Tag: وائلڈ لائف

  • فارمولا ای کار بمقابلہ چیتا: ایک فریق کی فنا کی طرف دوڑ

    فارمولا ای کار بمقابلہ چیتا: ایک فریق کی فنا کی طرف دوڑ

    دنیا بھر میں تیز رفتار ترین گاڑیوں کے مقابلے فارمولا ون کار ریسنگ کے بعد فارمولا ای کار ریسنگ بھی متعارف کروائی گئی جو اب تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اگر فارمولا ای کار اور چیتے کے درمیان مقابلہ کروایا جائے تو کون جیتے گا؟

    سنہ 2014 میں متعارف کروائی جانے والی اس ریس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حصہ لینے والی تمام گاڑیاں بجلی سے چلنے والی یا الیکٹرک گاڑیاں ہوتی ہیں۔

    ریس کی انتظامیہ نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں فارمولا ای کار اور چیتے کو مدمقابل دکھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چیتا دنیا کا سب سے زیادہ تیز رفتار دوڑنے والا جانور ہے۔

    فارمولا ای کار ریسنگ کے سربراہ الجنڈرو ایگ کا کہنا تھا کہ ہم اس انوکھی ریس کا نتیجہ جاننے کے لیے بہت بے قرار اور پرجوش تھے۔

    تاہم چیتے کے ساتھ اس ریس کی وجہ صرف ایک تجربہ نہیں تھا۔ اس کا مقصد کچھ اور بھی تھا۔

    فارمولا ای کار ریسنگ کے سربراہ نے کہا کہ اس ویڈیو کا اصل مقصد چیتوں کی معدومی کی طرف توجہ دلانا ہے۔

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا 9 فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی (یا انسانوں کا انہیں شکار کرلینا)، جسمانی اعضا کے حصول کے لیے غیر قانونی تجارت اور پالتو بنانے کے لیے تجارت شامل ہے۔

    یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    ای کار ۔ دنیا کا مستقبل

    دوسری جانب الجنڈرو ایگ کا کہنا ہے کہ ای کار ریسنگ کو شروع کرنے کا مقصد بھی دنیا کو ماحول دوست ذرائع سفر کی طرف راغب کرنا ہے۔ ’جتنا زیادہ ہم الیکٹرانک گاڑیوں کا استعمال کریں گے اتنا ہی زیادہ ہمارے کاربن کے اخراج میں کمی آتی جائے گی اور ہم موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے قابل ہوسکیں گے‘۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری بہتری اسی میں ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ماحول مہیا کریں جو اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنا کاربن اخراج کم کرسکیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    ہم نے اسکول میں پڑھا ہے کہ دنیا کا لمبا ترین اور لمبی گردن رکھنے والا جانور زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔ درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    زرافہ دنیا کا لمبا ترین ممالیہ ہے۔ نر زرافوں کی لمبائی عموماً 5.5 میٹر ہوتی ہے جبکہ مادہ زرافہ اس سے ذرا سی ہی چھوٹی ہوتی ہے۔

    g3

    ڈارون کے نظریہ ارتقا کے تحت زرافے کی لمبی گردن کا نظریہ یوں پیش کیا گیا کہ دیگر جانوروں سے غذا کے حصول کے لیے لڑائی کے باعث زرافوں نے ان جگہوں پر پہنچنے کی کوشش کی جہاں دوسرے جانور نہیں پہنچ سکتے تھے یعنی درختوں کی اونچی شاخوں تک۔

    جب زرافوں نے اس عادت کو اپنا معمول بنا لیا تو ان کے جسم نے آہستہ آہستہ اس عادت سے مطابقت شروع کردی۔

    ہر نئے پیدا ہونے والے زرافے میں گردن اور ٹانگوں کی لمبائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس سے قبل زرافے دیگر جانداروں کی طرح اوسط قد کے تھے اور ان کی ٹانگیں اور گردن بھی عام لمبائی کی حامل تھی۔

    یہ ارتقا کئی نسلوں (اندازاً 10 لاکھ سال) تک چلا یہاں تک یہ خصوصیات زرافے کی نسل میں مستقلاً آگئیں۔ یوں کئی نسلوں کا فرق رکھنے والوں زرافوں میں زمین آسمان کا فرق آگیا اور زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔

    g2

    مگر ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق زرافے کے جسمانی ارتقا کی وجہ یہ نہیں ہے۔

    اس رپورٹ میں ایک ماہر حیوانیات رابرٹ سمنز کا ذکر کیا گیا جس نے 1996 میں ایک تحقیق پیش کی تھی۔ تحقیق کے مطابق زرافے تمام وقت اونچی شاخوں سے نہیں کھاتے تھے۔ جب موسم خشک ہوتا تھا اس دوران وہ زمین پر لگے نباتات سے اپنی بھوک مٹاتے تھے۔

    اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    g1

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممکن ہے جن زرافوں کی گردن لمبی ہوتی ہو وہ لڑائی میں جیت جاتے ہوں۔ ایک مشاہدہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مادہ زرافہ بھی ان زرافوں کی جانب زیادہ متوجہ ہوتی ہیں جن کی گردن دوسرے زرافوں سے لمبی ہوتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دنیا بھر میں 2 سر والے جانوروں کی پیدائش ایک عام بات ہے تاہم تھائی لینڈ میں ایک ننھے سے کچھوے نے سب کو حیران کردیا جس کے دو سر موجود تھے۔

    یہ انوکھا کچھوا تھائی لینڈ کے ایک کچھوا پالنے والے شخص کے پاس موجود ہے جو کچھوؤں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں بے شمار نایاب کچھوے دیکھے لیکن 2 سر والا ننھا کچھوا جس کی عمر اب 3 ماہ ہے انہوں نے پہلی بار دیکھا ہے۔

    سبز رنگ کا یہ منفرد کچھوا علاقے کے تمام افراد کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

    اس کے مالک نے اس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا، ’لوگ کہتے ہیں کہ کچھوے سست ہوتے ہیں، مگر یہ کچھوا نہایت تیزی سے حرکت کر رہا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پالتو چیتے کی دلچسپ سرگرمیاں

    پالتو چیتے کی دلچسپ سرگرمیاں

    بعض دولت مند افراد شیر یا چیتے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دولت مند شخص اپنے پالتو چیتے کی وجہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر بے حد مقبول ہورہا ہے جس کے پالتو چیتے کی سرگرمیاں کافی دلچسپ ہیں۔

    روس کے اس دولت مند شخص نے اپنے پالتو چیتے مہل ٹائیگر کے نام سے ایک صفحہ بنا رکھا ہے جس پر وہ اکثر و بیشتر پالتو شیروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پالتو جانور رکھنے کے حیران کن فوائد

    تصاویر اور ویڈیوز میں دکھائی دینے والا چیتا اس قدر معصوم اور دوستانہ مزاج کا حامل نظر آتا ہے کہ اس نرم ملائم سے شیر کو دیکھ کر بے ساختہ اس پر پیار آنے لگتا ہے۔

    اس دولت مند شخص کے پاس صرف یہ چیتے ہی نہیں بلکہ سفید چیتے اور دیگر جنگلی جانور بھی موجود ہیں۔

    اس کا پالتو چیتا کبھی اس کے ساتھ گھومنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔

    With money you can have any pet you want Courtesy of @mihail_tiger

    A post shared by The Luxury Kids (@theluxurykids) on

    کبھی وہ سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگاتا دکھائی دیتا ہے۔

    بعض اوقات وہ دلچسپ کھیل کھیلتا دکھائی دیتا ہے۔

    کھیل ہی کھیل میں وہ لان میں لگی اشیا کو نقصان بھی پہنچا دیتا ہے جن پر بعد میں پشیمان بھی ہوتا ہے۔

    اور بعض دفعہ یہ کھلے سمندر میں بھی شوق سے تیرتا دکھائی ہے۔

    اور جب اس چیتے کے بچے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا مالک انہیں زنجیر سے باندھ دیتا ہے کہ کہیں وہ گر نہ پڑیں۔

    اس شخص کے گھر میں موجود تمام جانور آپس میں بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور یہ تمام خطرناک جانور نہایت امن سے وہاں رہتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ننھے بنگال ٹائیگر کا پیارا سا دوست

    ننھے بنگال ٹائیگر کا پیارا سا دوست

    کیلی فورنیا: امریکا سے میکسیکو کی طرف اسمگل کیا جانے والا ایک ننھا سا بنگال ٹائیگر، جسے بروقت بچا لیا گیا تھا، اب اپنے نئے دوست کے ساتھ نہایت خوش باش ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع سان ڈیاگو چڑیا گھر میں رکھا گیا یہ بنگال ٹائیگر اگست میں امریکا سے میکسیکو کی طرف اسمگل کیا جارہا تھا۔

    حکام نے بروقت کارروائی کر کے ننھے چیتے کو پکڑ کر مذکورہ چڑیا گھر کے حوالے کردیا۔

    اب انتظامیہ نے اس کے لیے ایک اور ننھے سے دوست کا بھی انتظام کردیا ہے جو سماٹرن ٹائیگر کا اپنی ماں کی جانب سے مسترد کیے جانے والا بچہ ہے۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ نے دونوں چیتوں کی کھیلتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کی ہے جو نہایت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دادی پانڈا کی 35 ویں سالگرہ

    دادی پانڈا کی 35 ویں سالگرہ

    بیجنگ: چین میں 35 سالہ مادہ پانڈا کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس مادہ پانڈا کے بچوں اور ان سے پیدا ہونے والے مزید بچوں کی تعداد 118 ہے۔

