Tag: واصف علی واصف

  • سیاست دانوں کے عوام سے وعدے اور وعدے پورا کرنے کا وعدہ!

    سیاست دانوں کے عوام سے وعدے اور وعدے پورا کرنے کا وعدہ!

    واصف علی واصفؔ ایک بیدار مغز اور اپنے عہد سے جڑے ہوئے انسان تھے جنھیں ایک درویش اور صوفی ہی فلسفی اور دانش ور بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے دروس اور اقوال سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ انسانوں کے لیے نافع و مددگار بننا، ایثار اور ہمدردی کے ساتھ بے غرضی ہی حقیقی معنوں میں ہماری فلاح و نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

    واصف علی واصف نے سیاست دانوں کے وعدوں کے بارے میں کیا خوب لکھا تھا کہ ’’ایک سیاست دان سے کسی نے پوچھا، آپ نے اتنے وعدے کیے، پورا کوئی نہیں کیا۔ اُس نے کہا، وعدے پورا کرنے کا وعدہ تو کیا ہی نہیں۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’تخلیقِ پاکستان ایک وعدہ تھا، خدا کے ساتھ، مسلمانانِ پاکستان کے ساتھ، مسلمانانِ ہند کے ساتھ بلکہ مسلمانانِ عالم کے ساتھ۔ یہی وعدہ ہمارا آئین ہے بلکہ ہمارا دین ہے۔ غریب کو مایوس نہ ہونے دیا جائے اور امیر کو مغرور نہ ہونے دیا جائے۔ یہ وعدہ اُس وقت پورا ہو گا جب نہ کوئی مظلوم ہو گا نہ کوئی محروم۔‘‘

    وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’آج کی زندگی میں ایک گھٹن ہے، ایک حبس ہے۔ آج کی زندگی خود غرضی کی زندگی ہے، کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔ ہر طرف انسانوں کی بھیڑ ہے اور اِس بے پناہ ہجوم میں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔ بد اعتمادی کے اس عہد میں ہر شخص مضطرب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف وبا پھیلی ہوئی ہے۔ بے چینی کی وبا، بے حسی کی وبا، بے کَسی کی وبا، بے نصیبی کی وبا، بے مروتی کی وبا، بے حیائی اور بے وفائی کی وبا۔ ہر حسّاس آدمی کو معاشرتی انحطاط مضطرب کر رہا ہے۔‘‘

  • حسرتوں کے قبرستان کا نوجوان مجاور!

    حسرتوں کے قبرستان کا نوجوان مجاور!

    پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے ہوتی ہے اور جسے ہم غم کہتے ہیں، دراصل وہ ہماری مرضی اور خدا کی منشا کے فرق کا نام ہے۔

    جو لوگ ناکامی کو عذر بنا کر پریشانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں، ان کی زندگی روگ ہو جاتی ہے اور وہ پریشانی کی اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، مگر وہ باہمّت لوگ جو ناکامی کو کام یابی کا پہلا زینہ سمجھ کر جشن مناتے ہیں، قسمت ان پر مہربان ہوتی چلی جاتی ہے۔

    میں حسرتوں کے قبرستان میں مجاور بن کر زندگی بسر کرتے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو ونسٹن چرچل یاد آتا ہے جو چھٹی جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ بدقسمتی کا یہ عالم تھا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ نہ لے سکا لیکن آج اس کا شمار دنیا کے کام یاب ترین حکم رانوں میں ہوتا ہے۔

    آج البرٹ آئن اسٹائن کے نظریات پڑھے بغیر طبیعیات کا مضمون ادھورا محسوس ہوتا ہے لیکن جب وہ پیدا ہوا تو چار سال تک بول نہیں سکتا تھا، اس لیے سات سال کی عمر میں اس کی ابتدائی تعلیم شروع ہوئی۔

    اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ معروف لوگوں نے اپنی کم زوری اور معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ دنیا میں کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا یعنی مکمل نہیں ہوتا، جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پُراعتماد ہوں گے وہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی محسوس کرتا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب کی زندگی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔

    عموماً لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ، اثر رسوخ اور اچھی شکل و صورت ہے تو آپ بہ آسانی منزل طے کرسکتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں، کیوں کہ ان سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے جن کے آگے یہ چیزیں پھیکی پڑ جاتی ہیں اور وہ ہے خود اعتمادی۔ اچھی تربیت شخصیت کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    خود اعتمادی پیدا کرنے اور دنیا میں کام یاب ہونے کے لیے آپ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ سوچ میں انقلاب لانا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ انسان جس طرح سوچتا ہے وہ اُس طرح کا بن جاتا ہے، اگر سوچ صحت مند ہو گی، مثبت ہوگی تو پھر انسان کا وجود اور ذہن بھی صحت مند ہوگا۔ اگر سوچ ہی منفی ہو تو پھر اُس کے اثرات بھی منفی ہوں گے۔

    ایک اور خوب صورت اور بہت اہم بات کہ اللہ کی رضا میں راضی ہوجائیں اور یقین کر لیں کہ وہ جو کرے گا بہتر کرے گا۔

    (واصف علی واصف کے قلم سے ہمّت بندھاتا، زندگی گزارنے کا ڈھب بتاتا اور جینے کا گُر سکھاتا ایک پارہ)

  • وادیِ اذیت اور دنیا دار

    وادیِ اذیت اور دنیا دار

    صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرا دیے جاتے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی توفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی “شکر“ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

    یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادیِ اذیت سے گزر جاتے ہیں۔

    دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے، کیوں کہ یہی مقام و وصالِ حق کا مقام ہے۔
    تمام واصلینِ حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم و رضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔

    یہی شانِ عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو، دل یادوں سے زخمی ہو اور درِ نیاز سجدہ میں ہو کہ “اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تُو ہے کہ تُو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا، تیری طرف سے آنے والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تُو ہے جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعثِ تسکین روح و دل بنایا۔“

    (واصف علی واصف کی کتاب “دل، دریا، سمندر سے اقتباس)

  • فطرت الگ، منزل جدا….

    فطرت الگ، منزل جدا….

    ایک دفعہ ایک گدھ اور شاہین بلند پرواز ہو گئےـ بلندی پر ہوا میں تیرنے لگے۔ وہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے تھے۔

    اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بے نیاز، آسمان سے بے خبر، بس مصروفِ پروازـ دیکھنے والے بڑے حیران ہوئے کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں، ہم پرواز کیسے ہو گئے؟

    شاہین نے گدھ سے کہا، "دیکھو! اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں۔”

    گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا۔ "ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہے۔ میرے پَر بھی بلند پروازی کے لیے مجھے ملے ہیں۔” لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا۔ اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ اس نے شاہین سے کہا، "جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی، مجھے میری منزل پکار رہی ہے۔” اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مردار پر آ گرا۔

    فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی۔ ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا۔

    انسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جو کمینہ(پست اور تنگ نظر) ہے وہ کمینہ ہی ہے، خواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو۔

    میاں محمّد صاحبؒ کا ایک مشہور شعر ہے:
    نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایا
    ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا

    (ترجمہ و مفہوم: کم ظرف یا پست ذہنیت انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہر گچھا زخمی ہو جاتا ہے)

    (واصف علی واصف کے افکار)