Tag: واجد علی شاہ

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ اور مٹیا برج کا حیرت کدہ

    نواب واجد علی شاہ کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سرپرست اور فنونِ لطیفہ کے ایک بڑے شیدائی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو سلطنتِ اودھ کے آخری تاجدار تھے۔ اردو کے ممتاز ادیب اور ناول نگار عبدالحلیم شرر نے نواب صاحب کی زندگی اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلو وہ شوق بیان کیے ہیں جو ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

    نواب واجد علی شاہ کا ایک شوق مختلف چرند پرند اور درندے پالنا تھا۔ شرر لکھتے ہیں: "دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاجدار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔”

    "عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجہ کو بھی نہ پہنچ سکی ہو گی۔ نور منزل کے سامنے خوشنما آہنی کٹہروں سے گھیر کے ایک وسیع رمنہ بنایا گیا تھا جس میں صدہا چیتل، ہرن اور وحشی چوپائے چھوٹے چھوٹے پھرتے تھے۔ اسی کے درمیان سنگ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبب رہتا اور اس میں شتر مرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صدہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔”

    "صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا کہ جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پَر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے اور اس رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کی سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں بیسوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشہ دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔”

    "مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہوجاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالیے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طرہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے اور اس کے کنارو ں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھکا کے اس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو، تین تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اتر آتے۔ مینڈکیاں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کر کے پکڑتے۔”

    "پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی، اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے نیچے بھی دو کٹہرے تھے، جن میں دو بڑی بڑی چیتنیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں، لیکن جس وقت مرغ لا کے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کر پکڑتیں اور مسلم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہوگا اور یہ خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مشرح کیفیت قلمبند کرتے جاتے تھے۔”

    "مذکورہ جانوروں کے علاوہ ہزارہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے۔ بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر لیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند و پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں، سب جمع کر لیے جائیں اور واقعی ایسا مکمل اور زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہو گا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص کوئی نیا جانور لاتا تو منہ مانگے دام پاتا۔”

    "کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیس ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ زرافہ جو افریقہ کا بہت بڑا اور عجیب جانور ہے، اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں، مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کہ کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیر ببر، دیسی شیر، چیتے، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرخ، بھیڑیے کٹہروں میں بند تھے اور بڑی خاطر دشت سے رکھے جاتے۔”

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    ہندوستان میں‌ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف مطیع اور خودمختار ریاستوں میں انگریزوں‌ کا بڑھتا ہوا عمل دخل اور نوابوں کی بے توقیری تک تاریخ کے اوراق بہت کچھ لکھتے ہیں جن میں بیگماتِ اودھ کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ آخری تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ نامے ہیں‌ جو جلاوطنی کے عالم میں‌ واجد علی شاہ تک پہنچے اور ان کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

    یہاں ہم ایک ایسا ہی خط نقل کر رہے ہیں جو واجد علی شاہ کی طرف سے شیدا بیگم کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے القاب لائقِ توجہ ہیں۔ قدیم اردو میں‌ اس خط کا طرزِ تحریر رواں اور لطف انگیز ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سطور ایک نواب کا اپنے حالات پر نوحہ بھی ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے۔

    بہ نام
    نواب شیدا بیگم صاحبہ

    مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
    بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

    مہرِ سپہر بے وفائی، ماہ سمائے دل ربائی، گوہرِ تاج آشنائی، جوہرِ شمشیرِ یکتائی! ہمیشہ خوش رہو!

    معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
    ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

    معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔

    انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیّار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیّار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدّولہ، ذہانت الدّولہ، سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدّولہ، فتح الدّولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے، زبردستی قید خانہ میں آ گئے۔

    راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدّولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔

    یہ خط کربلائے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

    ؎
    ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا
    کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

    جانِ عالم اختر

  • ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    برصغیر کی تاریخ کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکر و فریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ انھیں ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    اس دور اندیش، بہادر اور غیّور خاتون نے انگریز کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر ہر مذہب کے پیروکاروں کو متحد ہونے کی تلقین کی اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

    بیگم حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ وہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے انگریز اودھ کے دربار پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں‌ تھا کہ ایک لڑکی راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی۔

