Tag: وائلڈ لائف

  • کراچی میں قدیم مقامی جنگلی حیات سے متعلق منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار

    کراچی میں قدیم مقامی جنگلی حیات سے متعلق منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار

    کراچی: شہر قائد میں ایک منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار کر لیا گیا ہے، جس میں سندھ میں پائے جانے والے جنگلی حیات کو رکھا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ وائلڈ لائف میوزیم کراچی کو 28 سال بعد از سر نو بحال کیا گیا ہے، جہاں سندھ کے معدوم ہوتی نسل والے پرندوں اور سانپ سمیت دیگر رینگنے والے جانوروں کو رکھا گیا ہے۔

    صوبے کے نایاب جنگلی جانوروں کی ممی اور تصاویر کو میوزیم کی زینت بنایا گیا ہے، میوزیم میں 19 اور 20 ویں صدی کے پرندوں اور جانوروں کی تصاویر بھی ہیں۔

    تحفظ جنگلی حیات کے محکمے نے اس میوزیم میں پہاڑی توتے، تیتر، ہرن، شیر، نایاب بلی، چھپکلی، سانپ اور کئی اقسام کے پرندوں کے نمونے محفوظ کیے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  خیرپور میں وائلڈ لائف کی بروقت کارروائی، جنگلی ریچھ بازیاب

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق اس میوزیم میں سندھ میں پائے جانے والے 320 اقسام اور نسلوں کے پرندوں، 135 رینگنے والے جانوروں اور حشرات، جب کہ 82 دیگر جنگلی حیات کے نمونے اور ان کی تصاویر رکھی گئی ہیں۔

    محکمے کا کہنا ہے کہ یہ میوزیم رواں ماہ عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ سندھ کے ریگستانی، ساحلی اور پہاڑی علاقے صدیوں سے نایاب نسل کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اندرون سندھ کے علاقے تھرپارکر میں آج بھی گوشت کے لیے نایاب ہرن کا شکار جاری ہے، رواں سال مئی میں سندھ کے علاقے فیض آباد گنج سے اسمگلرز سے نایاب جنگلی ریچھ بھی بازیاب کرایا جا چکا ہے، جسے پکڑ کر کتوں سے لڑائی کے لیے اسمگل کیا جا رہا تھا۔

    گزشتہ سال محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے ایک خفیہ اطلاع پر چھاپا مار کر کراچی کھڈا مارکیٹ سے 150 کلو گرام کچھوے کے خول اور 200 کلو گرام پین گولین کی کھالیں بھی برآمد کی تھیں۔

  • چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    برطانیہ کے چڑیا گھر میں ایشیائی علاقوں میں پائے جانے والے جانور سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا جس سے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    سرخ پانڈا، پانڈا کی ایک نایاب نسل ہے جو مغربی چین، بھارت، لاؤس، نیپال اور برما کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے سرخ بھالو بلی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی خوراک میں بانس کے علاوہ انڈے، پرندے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق سرخ پانڈا کو اپنی پناہ گاہوں یا رہائشی مقامات میں کمی کے باعث بقا کا خطرہ لاحق ہے۔

    گزشتہ 50 برس میں اس پانڈا کی آبادی میں 40 فیصد کمی آئی ہے جس کے بعد دنیا بھر میں اس پانڈا کی تعداد اب صرف 10 ہزار ہے۔ اسے اس کے نرم فر (بالوں) کی وجہ سے غیر قانونی طور پر شکار بھی کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں اس پانڈا کی افزائش نسل بھی کی جارہی ہے اور انہی اقدامات کے تحت انگلینڈ کے چیسٹر زو میں موجود سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔

    ان بچوں کی پیدائش نے سرخ پانڈا کو لاحق خطرات پر متفکر ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

  • جنگلی شیرآبادی میں اضافے کے باوجود خطرے میں

    جنگلی شیرآبادی میں اضافے کے باوجود خطرے میں

    جنیوا: تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ ایک صدی میں 23 سو سے زائد چیتے غیر قانونی طور پر شکا ر یا اسمگل کیے جاچکے ہیں، تحقیق میں شیروں کی حفاظت پر اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ رپورٹ شیروں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے تشکیل کردہ خصوصی ادارہ برائے جنوب مشرقی ایشیا کی سربراہ کنیتھا کرشناسامے نے مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 120 سے زائد شیر اسمگلروں کے قبضے سے چھڑائے جاتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 کے بعد سے اوسطاً دو شیر ہر ہفتے اسمگلنگ کے دوران بازیاب کرائے جارہے ہیں اور یہ صورتحال خوفناک ہے۔ ایسے حالات میں ان جانوروں کی بقا کے امکانات انتہائی کم ہوجاتے ہیں۔

