Tag: واجد ضیاء

  • نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 27 اگست تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 27 اگست تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 27 اگست تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت نمبرٹو کے جج ملک ارشد نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد واپس جیل بھجوا دیا گیا۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری موجودگی میں استغاثہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ ایک ساتھ کیا جائے، جج احتساب عدالت نےکہا تھا میں باقی 2 ریفرنس نہیں سن سکتا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسرمحبوب عالم کا بیان آخرمیں ریکارڈ کرایا جائے۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے احتساب عدالت کو دیا گیا ٹرائل کا وقت آج ختم ہوگیا۔

    احتساب عدالت کے جج ملک ارشد نے کہا کہ رجسٹراراحتساب عدالت آج سپریم کورٹ کوخط لکھ دیں۔

    معززجج نے کہا کہ احتساب عدالت نمبر2 کو ریفرنس گزشتہ ہفتے منتقل ہوا، ریفرنس منتقلی سے متعلق سپریم کورٹ کو خط کے ذریعے آگاہ کریں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرتفتیشی افسر محبوب عالم کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ نواز شریف سنہ 81 سے2017 تک اہم عہدوں پر فائز رہے۔

    نواز شریف، شریف خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ حسن اور حسین نواز نواز شریف کے زیر کفالت تھے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ سال 2000 تک حسن نواز اور حسین نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔

    محبوب عالم کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے حربے کے طور پر خاندان کے نام شیئرز رکھنا شروع کیے۔ 2002 – 2001 تک اثاثوں کی مالیت 50.49 ملین ڈالرز کو عبور کر چکی تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزمان نے بیرون ملک جائیداد ظاہر کی نہ رقم منتقل کرنے کا طریقہ بتایا۔

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 20 اگست تک ملتوی

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو بھی آج طلب کر رکھا ہے۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے معززجج محمد بشیرمسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز ہر جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ مدت میں توسیع سے متعلق عدالتی حکم نامے کی کاپی آپ کے پاس ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حکم نامے کی کاپی ابھی دفترسے موصول نہیں ہوئی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ حکم نامے کی کاپی پیش کرنے کے لیے تھوڑا وقت دیا جائے جس پر عدالت نے ریفرنس کی سماعت میں 12 بجے تک کا وقفہ کیا۔

    احتساب عدالت میں وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مدت میں توسیع کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ ابھی نہیں ملا جس پرجج نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نےآرڈرکیا سنایا تھا؟۔

    سردا مظفر نے عدالت کو بتایا کہ سنا ہےعدالت عظمیٰ نے 6 ہفتےکی مزید مہلت دی ہے جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ دیکھناہوگا سپریم کورٹ کے حکم نامے میں لکھا کیا گیا ہے۔

    معاون وکیل ظافرخان نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث راستے میں ہیں، وہ بہتربتا سکتے ہیں جس کے بعد سماعت میں 10 منٹ کے لیے وقفہ کردیا گیا۔

    عدالت میں وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دائر کی۔

    خواجہ حارث نے معزز جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ذات پراعتراض نہیں، قانون کا تقاضا ہے کہ ریفرنس دوسری عدالت منتقل کیے جائیں۔

    جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق فرد جرم عائد کرنے کے بعد ریفرنس منتقل نہیں کرسکتا، اس کے لیے متعلقہ فورم ہائی کورٹ ہے اور اگر دوسرے صوبے میں کیس منتقل کرنا ہو تو سپریم کورٹ متعلقہ فورم ہے۔

    احتساب عدالت کے جج نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آرڈر میں لکھ دیتا ہوں کہ آپ کے تحفظات ہیں۔

    دوسری جانب نیب پراسیکیوٹر نے ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا فرد جرم عائد آپ نے عائد کی، بہتر ہے عدالت ریفرنسز پرسماعت کرے۔

    سبق وزیراعظم کے وکیل خواجہ نے عدالت سے درخواست کی کہ سماعت منگل تک ملتوی کی جائے تاکہ ہم متعلقہ فورم سے رجوع کرسکیں۔

    بعدزاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی کردی۔

    خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت کے دوران جج محمد بشیر کی جانب سے دیگر دو ریفرنسز کی سماعت پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ دونوں کیس نہیں سن سکتے۔

    نوازشریف کے وکیل کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ معزز جج چونکہ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں، لہذا وہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے ریفرنسز کی سماعت نہ کریں۔

    احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی مدت 10 جولائی کو ختم ہورہی ہے اور اس حوالے سے خط لکھنا بھی میرا کام ہے، بہتر ہے کہ خط میں یہ ساری باتیں لکھ دی جائیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ بہتر ہے کہ سپریم کورٹ کو خط میں آپ ان باتوں کا حوالہ بھی دے دیں ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ سے ہدایات ملنے کے بعد ہی کیس کی مزید کارروائی آگے بڑھائی جائے۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے دوران نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے موکل اور ان کی صاحبزادی 13 جولائی کو لندن سے واپس آرہے ہیں، لہذا 16 جولائی تک سماعت ملتوی کی جائے۔

    احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 12 جولائی تک ملتوی کی تھی۔

    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں 6 ہفتے کی توسیع

    واضح رہے کہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں 6 ہفتے کی توسیع کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کےوکیل خواجہ حارث نےاپنا وکالت نامہ واپس لےلیا

    نوازشریف کےوکیل خواجہ حارث نےاپنا وکالت نامہ واپس لےلیا

    اسلام آباد : خواجہ حارث سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز سے علیحدہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے عدالت سے اپنا وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست کی۔

    خواجہ حارث نے عدالت کو تحریری طورپرآگاہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف تینوں نیب ریفرنسز کا ٹرائل 6 ہفتوں میں مکمل کرنے سے متعلق ان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور یہ ڈکٹیشن بھی دی کہ ایک ماہ میں ریفرنسز کا فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے۔

    خواجہ حارث کی جانب سے وکالت نامہ واپس لینے کے بعد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نوازشریف کو روسٹرم پربلایا اور استفسار کیا کہ آپ کے وکیل نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے، اب آپ کس کو وکیل رکھیں گے یا خواجہ حارث کو ہی منا لیں گے۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ اس حوالے سے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کریں گے جس پر معزز جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ کے پاس ایک دن ہے آپ سوچ لیں۔ بعدازاں احتساب عدالت نے نیب ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ خواجہ حارث تقریباََ 9 ماہ کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے نیب ریفرنسز سے علیحدہ ہوئے ہیں۔

    شریف خاندان کےخلاف ریفرنسزکا فیصلہ ایک ماہ میں سنانےکا حکم

    یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے شریف خاندان کے خلاف تینوں نیب ریفرنسز پراحتساب عدالت کو ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔

    احتساب عدالت نے تین روز قبل سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے مدت میں توسیع کی درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نیب ریفرنسزکا فیصلہ 9جون تک نہیں ہوسکتا، وقت بڑھایا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں موجود ہیں جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرخواجہ حارث کی جرح تیسرے روز بھی جاری ہے۔

    واجد ضیاء نے سماعت کے آغازپرعدالت کوبتایا کہ طارق شفیع نے بتایا محمد حسین کے ورثا انہیں لاہورملنے آئے تھے، طارق شفیع سے محمدحسین کے بیٹے شہزاد حسین کا پتہ پوچھا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ طارق شفیع نے محمد شہزاد کا رابطہ نمبر نہیں دیا، جے آئی ٹی نے پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن شہزاد سے رابطہ نہ ہوسکا، طارق شفیع سے محمد شہزاد سے متعلق سوال جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 1978کے شئیرزسیل معاہدے کے مطابق طارق شفیع، محمدحسین شرکت دار تھے، معاہدے پرعملدرآمد سے پہلےمحمد حسین فوت ہوچکے تھے۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ معاہدے کے ساتھ خط پرمحمد حسین کے قانونی ورثا کے دستخط تھے، طارق شفیع نے جے آئی ٹی کو بتایا محمد حسین کے قانونی ورثا زندہ ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جوبات میں نے کی وہ طارق شفیع کے جےآئی ٹی میں بیان سے ظاہرنہیں، جےآئی ٹی نے شہزاد حسین کا پتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن نہیں ملا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جےآئی ٹی نے 1980 کے معاہدے میں عبداللہ اہلی کو شامل تفتیش نہیں کیا، ہمارے نوٹس میں آیا 1980 کے معاہدے کا گواہ عبدالوہاب ابراہیم تھا۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ معاہدے اورمتن کی تصدیق کے لیے گواہ عبدالوہاب کوشامل تفتیش نہیں کیا، 1980 کے معاہدے کے دوسرے گواہ لاہور سے محمد اکرم تھے۔

