Tag: وائلڈ لائف

  • زرافوں کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیں گے؟

    زرافوں کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیں گے؟

    دنیا کے مختلف ممالک اپنی سیاحت میں اضافہ کے لیے سیاحوں کو انوکھے اور عجیب و غریب تجربات سے روشناس ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ بعض سیاحتی مقامات پر ایسے ریستوران بنائے جاتے ہیں جو برف سے، غار کے اندر، زیر سمندر یا کسی پہاڑ کی اونچی چوٹی پر بنے ہوتے ہیں۔

    مہم جو افراد ان مقامات پر جا کر انوکھے تجربات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ آپ کسی ریستوران میں جائیں اور وہاں ناشتے میں آپ کے ساتھ جانور بھی شریک ہوں؟

    اور جانور بھی کوئی اور نہیں بلکہ زرافہ جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اس انوکھے ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ کو افریقی ملک کینیا کے دارالحکومت نیروبی کا سفر اختیار کرنا پڑے گا۔

    giraffe-2

    giraffe-3

    نیروبی کے اس ریستوران میں جس کا نام ’زرافوں کی جائیداد‘ ہے، آپ اپنے ناشتے کے دوران زرافوں سے ملاقات کا موقع حاصل کرسکتے ہیں۔

    giraffe-7

    giraffe-4

    ایک نجی زمین پر قائم اس ریستوران کی مالکہ نے کئی سال قبل کچھ ننھے زرافے یہاں پالے تھے۔

    جب یہ زرافے بڑے ہوگئے اور ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگیا تو اس خاتون نے جسے اب ’جراف لیڈی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، زرافوں کے رہنے کے لیے ایک باقاعدہ سینٹر قائم کرلیا جو ریستوران کے برابر میں ہی واقع ہے۔

    giraffe-5

    اب یہ زرافے اس ریستوران میں بھی آتے ہیں اور کھڑکیوں سے اپنی لمبی گردن ڈال کر سیاحوں کے ناشتہ میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

    giraffe-8

    giraffe-6

    یہاں کا عملہ سیاحوں کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر وہ زرافوں کے ساتھ ناشتے جیسے انوکھے تجربے سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو انہیں ٹھیک 7 بجے ناشتے کی میز پر موجود ہونا چاہیئے کیونکہ زرافے جلدی اٹھتے ہیں اور ناشتہ کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔

  • سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    نئی دہلی: انسانوں کے لیے زبانوں کا مسئلہ ہونا تو عام بات ہے۔ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو انہیں نئی زبان سیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور اگر زبان مشکل ہو تو انہیں دقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    لیکن بھارت میں ایک جانور کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی جب اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو اسے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے کی ’زبان‘ کو سمجھنا کافی مشکل ہوگیا۔

    tiger-3

    یہ عجیب صورتحال چنائی کے ارنگر انا زولوجیکل پارک میں پیش آئی جہاں سے ایک سفید شیر کو راجھستان کے شہر ادے پور کے سجن گڑھ بائیولوجیکل گارڈن منتقل کیا گیا۔ جنگلی حیات کے تبادلے کے پروگرام کے تحت راجھستان کے دو شہروں جودھ پور اور جے پور سے دو بھیڑیوں کو بھی چنائی بھیجا گیا۔

    لیکن اس تبادلے کے بعد انکشاف ہوا کہ چنائی سے آنے والا سفید شیر صرف تامل زبان سمجھتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت زبانوں کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ریاست بنگال میں تامل جبکہ راجھستان میں میواڑی زبان بولی جاتی ہے۔

    چنائی میں پیدا ہونے والا یہ 5 سالہ شیر راما بچپن سے اپنے نگرانوں کی تامل زبان میں احکامات سننے اور انہیں ماننے کا عادی ہے۔ لیکن ادے پور پہنچ کر جب اس کے نگرانوں نے میواڑی زبان میں بات کی تو شیر اور نگران دونوں ہی مخمصہ میں پھنس گئے۔

    غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ *

    نگران اپنی بات دہرا دہرا کر تھک گیا لیکن صرف تامل زبان سے آشنا راما ٹس سے مس نہ ہوا کیونکہ اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اسے کیا کہا جارہا ہے۔

    دونوں کی مشکل حل ہونے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو راما میواڑی زبان سیکھ لے یا پھر اس کی نگہبانی پر معمور نگران تامل زبان سیکھ لیں۔

    ادے پور کے آفیسر برائے تحفظ جنگلات راہول بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ ادے پور کے گارڈن میں ایک سفید شیرنی پہلے سے موجود ہے جو پونا سے لائی گئی ہے۔ اب ایک اور شیر کو یہاں لانے کا مقصد ان کی نسل کی تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت ان کی آبادی میں اضافہ کرنا ہے۔

    tiger-2

    واضح رہے کہ سفید شیر جسے بنگال ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے ایک خطرناک جانور ہے اور یہ اکثر جنگلوں سے دیہاتوں میں داخل ہوجاتا ہے جہاں یہ انسانوں اور جانوروں پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا ہلاک کرنے کا سبب بن چکا ہے۔