    کنیتھا کرشناسامے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ شیروں کی بقا کی یہ جنگ ہم رفتہ رفتہ ہار رہے ہیں۔

    ادارے کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 1900 میں اس کرہ ارض پر جنگلوں میں آباد آزاد شیروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی لیکن سنہ 2010 میں یعنی محض 110 سال میں یہ تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہوکر 32 سو رہ گئی۔ یہ کسی بھی مخلوق کے فنا ہونے کی تیز ترین رفتار گردانی جارہی ہے۔

    عالمی سطح پر شیروں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات سے کچھ فائدے حاصل ہوئے ہیں حالیہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 39 سو کے قریب شیر جنگلات میں موجود ہیں۔ لیکن ان کی کھال اور جسمانی اعضا کے لیے بڑھتی ہوئی اسمگلنگ بتارہی ہے کہ ابھی بھی یہ نسل شدید خطرے سے دوچار ہے۔

    تحقیق کی مصنف کے مطابق اب باتیں کرنے کا وقت گزرچکا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں شیروں سے واقف ہوں تو ہمیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    گزشتہ 18 سال کے عرصے میں 32 ممالک سے مجموعی طور پر 2،359 شیروں کو بازیاب کرایا گیا ہے اور اس قدر بڑے پیمانے پر یہ اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ دنیا بھر کی حکومتوں کو شیروں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن میں جانوروں کا ان کی قدرتی پناہ گاہ میں تحفظ اور ان کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دینا شامل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومتوں کو شیر کے اعضا کی مارکیٹس کا بھی سدباب کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ شیر کے اعضا میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ اس کی کھال کی ہے ، ہر سال اوسطاً 58 کھالیں اسمگلنگ کی کارروائیوں کو ناکام بناتے ہوئے قبضے میں لی جاتی ہیں۔ لیکن جو اسمگل ہوجاتی ہیں ان کے صحیح اعداد وشمار میسر نہیں ہیں۔

  • معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    دنیا بھر میں آج چیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، تحفظ جنگلی حیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات میں اس وقت صرف 3 ہزار 900 چیتے موجود ہیں۔

    امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی اور ان کا اپنا شکار ہوجانا شامل ہے۔

    چیتے کا شکار ان کے جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے، بعض اوقات ننھے چیتوں کو زندہ پکڑ کر ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے، یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    چیتوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کے غیر قانونی فارمز بھی ہیں۔ یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان فارمز کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے تاہم عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: اندرون سندھ گوشت کے لیے نایاب ہرن کے شکار کا سلسلہ بدستور جاری ہے، وائلڈ لائف ٹیم نے اسلام کوٹ کے قریب چھاپا مار کر 4 نایاب ہرن برآمد کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں محکمہ جنگلی حیات نے ایک اور چھاپے میں چار عدد نایاب ہرن بر آمد کر لیے ہیں۔

    وائلڈ لائف ذرایع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے ایک ہوٹل پر ہرن کا گوشت فروخت کیا جا رہا تھا، ہوٹل انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی لائسنس حاصل نہیں کیا تھا اور بغیر لائسنس ہرن رکھے ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 7 تاریخ کو عمر کوٹ میں بھی نایاب ہرن کی اسمگلنگ کی ایک کوشش ناکام بنائی گئی تھی، رینجرز نے ملزمان کی گاڑی ایک چیک پوسٹ پر روکی تو وہ گاڑی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    متعلقہ خبریں پڑھیں:  عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا تھا، بعد ازاں رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمر کوٹ: سندھ کے ضلعے عمر کوٹ میں رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز نے عمر کوٹ میں دو نایاب نسل کے ہرنوں کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی، ملزمان گوسٹرو رینجرز چیک پوسٹ پر اہل کاروں کو دیکھ کر گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا، رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    رینجرز ذرایع کا کہنا ہے کہ فرار ہونے والے ملزمان کا تعلق تھر کے گاؤں باڑان سے ہے۔ خیال رہے کہ تھر میں نایاب ہرنوں کا شکار اور اسمگلنگ ایک عرصے سے جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • پرندوں کو بھی انصاف مل  گیا، عدالتی حکم پر  سینکڑوں چڑیوں کو آزاد کردیا