    انہوں نے کہا کہ محمد اکرم کوڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، محمداکرم کے پتے سے متعلق طارق شفیع سے کوئی سوال نہیں کیا، جےآئی ٹی میں پیش کسی بھی شخص سے محمد اکرم سے متعلق سوال نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ 1980 کے معاہدے میں دیے گئے محمد اکرم کے پتے پرسمن بھی نہیں بھیجا، محمداکرم کو ڈھونڈنے کی کوشش کوجےآئی ٹی رپورٹ میں درج نہیں کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 1980 کے معاہدے پرپاکستان کے یواےای میں قونصل خانے کی تصدیق تھی، پاکستانی قونصل خانے میں منور حسین کمال نے تصدیق کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے منورحسین قونصل اتاشی کوشامل تفتیش نہیں کیا، یہ معاہدہ جعلی تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر اس معاہدے کوجعلی نہ کہتے تو یہ سوال ہی نہ پوچھتے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ سوال میں پوچھ ہی اس لیے رہا ہوں آپ نے معاہدے کوجعلی کہا، یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں آپ کا جواب مستند ہے یا نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ معاہدےکی تصدیق کرنے والے کی تصدیق کے لیے قونصل خانے کا دورہ نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح مکمل ہونے پرنیب کے تفتیشی افسرکا بیان قلمبند کیا جائے گا۔

    ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پراستغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کوہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی رجسٹریشن کی دستاویزنہیں ملی، ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کےمالک ہوں۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ نوازشریف کے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست مالک ہونے کا ثبوت نہیں جبکہ حسین نوازدراصل نوازشریف کے بے نامی دارہیں۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پرہے کمپنی کا منافع ٹرانزیکشن سے نوازشریف کوآیا جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا تھا کہ یہ اپنے بیان میں کہانی سنا چکے ہیں۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ گواہ عبداللہ اہلی سے رقم کا جاننے کے لیے انہیں شامل تفتیش نہیں کیا۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ 1978 کے گلف اسٹیل کے معاہدے کے مطابق رقم 2 کروڑ 13 لاکھ درہم سے زائد تھی، 1978 کے شیئر فروخت کے معاہدے کے مطابق رقم ایک کروڑ 20 لاکھ درہم تھی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ دبئی کسٹم کے ریکارڈ کے مطابق دبئی سے جدہ اسکریپ مشینری نہیں گئی، لیٹر آف کریڈٹ کے مطابق مشینری شارجہ سے جدہ گئی، دبئی سے نہیں گئی، لیٹر آف کریڈٹ ایم ایل اے کےساتھ بھیجا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے میں 2 سوال پوچھے گئے، لیٹر میں اسکریپ مشینری کی دبئی سے جدہ ٹرانسپورٹ کا سوال پوچھا گیا، دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ لیٹر آف کریڈٹ اصل ہے۔

    وکیل صفائی خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب پراسیکیوٹر گواہ بن جائیں ان سے سوال پوچھ لیتا ہوں، جس پر نیب پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ مجھ سےنہیں عدالت سے مخاطب ہوں۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جو واجد ضیا کا جواب ہے وہ لکھوا دیں، ایم ایل کے تحت پہلے سوال کا جواب دیا، جواب میں دوسرا سوال شامل نہیں، جس پر واجد ضیا نے کہا کہ اس سوال کا از خود جواب دینا چاہتا ہوں۔

    واجد ضیا کے گواہپ نے بتایا کہ ایل سی میں سکینڈ ہینڈ مشینری کا ذکر ہے، ایم ایل کے جواب میں اسکریپ مشینری درج ہے۔

    واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ لیٹر آف کرڈیٹ میں اسکریپ مشینری شارجہ سے جدہ جانے کا ذکر ہے، ایم ایل کے جواب میں دبئی سے اسکریپ مشینری جدہ جانے کا ذکر ہے، لیکن لیٹر آف کریڈٹ کا ذکر نہیں۔

    خواجہ حارث نے واجد ضیا کے جواب میں کہا کہ کوئی ایسی دستاویز دکھا دیں جس میں لکھا ہو ایل سی جعلی ہے۔ جس پر گواہ نے کہا کہ وہ ایم ایل اے کا جواب ہے، خواجہ حارث نے پھر کہا کہ اس میں لکھا ہے تو دکھا دیں۔

