے اُن کے مشہور شعری مجموعہ اور اس کے ناشر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘ماوریٰ’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔ جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔ ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماوریٰ’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا۔ جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہو گیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماوری’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کر دی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملتے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔ میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشرکی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مارپیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔ پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کر دیا گیا۔ البتہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔

  • ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ن م راشد: اردو نظم کا بڑا شاعر

    ازل سے فطرتِ آزاد ہی تھی آوارہ
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

    ن م راشد نے جہانِ سخن میں شوق کو اپنا راہ نما کیا۔ اگر یہ شاعر کسی کو راہ بَر مان کر اس کا ہاتھ تھام لیتا، کسی کی پیروی کرتا تو شاید اردو نظم کی سیج پر روایت سے انحراف کے ایسے پھول بھی نہ کھلتے جن کی خوش بُو چمن زارِ سخن میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور یہ پھول آج بھی لہک لہک کر انسان دوستی، محبّت، وفا اور خلوص کے ترانے سنا رہے ہیں۔ ن م راشد کی شاعری جذبات کی دل آویز کھنک کے ساتھ انسانوں کے دُکھوں اور مصائب کا ادراک کرواتی ہے۔ ان کی نظمیں فرسودہ نظام کو مسترد کرتی ہیں۔ راشد کے تخیل کی یہ آوارگی، خود آگاہی کا وسیلہ بنی اور اس کے طفیل اردو شاعری متنوع اور غیر روایتی موضوعات پر شان دار نظمیں ملیں۔ راشد کی شاعری نرم اور سادہ نہیں بلکہ کھردرے جذبات کی عکاس ہے۔

    آج اردو کے اس جدّت طراز اور روایت شکن شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 9 اکتوبر 1975ء میں‌ ن م راشد نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ والد ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ دادا ایک بڑے معالج تھے اور اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ن م راشد کے والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔ راشد کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔ راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن، ورڈسورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کیے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔

    راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق ہو گیا۔ راشد، یکم اگست 1910ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے جن کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ ان کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔ راشد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی اہم عہدوں‌ پر فائز رہے۔ انھوں نے انگریزی، فلسفہ، تاریخ اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی میں متعدد مضامین بھی لکھے جو رسائل اور اخبار کی زینت بنے جب کہ شاعری میں جداگانہ شناخت بنائی اور ہم عصروں‌ میں‌ جدید نظم گو شاعر کے طور پر امتیاز حاصل کیا۔

    ادبی تذکروں اور سوانح میں‌ لکھا ہے کہ راشد کا خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزرا۔ یہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر مختلف ادبی اور تعلیمی رسائل کی ادارت کا بھی موقع ملا۔ وہ کمشنر آفس، ملتان میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ اور اِسی عرصے میں چند ناولوں اور مختلف موضوعات پر کتب کا اردو ترجمہ کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں‌ جب ایران میں قیام کا موقع ملا تو راشد نے اہم شعراء کی درجنوں نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔ بعد میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور ترقی پاکر ڈائریکٹر آف پروگرامز ہوگئے۔

    راشد نے متحدہ ہندوستان کے برطانوی قانون کے مطابق مختلف امتحانات پاس کرنے کے بعد فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اور اس دوران بیرونِ ملک بھی تعینات رہے اور وہاں کی سیاسی، سماجی زندگی اور تہذیب و شعور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ فوج سے رخصت لے کر وہ دوبارہ ریڈیو لکھنؤ سے منسلک ہوگئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راشد نے ریڈیو پاکستان پشاور سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی شامل ہوئے اور نیویارک، جکارتہ، کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات میں خدمات انجام دی تھیں،1961 میں ان کی شادی ہوئی لیکن بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی۔راشد نوجوانی میں خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور اِس سے وابستہ بھی رہے۔ وہ اکثر تقاریب میں خاکسار وردی اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھائے شریک نظر آتے تھے۔

    آزاد نظم میں ہیئت، تیکنیک کے منفرد اور قابلِ ذکر تجربات نے راشد کو جدید نظم کا معمار ثابت کیا۔ اِن کی شاعری تجریدی اور علامتی تجربات سے مزین ہے جو شاعر کے منفرد اسلوب اور پُراثر طرزِ بیان کے سبب بہت مقبول ہوئی۔