    پرندوں کو بھی انصاف مل گیا، عدالتی حکم پر سینکڑوں چڑیوں کو آزاد کردیا

    لاہور : عدالتوں سے انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں کو بھی انصاف مل گیا ، پنجرے میں قید سینکڑوں چڑیوں کو عدالتی حکم پر آزادی مل گئی جبکہ ملزمان کو تیس تیس ہزار کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وائلڈ لائف نےگزشتہ روزگرفتار 4 ملزمان کوکینٹ کچہری میں پیش کیا ، وائلڈ لائف اسٹاف نے 4ملزمان کو زندہ چڑیاں فروخت کرتے ہوئے گرفتار کیا۔

    وائلڈ لائف نے پنجرے میں قید سینکڑوں چڑیوں کوجوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا، جس پر عدالت نے پنجرے میں قید کی گئی چڑیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔

    جوڈیشل مجسٹریٹ ندیم احمد نے گرفتار ملزمان کو تیس تیس ہزار کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ، ملزمان میں محمد اسلم ، محمد اکرم، عبدالعزیز اور لیاقت مسیح شامل ہیں۔

  • تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھرپارکر: سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے، تھر میں بھوک پیاس کے مارے ہرن شکاریوں کا آسان ہدف بن گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرایع کا کہنا ہے کہ تھر کے تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، ایک جانب تھر میں غذا کے ذرایع کی کمی کے باعث جانور مر رہے ہیں، دوسری جانب مصیبت زدہ ہرنوں کو شکار کیا جانے لگا ہے۔

    تھرپارکر کے علاقے کرانگڑی کے شکاریوں کی ہرن ذبح کرنے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ سرحدی دیہات میں ہرن ذبح کر کے شہروں میں گوشت مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے، دوسری طرف افسوس ناک امر یہ ہے کہ وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن نے اعتراف کیا ہے کہ نشان دہی ہونے اور ٹھوس ثبوت کے باوجود کارروائی نہیں کر سکتے۔

    نمایندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق نایاب ہرن کا گوشت کراچی، حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے امیر لوگ خریدتے ہیں جو ہرن کا گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ چند دن قبل تھرپارکر میں ہرن کا گوشت فروخت کرنے والے چند لوگوں کو پکڑا گیا تھا لیکن محکمہ وائلڈ لائف نے چند پیسوں کے عوض انھیں چھوڑ دیا۔

    تازہ خبریں پڑھیں: امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرایا گیا۔

    اشفاق میمن نے یہ بھی بتایا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • خیرپور میں وائلڈ لائف کی بروقت کارروائی، جنگلی ریچھ بازیاب

    خیرپور میں وائلڈ لائف کی بروقت کارروائی، جنگلی ریچھ بازیاب

    خیرپور: محکمہ وائلڈ لائف اندورنِ سندھ کے علاقے فیض آباد گنج سے ریچھ کو بچا لیا البتہ ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگی حیات کے حکام کو اطلاع موصول ہوئی کہ خیرپور کے علاقے فیض گنج میں ایک رویچھ کو کتوں سے لڑائی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

    وائلڈ لائف حکام نے فیض آباد میں چھاپہ مار کر جنگلی ریچھ برآمد کرلیا جبکہ ملزمان ٹیم کی اطلاع ملنے کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔ حکام نے ریچھ کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔

    وائلڈ لائف حکام کے مطابق ریچھ کو بہت جلد اسلام آباد میں جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کو دے دیا جائے گا جبکہ پولیس نے ملزمان کی تلاش کا کام شروع کردیا۔

    یاد رہے کہ اندرونِ سندھ کے مختلف علاقوں میں ریچھ اور کتوں کے درمیان لڑائی کے غیر قانونی مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، پولیس مقابلوں کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی کرتی ہے۔

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