    اس کی وحشیانہ فطرت کے باعث گاؤں والوں کو اپنی حفاظت کی خاطر مجبوراً اسے ہلاک کرنا پڑتا ہے جس کے باعث اس کی آبادی میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں سفید شیروں کی تعداد صرف 200 کے قریب رہ گئی ہے۔

  • جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جوہانسبرگ: مختلف ممالک کی حکومتوں نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ جنوبی افریقہ میں غیر قانونی تجارت سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں کیا گیا۔

    واضح رہے پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جانے ممالیہ ہے۔ یہ افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پینگولین کا گوشت چین اور تائیوان میں کھانے کے لیے جبکہ اس کی کھال دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ پینگولین کی اسمگلنگ میں تیزی سے ہوتے اضافے کے باعث بر اعظم ایشیا میں اس کی معدومی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

    summit-3

    اجلاس میں 182 ممالک نے اس جانور کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    اسی اجلاس میں عالمی برادری نے روز ووڈ کی لکڑی کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا۔ دنیا بھر کے مختلف گرم حصوں میں پائی جانے والی روز ووڈ دنیا کی سب سے زیادہ اسمگل کی جانے والی لکڑی ہے جو قیمتی و پرآسائش فرنیچر بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔

    چمکدار، خوشبو دار سرخ رنگ کی اس لکڑی کی قیمت ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ، اور شیروں یا چیتوں کی کھال کی مجموعی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کی فرنیچر سازی مارکیٹ میں اس کی بے تحاشہ مانگ ہے۔ اس لکڑی سے تیار شدہ ایک بیڈ 1 ملین ڈالر تک میں فروخت کیا جاچکا ہے۔

    summit-1

    روز ووڈ کی لکڑی کا سالانہ 2.2 بلین تک کاروبار ہوتا ہے۔

    اس کی بے تحاشہ قانونی تجارت و اسمگلنگ کے باعث ایشیا میں اس کے جنگلات کا خاتمہ ہونے جارہا ہے لہٰذا اس کی تلاش کے لیے ٹمبر مافیا نے وسطی امریکہ اور افریقہ سمیت ان حصوں کا رخ کرلیا ہے جہاں اس کی افزائش ہوتی ہے۔

    سنہ 2016 کے صرف ابتدائی 6 ماہ میں افریقہ سے 216 ملین کی لکڑی اسمگل کی جاچکی ہے۔

    summit-5

    اس سے قبل کانفرنس میں ماہرین نے ہاتھیوں کی معدومی سے متعلق بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    یاد رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ کانفرنس اسی معاہدے کے مرکزی خیال پر منعقد کی جارہی ہے۔

  • افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    جوہانسبرگ: ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    elephant3

    آئی یو سی این کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ کئی افریقی ممالک میں ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں اضافہ کا رجحان ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ ہے۔ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کاروبار میں بھی پچھلی ایک دہائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہاتھیوں کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقعہ ہونا ہے۔

    آئی یو سی این نے یہ رپورٹ جنگلی حیات کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں پیش کی جو جوہانسبرگ میں جاری ہے۔

    elephants

    واضح رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس رواں برس مئی میں منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں متعدد افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی جنہوں نے متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

  • برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    لندن: برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ایک برطانوی ادارے اسٹیٹ آف نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں جنگلی حیات کی اقسام کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ہر 6 میں سے ایک جانور، پرندے، مچھلی یا پودے کی نسل غائب ہوچکی ہے۔

    uk-2

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ زراعت میں اضافہ اور اس میں جدید تکنیکوں کا استعمال، ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہجرت (اربنائزیشن)، اور موسمی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے شدید اثرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان عناصر کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور تیزی سے ہوتی صنعتی ترقی نے برطانیہ کو ان ممالک میں شامل کردیا ہے جہاں فطرت کو تیزی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

    رپورٹ کے سربراہ مارک ایٹن کا کہنا ہے، ’گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم نے اپنی زراعت میں جدید تکنیکوں کا استعمال شروع کردیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ جدت ہمارے قدرتی حسن کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے‘۔

    hog
    ایک مردہ خار پشت ۔ فصلوں کو جانوروں سے بچانے کے لیے اکثر برقی باڑھ لگادی جاتی ہے جن میں چھوٹے جانور پھنس کر مرجاتے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں جنگلی حیات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) کی بحالی کے کئی پروجیکٹ جاری ہیں، مگر جس تیزی سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے اس کے مقابلے میں یہ اقدامات بہت کم ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 1970 سے 2013 کے دوران جنگلی حیات کی نسل میں 56 فیصد کمی ہوئی جبکہ صرف 2002 سے 2013 کے درمیان یہ تناسب 53 فیصد رہا۔