    واجد ضیاء نے سماعت کے دوران بتایا کہ لیٹر آف کریڈٹ کی کاپی متفرق درخواست سے لی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کیا کاپی حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بھی دی۔

    واجد نے العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ حسین نواز نے لیٹر آف کریڈٹ کی کاپی جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کی، ٹرانسپورٹیشن آف گڈز سے متعلق حسین نواز سے سوال کیے تھے، حسین نواز سے ایل سی سے متعلق مخصوص سوال نہیں کیا،

    احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس کی سماعت کو 11 جون تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرخواجہ حارث نے آج بھی جرح کی۔

    واجد ضیاء پرخواجہ حارث کی جرح

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت میں سماعت کے آغاز پر کہا کہ جےآئی ٹی نےعباس شریف فیملی کے کسی فرد کوطلب نہیں کیا، شواہد نہیں ملے عباس شریف یارابعہ نے العزیزیہ کے منافع سے حصہ لیا ہو۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ شواہد نہیں ملے العزیزیہ کے آپریشنل رہنے تک رابعہ کبھی سعودی عرب گئیں، حسین نوازنے جےآئی ٹی میں بیان دیا دادا ابوضعیف ہوچکےتھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسین نوازنے کہا دادا نے اس لیے العزیزیہ کی ذمہ داری مجھے دے دی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی کوہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی رجسٹریشن کی دستاویزنہیں ملی، ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کےمالک ہوں۔

    انہوں نے بتایا کہ نوازشریف کے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست مالک ہونے کا ثبوت نہیں جبکہ حسین نوازدراصل نوازشریف کے بے نامی دارہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات ریکارڈ پرہے کمپنی کا منافع ٹرانزیکشن سے نوازشریف کوآیا جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یہ اپنے بیان میں کہانی سنا چکے ہیں، میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جوبات آ چکی وہ دوبارہ کیسے آ سکتی ہے، یہ سوالوں کے جواب کے بجائے وہ بتانا چاہتے ہیں جو برائے نام کرچکے ہیں۔

    ایسی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ روز واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایسی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں یا نوازشریف کو شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے نوازشریف کاروباری یا مالی معاملات چلاتے ہوں یا مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا العزیزیہ کی کسی دستاویز پر دستخط کرنے کی کوئی دستاویز نہیں ملی، اورنہ ہی کسی گواہ نےبیان دیا نواز شریف العزیزیہ مل کے مالک ہیں۔

    خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا تھا کہ کیا کسی نے کہا کہ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل مل کے شیئر ہولڈر ہیں؟

    واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ حسین نواز، نواز شریف کے شیئر ہولڈر ہیں۔

    واجد ضیا کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کے نوٹس میں آیا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اکیلی ملکیت تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات حسین نواز کی دستاویزات کے مطابق بتا رہا ہوں، حسین نواز نے جو دستاویزات پیش کیں وہ والیم 6 میں موجود ہیں۔

    گواہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ یہ درست ہے ہل میٹل کا پورا نام ماڈرن انڈسٹری آف میٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔

    واجد نے کہا کہ حسین نوازکی دستاویزات کے مطابق ہل میٹل کے وہ اکیلے مالک تھے، جس پر گواہ نے جواب دیا کہ حسین نواز کی طرف سے دستاویزات کے مطابق وہ ہل میٹل کے سی ای او تھے۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ میری یادداشت کے مطابق 3 دستاویزات جے آئی ٹی کے سامنے پیش کئے گئے، ایسے کوئی شواہد نہیں جو ظاہر کریں حسین ہل میٹل کے اکیلے مالک نہ ہوں، ایسا کوئی گواہ بھی نہیں آیا جو کہے حسین نواز کمپنی کے اکیلے مالک نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ یہ دستاویزات  3جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کئے گئے۔

    ریفرنس کی سماعت کے دوران گواہ نے بتایا کہ جے آئی ٹی کا کوئی رکن دستاویز کی تصدیق کے لئے سعودی عرب نہیں گیا، جس پر واجد کا کہنا تھا کہ دستاویزکو ایم ایل اے سے منسلک کر کے تصدیق کے لئے نہیں بھیج۔

