Tag: والدین

  • شقی القلب والدین نے معصوم بچے کو بھوکا رکھ کر مار دیا

    شقی القلب والدین نے معصوم بچے کو بھوکا رکھ کر مار دیا

    امریکی ریاست الباما میں اپنے 3 سالہ بچے کو فاقوں سے ہلاک کرنے والے والدین پر مقدمے کی کارروائی جلد شروع کردی جائے گی اور انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    الباما کے علاقے ہنٹسول میں پیش آنے والے اس دلدوز واقعے کے ذمہ دار والدین کو گرفتار کرلیا گیا ہے، والدین نے اپنے 3 سالہ بیٹے کو بھوکا رکھ کر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

    شعوری طور پر کی جانے والی اس بدترین غفلت کے بعد اب فریڈرک انتھونی اور اہلیہ ایشلے الزبتھ کو عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    3 سالہ بچے کی موت چند ماہ قبل ہوئی تھی، بچے کے بے ہوش پائے جانے پر گھر والوں نے ایمرجنسی سروس طلب کی تھی جنہوں نے آ کر بچے کی موت کی تصدیق کردی۔

    بچے کا وزن صرف 13 پونڈز تھا جبکہ اس کا گھر میں موجود 4 سالہ بھائی بھی صرف 15 پونڈز کا تھا۔ پوسٹ مارٹم سے علم ہوا کہ بچہ بھوک سے جاں بحق ہوا۔

    والدین پر چائلڈ ابیوز کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جلد مقدمے کی کارروائی شروع ہوجائے گی۔

  • بیٹے کو بھیانک سزا دینے والے والدین کو عمرقید

    بیٹے کو بھیانک سزا دینے والے والدین کو عمرقید

    ماسکو: روس میں بیٹے کو اذیت ناک سزا دینے والے والدین کو عدالت نے عمرقید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سوتیلے باپ نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر بیٹے کو اذیت بھری سزا دی۔ بیٹے کو نوکیلی بیج(بک وھیٹ) پر ننگے گھٹنوں کے بل کھڑا رکھا گیا جس کے باعث اس کے گھٹنے شدید زخمی ہوگئے۔

    عدالت نے 27 سالہ علینہ نامی والدہ کو ڈیڑھ سال جبکہ 35 سالہ سرگے نامی والد کو ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی۔ آٹھ سالہ بیٹے کو اسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیج بچے کے گھٹنے چھیلتے ہوئے ہڈیوں میں گڑھ گئے تھے جسے سرجری کے بعد نکالا گیا۔

    عدالت نے والدین کو 8 ہزار 825 پاؤنڈ جرمانے کی بھی سزا سنائی ہے۔ اس واقعے کے بعد بچے کو فلاحی ادارے میں رکھا گیا ہے جبکہ کئی ایسے والدین بھی سامنے آئیں جنہوں نے اس بچے کی پرورش کی ذمے داری اٹھانے کی خواہش ظاہر کی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ والدین نے بچے کو تقریباً 9 گھنٹے تک اسی طرح گھٹنوں کے بل نوکیلی بیج کر کھڑا رکھا جس کے باعث گہرے زخم آئے، اس دوران بچے کو لاتیں ماری گئیں اور بال بھی کھینچے گئے۔

    عدالت میں نرس کا کہنا تھا کہ اس نے اس سے پہلے کبھی ایسی اذیت بھری سزا والدین کے ہاتھوں نہیں دیکھی۔

  • زلفی بخاری کی چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کے والدین سے ملاقات

    زلفی بخاری کی چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کے والدین سے ملاقات

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاونین خصوصی زلفی بخاری اور ڈاکٹر ظفر مرزا نے چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کے والدین سے ملاقات کی اور بتایا کہ حکومت چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کی مشکلات حل کرنا چاہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معاونین خصوصی برائے اوور سیز پاکستانی زلفی بخاری اور برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کے والدین سے ملاقات کی اور انہیں بریفنگ دی۔

    زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چین میں کرونا وائرس کی صورتحال بہت گھمبیر ہو چکی ہے، کرونا وائرس کی ساخت سے متعلق تاحال کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ حکومت چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کی مشکلات حل کرنا چاہتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وائرس کا کوئی حل نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی ماہر موجود ہے، بہت سے ممالک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کسی کو اندازہ نہیں کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

    زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وہاں رہنے والے پاکستانی طلبا محفوظ ہاتھوں میں ہیں، سفارت خانے سے 2 افراد کو ووہان جانے کی اجازت ہے۔ کئی ممالک کو اس حوالے سے کیے گئے اقدامات پر یقین نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اقدامات کے نتائج کے حوالے سے ابھی تک کسی کو نہیں پتہ، 2 افراد کو اس شرط پر جانے کی اجازت دی گئی کہ وہ بغیر چیک نہیں آسکیں گے۔ ہم نے اپنے لوگ اس لیے بھیجے تاکہ وہاں وہ بچوں کا درد دیکھ سکیں، وہ وہاں ہی رہیں گے۔

    معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ حکومت اور کابینہ کو احساس ہے کہ ہم کوئی حکمت عملی آپ سے شیئر کریں، معاملہ اپنی اولاد کا ہو تو خواہش ہوگی کل کے بجائے آج ہی بچے واپس آجائیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم سب کو بھرپور اندازہ ہے کہ بچوں کے والدین بہت پریشان ہیں، والدین کے تحفظات اپنی جگہ لیکن حالات بھی دیکھیں۔

    اس سے قبل کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ایمرجنسی کور گروپ کے اجلاس کے دوران ظفر مرزا نے بتایا تھا کہ اب تک قومی ادارہ صحت کو کرونا وائرس کے مشتبہ 89 نمونے موصول ہوئے ہیں، موصول ہونے والے تمام نمونے منفی ہیں، پاکستان میں اس وقت کرونا وائرس کا کوئی کیس نہیں۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹس پر مسافروں کی اسکریننگ کو مربوط بنایا گیا ہے اور 4 لاکھ سے زائد باہر سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ ہوچکی ہے۔

  • سعودی عرب: 20 سال قبل اغوا ہونے والے بچوں کا معاملہ الجھ گیا

    سعودی عرب: 20 سال قبل اغوا ہونے والے بچوں کا معاملہ الجھ گیا

    ریاض: سعودی عرب میں 20 سال قبل اغوا ہونے والے بچوں کے معاملے کی گتھی تاحال نہ سلجھ سکی۔

    عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں بچوں کے اغوا سے متعلق یہ منفرد واقعہ ہے۔ اغوا ہونے کے بیس سال بعد منظر عام پر آنے والے بچوں کے اصل والدین کا پتا لگانے میں پولیس تاحال ناکام ہے۔

    اغوا ہونے والے ایک بچے کے دعویدار باپ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے حاصل کرلیے ہیں، جلد انہیں بھی یقین آجائے گا یہ میرا ہی بیٹا ہے، ہمارا حقیقی بیٹا جلد اصل گھر کے دسترخوان پر ہمارے ساتھ ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ حال ہی گرفتار ہونے والی عورت نے میرے بچے کو 20 برس قبل اسپتال سے اغوا کیا تھا، اسپتال کے کلوز سرکٹ کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک عورت میرے بچے کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہے۔

    سعودی عرب: جج کے اغوا میں ملوث 3 افراد گرفتار

    خیال رہے کہ سعودی عرب کے مشرقی ریجن کے علاقے دمام میں ایک خاتون نے دو بچوں کی 20 برس تک پرورش کی۔ جب شناختی کارڈ بنوانے کے لیے دستاویزات طلب کی گئی تو وہ خاتون کے پاس نہیں تھیں جس کے بعد حقیقت سامنے آگئی جبکہ خاتون نے بچوں کی والدہ نہ وانے کا بھی اعتراف کیا۔

    گرفتار خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں یہ بچے کہیں پڑے ملے تھا تو اس نے اٹھا کر پولیس کے مطلع کیے بغیر ان کی پرورش شروع کردی۔ خیال رہے کہ مذکوہ خاتون کے پاس ایک اور بچہ بھی موجود ہے پولیس نے اس سے متعلق بھی تحقیقات شروع کردی ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ بچہ بھی اغوا شدہ ہوسکتا ہے۔

  • 18 سالہ لے پالک بیٹے نے والدین کو قتل کردیا

    18 سالہ لے پالک بیٹے نے والدین کو قتل کردیا

    امریکا میں لے پالک بیٹے نے والدین کو قتل کر کے ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی تاہم جلد ہی پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔

    امریکی ریاست جارجیا میں 18 سالہ لڑکے نے اپنے لے پالک والدین کو قتل کردیا، بعد ازاں خود ہی پولیس کو فون کر کے واقعے کی اطلاع دی۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف اور غم کی فضا ہے۔

    پولیس کے مطابق لڑکے نے پولیس کو فون کیا اور کہا کہ اس کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں۔

    پولیس نے شک کی بنا پر لڑکے کو حراست میں لیا تو اس نے اقرار کرلیا کہ اپنے والدین کو اس نے ہی قتل کیا۔

    لڑکے کا کہنا تھا کہ اس کے لے پالک والدین نے ایک پارٹی میں مہمانوں کے درمیان اسے گود لینے کے حوالے سے ایسے الفاظ کہے جس سے اسے سخت شرمندگی اور تکلیف محسوس ہوئی۔

    اس واقعے کی گرہ لڑکے کے دل میں بیٹھ گئی اور چند دن بعد اس نے غصے میں فائرنگ کر کے والدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    قتل کرنے کے بعد اس نے واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی، اس نے گھر کا سیکیورٹی سسٹم ناکارہ کردیا اور اپنی لے پالک ماں کے کچھ زیورات بھی چھپا دیے۔

    اس کے بعد وہ گھر سے نکلا، آلہ قتل ایک دریا میں بہا دیا اور واپس آ کر پولیس کو کال کی۔ بعد ازاں پولیس کو جلد ہی حقیقت کا علم ہوگیا اور اس نے لڑکے کو حراست میں لے لیا۔

    پڑوسیوں کے مطابق مقتولین نہایت اچھی عادات کے حامل تھے، البتہ لڑکے کارل کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتے تھے، وہ زیادہ تر اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو جلد ہی عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔

  • موڈ خراب ہونے پر ٹیچر کا ننھے بچوں سے انسانیت سوز سلوک

    موڈ خراب ہونے پر ٹیچر کا ننھے بچوں سے انسانیت سوز سلوک

    چین کے ایک کنڈر گارڈن میں ایک ٹیچر کو، ننھے بچے کو بالوں سے پکڑ کر جگانے اور زمین پر پٹخنے کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    یہ افسوسناک واقعہ جنوبی چین میں واقع ایک کنڈر گارڈن میں پیش آیا۔ ٹیچر کی بے رحمی سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نے سوتے ہوئے بچے کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔

    ٹیچر کی بے رحمی اس وقت سامنے آئی جب ماں نے بچے کے سر اور جسم پر زخموں کے نشان دیکھے اور کنڈر گارڈن کی انتطامیہ سے اس کی شکایت کی۔ ماں نے ان سے سی سی ٹی وی فوٹیج دکھانے کا مطالبہ بھی کیا۔

    ماں کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد بچے نے مستقل سر درد کی شکایت بھی کی جس کے بعد اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔

    مذکورہ ماں کی شکایت کے بعد دیگر والدین نے بھی شکایت کی کہ ان کے بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ والدین کی شکایت کے بعد جب انتظامیہ نے مزید فوٹیجز چیک کیں تو اس نوعیت کے مزید واقعات کے بارے میں علم ہوا۔

    ایک فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ایک ٹیچر نے بچے کو سزا کے طور پر کئی گھنٹے تک بیڈ پر کھڑا رکھا۔ ایک اور ویڈیو میں ٹیچر نے سوتے ہوئے بچوں کو مار کر جگایا اور اس دوران اس نے لوہے کے اسکیل کا استعمال کیا جس سے بچوں کے سر پر مارا۔

    کنڈر گارڈن کی دوسری ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بچے کو پٹخنے والی ٹیچر یوں تو ایک خوش مزاج خاتون ہیں تاہم اس دن ان کا موڈ خراب تھا۔

    پولیس نے مذکورہ ٹیچر کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی ہے۔

  • 6 سالہ جھلسی ہوئی بچی کے والدین علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور

    6 سالہ جھلسی ہوئی بچی کے والدین علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور

