Tag: وائلڈ لائف

  • ہاتھی دانت کی تجارت ۔ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بند ہوجائے گی؟

    ہاتھی دانت کی تجارت ۔ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بند ہوجائے گی؟

    بیجنگ: چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال کے آخر تک ملک میں ہونے والی ہاتھی دانت کی تمام تجارت پر پابندی عائد کردے گا جس کے بعد امید ہے کہ ہاتھی دانت کی، دنیا کی سب سے بڑی غیر قانونی مارکیٹ کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    چین نے یہ فیصلہ ہاتھی دانت کی تجارت میں بے پناہ اضافہ اور اس کے باعث ہونے والی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی کے باعث دنیا بھر کے دباؤ کی وجہ سے کیا ہے۔

    چین اور امریکا ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے دنیا کی دو بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا ہے۔

    ivory-3

    ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اسے سفید سونا کہا جاتا ہے، اور یہی اس کے شکار کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    ہاتھی دانت کو زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے یہ نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    ivory

    ivory-2

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی تجارت نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

    elephants

    چین میں تحفظ جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے افراد ایک عرصہ سے ہاتھی دانت کی تجارت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر جب چین ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، جنگلی حیات کی اس قسم کی غیر قانونی تجارت چین کا چہرہ مسخ کرنے کے برابر ہے۔

    تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب اس پابندی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے۔

  • چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی تیز رفتاری کے لیے مشہور چیتے تیزی سے معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کی پناہ گاہوں میں کمی اور قدرتی ماحول میں انسانی مداخلت ہے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    cheetah1

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) کے تحفظ اور اور ان کے پھیلاؤ کی ہنگامی بنیادوں پر ضروت ہے بصورت دیگر چیتے بہت جلد ہماری دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: معبد سے چیتے کے 40 بچوں کی لاشیں برآمد

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی (یا انسانوں کا انہیں شکار کرلینا)، جسمانی اعضا کے حصول کے لیے غیر قانونی تجارت اور پالتو بنانے کے لیے تجارت شامل ہے۔ یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    رواں برس چیتوں کے عالمی دن کے موقع پر منعقد کیے جانے والی کانفرنس میں ماہرین نے چیتوں کے غیر قانونی فارمز کو بھی ان کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

    cheetah2

    یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • پینگولین کی کھال کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی

    پینگولین کی کھال کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی

    شنگھائی: چین میں جانوروں کی اسمگلنگ کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی جس میں پینگولین کی کھال کو اسمگل کیا جارہا تھا۔ ان کھالوں کا وزن 3 ٹن تھا۔

    چینی سرکاری میڈیا کے مطابق نائجیریا سے آنے والی اس کھیپ کو لکڑی کی مصنوعات کے ایک کنٹینر میں رکھا گیا تھا۔ کسٹم اہلکاروں نے ٹرک کے ساتھ آنے والے افراد کو گرفتار کرلیا ہے جو مبینہ طور پر اس سمگلنگ میں ملوث ہیں۔

    ماہرین کا اندازہ ہے کہ 3 ٹن کی کھال کے حصول کے لیے کم از کم ساڑھے 7 ہزار پینگولینوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہوگا۔

    چینی میڈیا کے مطابق پینگولین کی کھال غیر قانونی طور پر 700 ڈالر فی کلو گرام فروخت ہوتی ہے اور پکڑی جانے والی کھال کی مالیت 2 ملین ڈالر سے زائد ہے۔

    dress
    پینگولین کی کھال سے تیار کردہ بیش قیمت لباس

    گو کہ چین میں اس جانور کو خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے اور اس کی تجارت پر مکمل پابندی عائد ہے تاہم اس کے باوجود وہاں پینگولین کی غیر قانونی تجارت جاری ہے۔

    واضح رہے کہ پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جانے والا ممالیہ ہے۔ اس کی کھپلی نما کھردری کھال چین کی روایتی دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے جبکہ چین، جاپان، تائیوان اور کوریا میں اس کا گوشت بے حد شوق سے کھایا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پینگولین کی اسمگلنگ میں تیزی سے ہوتے اضافے کے باعث بر اعظم ایشیا میں اس کی معدومی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

    pangolin-2

    سنہ 1975 میں جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔

    اس معاہدے کے مرکزی خیال پر کچھ عرصہ قبل منعقد کی جانے والی کانفرنس میں مختلف ممالک کی حکومتوں نے پینگولین کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • ‘ہٹ جاؤ! یہ میرا علاقہ ہے’