    روایت میں جدیدیت کا رنگ بھرنے والے اس شاعر نے معاشرے اور افراد کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔ انھوں‌ نے نظام اور اپنے معاشرے پر ایسا طنز کیا کہ شاعر کو نامُراد اور جنس نگار تک کہا گیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ دشنام طرازی بجائے خود فرسودہ اور پست ذہنیت کا نتیجہ تھی۔ البتہ راشد کے بارے میں‌ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ وہ ایک تیز طرار انسان تھے اور لابنگ کے علاوہ اپنی بعض حرکتوں‌ کی وجہ سے اکثر شخصیات ان سے ناخوش تھے اور دور رہنا پسند کرتی تھیں۔ لیکن دوسری طرف راشد ایک بااصول شخص بھی بتائے جاتے ہیں، مظفر علی سیّد نے اس بارے میں‌ اپنی کتاب میں‌ دل چسپ واقعہ لکھا ہے: "جب میں ایران میں قیام کے دوران اُن سے ملنے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ جدید ایرانی شاعروں کے مجموعے آپ نے خرید لیے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ خرید لیے ہیں اور کچھ کی تلاش ہے۔ کہنے لگے ’میں آپ کو یہاں کی شاعری کے کچھ مجموعے دکھاتا ہے جو اتفاق سے میرے پاس ڈپلیکیٹ ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک ایک آپ رکھ لیجیے جو آپ کے پاس موجود نہ ہوں۔ میں آپ سے صرف آدھی قیمت لوں گا۔‘ ذرا کی ذرا میں دم بخود ہو کے رہ گیا لیکن پھر یہ سوچ کے چل پڑا کہ مجھے مزید مجموعے درکار تو ہوں گے ہی اور آدھی قیمت پر کیا برے ہیں۔ ہمارے دانش ور دوست شاید اسے بُرا سمجھیں مگر اِن لوگوں کے عمل میں ایک آدھ نمائشی فیاضی کے بعد جو مفت خورا پن شروع ہوتا ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راشد جیسے با اصول آدمی دنیا میں بہت کم ہوں گے لیکن اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اصول پسندی کو بڑی سہولت سے نبھا جاتے تھے۔ انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی کہ یہ میرا اصول ہے اور میں اِس سے سرِمُو انحراف نہیں کر سکتا۔‘

    بطور شاعر راشد نے نئے افکار کے حامل، اِرتقا اور جدت سے ہم آہنگ اور باعمل افراد پر مشتمل معاشرہ تشکیل دینے کی بات کی۔ اِن کا زیادہ تر کلام رجائیت اور خوش کن خیالات سے دور ہے، لیکن بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی یہ نظمیں گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے نکلنے اور صبحِ نو کی جوت جگاتی ہیں، جس پر ن م راشد کو ابہام کا شاعر کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ راشد کی علامتی شاعری کو محض لفاظی کہا گیا، لیکن ن م راشد نے اپنی شاعری کے ذریعے تشکیک زدہ معاشرے کو نئے رجحانات اور افکار سے آشنا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    اِن کی شاعری میں کسی کہانی کی طرح وہ کردار بھی ملتے ہیں جو معاشرے کے مکر و فریب اور اخلاقی پستی کو عیاں‌ کرتے ہیں۔ یہ کردار ان کی نظم اندھا کباڑی اور حسن کوزہ گر میں دیکھے جاسکتے ہیں:

    "خواب لے لو… خواب‘‘

    صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
    خواب اصلی ہیں کہ نقلی…
    یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اِن سے بڑھ کر
    خواب داں کوئی نہ ہو!
    مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب
    مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
    اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
    دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
    کوئی دھوکا نہ ہو!
    ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
    گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
    یا پگھل جائیں یہ خواب
    بھک سے اڑ جائیں کہیں
    یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
    جی نہیں کس کام کے؟
    ایسے کباڑی کے یہ خواب
    ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

    ن م راشد ایک داستان گو تھے جنھیں وہ کسی کردار کے ساتھ نظم کے سانچے میں‌ ڈھال کر خوب صورتی پیش کرتے رہے۔ ’حسن کوزہ گر‘ اِن کی ایک شاہکار نظم ہے۔ اِس کا یہ بند دیکھیے:

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
    وہی کوزہ گر جس کے کوزے
    تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش
    تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اِن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
    گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
    معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
    کہ میں اس گل و لا سے، اِس رنگ و روغن
    سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
    دلوں کے خرابے ہوں روشن!

    یہ نظم ایک ایسے فن کار کا المیہ ہے جو اب کوزہ گری کے فن سے محروم ہوگیا ہے اور دوبارہ اس پر قدرت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے وہ ایک نگاہِ ناز کا طلب گار ہے۔

    کرداروں کے ذریعے تخاطب کے ساتھ راشد "میں” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی مثال اِن کی نظم ‘رقص’، ‘خود کشی’ اور ‘انتقام’ ہیں۔

