Tag: وادی سندھ

  • ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا’

    ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا’

    کراچی: وزیر تعلیم و ثقافت سردار علی شاہ نے سندھ کی پُر امن ثقافت کے حوالے سے ایک تقریب میں کہا ہے کہ ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا۔’

    وہ کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے پاکستان کو سندھ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا آج کا پاکستان تاریخی طور پر وادئ سندھ ہی تھا۔

    انھوں نے کہا تاریخی طور پر وادئ سندھ ہی اس خطے کی اصل شناخت ہے، انڈس سے ہی انڈیا نکلا ہے، کشمیر بھی تاریخی طور پر پاکستان کا اَن مِٹ حصہ ہے، یہ بات بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھی اپنی کتاب میں لکھی ہے۔

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم شہر کا نام تبدیل کرنے کی منظوری

    سردار علی شاہ نے کہا ہم امن کے داعی ہیں اور کبھی کسی قوم پر حملہ آور نہیں ہوئے، پاکستان کی جانب سے اقوام عالم کو اپنی امن پرستی کا اس سے بڑا کیا ثبوت دیا جا سکتا ہے کہ آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی سائٹ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ میں کبھی حملہ آور نہیں رہے، ہمیں شاہ لطیف، بابا بھلے شاہ، سلطان باہو اور شاہ حسین کے پیغام کو بھی پڑھنا پڑے گا، صدیوں پہلے خواجہ معین الدین اور نظام الدین اولیاء کے صوفی پیغامات نے برصغیر میں امن کی آبیاری کی۔

  • وادی سندھ کے لوگوں کے کھائے جانے والے لڈو دریافت

    وادی سندھ کے لوگوں کے کھائے جانے والے لڈو دریافت

    وادی سندھ کی تہذیب جسے دنیا کی اہم اور منظم ترین تہذیبوں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اپنی جدید خصوصیات کے لیے مشہور ہے، اور اب اس کے بارے میں ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔

    وادی سندھ کی تہذیب جسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے، جنوبی ایشیا کی پہلی شہری تہذیب ہے جو 4 ہزار سال قدیم ہے۔ یہ تہذیب اپنی تعمیرات اور طرز زندگی کے لحاظ سے جدید اور منظم ترین تہذیب مانی جاتی ہے۔

    اس تہذیب کے شہر موجودہ پاکستان، افغانستان کے مشرقی حصے اور بھارت کے مغربی حصے میں ہوا کرتے تھے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ اس تہذیب کے لوگ اپنی غذا کے بارے میں بھی نہایت فکر مندا ہوا کرتے تھے اور متوازن غذائیں کھاتے تھے۔

    بھارتی ریاست راجھستان میں ہڑپہ کے آثار قدیمہ میں ہونے والی کھدائی کے دوران 7 عدد گیندیں دریافت ہوئیں، بعد ازاں نئی دہلی اور لکھنؤ کے آثار قدیمہ کے اداروں نے ان گیندوں کا تجزیہ کیا تو علم ہوا کہ یہ لڈو تھے۔

    ان اداروں کی تحقیق کے نتائج جرنل آف آرکیالوجی سائنس میں شائع ہوئے جس میں کہا گیا کہ یہ لڈو 2600 قبل مسیح کے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان لڈوؤں میں جو، گندم اور دالیں شامل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تہذیب کے افراد پروٹین سے بھرپور غذائیں کھانے کے عادی تھے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان لڈوؤں کو بہت احتیاط سے محفوظ کیا گیا تھا جس کے باعث یہ ملبہ گرنے کے بعد بھی کچلے جانے سے محفوظ رہے، مٹی میں دفن ہوجانے کے سبب ان میں موجود غذائی اشیا کے اجزا بھی برقرار اور محفوظ رہے۔

    اس کھدائی کے دوران ان لڈوؤں کے ساتھ بیلوں کی 2 مورتیاں اور کلہاڑی سے ملتا جلتا کانسی کا ایک آلہ بھی دریافت ہوا ہے۔

