Tag: وائٹ ہاؤس

  • وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

    ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

    اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

    یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

    اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

    کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

    تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

    جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

    اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

    جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

     مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

    جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • پاک بھارت اختلافات کاحل سفارت کاری ہے،جوش ارنسٹ

    پاک بھارت اختلافات کاحل سفارت کاری ہے،جوش ارنسٹ

    واشنگٹن: امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کا حل تشدد کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے نکالیں۔

    تفصیلات کےمطابق ترجمان وائٹ ہاؤس جوش ارنسٹ نے میڈیا بریفنگ کے دوران پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات کا حل تشدد کے بجائے سفارت کاری سے نکالیں۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران اس سلسلے میں اہم پیش رفت بھی سامنے آئی ہے اور امید ہے کہ دونوں ممالک ایسی پیش رفت جاری رکھیں گے جس سے خطے میں استحکام آئے گا۔

    ترجمان وائٹ ہاوس نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اڑی حملے کی براہ راست مذمت سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھرمیں جہاں دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں۔

    موجودہ صورت حال مں پاکستان اور بھارت کے وائٹ ہاؤس سے رابطے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد یا نئی دلی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا،اس حوالے سے مزید وضاحت کے لیے محکمہ خارجہ سے پوچھا جائے۔

  • امریکا کا عراق میں مزید 1500 فوجی بھجوانے کا فیصلہ

    امریکا کا عراق میں مزید 1500 فوجی بھجوانے کا فیصلہ

    واشنگٹن: امریکا نے داعش کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کو فوجی امداد فراہم کرنے کے لیے مزید پندرہ سوامریکی فوجی بھیجنے کی منظوری دے دی۔

    وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی عراق میں شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے کے لیے حکومت کو معاونت و رہنمائی فراہم کریں گے جبکہ کردش فورسز سمیت سیکیورٹی اداروں کی فوجی تربیت کی جائے گی، فوجی کسی بھی قسم کی جنگی کاروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔

    اوباما انتظامیہ داعش کے خلاف جنگ میں مزید پانچ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا بل منظوری کے لیے کانگریس میں پیش کرے گی۔

    اس سے قبل عراق میں سترہ سو امریکی فوجی تعینات ہیں۔

  • واشنگٹن: خفیہ راز افشا کرنے پر اسنوڈن کو معافی دینے پر اوبامہ خاموش

    واشنگٹن: خفیہ راز افشا کرنے پر اسنوڈن کو معافی دینے پر اوبامہ خاموش

    امریکی خفیہ راز افشا کرنیوالے قومی سلامتی کے سابق اہلکارایڈورڈ اسنوڈن کو معافی دینے پر صدر اوبامہ نے خاموشی اختیار کرلی۔

    امریکی جریدے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اسنوڈن کیجانب سے فراہم کی جانے والی تمام معلومات غیر قانونی نہیں تھیں، تاہم اسنوڈن کےعمل کے باعث عوام میں اشتعال پایا گیا۔

    اسنوڈن کی معافی کے حوالے سے صدر اوباما نے کسی قسم کے تبصرے سے گریز کیا، قومی سلامتی کے سربراہ ریچرڈ لیگٹ نے تمام معلوماتی دستاویزات واپس کرنے پر معافی دینے کی تجویزپیش کی تھی۔

    تاہم اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا تھا کہ اسنوڈن کو کسی صورت معافی نہیں دی جائے گی اور باضابطہ طور پر عائد مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔

  • واشنگٹن:شام کو غیرمہلک امداد فراہم کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے

    واشنگٹن:شام کو غیرمہلک امداد فراہم کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے

    امریکہ نے کہا ہے کہ وہ شام کے اعتدال پسند باغی جماعتوں کی غیرمہلک امداد کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے پر غور کررہا ہے۔

    وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے اعتدال پسند باغی جماعتوں کو غیرمہلک امداد کی ترسیل دوبارہ بحال کرنے کہ حوالے سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    تاہم شام کے شمالی علاقے میں متاثرہ افراد کے لیے غیرمہلک امداد فراہم کی جارہی ہے، شام میں حزب اختلاف کہ اعتدال پسند فوجیوں کی پشت پناہی کے سوال پر جے کارنی کا کہنا تھا کہ امریکہ اعتدال پسند باغی فوجیوں کی حمایت نہیں کرتا تاہم وہ شامی صدر کے آمرانہ اقدامات کی بھرپورمذمت کرتا ہے ۔
       

  • امریکہ نے افغانستان پر سیکیورٹی معاہدہ جلد طے کرنے پر دباؤ بڑھا دیا

    امریکہ نے افغانستان پر سیکیورٹی معاہدہ جلد طے کرنے پر دباؤ بڑھا دیا

    امریکہ نے افغانستان پر سیکورٹی معاہدہ طے کرنے پر ڈباؤ بڑھا دیا، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے کہ معاہدے کو مہینوں نہیں ہفتے میں حتمی شکل دی جائے۔

    وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے سیکیورٹی معاہدے پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو امریکہ دو ہزار چودہ کے بعد اپنی مرضی کے مطابق منصوبہ بندی پر مجبور ہو جائے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کو حتمی شکل دینے میں طویل وقت صرف کرنے سے منفی نتائج مرتب ہونگے، امریکہ اور افغانستان میں سیکیورٹی معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کے باوجود اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ہے۔

    معاہدے کے تحت آٹھ ہزار امریکی فوجی کو رواں سال افغانستان میں تعینات رہیں گے۔

  • پرامن جوہری پروگرام ایران کا حق ہے، روسی صدر ولادیمیر پوٹن

    پرامن جوہری پروگرام ایران کا حق ہے، روسی صدر ولادیمیر پوٹن

    روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے امریکی بل کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن جوہری پروگرام ایران کا حق ہے۔

    ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدرکا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے سے ایران اورعالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے، صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہ پرامن جوہری پروگرام ایران کا حق ہے، جسے عالمی برادری کو تسلیم کرنا چاہیے۔