    سماعت کے دوران وکیل صفائی خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کی تفتیش کے مطابق ہل میٹل کب رجسٹرڈ ہوئی؟

    واجد ضیا نے جواب دیا کہ جو دستاویز کورٹ میں پیش کیں ان کے مطابق سنہ 2005 میں ہوئیں۔ 

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اپنی تفتیش کا بتائیں کب قائم ہوئی؟ جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ ملزمان کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق سنہ 2005 میں رجسٹرڈ ہوئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ اس پر از خود بھی جواب دینا چاہتا ہوں، یہ باتیں نواز شریف کے بیان میں نہیں ہیں، کسی نے نہیں کہا کہ نوازشریف بیرون ملک حسین نواز زیر کفالت تھے۔

    احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔ پیر کو بھی خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر جرح جاری رکھیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریم نواز کےوکیل کی جےآئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح مکمل

    مریم نواز کےوکیل کی جےآئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح مکمل

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 20 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نوازاور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مریم نوازکے وکیل امجد پرویز نے پانچویں روز جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح مکمل کرلی۔

    امجدپرویز کی واجد ضیاء پرجرح مکمل

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 31 مئی کو بی وی آئی اٹارنی جنرل آفس کوایم ایل اے بھجوائی، فارن دستاویزات کی تصدیق شدہ کاپیاں مانگیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ نیلسن اورنیسکول کی تصدیق شدہ دستاویزات مانگی، ایم ایل اے میں نیلسن، نیسکول کے بینفشری کا ایڈریس مانگا، رجسٹرڈ ڈائریکٹر، نامزد ڈائریکٹراورشیئرہولڈرکی تفصیل مانگی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سیٹلرکا نام، رابطہ اورایڈریس کی تفصیلات طلب کیں، ٹرسٹی، بینفشری آف ٹرسٹ اورکمپنیزسے متعلق تفصیل مانگی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 23 جون 2017 کو بی وی آئی کوآخری ایم ایل اے بھیجا، ایم ایل اے میں ایف آئی اے بی وی آئی کوریکارڈ تصدیق کی درخواست کی جبکہ 16جون 2017 کو ای میل پر جواب موصول ہوا۔

    مریم نواز کے وکیل کی جرح مکمل ہونے کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے درخواست کی کہ تین ایم ایل ایز کو عدالتی ریکارڈ پربطور شواہد پیش کرنے کی اجازت دی جائے، دستاویز نیلسن، نیسکول، نوازشریف کے بچوں کی کمپنیوں سے متعلق ہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 20 اپریل تک ملتوی کردی۔

    عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 23 اپریل کو مقرر کرتے ہوئے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف اور مریم نوازکی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نوازموسم کی خرابی کے باعث پیش نہیں ہوسکتے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کے وکیل سے سوال کیا تھا کہ امجد پرویزآپ لاہورسے کیسے پہنچے ہیں؟ جس پرانہوں نے جواب دیا تھا کہ میں میں کل بائی روڈ اسلام آباد آگیا تھا۔

    بعدازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی آج کے دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جج کے گھر پر فائرنگ گھٹیا کام ہے‘ کیپٹن صفدر

    جج کے گھر پر فائرنگ گھٹیا کام ہے‘ کیپٹن صفدر

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن صفدر کا کہنا ہے کہ تمام عدالتیں اورجج پاکستان کی امانت ہیں، ہم لوگ آئین کی تشریح کرنے والوں پرفائرنہیں کرسکتے۔

    تفصیلات کےمطابق اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ آئین بناتے اور ججز تشریح کرتے ہیں، ہم ان لوگوں کے خلاف ہیں جوآئین کو پھاڑتے اورپھینکتے ہیں۔

    کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ جج کے گھر پر فائرنگ گھٹیا کام ہے، تمام عدالتیں اورجج پاکستان کی امانت ہیں، ہم لوگ آئین کی تشریح کرنے والوں پرفائرنہیں کرسکتے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا کیس آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتا ہے، جے آئی ٹی نے جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی، سب نے دیکھ لیا جے آئی ٹی کی رپورٹ عجلت میں بنی۔

    کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ پہلے مارشل لاء کے ذریعے وزرائےاعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، اس بار جے آئی ٹی بنا کر وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کچھ نہیں واجد ضیاء ہر بات پرکہتے ہیں انہیں پتہ نہیں ہے۔

