Tag: وائلڈ لائف

  • مانیٹرنگ کیمرے میں بھالو کی 400 سیلفیاں!

    امریکا میں جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے لگائے گئے ایک کیمرے نے ایک پرتجسس بھالو (ریچھ) کی 400 سیلفیاں کھینچ ڈالیں جسے دیکھ کر ماہرین مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔

    یہ واقعہ امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر بولڈر میں پیش آیا، شہر میں 46 ہزار ایکڑ پر پھیلے ایک وائلڈ لائف ایریا میں جانوروں کی مانیٹرنگ کے لیے 9 ٹریل کیمرے لگائے گئے تھے جن کی ہفتہ وار بنیادوں پر چیکنگ کی جاتی تھی۔

    ایک دن ایک کیمرے سے ڈھیروں کی تعداد میں نہایت دلچسپ چیز برآمد ہوئی۔

    ایک کیمرے نے قریب آنے والے بھالو کی 400 سیلفیاں کھینچ ڈالی تھیں جو نہایت تجسس سے اس کے قریب آ کر کیمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

    بھالو کی حرکت محسوس ہوتے ہی کیمرے نے ایک کے بعد ایک تصویر کھینچ ڈالی یوں کیمرے میں موجود 580 تصاویر میں سے 400 بھالو کی سیلفیاں جمع ہوگئیں۔

    وائلڈ لائف کی انتظامیہ نے کچھ تصاویر ٹویٹر پر شیئر کیں جس پر صارفین نے بھی دلچسپ ردعمل دیا۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پارک میں لگائے گئے کیمرے موشن ڈیٹیکٹو ہیں یعنی اپنے آس پاس ذرا سی حرکت پر فعال ہوجاتے ہیں، ان کیمروں کی مدد سے علاقے میں جنگلی حیات کی نقل و حرکت یا انہیں لاحق کسی ممکنہ خطرے سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے۔

  • ہرن کے غیر قانونی شکار میں معاونت، وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے 6 افسران معطل

    ہرن کے غیر قانونی شکار میں معاونت، وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے 6 افسران معطل

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں ہرن کے غیر قانونی شکار میں معاونت کرنے والے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے 6 افسران معطل کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب میں ہرن کا غیر قانونی شکار کروانے والے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے 6 افسران معطل کردیے گئے، افسران کو سیکریٹری جنگلات کیپٹن (ر) ظفر اقبال کی ہدایت پر معطل کیا گیا۔

    محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ افسران نے بہاولپور جنگل میں ہرن کا شکار کرنے میں پشت پناہی کی تھی، افسران ہرن کے گوشت کا کچھ حصہ اپنے لیے لے کر جا رہے تھے۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل کوہستان میں بھی ہرن کے شکار کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، ویڈیو کے مطابق شکار ہونے والے ہرن نایاب نسل کے تھے۔

    ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وائلڈ لائف کے 3 افسران کو انکوائری پر تعینات کیا گیا تھا، حکام کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کو بے دردی سے شکار کیا گیا ہے، شکار سندھ کی حدود میں ہوا تو محکمہ قانونی کارروائی کرے گا۔

  • براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ براعظم افریقہ میں جنگلی جانور معدوم ہو رہے ہیں، تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث سنہ 2100 کے اواخر تک افریقی ممالیہ جانوروں اور پرندوں کی نصف نسلیں معدوم ہوسکتی ہیں۔

    دنیا بھر سے 550 ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتی نظام کے تنوع میں کمی سے انسانی کا معیار زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں یورپ اور وسطی ایشیا میں زمین پر بسنے والے جانوروں اور پودوں میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔

    یہ اعداد و شمار دنیا کے آخری نر شمالی سفید گینڈے کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان انکشافات کے باوجود تحقیق میں کئی جنگلی حیات میں کامیاب اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آف بائیو ڈائیورسٹی ایںڈ ایکوسسٹم سروسز (آئی پی بی ای ایس) کے مطابق چین اور شمال مشرقی ایشیا میں سنہ 1990 اور 2015 کے درمیان برساتی جنگلوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ماضی میں معدومی کا شکار ہونے والے آمور تیندوے کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    کولمبیا میں بائیو ڈائیورسٹی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی سائنس دان سر رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور قدرت کے غیرمستحکم استعمال سے پلٹنا ہوگا ورنہ پھر ہم جو مستقبل چاہتے ہیں اس کو خطرے کا سامنا ہوگا۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور اسے سنہ 2005 کے بعد حیاتی نظام پر سب سے جامع تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    خوراک اور پانی کے حوالے سے لاحق خطرات میں آلودگی، موسمی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ سر فہرست ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے حکومتیں، کاروبار اور انفرادی طور پر افراد جب کھیتی باڑی، ماہی گیری، جنگلات، کان کنی یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلے کریں تو وہ ان کے حیاتی نظام پر اثرات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔

  • محکمہ جنگلی حیات کا سفری سرکس پر چھاپا، ملزمان جانور چھوڑ کر فرار

    محکمہ جنگلی حیات کا سفری سرکس پر چھاپا، ملزمان جانور چھوڑ کر فرار

    کراچی: شہر قائد میں محکمہ جنگلی حیات نے ایک سفری سرکس پر چھاپا مار کر جنگلی جانور قبضے میں لے لیے، ٹیم کو دیکھ کر سرکس چلانے والے بھاگ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے نزدیک ایک کارروائی میں جانوروں کے سفری سرکس سے جنگلی جانور قبضے میں لے لیے۔

    محکمہ جنگلی حیات کے انسپکٹر اعجاز نوندانی نے بتایا کہ سہراب گوٹھ کے قریب کارروائی میں چھاپا مار ٹیم نے غیر قانونی طور پر لائے گئے جنگلی جانور ضبط کر لیے ہیں، ان جانوروں میں ہائینا، بندر، فاکس، گیدڑ، اژدھا اور چیل شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق محکمہ جنگلی حیات کی چھاپا مار ٹیم کے پہنچتے ہی سرکس چلانے والے ملزمان فرار ہو گئے۔

    وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ قبضے میں لیے گئے جانوروں کو جلد ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے گا۔

  • جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    لندن: ملکہ برطانیہ کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ گزشتہ روز 99 برس کی عمر میں چل بسے، شہزادہ فلپ نے ساری عمر ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیوانہ وار کام کیا۔

    گزشتہ روز شاہی خاندان کو سوگوار چھوڑ جانے والے شہزادہ فلپ فطرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اس کی حفاظت کا جنون تھا۔

    انہوں نے تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے اس وقت بات کی جب کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا، شہزادے نے دنیا بھر کے دورے کیے جن کا مقصد دنیا کو وہاں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی اور شکار کی وجہ سے جانوروں کو لاحق خطرات کی طرف متوجہ کرنا تھا۔

    شہزادے نے ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحفظ ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی افریقہ میں ہاتھیوں کو کھانا کھلاتی، چین میں پانڈا کے ساتھ وقت گزارتی اور انٹارکٹیکا میں پانی کی بلی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی تصاویر جنگلی حیات سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    سنہ 1961 میں جب ماحولیات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) قائم کی گئی تو شہزادہ فلپ کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا۔ اس تنظیم کے ساتھ انہوں نے دنیا بھر میں دورے کیے اور جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا۔

    لیکن اسی سال ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا، شہزادہ فلپ نے ملکہ برطانیہ کے ساتھ نیپال کا دورہ کیا جہاں دونوں نے ہاتھیوں پر بیٹھ کر گینڈے اور شیر کے شکار میں حصہ لیا۔

    اسی سال موسم گرما میں شاہی جوڑے نے بھارت کا دورہ بھی کیا جہاں شہزادہ فلپ نے ایک ٹائیگر کا شکار کیا، ٹائیگر کے مردہ جسم کے ساتھ فخریہ کھڑے ان کی تصویر نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

    دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ان کے قول و فعل کے تضاد پر چیخ اٹھی، لیکن اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ان کے خیال میں جانوروں کا شکار کرنا دراصل اس جانور کا وجود قائم رکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی جانور کا شکار کرتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ اگلے سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسان اپنی فصل کو کاٹ ڈالے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ اگے، ہاں لیکن وہ اس فصل کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرے گا جو کہ خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ان کی یہ توجیہہ کسی حد تک اس لیے بھی قابل قبول خیال کی گئی کیونکہ اس وقت ٹائیگر آج کی طرح معدومی کے خطرے کا شکار نہیں تھا، اور اس کی تعداد مستحکم تھی۔

    بعد ازاں برطانیہ میں لومڑی کے شکار پر پابندی کی بحث چلی تو شہزادے نے شکار کرنے والوں کا دفاع کیا، اس پر بھی تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے ان سے خاصے ناراض ہوئے۔

    شہزادہ فلپ 1982 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، لیکن وہ ذاتی طور پر طویل عرصے تک ادارے کی کئی مہمات کا حصہ بنے رہے۔ وہ پانڈا کو بچانے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مہم میں ایک سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔

    علاوہ ازیں انہوں نے سمندری آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے خلاف مہمات کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف مواقع پر اس پر بات کرتے نظر آئے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں آنجہانی شہزادے نے کہا تھا، ’یہ ایک بہت خوبصورت بات ہے کہ ہماری زمین پر مختلف نوع کی حیات موجود ہے اور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کے پاس دوسری حیات کو زندگی بخشنے یا ان کی جان لینے، انہیں معدوم کرنے یا انہیں بچا لینے کی طاقت ہے، تو ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اخلاقی حس کو کام میں لانا چاہیئے‘۔

  • وہ پرندہ جسے چالاک ہی نہیں‌ چور بھی کہا جاتا ہے!

    وہ پرندہ جسے چالاک ہی نہیں‌ چور بھی کہا جاتا ہے!