    ‘ہٹ جاؤ! یہ میرا علاقہ ہے’

    آپ نے اب تک انسانوں کو تو زر اور زمین کے لیے لڑتا دیکھا ہوگا، اور جانوروں کو زن یعنی اپنی مادہ کے لیے بھی لڑتے دیکھا ہوگا۔

    لیکن کسی جانور کو زمین کے لیے نہیں لڑتے دیکھا ہوگا، اور جانور بھی وہ جسے اپنی جگہ سے حرکت کرنے کے لیے ہی لمبا وقت درکار ہو، یعنی کچھوا۔

    جنوبی افریقہ کے ایک سفاری پارک میں کیمرے نے دو ایسے ہی کچھوؤں کا منظر محفوظ کرلیا جو اپنے ’علاقے‘ کے لیے لڑ رہے تھے۔

    یہ ایک بہت ہی نایاب منظر ہے جس میں سست الوجود کچھوے تیزی اور پھرتی سے ایک دوسرے سے لڑتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا منظر شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے اور انسان کی ریس میں کچھوے کو شکست

    آپ نے اس سے پہلے کچھوؤں کی ریس کی داستان سنی ہوگی جس میں وہ اپنی مستقل مزاجی سے تیز رفتار خرگوش کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

    تاہم یہ منظر بھی آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا جس میں کچھوؤں کا نیا روپ دکھائی دے رہا ہے۔

  • زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    نیروبی: افریقی جنگلات کی خوبصورتی اور قدرتی حسن میں اضافہ کرنے والے معصوم زرافوں کو بھی اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زرافوں کی نسل بہت آہستگی سے معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی سرخ فہرست برائے خطرے کا شکار نسل کے مطابق دنیا کے سب سے طویل القامت اس جانور کی آبادی میں سنہ 1980 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد خاصی گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    giraffe-2

    آئی یو سی این نے زرافوں کو خطرے سے دو چار جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرافوں کی آبادی میں سب سے زیاہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔ موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی اس کے دیگر عوامل ہیں۔

    giraffe-6

    سرخ فہرست میں افریقہ کے سرمئی طوطے کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انسانوں کی ہو بہو نقل اتارنے کے لیے مشہور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے اس پرندے کو پکڑ کر قید کیا جا رہا ہے جس کے بعد اسے دنیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    دوسری جانب ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے جانوروں کو اپنی بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

  • کھاؤں یا نہیں؟ شیر نے شکار کا ارادہ بدل دیا

    کھاؤں یا نہیں؟ شیر نے شکار کا ارادہ بدل دیا

    نئی دہلی: ویسے تو شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اور وہ کسی سے ڈرتا معلوم نہیں ہوتا، لیکن بعض اوقات وہ اپنے موڈ کا غلام بھی معلوم ہوتا ہے اور موڈ نہ ہونے پر شکار کا ارادہ بھی بدل دیتا ہے۔

    بھارتی ریاست اتر کھنڈ میں واقع جم کوربٹ نیشنل پارک میں کیمرے نے شیر کی ایسی ہی کشمکش کو قید کیا جس میں وہ سوچتا نظر آرہا ہے کہ آیا وہ حملہ کرے یا نہیں۔

    پارک میں یہ واقعہ ایک سیاحتی گروپ کے ساتھ پیش آیا جس میں نصف افراد ایک گاڑی میں موجود تھے جبکہ بقیہ نصف ہاتھی کی سواری کر رہے تھے۔

    شیر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہاتھی کی طرف حملے کی نیت سے دوڑ لگائی لیکن شاید آدھے راستے میں اسے خیال آیا کہ اپنے سے دوگنی جسامت کے شکار پر حملہ کرنا کوئی عقلمندی نہیں، چنانچہ وہ اپنا ارادہ بدل کر واپس جھاڑیوں کی طرف چلا گیا۔

    اس دوران اس نے جیپ میں موجود افراد پر حملے سے بھی گریز کیا۔

    اس ویڈیو کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ شاید شیر کا پیٹ بھرا ہوا تھا اور وہ کچھ کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔

  • آسٹریلیا کی متنوع جنگلی حیات

    آسٹریلیا کی متنوع جنگلی حیات

    آسٹریلیا دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم لیکن دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ چاروں طرف سے سمندر میں گھرے ہوئے اس ملک میں نہایت متنوع جنگلی حیات، ماحول اور قدرتی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    حال ہی میں آسٹریلیا کی ایکولوجیکل سوسائٹی نے ایک تصویری مقابلے کا انعقاد کروایا جس میں شرکا کو دعوت دی گئی کہ وہ آسٹریلیا کی جنگلی حیات کی ایسے منظر کشی کریں جو اس سے پہلے نہ کی گئی ہو۔