    میاں صاحب کو مشرف کیخلاف کارروائی کی سزا مل رہی ہے‘ کیپٹن صفدر

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کا کہنا تھا کہ سارا ڈارمہ مشرف کو بچانے کے لیے کیا جارہا ہے، میاں صاحب کو مشرف کے خلاف کارروائی کی سزا مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کے خلاف کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی

    ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کے خلاف کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز خراب موسم کے باعث پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویز آج مسلسل تیسرے روز بھی جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز کی آج کے دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 17 جنوری2017 کولارنس ریڈلے نے سلمان اکرم راجہ کوخط لکھا، خط میں لارنس ریڈلےکا ایڈریس، فون نمبر، فیکس نمبراورای میل ہے، یہ خط ایون فیلڈ پراپرٹیزسے متعلق ہے۔

    مریم نواز کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا تصدیق ہوئی آف شورکمپنیوں سے 93-96 میں ایون فیلڈ پراپرٹیزخریدیں؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے فلیٹس کمپنیوں کے نام پرخریدے گئے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا تھا ریڈلے کوشامل تفتیش نہیں کیا جائے گا، آف شورسے فلیٹس خریدنے کا مقصد اصل خریدارکی شناخت چھپانا تھا۔

    امجد پرویز نے سوال کیا کہ مریم نوازکا نیلسن نیسکول کی تشکیل میں کردارظاہرہو دستاویزات ہیں؟ جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ بی وی آئی حکام کی تصدیق ریکارڈ پرہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی اورموزیک فونسیکا کی خط وکتابت سے ظاہرہوتا ہے، 5 دسمبر 2005 کے خط سے بھی مریم نوازکا کردارظاہرہوتا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میمورنڈم آرٹیکل ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا، جس کے مطابق نیلسن انٹرپرائز کی تشکیل 14 اپریل 1994 کو ہوئی۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 16 اپریل کی صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کسی بھی متعلقہ شخص کو بلاسکتی ہے جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ 5 مئی 2017 کے حکم نامے کی تو میں میں نے بات ہی نہیں کی۔

    امجد پرویز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ تصدیق کے لیے جے آئی ٹی کو نہیں کہا تھا جس پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ درست ہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کے اصل بینیفشل مالک کا سوال خاص طور اٹھایا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل 10 روز کے دوران جرح مکمل کی تھی جبکہ واجد ضیاء نے 6 سماعتوں کے دوران اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی واجد ضیاء پر جرح

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی واجد ضیاء پر جرح

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں موجود تھے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج مسلسل دسویں سماعت پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    واجد ضیاء پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح مکمل

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث کی جانب سے غیرمتعلقہ سوالات پوچھنے پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی غیرضروری سوالات نہیں پوچھ سکتے۔

    نیب ڈپٹی پراسیکیوٹرسردار مظفر نے کہا کہ اسکینڈل بنانے کے لیے ایسے سوالات نہیں پوچھے جا سکتے، گواہ کوتحفظ حاصل ہےغیرمتعلقہ سوالات سے روکا جائے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویزکی واجدضیاء پرجرح