    کراچی: پنو عاقل سے تعلق رکھنے والے والدین 2 روز سے اپنی 6 سالہ جھلسی ہوئی بچی لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے، بچی کو مختلف اسپتالوں نے علاج سے منع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کی تحصیل پنو عاقل سے تعلق رکھنے والی 6 سالہ معصومہ 2 روز قبل چائے کے برتن میں گر کر جھلس گئی، 2 روز سے والدین سندھ بھر کے اسپتالوں میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

    والدین کا کہنا ہے کہ بچی کو سول اسپتال پنو عاقل لے کر گئے تو انہوں نے سول اسپتال سکھر بھیج دیا، سول اسپتال سکھر گئے تو انہوں نے کراچی این آئی سی ایچ بھیج دیا۔

    والدین کا مؤقف ہے کہ این آئی سی ایچ گئے تو انہوں نے کراچی سول اسپتال برنس وارڈ بھیج دیا لیکن برنس وارڈ میں بھی علاج کرنے سے منع کردیا گیا۔

    مجبور باپ نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ بیٹی کو جھلسے 48 گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، بیٹی کو لے کر سندھ بھر کے اسپتالوں میں گھما چکا ہوں۔

    والدین نے میڈیا کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ خدارا انصاف کیا جائے اور بیٹی کا علاج کیا جائے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل بھی سندھ میں اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب شکار پور میں 10 سالہ بچے کو کتے نے کاٹ لیا تھا۔

    والدین اسے لے کر اسپتالوں میں گھومتے رہے لیکن کہیں ویکسین نہ ملی، معصوم بچے نے تڑپ تڑپ کر ماں کی گود میں جان دے دی تھی۔

  • والدین پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کا حصہ بنیں، عثمان بزدار

    والدین پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کا حصہ بنیں، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ والدین پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کا حصہ بنیں، پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پولیو کے مرض سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کا تسلسل اجتماعی ذمہ داری ہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ مہم کی کامیابی کے لیے مدارس، اسکولز اور ادارے مل کرکام کریں، والدین پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کا حصہ بنیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے آگاہی مہم چلا رہے ہیں، بچوں کے صحت مند مستقبل کے لیے ہرممکن وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔

    ملک میں پولیو کے 3 نئے کیسز سامنے آ گئے

    یاد رہے کہ رواں ہفتے ملک میں پولیو کے تین نئے کیسز سامنے آئے تھے، جس کے بعد رواں برس کے مجموعی پولیو کیسز کی تعداد 76 ہو گئی تھی۔

    لکی مروت کی یو سی سلمان خیل کی 7 ماہ کی بچی، پہاڑ خیل ٹھل کا 21 ماہ کا بچہ اور بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے 11 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ پولیو سے بچاؤ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں پولیو کے مرض سے آگاہی اور اس کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنا ہے۔ یہ دن ہر سال 24 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔

  • بچے کی عمر کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر

    بچے کی عمر کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر

    والدین بننا زندگی میں تبدیلیاں لانے والا عمل ہے جو ساتھ ہی والدین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کردیتا ہے۔ تاہم اکثر والدین اس ذمہ داری کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    حال ہی میں ایک سروے سے علم ہوا کہ بچے کی پیدائش کا پہلا سال والدین کے لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے۔

    امریکا میں کیے جانے والے اس سروے کے لیے 2 ہزار والدین کا جائزہ لیا گیا جس میں دیکھا گیا والدین ایک دن میں کم از کم 7 باتوں پر اختلاف کرتے ہیں جس کا اختتام چھوٹی یا بڑی لڑائی پر ہوتا ہے۔

    یہ اختلافات بچے کی پرورش، اس کی دیکھ بھال اور بچے کے حوالے سے دیگر امور پر ہوتے ہیں۔

    والدین کے درمیان اس بات پر بھی لڑائی ہوتی ہے کہ دونوں میں سے کون زیادہ تھکا ہوا ہے اور رات کے وقت کون بچے کے لیے جاگے گا۔ دونوں کے درمیان گھریلو کام بھی لڑائی کی وجہ بنتے ہیں۔

    سروے میں دیکھا گیا کہ ایسا جوڑا جو بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے پر یقین رکھتا ہے وہ بھی اس ایک سال کے دوران غلط فہمیوں اور لڑائی جھگڑوں سے نہیں بچ سکتا۔

