Tag: واجدہ تبسم

  • بلبلِ ہزار داستان…

    بلبلِ ہزار داستان…

    ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔

    شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    ” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں‌ ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • پرانے اور خراب قلم سے لکھا گیا ایک خط!

    پرانے اور خراب قلم سے لکھا گیا ایک خط!

    32، جیل روڈ، لاہور

    6 فروری 56ء

    پیاری واجدہ

    آپ کا خط ملا۔ بے حد خوشی ہوئی۔ دراصل جب سے میں نے ‘‘آئینہ’’ میں آپ کا ‘‘میری یادداشت سے’’ پڑھا مجھے شدید دل چسپی محسوس ہوئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ آپ کو ‘‘آئینہ’’ کی معرفت خط لکھوں اور آپ کی حقیقت پسندانہ جرأت کی داد دوں، مگر مصروفیتوں میں موقع نہ مل سکا۔ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، شاید اسی لیے آپ نے مجھے خط لکھ ڈالا۔ بہت ممنون ہوں۔

    دراصل میرے متأثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم اور آپ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اتنی جرأت تو ہے کہ دوسروں کے بارے میں سچ کہہ دیں، مگر اپنے بارے میں یعنی اپنی ذات کے بارے میں سچ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ فاقہ کرنا ہم سفید پوشوں کے لیے ممکن ہے، مگر اسے چھپانا، اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا انتہائی شرافت کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ایک بار بہت برے دنوں میں فاقہ میں نے بھی کیا۔ پورے اڑتالیس گھنٹے کا فاقہ۔ مگر میں ابھی تک اس بات کو نہ لکھ سکی۔ آپ نے یہ بات لکھ دی اور آپ بہت آگے جاکر کھڑی ہوگئیں، میں آپ کی اسی بات سے بہت متأثر ہوئی۔

    میں نے اس کے بعد آپ کے افسانے بہت دل چسپی سے پڑھے۔ ان پر رائے پھر تفصیل سے دوں گی۔

    آپ بے تکلفی سے مجھے خط لکھتی رہیے۔ مجھے بڑا ادیب وغیرہ فی الحال بالکل نہ سمجھیے۔ مجھے اپنے بارے میں ابھی تک ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہوسکی ہے۔ ہم سب کو ابھی بہت لکھنا ہے اور اس کے بعد کسی کو بڑا کہلانے کا حق حاصل ہوسکے گا اور اس کا فیصلہ بھی شاید آئندہ نسلیں کریں گی۔

    میں آپ کو فوراً جواب لکھتی، مگر گزشتہ ہفتے میں بہت مصروف رہی۔ کل ہم سب بہنیں اپنی پانچویں بہن عابدہ کی پہلی برسی منانے ایک جگہ اکھٹا ہوئے تھے۔ کل ہی جب اس کے فاتحہ سے فارغ ہوئے تو اطلاع ملی کہ ندیم بھائی کی والدہ لاہور سے دور اچانک چل بسیں۔ یہ سب باتیں بڑی تکلیف دہ تھیں۔ گزشتہ سال ندیم بھائی کی والدہ ہمارے گھر ہی تھیں۔ جب عابدہ کا انتقال ہوا تھا۔ معاف کیجیے گا یہ سب باتیں میرے دماغ پر چھائی ہوئی ہیں اس لیے ان کا تذکرہ کربیٹھی۔ پھر کسی وقت آپ کو تفصیل سے خط لکھوں گی۔

    ایک بہت پرانے اور خراب قلم سے خط لکھ رہی ہوں، میرا قلم کل گر کر ٹوٹ گیا۔ آپ کو میرا یہ خط ذرا دقت سے پڑھنا پڑے گا۔ گو ٹھیک قلم سے لکھنے کے باوجود میری تحریر لوگوں کو پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ امید ہے آپ بہ عافیت ہوں گی۔

    آپ کی ہاجرہ مسرور

    وضاحت: معروف افسانہ نگار واجدہ تبسم کے نام یہ خط اس دور کی ممتاز ادیب ہاجرہ مسرور نے لکھا تھا جو علم و ادب کے شائقین کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہے۔