    جنوب مغربی چین کے شہر چونگ کنگ کے چڑیا گھر میں موجود اس مادہ پانڈا کی 35 ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی۔

    اس موقع پر پانڈا کی کیک اور اس کی پسندیدہ خوراک بمبوز یعنی بانس سے اس کی تواضع کی گئی۔ پس منظر میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا گانا بھی بجایا گیا۔

    سنہ 1982 میں پیدا ہونے والی زنگ زنگ دنیا کی طویل العمر مادہ پانڈا میں سے ایک ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس کی اولادیں اور ان کی اولادیں امریکا، کینیڈا اور جاپان سمیت دنیا بھر کے 20 مختلف ممالک میں پرورش پا رہی ہیں۔

    سنہ 2002 میں زنگ زنگ نے 20 سال کی عمر میں حاملہ ہو کر پانڈا کی سب سے طویل العمری میں ہونے والے حمل کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس وقت اس نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس پانڈا کو نہایت خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور باقاعدگی سے طبی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ تاحال اسے ایسا کوئی طبی مسئلہ نہیں جو اس کے لیے جان لیوا بن سکتا ہو۔

    یاد رہے کہ پانڈا کی مجموعی طبعی عمر 15 سے 20 سال تک ہوتی ہے۔ تاہم اگر انہیں دیکھ بھال کے ساتھ انسانی نگرانی میں رکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ 30 سال تک جی سکتے ہیں۔

    پانڈا کی یہ عمر انسانوں کی 90 سال کی عمر کے برابر ہوتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جیپ کے پہیوں میں پھنسی مادہ کوالا معجزاتی طور پر بچ گئی

    جیپ کے پہیوں میں پھنسی مادہ کوالا معجزاتی طور پر بچ گئی

    سڈنی: آسٹریلیا کا ایک مقامی جانور کوالا ایک جیپ کے پہیوں میں جا پھنسا اور جیپ کے 10 میل تک سفر کے باوجود معجزاتی طور پر زندہ بچ گیا۔

    یہ مادہ کوالا کسی طرح جیپ کے پہیوں کے درمیان خالی جگہ میں جا بیٹھی تھی اور سفر کے دوران جھٹکوں اور پہیوں کی رگڑ سے مسلسل اذیت کا شکار تھی حتیٰ کہ ڈرائیور نے اس کی کراہنے کی آوازیں سنیں۔

    جیپ کے ڈرائیور نے گاڑی روک کر جب کوالا کو وہاں پھنسا ہوا پایا تو اس نے پہلے فائر بریگیڈ کو مدد کے لیے طلب کیا۔

    تاہم بعد ازاں جنگلی حیات کے اہلکار بھی وہاں آ پہنچے اور جیپ سے مذکورہ پہیہ نکال کر مادہ کوالا کو آزاد کیا گیا۔

    ایک وائلڈ لائف اہلکار کے مطابق مادہ کوالا کے بالوں سے جلنے کی بو بھی آرہی تھی۔

    گو کہ کوالا کو فوری طور پر طبی امداد دے دی گئی اور اس کی جان بچ گئی، تاہم وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ یہ کوالا دودھ پلانے والی مادہ ہے اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم بالکل بے خبر ہیں کہ اب اس کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں۔

    مادہ کوالا کی کچھ دن دیکھ بھال کرنے کے بعد اسے جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    صرف آسٹریلیا میں پایا جانے والا یہ ممالیہ جانور معدومی کے خطرے کا شکار بھی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ان کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے نایاب ترین گمشدہ پرندے کا سراغ مل گیا

    دنیا کے نایاب ترین گمشدہ پرندے کا سراغ مل گیا

    سڈنی: آسٹریلیا میں دنیا کے ایک نایاب ترین پرندے کا پر پایا گیا ہے۔ ماہرین جنگلی حیات کے مطابق یہ گزشتہ ایک صدی میں اس پرندے کی موجودگی کا پہلا سراغ ہے۔

    نائٹ پیرٹ نامی اس پرندے کو دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی حیات کا درجہ حاصل ہے اور اسے معدوم خیال کیا جارہا تھا حتیٰ کہ سنہ 2013 میں آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ ریاست سے ایک ماہر جنگلی حیات نے اس کے تصویری ثبوت پیش کیے۔

    بعد ازاں اس پرندے کو مغربی آسٹریلیا میں بھی دیکھا گیا۔

    دو آسٹریلوی ماہرین جنگلی حیات کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی یہ دریافت ایک نواحی قصبے آئر کی جھیل میں ہوئی جہاں زیبرا فنچ نامی پرندے کے گھونسلے میں ایک مختلف قسم کا زرد و سبز سا پر نظر آیا۔

    ان کے مطابق یہ پر زیبرا فنچ نامی ان پرندوں کا ہرگز نہیں تھا جو وہاں پر رہائش پذیر تھے۔