    کوّوں کا ایکا بہت مشہور ہے۔ اگر کبھی ان کا ایک ساتھی مصیبت میں پڑ جائے تو کائیں کائیں کرکے سب کو وہاں اکٹھا کر لیتے ہیں۔ دراصل یہ ایک چالاک پرندہ ہے اور گروپ کی شکل میں رہتا ہے۔

    مکئی، باجرے اور گندم کے کھیتوں پر حملہ آور ہو کر کسان کو خاصا نقصان پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اسے ڈرانے کے لیے کھیتوں میں جگہ جگہ عجیب و غریب پتلے بنا کر لٹکاتے ہیں۔

    اگرچہ کوّا کسی حد تک غلاظت اور مردار خور ہونے کی وجہ سے مفید بھی ہے، مگر مجموعی طور پر درحقیقت یہ ایک نہایت ہی ضرر رساں پرندہ ہے۔

    دنیا بھر میں اس کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں اور اسے چالاک، تیز طرّار ہی نہیں‌ چور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف دوسروں پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے چرا لیتا ہے بلکہ اکثر ان کے بچّے بھی اٹھا لیتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ گھروں اور کھیتوں میں دانہ دنکا چگتے ہوئے مرغی کے چھوٹے چھوٹے چوزوں تک کو اچک کر لے جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ فصلوں کو بہت ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ بیج بونے سے کاٹنے تک اس کی چوری جاری رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اسے اپنا بدترین دشمن سمجھتا ہے۔

    کوّا تقریبا 48 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔ یہ اپنی سخت اور مضبوط چونچ سے بہت کام لیتا ہے۔ ہر قسم کے اناج کے دانے، کیڑے مکوڑے، پھل، پرندوں کے انڈے، مینڈک، چھوٹے سانپ، مچھلیاں اور چوہے سبھی کچھ کھا جاتا ہے۔ چوں کہ بے شمار چیزیں کھا لیتا ہے لہٰذا اسے کہیں نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    اس کی قوّتِ بصارت اور سماعت غیر معمولی طور پر بہت تیز ہوتی ہے۔ بلندی پر پرواز کرتے ہوئے بھی زمین پر اپنی خوراک ڈھونڈ لیتا ہے۔ معمولی سی آہٹ پر چوکنّا ہو جاتا ہے۔ فوراً خطرے کی بو سونگھ لیتا ہے۔

    کوّا موسمِ بہار میں انڈے دیتا ہے۔ دوسرے پرندوں کی طرح یہ بھی فطرتاً اپنے بچّوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔ ان کی ککراتی ہوئی چیخیں سن کر فوراً ان کے سروں پر آجاتا ہے۔ اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر یہ بعض اوقات شکرے، باز اور الّو پر بھی حملہ کردیتا ہے۔

  • زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے طویل دن اور طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • بھارت: خونخوار شیر اسکول میں گھس آیا

    بھارت: خونخوار شیر اسکول میں گھس آیا

    نئی دہلی: بھارت میں ایک شیر کھانے کی تلاش میں اسکول کی عمارت میں داخل ہوگیا، وائلڈ لائف اہلکاروں نے بے ہوشی کے انجکشن کے ذریعے شیر کو قابو کیا۔

    بھارتی فاریسٹ سروس کے مطابق ریاست گجرات کے ضلع گیر سومناتھ میں وائلڈ لائف اہلکاروں کو اطلاع ملی کہ ایک اسکول کی عمارت میں شیر دیکھا گیا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ شیر جنگل سے ایک بچھڑے کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے گاؤں میں داخل ہوگیا اور جب بچھڑے کے مالک نے اسے بھگانے کی کوشش کی تو وہ برابر میں واقع اسکول کی عمارت میں داخل ہوگیا۔

    وائلڈ لائف اہلکاروں نے دروازے کے باہر پنجرہ رکھ کر شیر کو وہاں متوجہ کرنے کی کوشش کی تاہم شیر سیڑھیاں چڑھ کر اسکول کی دوسری منزل پر چلا گیا۔

    بعد ازاں وائلڈ لائف حکام نے بے ہوشی کا انجکشن فائر کر کے اسے بے ہوش کیا اور پنجرے میں ڈالا، اس دوران شیر صحیح سلامت تھا اور اسے کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچا، حکام نے بعد ازاں شیر کو جنگل میں چھوڑ دیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی، ایک شخص نے تبصرہ کیا کہ شیر اسکول میں داخلہ لینے آیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے وائلڈ لائف حکام کی بہادری کو بھی سراہا۔

  • کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

    ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔

    کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔

    تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔

  • بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    دھاری دار جسم کا حامل زیبرا براعظم افریقہ میں پایا جاتا ہے، حال ہی میں ایک انوکھے زیبرا کو کیمرے نے عکسبند کیا جسے دیکھ کر ماہرین خوشگوار حیرت میں پڑ گئے۔

    کینیا کے ایک ریزرو میں دیکھا جانے والا یہ ننھا زیبرا اپنے خاندان کے دیگر زیبروں سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کے بجائے سفید دھبے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیبرے کے جسم کی یہ انفرادیت ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کی وجہ سے ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زیبرا اس بگاڑ کے باعث نہایت انفرادیت کا حامل ہے اور یہ اس طرح کا، اب تک دیکھا جانے والا واحد زیبرا ہے۔