    مقابلے میں حصہ لینے والے ماہر، پیشہ ور اور شوقیہ فوٹوگرافرز نے نہایت خوبصورت تصاویر پیش کیں جنہیں اب سیاحتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    تو اگر آپ بھی آسٹریلیا جارہے ہیں تو جانے سے پہلے دیکھ لیں کہ آپ دنیا کی متنوع اور حسین ترین جنگلی حیات کو دیکھنے جارہے ہیں، اور اگر آپ آسٹریلیا نہیں جا رہے تو یہ تصاویر یقیناً آپ کو مجبور کردیں گی کہ آپ زندگی میں ایک بار آسٹریلیا ضرور جائیں۔

    111

    2

    4

    5

    8

    9

    10

    12

    مقابلے میں قدرتی مناظر کی کیٹگری میں یہ تصاویر پیش کی گئیں۔

    14

    1

    7

    3

    6

  • جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    لندن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام تیزی سے بدلتے ہوئے موسم یعنی کلائمٹ چینج سے مطابقت نہیں کر سکیں گی جس کے باعث ان کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    ایک نئے تحقیقی مقالے میں 50 ایسے جانوروں، پرندوں اور پودوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو تیزی سے بدلتے موسموں سے مطابقت نہیں کرسکیں گے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کئی رینگنے والے جانور، آبی حیات اور پودے کلائمٹ چینج کے باعث خاص طور پر معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ان جانداروں کو ہے جو گرم خطوں کے رہنے والے ہیں۔ کلائمٹ چینج یعنی موسموں میں تبدیلی کا سب سے اہم پہلو گلوبل وارمنگ یعنی دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ ہے جس کے باعث نہ صرف ٹھنڈے علاقوں میں مجموعی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بلکہ گرم علاقوں کا موسم بھی مزید گرم ہورہا ہے۔

    leopard

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انسان کی طرح کئی جاندار بھی ہجرت کر جائیں گے اور نئے ٹھکانے تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن بہت سے ایسے ہوں گے جو اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے کے قابل نہیں ہوں گے نتیجتاً وہ موت کا شکار ہوتے جائیں گے۔

    ماہرین کے مطابق موجودہ درجہ حرات بھی جانداروں کی کئی اقسام کو ان کی جگہوں سے ہجرت پر مجبور کرچکا ہے۔

    مقالے میں شامل ڈاکٹر وائنز کا کہنا ہے کہ پانی میں رہنے والے اور رینگنے والے جانداروں کی نسبت ممالیہ جانور اور پرندوں کا مستقبل کچھ بہتر ہے کیونکہ وہ اپنا جسمانی درجہ حرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دہرا خطرہ ہے، ایک تو موسم میں تبدیلی، جسے ہم بدتر تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری اپنی پناہ گاہوں سے محرومی۔

    birds

    اس سے قبل بھی لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    رپورٹ میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کا مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    :جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • پانڈا کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگی

    پانڈا کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگی

    آپ جب بھی کسی جگہ سے نئی جگہ منتقل ہوتے ہوں گے تو آپ کو نئی جگہ سے مطابقت پیدا کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ کچھ افراد جب گھر سے دور ہوتے ہیں تو انہیں بری طرح گھر کی یاد ستاتی ہے اور وہ ہوم سکنیس کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    یہ صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کا بھی مسئلہ ہے۔ ایسی ہی ہوم سکنیس کا شکار آج کل دو پانڈا بھی ہیں جو امریکا سے چین لائے گئے ہیں اور یہ اپنے گھر کو بری طرح یاد کر رہے ہیں۔

    panda-3

    یہ جڑواں پانڈا می لن اور می ہان جن کی عمریں 3 سال ہیں ان پانڈا میں سے ہیں جو امریکا میں پیدا ہوئے اور بغیر کسی بیماری کے 3 سال کی عمر تک پہنچ گئے۔ ان پانڈا کی مزید بہتر طریقے سے دیکھ بھال کرنے کے لیے انہیں چین کے تحقیقی مراکز برائے پانڈا میں منتقل کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ چین اس وقت پانڈا کی نسل کے تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات اٹھا رہا ہے جن کی وجہ سے چین میں ان کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے اور اب یہ نسل معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئی ہے۔

