Tag: والدین

  • سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    سخت گیر ماؤں کے بچے خوش ہوجائیں

    کہا جاتا ہے کہ والدین کو بچوں کا دوست ہونا چاہیئے، اور ان پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیئے۔ تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ سخت گیر والدین خصوصاً مائیں بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سخت گیر اور تنقیدی ماؤں کے بچے نرم مزاج رکھنے والی ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مائیں جو اپنے بچوں کی غلطیوں پر سختی سے پیش آتی ہیں، ان کی کڑی روٹین رکھتی ہیں اور ان پر مختلف ذمہ داریاں ڈال دیتی ہیں، درحقیقت وہ مستقبل میں اپنے بچوں کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہوتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    ایسے بچے بچپن میں اپنی ماؤں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ان کی والدہ نے ان کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے، لیکن یہی ’جہنم‘ ان کی آگے کی زندگی کو جنت بنا سکتی ہے جس کے لیے وہ اپنی والدہ کے شکر گزار ہوں گے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گھر کا کام کرنے والے اور مختلف ذمہ داریاں اٹھانے والے بچے بھی بڑے ہو کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر جولی ہیمز کے مطابق جب آپ اپنے بچوں سے گھر کے مختلف کام کرواتے ہیں، تو دراصل آپ انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہ کام کرنے ضروری ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں۔

    جولی کہتی ہیں کہ جب بچے یہ کام نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر کا کوئی دوسرا فرد یہ کام انجام دے رہا ہے، یوں بچے نہ صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں سیکھ پاتے کہ گھر کے کام ہوتے کیسے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بچے دیگر افراد کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتے ہیں تو ان میں ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، ایسے بچے بڑے ہو کر اکیلے مختلف ٹاسک لینے اور انہیں پورا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے اور یہ تمام عوامل کسی انسان کو کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔

  • بچے کی پیدائش میں غلطی، والدین نے کلینک پر مقدمہ کردیا

    بچے کی پیدائش میں غلطی، والدین نے کلینک پر مقدمہ کردیا

    واشنگٹن : متاثرہ خاندان نے عدالت میں دائر کردہ مقدمے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئی وی ایف سنٹر نے طبی ذمہ داریاں نبھانے میں غفلت برتی جس کے باعث ہمارے ہاں دوسرے والدین (دوسری نسل) کے بچے پیدا ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ میں مقیم ایک ایشیائی خاندان نے ’ان وٹرو فرٹیلائیزیشن‘ (آئی وی ایف) کے ذریعے پیدا ہونےوالے بچوں کی دوسری نسل سے مشابہت کے باعث علاج کرنے والی کلینک پر مقدمہ دائر کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایشیائی جوڑے نے 2012 میں شادی کی تھی، تاہم ان کے ہاں حمل نہیں ٹھہرتا تھا، جس کے باعث جوڑے نے بچوں کی پیدائش کےلئے مصنوعی طریقہ (آئی وی ایف) استعمال کیا۔آئی وی ایف کے دوران بچوں کا تولیدی عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہناتھا کہ مصنوعی طریقے سے بچوں کی پیدائش کا عمل دنیا بھر میں رائج ہے اور بیشمار جوڑے اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اس طریقے سے دنیا کی معروف شخصیات بھی مستفید ہوتی رہی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئی وی ایف کے ذریعے دوسری نسل کے بچے پیدا ہونے پر کلینک پر مقدمہ کرنےوالے ایشیائی جوڑے نے دعویٰ کیا کہ ان کے ہاں پیدا ہونےوالے بچے ایشیائی نسل سے نہیں ہیں۔

    متاثرہ جوڑے نے لاس اینجلس کے آئی وی ایف کے معروف سینٹر ’چا آئی وی ایف‘ پر دائر کئے گئے مقدمے میں ڈاکٹرز پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی خلاف ورزی اور جوڑے کو جان بوجھ کر جذباتی تکلیف دینے کے الزامات لگائے ہیں۔

    فیملی نے مقدمے میں آئی وی ایف سینٹر کے 2 افراد کو مالک اور ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کرکے ان پر طبی ذمہ داریاں نبھانے میں غفلت کا الزام لگایا ہے۔

    ایشیائی جوڑے نے نیویارک کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپنے نام وائی زیڈ اور اے پی کے طور پر ظاہر کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ڈی این اے سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پیدا ہونےوالے بچے ان کے نہیں۔