    راشد کی پہلی نظم انسپکٹر اور مکھیاں تھی جو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک روز انسپکٹر آف اسکولز اس اسکول کا معائنہ کرنے آیا جس میں‌ ن م راشد بھی پڑھتے تھے اور وہاں‌ مکھیاں اُس کے سَر پر بھنبھاتی رہیں۔ راشد کے تخیل نے اِس منظر کو نظم میں سمیٹ لیا۔ نو عمر راشد اس وقت "گلاب” تخلّص کرتے تھے۔ چند برس گزرے تو شعور اور سنجیدگی نے انھیں یہ تخلّص ترک کرنے پر مجبور کردیا، اور اُس وقت کے غیر معروف رسائل میں اصل نام سے ان کا کلام شائع ہوتا رہا۔ بعد میں‌ وہ ادبی دنیا میں‌ ن م راشد مشہور ہوگئے۔

    ن م راشد کا شمار اردو مقبول شعرا میں نہیں کیا جاتا جس کی وجہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا امتزاج ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا قاری کے لیے سہل نہیں۔ راشد سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں‌ روایتی طرزِ فکر، جذباتیت، جوشِ خطابت اور زورِ تقریر نے بے عملی کو بڑھاوا دیا ہے، اور اِس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان کی فکر اور آہنگ اُس دور کے قاری اور ناقد دونوں کے لیے اجنبی اور نامانوس تھا، راشد کا لب و لہجہ اور غیر روایتی تیکنیک اُس دور میں جب کہ نظم کا سانچہ بہت سیدھا تھا، ان پر تنقید کی بڑی وجہ تھی۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جب انیسویں‌ صدی میں خالق اور مخلوق، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے ادب کا سہارا لیا جارہا تھا تو راشد نے ان مسائل کو ایک مختلف ہیئت اور تکینک کے ساتھ پابند کیا اور بڑی جرأت سے ایسے موضوعات کو بھی نظموں‌ میں‌ پیش کیا جنھیں‌ قبول کرنے میں عام آدمی کے ساتھ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بھی بڑا تأمل ہوا۔ مذہب کے بارے میں‌‌ خود راشد کی رائے ایسی تھی کہ اس پر بات نہیں‌ کی جاسکتی۔

    راشد کے دور میں جنگوں اور اُس کے نتیجے میں انسانوں کی بدحالی کے بعد سرمایہ داری کا عفریت بھی لوگوں کو نگلنے کے لیے تیّار تھا۔ بغاوت اور انقلابی امنگوں کے ساتھ ادب میں خدا، اُس کے وجود اور کائنات کے مسائل پر مباحث جنم لے رہے تھے جب کہ انسان پرستی اور انسانوں کے جملہ مسائل کو ادب میں اہمیت دی جانے لگی تھی۔ اِس کا ن م راشد نے گہرا اثر لیا اور اپنی شاعری میں جگہ دی۔

    نظم مکافات کا یہ بند ایک اضطراب، افسوس اور زندگی کی کشمکش کو بیان کر رہا ہے:

    رہی ہے حضرت یزداں سے دوستی میری
    رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
    گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
    دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
    کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری
    رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
    دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
    وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
    زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
    کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
    خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کی
    کبھی کیا نہ جوانی سے بہریاب انہیں
    یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
    کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
    اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
    مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
    الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
    فشار ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
    مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
    پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

    راشد کی نظمیں، انسانی نفسیات پر اُن کی گہری نظر اور مشاہدے کی مثال ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کا قومی تحویل میں جانا، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانا، حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سازشیں، نسل پرستی کو فروغ دینا، سرمایہ داری، عرب دنیا کی بدحالی اور بے بسی کی جھلک ن م راشد شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعے ‘ماورا’، ‘ایران میں اجنبی’، اور ‘لا=انسان’ اُن کی زندگی میں شائع ہوئے، لیکن ایک کتاب بعنوان گمان کا ممکن راشد کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی تھی۔ ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے لیکن کتابی شکل میں بہم نہیں ہوئے۔

    راشد کے دوسرے شوق گھڑ سواری، شطرنج، کشتی رانی تھے۔ شراب نوشی نے انھیں‌ دل کے عارضہ میں مبتلا کردیا تھا۔ راشد مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ ن م راشد نے برطانیہ میں‌ وفات پائی، کہتے ہیں‌ کہ راشد ایک وصیت چھوڑ گئے تھے کہ ان کے بے روح‌ جسم کو نذرِ آتش کیا جائے۔

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    ‘‘ماورا’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔

    جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔

    ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماورا’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔

    اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہوگیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماورا’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالاں کہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کردی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہوگیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔

    میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔

    اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشر کی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماورا’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی، مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔

    پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کردیا گیا۔ البتّہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔

    (نذر محمد راشد المعروف ن م راشد اردو کے عظیم شاعر اور جدید نظم کے بانیوں میں سے ایک تھے جن سے متعلق نام وَر افسانہ نگار غلام عبّاس کے مضمون ‘راشد:چند یادیں’ سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

  • عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    ن م۔ راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں طرزِ نو کی بنیاد رکھی، آزاد نظم کو عام کیا، اسے مقبول بنایا۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو فکر و نظر کے نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر نئے رویّوں کو متعین کیا۔

    ن م راشد مزاجاً سخت گیر اور جلد باز مشہور تھے اور اسی عادت سے متعلق ان کے ایک رفیق اور ممتاز افسانہ نگار غلام عبّاس نے نہایت دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    "راشد کو اپنی اس بے صبری اور جلد بازی کی عادت کی ایک دفعہ اور بھی سخت سزا بھگتنی پڑی تھی۔ راشد کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں، مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ۔ تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کر لیجیے۔ شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں، گھٹنے زخمی تھے اور منہ سوجا ہوا۔ سارا جسم اکڑ گیا تھا، چلنا پھرنا دوبھر تھا۔

    ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ کہنے لگے بھائی یہ امتحان تو پل صراط سے گزرنے سے کم نہ تھا۔ مجھے خار دار تاروں پر سے گزرنا پڑا، خاصے اونچے اونچے درختوں پر چڑھا اور وہاں سے زمین پر چھلانگیں لگائیں۔ کبھی دوڑتا تھا، کبھی رینگتا تھا، قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا تھا۔

    بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اس جسمانی معائنہ کی صعوبتیں ناحق ہی اٹھائیں۔ کیوں کہ انھیں تو اس معائنہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا، لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔

  • رجحان ساز شاعر ن۔ م راشد کا یومِ وفات

    رجحان ساز شاعر ن۔ م راشد کا یومِ وفات

    ن۔م۔ راشد دنیائے ادب کا ایک معتبر نام ہے جنھوں نے اردو نظم کو نئی ترنگ، آہنگ دیا اور شاعری کی اس صنف میں نئے اور منفرد موضوعات کو اس خوبی سے سمیٹا کہ ان کا اسلوب اور انداز ان کی پہچان بن گیا۔ آج اردو کے اس ممتاز شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ لندن میں 9 اکتوبر 1975 کو انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ یکم اگست 1910 کو اکال گڑھ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو ن۔ م راشد کے نام سے متعارف کروایا۔ نظم گوئی اس شاعر کا وہ حوالہ ہے جس نے اس صنف کو عہد آفریں تبدیلیوں سے ہم کنار کیا اور روایت سے ہٹ کر ہیئت و اسلوب میں‌ وہ تجربات کیے جس نے نظم کو نئی ترنگ اور آہنگ دیا۔

    ن۔ م راشد کا پہلا مجموعہ ’’ماورا‘‘ 1941 میں شایع ہوا جس نے روایت کی پابند اور مخصوص موضوعات تک محدود نظم گوئی کا سانچہ ہی بدل دیا۔ انھوں نے آزاد نظم کا تجربہ کیا اور اسے مقبول بنایا۔

    ن۔ م راشد نے عالمی ادب سے متاثر ہو کر نظم کو اس کے روایتی سانچے سے باہر نکالا اور جدید اسلوب کو اپنایا جس پر شدید تنقید بھی ہوئی، لیکن انھوں نے پروا نہ کی اور اسی اسلوب اور نظم میں جدت نے بہت جلد دیگر شعرا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

    اردو شاعری کو راشد نے جہاں نئے ڈھب سے آشنا کیا، وہیں نظم گوئی میں ان کے تجربات نے امکانات کا در بھی کھولا جس کا بعد میں‌ آنے والے شعرا نے بھی تعاقب کیا اور اس صنف کو تازہ خیالات اور نادر موضوعات سے مالا مال کیا۔

    ن۔ م راشد مختلف ممالک میں قیام پزیر رہے اور ان کی زندگی کے آخری ایّام لندن میں گزرے۔ ن۔ م راشد نے غزلیں بھی کہیں، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی نظمیں ہیں۔

    اس شاعر کی ایک مشہور نظم "زندگی سے ڈرتے ہو” باذوق قارئین کی نذر ہے

    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
    آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
    آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
    اس سے تم نہیں ڈرتے
    ”ان کہی” سے ڈرتے ہو
    جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
    اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
    پہلے بھی تو گزرے ہیں
    دورِ نارسائی کے ”بے ریا” خدائی کے
    پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
    یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خداوندی
    تم مگر یہ کیا جانو
    لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
    ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
    نور کی زباں بن کر
    ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
    روشنی سے ڈرتے ہو
    روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
    روشنی سے ڈرتے ہو
    شہر کی فصیلوں پر
    دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
    رات کا لبادہ بھی
    چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
    اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
    ذات کی صدا آئی
    راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
    اک نیا جنوں لپکے
    آدمی چھلک اٹھے
    آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
    تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
    ہاں ابھی تو تم بھی ہو
    ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں!
    تم ابھی سے ڈرتے ہو