    زیبرا فنچ

    مزید تحقیق کے بعد انکشاف ہوا کہ انہیں معدوم سمجھے جانے والے نائٹ پیرٹ کا سراغ ملا ہے اور یہ پر اسی کا ہے۔ اب اس بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں گی۔

    سنہ 2012 میں اسمتھ سنین نامی میگزین نے نائٹ پیرٹ کو دنیا کے 5 پراسرار ترین پرندوں میں سے ایک قرار دیا تھا جن کے بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں تھیں کہ آیا یہ اب اپنا وجود رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔

    عالمی تنظیم برائے تحفظ حیات آئی یو سی این نے بھی اس پرندے کو معدومی کے خطرے کا شکار پرندہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سائنسی اندازوں کے مطابق دنیا بھر کے مختلف جنگلات میں ان کی تعداد 50 سے 250 کے درمیان ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہ چلتن نامی پہاڑ بھی شامل ہے جو دلکش مناظر کے ساتھ پہاڑی بکروں کی ایک نایاب نسل کا خوبصورت مسکن ہے۔

    وادی کوئٹہ کے جنوب مغرب میں واقع کوہ چلتن میں 100 سے زائد اقسام کے نایاب جنگلی جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جن کے تحفظ کے لیے 27 ہزار سے زائد ایکڑ پر محیط اس پہاڑی سلسلے کو سنہ 1980 میں ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔

    اس پہاڑی سلسلے میں مارخور کی ایک نایاب نسل بھی موجود ہے جو پاکستان کے قومی جانور سلیمان مارخور اور بلوچستان کے جنگلی بکرے کے اختلاط (کراس بریڈ) سے وجود میں آیا ہے۔

    چلتن مارخور

    مقامی افراد اسے چلتن مار خور کے نام سے جانتے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چلتن مارخور دنیا بھر میں معدومی کے خطرے کا شکار ہے تاہم پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے سرکاری و انفرادی دونوں سطحوں پر کام کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ دونوں اقسام کے مارخوروں میں سینگوں کا فرق ہے۔ قومی جانور سلیمان مارخور کے سینگ بل کھاتے ہوئے ہیں جبکہ چلتن مارخور کے سینگ سیدھے ہیں۔

    پاکستان کا قومی جانور ۔ سلیمان مارخور

    کوہ چلتن ۔ قدرت کا شاہکار

    کوہ چلتن کی خوبصورتی چاروں موسموں میں بے مثال ہے۔

    یہاں بسنے والے لومڑی، بھیڑیے، خرگوش اور پہاڑی بکرے اس مقام کو ایک خوبصورت مقام میں تبدیل کردیتے ہیں جہاں فطرت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

    یہاں موجود جنگلی انجیر، دیگر پھلوں کے درخت اور مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اس مقام کے حسن کو مزید دوبالا اور ماحول کو معطر کیے رکھتی ہیں جبکہ جنگلی پرندوں کی چہچاہٹ دلوں کو خوشی سے بھردیتی ہے۔

    کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے بلند پہاڑوں میں ہوتا ہے جو کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔

    بلوچستان کے لوک گیتوں میں بہادری اورخوبصورتی کے لیے چلتن کے نام کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس پہاڑ سے مختلف کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ یہ ایک حسین تحفہ ہے جو قدرت نے اس سرزمین کو نوازا ہے۔

    خصوصی رپورٹ: منظور احمد رپورٹر کوئٹہ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ساؤ پاؤلو: برازیل میں ایمازون کے جنگلات میں سائنس دانوں نے مختلف جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت کی ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ نو دریافت شدہ تمام اقسام ان علاقوں میں ہیں جو انسانی مداخلت کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اور برازیل میمروا انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ان نو دریافت شدہ جنگلی حیات میں 216 نباتات، 93 مچھلیاں، 32 دیگر سمندری حیات، 19 رینگنے والے جانور (حشرات الارض)، ایک پرندہ جبکہ 20 ممالیہ جانور شامل ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ایمازون میں گزشتہ 17 سالوں میں اب تک جنگلی انواع کی 2 ہزار سے زائد اقسام دریافت کی جاچکی ہیں، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ادارے کےمطابق حال ہی میں دریافت کی جانے والی 381 اقسام ایمازون جنگل کے ان حصوں میں ہیں جہاں انسانی عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف برازیل کے پروگرام کو آرڈینیٹر رکارڈو میلو کا کہنا ہے کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ جنگلی حیات کی وہ اقسام معدوم ہوجائیں جو ابھی دنیا کے سامنے بھی نہیں آںے پائیں۔

    یاد رہے کہ ایمازون کے جنگلات رین فاریسٹ کی خاصیت رکھتے ہیں یعنی جہاں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    ایمازون کے جنگلات دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