    واضح رہے کہ دنیا کے تیزی سے بدلتے موسم اور اس کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے جہاں نسل انسانی کو شدید خطرات لاحق ہیں، وہیں زمین پر موجود جنگلی حیات کے معدوم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

    uk-3

    ماہرین کے مطابق سنہ 2050 تک ایک چوتھائی جنگلی حیات معدوم ہوسکتی ہے۔

    اس سے قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں ماہرین نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسلیں معدوم ہونے لگے گی۔

    دوسری جانب امریکا میں درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے بھی وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔

    panda-2

    ان جنگلی حیات کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات بھی کیے جارہے ہیں اور ان اقدامات کے باعث حال ہی میں چین کا مقامی پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے۔ اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

  • عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    ہونو لولو: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا عمل یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو ’بیمار‘ بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    یہ تحقیق امریکی ریاست ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس میں پیش کی گئی۔ ورلڈ کنزرویشن کانگریس جانداروں کے تحفظ پر غور و فکر کرنے کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ہے جس کا میزبان عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این ہے۔

    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    اجلاس میں دنیا بھر سے 9 ہزار لیڈرز اور ماہرین ماحولیات نے شرکت کی۔

    ایونٹ میں شرکا کی آگاہی کے لیے رکھی گئی سمندری حیات کی ایک قسم ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    شرکا کو کچھوے کی لمبائی، وزن اور عمر ناپنے کی تکنیک بتائی گئی ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ *

    آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں۔ سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    پاکستان سے سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم ایونٹ میں شریک ہیں ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    مذکورہ تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق سمندروں پر کی جانے والی اب تک کی تمام تحقیقی رپورٹس سے سب سے زیادہ منظم اور جامع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک دنیا بھر کے سمندر 93 فیصد زائد درجہ حرارت برداشت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے سمندری جانداروں کی کئی اقسام کا لائف سائیکل تبدیل ہوچکا ہے۔

    seas-2

    ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت کچھوؤں کی پوری ایک جنس کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ مادہ کچھوؤں کی زیادہ تر افزائش گرم مقامات، اور گرم درجہ حرارت میں ہوتی ہے جبکہ نر کچھوؤں کو افزائش کے لیے نسبتاً ٹھنڈے درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔

    کچھوے اور انسان کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟ *

    رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح گرم سمندر جانوروں اور پودوں کو بیمار کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ کا عمل، تیزی سے بدلتے دنیا کے موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے، دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی، جبکہ کئی زرعی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوجائے گی جس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج کے خطرے میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • کچھووں کی اسمگلنگ ناکام،3چینیوں سمیت9 افرادگرفتار

    کچھووں کی اسمگلنگ ناکام،3چینیوں سمیت9 افرادگرفتار

    کراچی :شہر قائد میں محکمہ جنگلی حیات اور پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں 3چینی شہریوں سمیت 9افراد کو حراست میں لے لیا اور ان سے بڑی تعداد میں نایاب کچھوے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ کارروائی جمعہ کی شب کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے علاقے خیابان راحت کے ایک مکان میں کی گئی۔محکمہ جنگلی حیات کے انسپیکٹر عظیم کاچھیلو نے بتایا کہ خفیہ اطلاع پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔

    محکمہ جنگلی حیات کےمطابق برآمد کیے گئے کچھووں کی تعداد 600 سے زائد ہے جن کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت کم از کم 5 کروڑ روپے ہوگی۔

    حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان چینی شہریوں نے اس بارے میں کوئی بھی موقف دینے سے انکار کیا ہے جبکہ دیگر گرفتار چھ ملزمان کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ جو بنگلے کے بالائی حصے میں رہتے تھے جبکہ زیریں حصہ چینی شہریوں کے زیر استعمال تھا۔

    خیال رہے کہ میٹھے پانی کے کچھووں کا شمار نایاب جانداروں میں ہوتا ہے،جن کے شکار اور فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اس سے قبل بھی سندھ کے دریا، کینالوں اور جھیلوں سے ان کچھووں کو پکڑ کر سمگل کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    یاد رہے کہ دو سال قبل چین کی حکومت نے 200 کے قریب میٹھے پانی کے کچھووں کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔یہ کچھوے صوبہ سندھ سے سمگل کیے گئے تھے،جنہیں بعد میں سکھر کے مقام پر دریا سندھ میں چھوڑا گیا تھا۔

    جنگلی اور آبی حیات بین الاقوامی کنونشن کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے جس کے لیے چین کی حکومت نے پاکستان کو آگاہ کیا تھا۔