    ان دونوں پانڈا کے والدین چینی النسل ہی تھے تاہم ان کو بہتر تعلقات کے قیام کے لیے ’پانڈا ڈپلومیسی‘ کے تحت امریکا بھجوایا گیا تھا جہاں ان دونوں کی پیدائش ہوئی۔ تاہم اب آبائی وطن کو واپس لوٹنا ان پانڈا کے لیے کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے اور یہ بری طرح سے اپنے پرانے گھر کو یاد کر رہے ہیں۔

    As sad as it is to see the Meis leave, it is an important step for them and for their species. In another couple years they will be of breeding age and therefore be able to contribute to their species and carry on the Yang-Lun legacy. If they were to stay here they would not have the ability to reproduce as there are no unrelated males here and only space for one breeding pair. After their flight and routine quarantine period, I have no doubt that they will adjust to their new life in China. There is a very dedicated group of people that work at the Chendgu Research Base and I have all the confidence that they will help the girls adjust as they have with our previous three cubs. Our new twins will have big shoes to fill, but I’m sure as they get older, they will bring as much joy and laughter as the Meis have. – Shauna D., Keeper II, Mammals #MeiDays #ZAPandas

    A photo posted by Zoo Atlanta (@zooatl) on

    سب سے پہلے تو ان پانڈا کو زبان کا مسئلہ پیش آرہا ہے۔ یہ پانڈا صرف انگریزی زبان سمجھتے ہیں اور اب ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ یہ ان کی چینی زبان نہیں سمجھ پا رہے۔

    panda-4

    اسی طرح یہ پانڈا اس غذا کو بھی مسترد کرچکے ہیں جو مقامی طور پر چین میں پانڈا کو کھلائی جاتی ہے۔

    panda-5

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکا میں یہ پانڈا امریکی خستہ بسکٹ کھانے کے بے حد شوقین تھے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کو ان کی ہر خوراک میں خستہ بسکٹ شامل کرنے پڑتے تھے۔

    تحقیقی ادارے میں موجود انتظامیہ آہستہ آہستہ ان پانڈوں کی عادات بدلنے پر کام کر رہی ہیں تاکہ انہیں چین کے مقامی طرز زندگی کے مطابق بنایا جائے۔

    واضح رہے کہ مختلف علاقوں اور ممالک کے درمیان تبادلے کے بعد جانوروں کو اکثر اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے قبل بھارت میں بھی ایک سفید شیر کو راجھستان سے چنائے منتقل کیا گیا تو اس شیر اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے درمیان زبان کی رکاوٹ کھڑی ہوگئی۔

  • دنیا کی اداس ترین بلی

    دنیا کی اداس ترین بلی

    آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل چین کے ایک شاپنگ مال میں رکھے گئے ایک بھالو کی تصاویر منظر عام پر آئی تھی جو نہایت ہی اداس معلوم ہوتا تھا۔

    اس بھالو کی پیدائش مصنوعی طریقہ سے عمل میں لائی گئی تھی اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا بھالو موجود نہیں تھا، اسی لیے یہ ہر وقت تنہا اور اداس پھرتا تھا۔

    حال ہی میں ایک اور ایسی بلی کی تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں جو نہایت اداس نظر آتی ہے اور اسے دنیا کی اداس ترین بلی کا نام دیا گیا ہے۔

    cat-2

    یہ بلی ہمیشہ سے ہی ایسی نہیں تھی۔ اس کو گود لینے والی خاتون کا کہنا ہے کہ یہ بلی انہیں اتفاقاً سڑک پر ملی۔ اس وقت شاید یہ کسی بڑے جانور کا شکار ہوئی تھی اور بہت بری حالت میں تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بلی کے پنجے زخمی تھے اور پورے جسم پر گہرے زخم تھے۔ اس کا ایک کان بھی ادھڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل ہی بدل چکی تھی۔ خاتون کے مطابق اس کے کان کے غیر متوازن ہوجانے کے باعث ہی اس کے چہرے کے تاثرات ایسے ہوگئے اور اب یہ ایسی بلی نظر آتی ہے جو مستقل اداس رہتی ہو۔

    cat-3

    cat-4

    خاتون نے اس بلی کے زخموں کا علاج کیا اور اس کے بعد یہ اسے اپنے گھر لے آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی بلی نے ایسی سکون کی سانس لی جیسے کسی پناہ گاہ میں آگئی ہو اور اس کے بعد وہ مطمئن ہو کر سوگئی۔

    cat-5

    اس کی مالکہ کا کہنا ہے کہ اب یہ بلی جس کا نام انہوں نے بین بین رکھا ہے، ان کے ساتھ مختلف کھیلوں اور دلچسپیوں میں حصہ لیتی ہے۔

    cat-6

    cat-7