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازکے وکیل امجد پرویز جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کررہے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ ہر15 روزبعد سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کراتے تھے، سپریم کورٹ نے جن سوالات کا حکم دیا تھا ان کا جواب تلاش کیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کرمنل کیس کی تحقیقات نہیں کررہی تھی، جے آئی ٹی کوسی آرپی سی اورنیب آرڈیننس کے تحت اختیارات تھے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی نے 2ماہ میں سپریم کورٹ کے سوالات کا جواب دینا تھا، سیکیورٹی گارڈ، ریکارڈ کیپر ، ٹائپسٹ اورکک سمیت جے آئی ٹی سیکریٹریٹ کا اسٹاف 30 سے40 افراد پرمشتمل تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ جےآئی ٹی کے ساتھ 30 سے40 ماہرین کام کررہے تھے، 30 سے 40 ماہرین کا نام جے آئی ٹی رپورٹ میں ظاہرنہیں کیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ایکسپرٹس کا نام خفیہ رکھنے کے لیے عدالت کو درخواست دی تھی، سپریم کورٹ نے اس سے متعلق کوئی باضابطہ آرڈرپاس نہیں کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رپورٹ میں ماہرین کی تحقیقات میں کردار کوظاہرنہیں کیا، عدالت نے جے آئی ٹی کوسپورٹنگ اسٹاف رکھنے کی اجازت دی تھی، جےآئی ٹی نے رپورٹ میں سپورٹنگ اسٹاف کی موجودگی کا ذکرکیا۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلےسوال کرلیں تبصرے بعد میں کریں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اب آپ یہ بھی پوچھیں گے رپورٹ کس کمپیوٹر پرٹائپ کی گئی، کمرے میں کتنی لائٹس تھیں، انہوں نے کہا کہ یہ وائٹ کالرکرائم ہے آپ کس طرح کے سوال پوچھ رہے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے مریم نواز کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ واجد ضیاء سے یہ بھی پوچھیں کمرے میں جنریٹر بھی تھا یا نہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پراسیکیوٹرنیب کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث 3 دن سے تسلیم شدہ حقائق پرجرح کر رہے ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ، اقامہ، تسلیم کر چکے ہیں، صرف تنخواہ پرملزمان کا مؤقف ہے وصول نہیں کی۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ کہ سپریم کورٹ میں بیان دے چکے ہیں 2006ء میں چیئرمین رہے، وکیل صفائی تسلیم شدہ دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ واجدضیاء نے کیپٹل ایف زیڈ ای پرعدالت میں بیان قلمبند کرایا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کوثبوت کے طور پر پیش کیا، ہم نے اقامہ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں نے کب کہا کہ اقامہ جعلی ہے چیئرمین نہیں رہے، احتساب عدالت کے معزز جج نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ جرح کریں لیکن مختصر کریں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کیوں لایا، یہ دستاویزات نکال دیں ہم جرح نہیں کرتے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خواجہ حارث کی والیم 10 سےمتعلق معلومات پرواجد ضیاء حیران

    خواجہ حارث کی والیم 10 سےمتعلق معلومات پرواجد ضیاء حیران

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں آج نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر جرح کی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج مسلسل چھٹے روز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے آغاز پر واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کیا آپ والیم 10 لے آئے ہیں؟ جس پر استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ والیم 10 کی کاپی اور7 ایم ایل ایز سے متعلق ریکارڈ مل گیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نے7 ایم ایل ایز سے متعلق سوال پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں پوچھا جا سکتا، خواجہ حارث نے کہا کہ میرا سوال ریکارڈ پرلے آئیں، یہ جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سوال بھی ریکارڈ پر نہیں آسکتا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ سوال ریکارڈ پر آسکتا ہے نہ جواب، صرف واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ پر آسکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ والیم 10 لے آئے ہیں؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی والیم 10 لایا ہوں، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ مکمل والیم 10 نہیں بلکہ 7 ایم ایل اے کے خطوط لائے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی 7 ایم ایل اے کے خطوط لایا ہوں۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ آرڈر میں واضح کریں مکمل والیم 10 پیش نہیں کیا گیا۔ واجد ضیاء نے کہا کہ مجھے مکمل بات کرنے دیں۔

    سابق وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ میں فارسی یا عربی میں نہیں، اردو میں پوچھ رہا ہوں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ سے براہ راست بات نہ کریں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 4 ایم ایل اے میں 1980 کے معاہدے کا ریفرنس دیا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں کچھ اور پوچھ رہا ہوں، نہ سوال آسکتا ہے نہ جواب، صرف ان کی گفتگو آسکتی ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ واجد صاحب آپ مؤقف بدل رہے ہیں جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ میں مؤقف نہیں بدل رہا، خواجہ حارث نے کہا آپ اپنا موقف بدلیں گے اور حقیقت کی طرف آئیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 3 دن سے خواجہ حارث ایک ہی سوال کر رہے ہیں، یہ سارے سوال دہرا رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اعتراض ہے توالگ بات، ایم ایل اے پرسوال ضرورکروں گا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے کہا کہ گواہ جھوٹ بولے گا توسچ اگلوانے کے لیے سوال کرنا پڑیں گے، جرح میں مختلف زاویوں سے سوال پوچھے جاتے ہیں، میں پوچھوں گا کونسی ایم ایل اے انٹرنیشنل کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ کولکھی ؟

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال قانون شہادت کے خلاف جائے گا تو ضرور ٹوکوں گا۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کون سی ایم ایل اے ہیں جن میں قانونی سوال پوچھے گئے؟ کون سی ایم ایل اے انٹرنیشنل کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ کولکھی ؟