    واضح رہے کہ میٹھے پانی کے کچھوے ماحولیات کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں شامل ہیں اور سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 1972 کے تحت اس کے شکار کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

  • پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ چین کا پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے اور اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانڈا کی نسل کو اب مکمل معدومی کا خطرہ نہیں ہے البتہ اسے خطرے سے دو چار یا غیر محفوظ جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

    panda-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-2

    جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہ ایک حوصلہ افزا صورتحال ہے۔ ان کے مطابق اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں اور مقامی آبادیوں کی کاوشیں بھی شامل ہیں۔

    panda-4

    آئی یو سی این کے مطابق کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث پانڈا کے رہائشی جنگلات میں ایک تہائی کمی ہوسکتی ہے۔ پانڈا اپنی رہائش مخصوص درختوں کے جنگلات میں رکھتا ہے جنہیں بمبو فاریسٹ کہا جاتا ہے۔

    panda-5

    اس سے قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم بھی معدومی کے خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔ ان لومڑیوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کو اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے شدید خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

  • آسمانی بجلی گرنے سے 300 بارہ سنگھے ہلاک

    آسمانی بجلی گرنے سے 300 بارہ سنگھے ہلاک

    اوسلو: ناروے میں ایک پارک میں آسمانی بجلی گرنے سے 300 سے زائد بارہ سنگھے ہلاک ہوگئے۔

    واقعہ ناروے کے جنوبی علاقہ میں واقعہ جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے بنائے گئے پارک میں پیش آیا۔ انتظامیہ کے مطابق علاقہ میں کئی دن سے طوفان جاری تھا اور شدید آسمانی بجلی کڑکنے کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔

    rd-3

    ناروے کے انسپکٹر برائے تحفط قدرت کا کہنا ہے کہ بارہ سنگھے خراب موسم میں ڈر کر ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں اور یہی عادت ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔

    rd-2

    ان کا کہنا تھا کہ آسمانی بجلی گرنے کے باعث جانوروں کی ہلاکت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ ہے، ’یہ ایک بہت ہی افسوسناک بات ہے‘۔

    rd-1

    ماہرین جنگلی حیات نے اس حادثے کو ایک غیر معمولی قدرتی آفت قرار دیا ہے۔

    اس سے چند دن قبل بھارت میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے 38 بھیڑوں کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آچکا ہے۔

  • ہانگ کانگ میں خرگوشوں کا کیفے

    ہانگ کانگ میں خرگوشوں کا کیفے

    ہانگ کانگ: ہانگ کانگ میں ایک ایسا کیفے کھولا گیا ہے جہاں آنے والے گاہکوں کی تفریح طبع اور معلومات میں اضافہ کے لیے خرگوشوں کو رکھا گیا ہے۔

    ریبٹ لینڈ نامی اس ریستوران میں 12 خرگوش موجود ہیں جو گھاس سے سجی ہوئی صاف ستھری جگہوں پر رہتے ہیں اور انہیں پلاسٹک کے جنگلے بنا کر الگ کیا گیا ہے۔

    bunny-2

    شہر کے مرکزی علاقہ میں ایک مصروف عمارت کی پانچویں منزل پر قائم اس ریستوران میں خرگوش پالنے کے شوقین افراد آتے ہیں اور گھنٹوں وہاں بیٹھ کر انہیں کھانا کھلاتے اور پیار کرتے ہیں۔

    bunny-4

    اس ریستوران کی 29 سالہ مالکہ ٹیڈی چوئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ریستوران اس لیے کھولا ہے کہ ایسے افراد جو جانور پالنا چاہتے ہیں لیکن گھروں میں کم جگہ کے باعث نہیں پال سکتے وہ یہاں آ کر ان جانوروں کو کھلا پلا اور پیار کر کے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔

    bunny-5

    انہوں نے بتایا کہ یہاں آنے والے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو جانور پالنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے وہ ان کی پرورش اور خوراک کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے یہاں وقت گزارتے ہیں۔

    bunny-3

    ریستوران میں آنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی 11 سالہ بیٹی نے گھر میں خرگوش پالنے کا ارادہ کیا تو وہ اسے یہاں لے آئیں۔ ’میں چاہتی ہوں کہ اسے پتہ چلے کہ جانور پالنا آسان نہیں، انہیں بہت وقت اور محبت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے‘۔

    bunny-6

    یہاں آنے والے کئی افراد ان پلے پلائے خرگوشوں کو خریدنا چاہتے ہیں تاہم یہاں موجود خرگوش برائے فروخت نہیں ہیں۔

    ویڈیو بشکریہ: اے ایف پی

    واضح رہے کہ اس سے قبل ہانگ کانگ ہی میں ایک کیٹ کیفے بھی کھل چکا ہے جہاں موجود بلیاں آنے والوں کی شفقت و توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