    ماہرین کے مطابق بچے کی عمر کے پہلے سال میں والدین مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے نیند کی کمی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور یوں وہ چڑچڑے ہو کر ذرا ذرا سی بات پر آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔

    سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اکثر والدین کو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بچے کی پیدائش میں جلد بازی کی اور انہیں مزید وقت لینا چاہیئے تھا، 10 میں سے 4 والدین کا خیال ہوتا ہے کہ انہیں والدین بننے سے قبل مزید تیاری کرنی چاہیئے تھی۔

  • ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    کیا آپ والدین ہیں اور چاہتے ہیں کہ روز رات کو سونے سے قبل آپ کا بچہ چپ چاپ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے سوئے؟ تو جان لیں کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک غیر ضروری سرگرمی میں مصروف کر رکھا ہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔

    ایک طویل عرصے تک بے شمار تحقیقوں اور رد و کد کے بعد بالآخر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہوم ورک یعنی اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام ایک ایسی شے ہے جس کا بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    سنہ 1989 سے مختلف اسکولوں اور طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالنے کے باوجود ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہوم ورک نے بچے کی کارکردگی یا شخصیت پر کوئی مثبت اثر مرتب کیا ہو۔

    ماہرین نے اس ضمن میں طالب علموں کو 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان کی طویل تحقیق کے مطابق ایلیمنٹری اسکول کے بچے یعنی 6 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہوم ورک بالکل غیر ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچے تعلیم اور نصاب سے متعلق جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسکول میں ہی سیکھتے ہیں، ہوم ورک ان کے لیے صرف ایک اضافی مشقت ہے جو انہیں تھکا دیتا ہے۔

    یہی کلیہ مڈل اسکول کے بچوں کے لیے ہے۔ ہائی اسکول میں جا کر ہوم ورک کے کچھ فوائد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس ہوم ورک کا وقت صرف 2 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ 2 گھنٹے سے زیادہ ہوم ورک بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ان میں تعلیم، پڑھنے، مطالعہ کرنے اور نیا سیکھنے سے محبت پیدا ہو۔ لیکن ہوم ورک الٹا اثر کرسکتا ہے اور بچوں میں ان تمام ضروری اشیا سے محبت کے بجائے چڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔

    ان کے دل میں اسکول سے متعلق منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہونے تک برقرار رہ سکتے ہیں یعنی پڑھائی ان بچوں کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہوم ورک بچوں کے کھیلنے کا وقت بھی محدود کرتا ہے چنانچہ وہ کھلی فضا میں جانے اور جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوم ورک کسی خاندان کے رشتے کو بھی کمزور کرسکتا ہے۔ روز رات میں ہوم ورک کروانے کے لیے والدین کی آپس میں بحث، بچوں کا رونا، ضد کرنا اور والدین کی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ان کے تعلق کو خراب کرسکتی ہے۔

    دن کے اختتام کا وہ وقت جب پورا خاندان مل بیٹھ کر، گفتگو کر کے اور ہنسی مذاق کر کے اپنے رشتے کو بہتر اور مضبوط بنا سکتا ہے، اس جھنجھٹ کی نذر ہوجاتا ہے، ’کیا تم نے اپنا ہوم ورک کرلیا‘؟

    ماہرین نے ہوم ورک کے مزید مضر اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوم ورک کے لیے بچوں کو کسی بڑے کی مدد درکار ہوتی ہے، یہ مدد بچے کی خود سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کرتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    اسی طرح دن کے اختتام پر والدین کو بھی صرف یہی سننا ہے کہ ہوم ورک مکمل ہوگیا۔ اس ہوم ورک سے ان کے بچے نے کیا نیا سیکھا، اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بچوں کو ہوم ورک دینے کے بجائے گھر پر مطالعہ کرنے کا کہا جائے۔ یہ مطالعہ باآواز بلند ہو جس سے گھر کے دیگر افراد بھی اس سرگرمی میں شامل ہوجائیں گے۔

    یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں کچھ دن بچے خود مطالعہ کریں، اور کچھ دن کسی اور سے مطالعہ کروائیں اور خود صرف سن کر آئیں۔ اس سرگرمی سے وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو ہم اپنی دانست میں ہوم ورک سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