Tag: وائی ڈی اے

  • لاہور جنرل اسپتال میں بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کا پروٹوکول علاج بند کرنے کا اعلان

    لاہور جنرل اسپتال میں بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کا پروٹوکول علاج بند کرنے کا اعلان

    لاہور: ینگ ڈاکٹرز نے جنرل اسپتال میں بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کا پروٹوکول علاج بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر عمار نے کہا ہے کہ کسی سیاست دان یا بیوروکریٹ کا پروٹوکول نہیں مانیں گے، انھیں اسپتال آنا ہے تو عام شہری بن کر آئیں۔

    ینگ ڈاکٹرز نے حکومت کو رسک الاؤنس نہ ملنے پر کام بند کرنے کا الٹی میٹم بھی دے دیا، ڈاکٹر عمار کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے تک رسک الاؤنس نہ دیا گیا تو اسپتالوں میں کام بند کر دیں گے۔

    قبل ازیں، لاہور جنرل اسپتال میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی، ینگ ڈاکٹرز نے حکومتی وزرا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کرونا کے حوالے سے ہر حکومتی فیصلہ غلط ثابت ہوتا رہا ہے، وزیر صحت نے کبھی وبا کے دوران اسپتالوں کا دورہ نہیں کیا، فواد چوہدری کو ڈاکٹروں کے خلاف بیان دینے پر شرم آنی چاہیے۔

    صدر وائی ڈی اے لاہور جنرل اسپتال ڈاکٹر عمار نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد او پی ڈیز کھولنے کے حکومتی فیصلے کے حوالے سے ہے، کرونا کے حوالے سے ہر حکومتی فیصلہ غلط ثابت ہوتا رہا ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق پنجاب میں کرونا ہے ہی نہیں، وزیر اعظم اسے عام نزلہ زکام کہہ رہے ہیں، یاسمین راشد ذات کے لیے وزیر بنیں، وائی ڈی اے ختم کرنا ان کا مشن ہے، حکومتی وزرا کا کام بکواس کرنا رہ گیا ہے۔

    انھوں نے کہا اب جنرل اسپتال میں وزیر، مشیر یا بیوروکریٹ کا علاج نہیں کریں گے، ایس او پیز پر عمل درآمد ہوئے بغیر او پی ڈیز میں کام نہیں کریں گے، حکومت اپنی ناکامی اور نااہلی ہم پر ڈالنا چاہتی ہے، حکومت ایڈہاک پر ڈاکٹر بھرتی کرے تاکہ کرونا وارڈ چلائے جا سکیں۔

    صدر وائی ڈی اے کا کہنا تھا ہیلتھ پروفیشنلز کا خیال رکھا جائے، جنرل اسپتال کے 60 ڈاکٹروں سمیت 100 سے زائد ہیلتھ پروفیشنلز کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، رسک الاونس تمام ہیلتھ پروفیشنلز کے لیے ہونا چاہیے، 1400 ارب کا کرونا فنڈ صحیح جگہ پر استعمال نہیں ہوا، ایک ہفتے میں رسک الاؤنس نہ دیا گیا تو کام نہیں کریں گے۔

    جنرل سیکریٹری وائی ڈی اے پنجاب ڈاکٹر قاسم اعوان نے کہا کہ آزاد کشمیر میں حکومت ڈاکٹروں کے مطالبات پورے نہیں کر رہی، ہم آزاد کشمیر کی حکومت اور وزیر اعظم سے ان کے مطالبات پوری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، اسپتالوں میں بائیو میٹرک حاضری لازم قرار دے دی گئی ہے جو سراسر غلط ہے، ہم اس پر عمل نہیں کریں گے، بائیو میٹرک حاضری کو سول سیکریٹریٹ میں بھی لاگو کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ اسپتالوں کی سیکورٹی کا بل پنجاب اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا رہا کیوں کہ اس سے ان کے اراکین اسمبلی کی بدمعاشی ختم ہو جائے گی، ہم نے اس حکومت کو ووٹ دیا تھا اور اپنے مریضوں کو نسخوں پر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا کہتے رہے جو غلط ثابت ہوا۔

  • لاڑکانہ کے ڈاکٹروں کی 13 ماہ سے رکی تنخواہ فوری ادا کرنے کا مطالبہ

    لاڑکانہ کے ڈاکٹروں کی 13 ماہ سے رکی تنخواہ فوری ادا کرنے کا مطالبہ

    لاڑکانہ: ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ لاڑکانہ کے ڈاکٹروں کی 13 ماہ سے رکی تنخواہ فوری ادا کی جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ینگ ڈاکٹرز اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت کو 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاڑکانہ کے ڈاکٹروں کی 13 ماہ سے رکی تنخواہ فوری ادا کی جائے۔

    صدر وائی ڈی اے کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کی فوری اسکریننگ کی جائے، وبا کے دوران کام کرنے والے ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کے لیے رسک الاؤنس کا بھی اعلان کیا جائے۔

    ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی تنخواہ میں کٹوتی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا

    ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ہم ڈاکٹروں کی کرونا فنڈز کی کٹوتی رقم فوری واپس کیے جانے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں، آج تمام طبی امور بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر انجام دیں گے۔

    واضح رہے کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز نے سیاہ پٹیاں باندھ کر ڈیوٹی شروع کر دی ہے، وائی ڈی اے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فوری اسکریننگ کا مطالبہ کئی دن سے کرتی آ رہی ہے، 15 اپریل کو بھی وائی ڈی اے نے کہا تھا کہ طبی عملے کی اسکریننگ تاحال التوا کا شکار ہے، وزیر اعلیٰ سندھ طبی عملے کی اسکریننگ کے احکامات جاری کریں۔

    ملک بھر میں طبی عملے کے 217 افراد کرونا وائرس کا شکار

    چند دن قبل قومی ادارہ صحت نے ہیلتھ پروفیشنلز کی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک میں اب تک 217 ہیلتھ پروفیشنلز کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، ان ڈاکٹرز کی تعداد 116، نرسز کی تعداد 34، دیگر اسپتال ملازمین کی تعداد 67 ہے۔ 119 ہیلتھ پروفیشنلز اسپتالوں میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت تسلی بخش ہے، 71 ہیلتھ پروفیشنلز آئیسولیشن میں زیر علاج ہیں، 3 ہیلتھ پروفیشنلز جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے 2 کا تعلق گلگت بلتستان اور ایک کا اسلام آباد سے ہے۔ 24 ہیلتھ پروفیشنلز صحت یاب ہو چکے ہیں۔