  • بھارتی نژادبنگالی آئی ٹی ماہر نے موہن جو داڑو کی زبان کا ترجمہ ممکن بنادیا

    بھارتی نژادبنگالی آئی ٹی ماہر نے موہن جو داڑو کی زبان کا ترجمہ ممکن بنادیا

    وادی سندھ کے قدیم شہر موہن جو داڑو سے برآمد ہونے والی قدیم تحریر بھارتی نژاد بنگالی خاتون آئی ٹی ماہر نے ڈی کوڈ کرلی، انہیں یقین ہے کہ یہ اب تک کی سب سے آسان ڈی کوڈنگ ثابت ہوگی۔

    انڈس ویلی سیویلائزیشن سے برآمد ہونے والی مہروں پر منقش زبان کو دنیا کی سب سے مشکل تصویری رسم الخط سمجھا جاتا ہے ، یہ زبان مصر کی قدیم علامتی زبان سے بھی زیادہ مشکل ہے ، تاہم بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والی آئی ٹی پروفیشنل بہاتا انگشومالی مکھو پادھے نے ترجمہ کرنے کے انتظامات کرلیے ہیں۔

    بہاتا کا کہنا ہے کہ وادی مہران کی یہ قدیم زبان ہمیشہ سے ان کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور ان کی یہی توجہ اور مہارت نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اسے پیشہ ورانہ لیول پر لے جاسکیں ، انہوں نے اس کے لیے جو راستہ چنا وہ مشکل سے ہی کوئی چنتا ہے۔

    بہاتا نے سنہ 2015 میں اپنی جاب سے استعفیٰ دے کر انڈ س ویلی کے اسکرپٹ پر کام شروع کیا ، جو کہ دس ماہ کے طویل عرصے تک جاری رہا ، اس عرصے میں انہوں نے ایک تحقیقاتی مقالہ قلم زد کیا جسے رواں برس نیچر نامی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جرنل پال گریو کمیونی کیشن نے شائع کیا ہے ۔ ان کے اس مقالے کو شائع کرنے سے پہلے اس زبان پر کام کرنے والے کئی نامور اسکالرز نے اسکا جائزہ لیا تھا۔

    وادی مہران کی اس قدیم زبان کو ترجمہ کرنے والی بہاتا کا کہنا ہے کہ ان حروف اور اشکال کو پڑھنے کے کئی طریقے رائج تھے اور لیکن ایک تو وہ سائنٹیفک نہیں تھے ، دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے سے مماثلت بھی نہیں رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان اشکال کے معنی طے کرنے کے لیے ایک بین التنظیمی ضابطہ مقرر کیا ہے اور اشکا ل کی درجہ بندی کی ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ ان کا یہ عمل انڈس کے ان قدیم اشکال کو پڑھنے کے عمل کو انتہائی آسان اور سادہ بنا دے گا۔ ان کے مطابق سنہ 2015 میں ان کی ملاقات ماہر ریاضی داں اور فزکس کے ماہر رانا جے ادھیکاری سے ہوئی تھی۔ بہاتا نے موہن جو داڑو اور دوسری قدیم سائٹس سے برآمد ہونے انسکرپشنوں پر ان کا پہلے سے شائع شدہ کام دیکھ رکھا تھا اور پھر انہیں ان کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا۔

    اس سارے سفر میں بہاتا کا سب سے زیادہ ساتھ کلکتہ یونی ورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر اور ان کے والد امرتیا مکھر جی نے دیا۔ بہاتا کو یقین ہے کہ وادی مہران کی قدیم تحریر پر ان کا کام یقیناً ان کےدونوں مقالہ جات کے ذریعے کامیابی سے ہمکنا ر ہوگا۔

  • موہنجو دڑو کی پراسرار زبان کا راز افشا ہونے کے قریب

    موہنجو دڑو کی پراسرار زبان کا راز افشا ہونے کے قریب

    وادی سندھ کی ہزاروں سال قدیم تہذیب کے اہم شہر موہن جو دڑو کی مکمل تاریخ تاحال اندھیرے میں ہے۔ اس تہذیب کے بارے میں آج تک تعین نہیں کیا جاسکا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے اس قدر جدید اور ترقی یافتہ تہذیب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    اس کھوج میں سب سے بڑی رکاوٹ موہن جو دڑو سے ملنے والی وہ زبان ہے جسے ماہرین آج تک سمجھ نہیں سکے۔ تاہم اب ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ موہن جو دڑو کی زبان کو سمجھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس تہذیب کا جو رسم الخط ملا ہے وہ مختلف دریافتوں میں ملنے والی مہروں، ٹکیوں اور برتنوں پر نقش ہے۔ یہ عبارتیں اور نشانات نہایت مختصر ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ اس دور کی زبان کے ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے۔

    mohenjo-daro-4

    ان عبارتوں اور نشانات کو پڑھنے اور سمجھنے کی تمام کوششیں تاحال بے سود ثابت ہوئی ہیں اور اس وجہ سے ماہرین اس تہذیب کی مکمل تاریخ تک نہیں پہنچ سکے۔