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 4 ایم ایل اے میں قانونی سوال پوچھے گئے، چاروں ایم ایل اے 15جون 2017 کو لکھی گئیں، چاروں کے ساتھ 1980 کے معاہدے کی کاپیاں نہیں لگائی گئیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 12 جون 2017 کوسینٹرل اٹھارٹی کو ایم ایل اے بھجوائی گئی، ایم ایل اے کے ساتھ متعدد دستاویزات بھی بھجوائی گئیں جبکہ اس میں 1978 کا معاہدہ بھی بھجوایا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ ایم ایل اے میں 1980 کا معاہدہ نہیں بجھوایا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ حیران ہوں آپ کووالیم 10پرمجھ سے زیادہ معلومات کیسے ہیں ؟

    واجد ضیاء نے کہا کہ درست ہے ایم ایل اے کے ساتھ 1980 کا معاہدہ نہیں لگایا گیا، خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ میں والیم 10 دکھایا گیا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نوٹری پبلک سے براہ راست 1980 کے معاہدے کی تردید پرجواب نہیں آیا جبکہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سے جواب آ گیا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ نوٹری پبلک کے جواب میں آپ کے ایم ایل اے کا ذکر تھا؟ جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ جواب میں ہمارے ایم ایل اے کا ذکر نہیں تھا، 2 اتھارٹیزسےایم ایل اے کا براہ راست جواب نہیں آیا۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ گواہ کو ایسے نہ کہیں کہ اس نے دھوکہ دیا ہے، گواہ قابل احترام ہے، اس کی ذات پر بات نہ کی جائے، عدالت فیصلہ کرے گی کس نے دھوکہ دیا، آپ ایسے تبصرےکرنے سے اجتناب کریں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے واجد ضیاء کو دھوکے باز نہیں کہا، انہیں کوئی دیانت داری کا سرٹیفکیٹ دینا ہے تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کس نے ایسا کیا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے اپنا موقف سامنے لانا ہے، کوئی چیز بھی ذاتی نہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ شیزی نقوی کے بیان کے ساتھ رحمان ملک کی رپورٹ منسلک کی تھی، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے رحمان ملک کوشامل تفتیش کیا تھا؟

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی ہم نے رحمان ملک کو شامل تفتیش کیا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں سورس دستاویزات کیا ہوتی ہیں؟

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ وہ دستاویزات جومعلومات پرمبنی ہوں سورس دستاویزات ہوتی ہیں، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا سورس دستاویزات جن معلومات پربنتی ہیں وہ سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال قانون شہادت کے مطابق نہیں ہے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ التوفیق کیس کے حوالے سے کوئسٹ سا لیسٹرسے رائے مانگی تھی، کوئسٹ سالسٹر نے پہلے واٹس ایپ پرتجزیہ بھیجا جبکہ 9 جولائی کو ای میل موصول ہوئی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کس کا واٹس ایپ پر تجزیہ ملا ؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ استحقاق ہے بتا نہیں سکتا، ریکارڈ بھی موجود نہیں، ای میل سے10 دن پہلے واٹس ایپ آیا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ کیا آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سالسٹرسے شیئرکی، استغاثہ کے گواہ جے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو ہر 15دن بعد رپورٹ فراہم کرتے تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کوئسٹ سالسٹر کو رپورٹ فراہم نہیں کی،التوفیق سے متعلق مواد اورتجزیہ کوئسٹ سالسٹر کو فراہم کیا، گواہوں کا بیان کوئسٹ سالسٹر سے شئیر کیا جنہوں نے تجزیہ دیا۔

    بعد ازاں احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف، مریم نوازکو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    خیال رہے کہ گزشتہ روز خواجہ حارث نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ آج نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری کے لیے استثنیٰ دیا جائے جس پر معزز جج نے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرلی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے گزشتہ سماعت کے دوران خواجہ حارث سے کہا تھا کہ پہلے پورا جواب آنے دیا کریں پھرلکھوایا کریں، سوال بھی بڑا کرتے ہیں پھرجواب آتا ہے توپورا سنتے نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث دوران سماعت ناراض ہو کر اپنی نشست پربیٹھ گئے تھی، ان کا کہنا تھا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کوئی ثبوت آیا یا نہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