    تاریخ نے اس لڑکی کو کئی نام دیے مثلاً محمدی خانم، مہک پری، افتخار النساء، راج ماتا، جنابِ عالیہ، لیکن اس لڑکی کا سب سے مشہور نام بیگم حضرت محل تھا۔

    انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ہندوستانی ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور وہ کلکتہ چلے گئے تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔

    بیگم حضرت محل نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم اور باحوصلہ ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ پالیسی سازی اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ایک عورت ہونے کے باوجود میدانِ جنگ میں عزم و ہمّت کی مثال قائم کی۔ وہ دو سال تک لڑائی جاری رکھتے ہوئے اپنی افواج کو منظّم اور ان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کرتی رہیں۔ ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات بڑھ گئیں، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ انگریزوں نے انھیں وظیفہ و شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محروم ہوجانے کے بعد ان کا آزادی کا خواب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور وہیں ان کا مدفن بنا۔

  • نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    اودھ کے فرماں رواؤں کو ان کی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی اور سرپرستی کی وجہ سے شہرت اور تاریخ میں خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس ریاست کے آخری فرماں روا نواب واجد علی شاہ اختر بھی اپنی ادب دوستی اور باکمال و یکتائے زمانہ شخصیات پر اپنی نوازش و اکرام کے سبب مشہور ہیں۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور شعرا کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ کو رنگین مزاج اور عیّاش نواب بھی کہا جاتا ہے، تاہم ان کی ایسی شہرت دراصل انگریزوں کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں کا نتیجہ تھی۔ وہ 1822ء کو اودھ کے شاہی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ انھیں شروع ہی سے رقص، شاعری اور موسیقی سے لگاؤ تھا۔ خود بھی رقص، گانے بجانے کے ماہر تھے۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ ناٹک کو بھی فروغ دیا اور ڈرامے لکھے جنھیں باقاعدہ پردے پر پیش کیا جاتا تھا۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کتھک رقص کو نئی زندگی دی۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کا احیا کیا اور اس میں طاق اور ماہر فن کاروں کو لکھنؤ میں جمع کیا۔ انھوں نے اس فن میں استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں سے تربیت لی تھی۔ واجد علی شاہ نے خود کئی نئے راگ اور راگنیاں ایجاد کی تھیں۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی فرماں روا ادب، تہذیب و ثقافت کا ایسا دلدادہ نہیں تھا جیسا کہ واجد علی شاہ اختر تھے۔ انھوں نے رقص اور موسیقی کے رموز پر تحریری مواد بھی یادگار چھوڑا جو سو سے زائد کتابچوں پر مشتمل ہے۔

    ہندوستان کے اس تہذیب و ثقافت کے دلدادہ حکم راں کو انگریزوں کی وجہ سے الم ناک حالات میں لکھنؤ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی زوجہ حضرت محل کے نام سے مشہور ہیں جو خود بھی شاعرہ تھیں اور انھوں نے بعد میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں بڑا اہم کردار نبھایا۔

    واجد علی شاہ کی تخت نشینی کا سن 1847ء تھا جس کے فوراً ہی بعد ان پر ریاست میں بدنظمی، انتشار کو روکنے میں ناکامی اور نا اہلی کے الزام لگا کر انھیں معزول کردیا گیا۔ انگریز تمام اختیار اور انتظام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں واجد علی شاہ کو ناکام والی ثابت کرکے چھوڑا۔ اس ضمن میں ایک برطانوی افسر نے ریاست کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ تیار کی اور حکام کو بھیجی جس کی بنیاد پر انھیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، وہ 1857 میں واجد علی شاہ اپنے بیٹے کو تخت نشیں کر کے خود وہاں سے رخصت ہوگئے۔ وہ بعد میں یکم ستمبر 1887ء کو کلکتہ میں وفات پاگئے۔

    مذکورہ رپورٹ کی تیاری کے لیے برطانوی افسر اور اس کی ٹیم کے اراکین نے تین مہینے تک ریاست کا دورہ کیا اور رپورٹ میں رعایا کی تباہ حالی اور حکام کی سر کشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ میں لاقانونیت، قتل اور لوٹ مار معمول ظاہر کی گئی جس کے بعد واجد علی شاہ کو معزولی کا سامنا کرنا پڑا۔