    تاہم اب یونیورسٹی آف واشنگٹن اور ممبئی کے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس زبان کو سمجھنے کے لیے نئے سرے سے کام کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: وادی سندھ کی تہذیب تصورات سے زیادہ قدیم

    دونوں یونیورسٹیوں کی مشترکہ تحقیق کے تحت ماہرین اس تہذیب سے ملنے والی زبان کا موازنہ، اب تک کی تاریخ میں پائی گئی تمام زبانوں سے کر رہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس طرح جدید دور میں کوئی ایک لفظ ملتے جلتے تلفظات اور ہجے کے ساتھ مختلف زبانوں میں موجود ہوتا ہے، اور اس کا مطلب یکساں ہوتا ہے، اسی طرح یہ اصول قدیم زبانوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔

    mohenjo-daro-3

    ماہرین کو یقین ہے کہ وہ مختلف قدیم زبانوں میں، وادی سندھ کی زبان سے ملتے جلتے الفاظ اور علامات تلاش کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

    جرنل سائنس میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق اس ضمن میں کام شروع کیا جاچکا ہے اور اب تک ماہرین کو موہن جو دڑو کی زبان سے مماثل الفاظ و نشانات، میسو پوٹیمین تہذیب کی زبان اور برصغیر کی قدیم تامل زبان میں ملے ہیں۔

    اگر ماہرین اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ قدیم تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا اور ہم تاریخ کے ان گوشوں سے واقفیت حاصل کرسکیں گے جو آج سے قبل سب کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

  • پتھر کے دور میں دانتوں کی تکلیف کا علاج کیسے؟

    پتھر کے دور میں دانتوں کی تکلیف کا علاج کیسے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کے دور میں انسان دانتوں میں سرمئی رنگ کے ایک نایاب پتھر کے ذریعہ سوراخ کیا کرتے تھے جو اس زمانے میں دانتوں کی تکالیف کا انتہائی مؤثر علاج سمجھا جاتا تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع قدیم تہذیبی شہر مہر گڑھ سے ایک دانت برآمد کیا جو پتھر کے زمانے کا تقریباً 9 ہزار سال قدیم ہے۔

    قبرستان سے ملنے والے اس دانت کے تجزیے سے پتہ چلا کہ اس دور میں ماہر دندان دانتوں کی تکالیف دور کرنے کے لیے دانتوں میں سرمئی رنگ کے ایک نایاب پتھر کے ذریعہ سوراخ کر دیا کرتے تھے۔

    teeth-3

    اس پتھر کو تراش کر نوکیلی شکل دی جاتی تھی، اس کے بعد اس سے دانت میں ڈرل کیا جاتا تھا جس سے دانت کا تکلیف کا شکار اور سڑا ہوا حصہ نکل کر باہر آجایا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ طریقہ علاج حیرت انگیز نتائج دیتا تھا اور دانتوں کے ان ٹشوز کو اکھاڑ پھینکتا تھا جو تکلیف کا باعث بنتے تھے۔ ان کے تجزیوں کے مطابق اس علاج کے فوری بعد مریض کچھ بھی چبانے کے قابل ہوتا تھا۔

    ماہرین کو یہاں سے ایسے 4 دانت ملے جن میں کسی خرابی کے شواہد نظر آئے اور ان میں اس پتھر کے ذریعہ کیے گئے سوراخ دکھائی دیے۔

    teeth-2

    واضح رہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب وادی سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہے جو 7 سے 9 ہزار سال قبل کے درمیانی عرصے میں موجود تھی۔ ماہرین کے مطابق اس تہذیب میں زراعت کے ابتدائی آثار ملے تھے اور یہاں گندم، کپاس، اور جو کاشت کی جاتی تھی۔

    اس تہذیب کے آثار صوبہ بلوچستان میں واقع کچی میدان کے قریب واقع ہیں۔