    جوڑے کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی وی ایف کا علاج کروانے کے دوران ایک لاکھ امریکی ڈالر یعنی پاکستانی ڈیڑھ کروڑ روپے تک خرچ کیا اور انہیں علاج کے ابتدائی چند ماہ میں ہی علاج میں غفلت کا اندیشہ ہوا۔

    ان کے مطابق انہوں نے علاج کے دوران حمل ٹھہرنے کے بعد ٹیسٹ کروایا تھا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے ہاں بچیوں نہیں بلکہ بچوں کی پیدائش ہوگی۔

    جوڑے نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ٹیسٹ کے نتائج سے کلینک کو آگاہ کیا تاہم کلینک نے بتایا کہ ٹیسٹ درست نہیں آیا ہوگا۔ایشیائی جوڑے نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے بیٹوں نہیں بلکہ بیٹیوں کی پیدائش کےلئے علاج کروایا تھا اور انہیں درست علاج ہونے کی یقین دہائی کروائی گئی تھی۔

    مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونےوالے بچے دوسرے والدین کے ہیں اور ان کے ہاں غلط آئی وی ایف استعمال کیا گیا۔جوڑے کی جانب سے مقدمہ دائر کرائے جانے پر آئی وی ایف کلینک نے تاحال کوئی بیان نہیں دیا۔

  • کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض افراد اس ذمہ داری کا مطلب نہایت غلط انداز سے لیتے ہیں اور اپنے بچے کے لیے نہایت حساس ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ صرف بچے کی نگرانی کرنا اور اس کے ہر کام میں مداخلت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہے۔

    یہ انداز تربیت بچوں کی شخصیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور ان کی شخصیت میں منفی پہلو پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین نفسیات ایسے انداز تربیت کو ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ اور ایسے والدین کو ہیلی کاپٹر والدین کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر کی طرح ہر وقت اپنے بچوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہیلی کاپٹر والدین کی وہ کون سی عادات ہیں جس سے وہ لاعلمی میں اپنے بچوں کا نقصان کر رہے ہیں۔

    ہیلی کاپٹر والدین بچوں کے چھوٹے چھوٹے کام خود کرتے ہیں۔

    یہ بچوں کے ہوم ورک اور اسکول کے پروجیکٹس بھی خود کرتے ہیں۔

    ایسے والدین اساتذہ کو مشورے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کو کیسے پڑھانا ہے۔

    اگر بچے کی دوستوں کے ساتھ لڑائی ہوجائے تو اس میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

    بچہ کوئی نیا کام یا تجربہ کرنا چاہے تو ناکامی کے ڈر سے اسے منع کر دیتے ہیں۔

    اگر بچے کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو فوراً اس کی مدد کو پہنچتے ہیں یوں بچہ ہمیشہ والدین پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    بچے کے کھیل سے لے کر تعلیمی سرگرمیوں تک دخل اندازی کرنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

    یہ سلسلہ بڑے ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے، ایسے والدین بچے کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی دخل اندازی کرنے سے باز نہیں آتے اور اس کے پروفیشنل پروفائل اور انٹرویو کی تیاری اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔

    ایسے والدین بچوں کی شادی شدہ زندگی میں بھی مداخلت کرتے ہیں یوں جوڑے کے آپس میں اور بعض اوقات بچوں اور والدین کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    بچوں پر اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

    ہیلی کاپٹر والدین کے بچے سست ہوجاتے ہیں اور ان سے اپنا کوئی کام کرنا محال ہوجاتا ہے۔

    بچے بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے سے کتراتے ہیں اور عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچہ ذاتی اور پیشہ ورانہ کاموں کو خود منظم نہیں کر پاتا کیونکہ انہیں ایسا کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔

    بچہ آرام دہ ماحول کا عادی ہوجاتا ہے۔

    بچہ خود مختار نہیں ہو پاتا اور والدین پر انحصار کرتا ہے۔

    بچہ کسی سے صحت مندانہ تعلقات بنا نہیں پاتا اور تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    اپنی زندگی کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کے بعد بچہ (جو اب بڑا ہوچکا ہوتا ہے) مایوسی، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے خصوصاً اگر وہ ایسے موڑ پر ہو جب والدین اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں۔

    یاد رکھیں، والدین کی ذمہ داری صرف بچے کو مشکلات سے بچانا نہیں ہے۔ مشکلات ہر شخص کی زندگی میں آتی ہیں چاہے ان سے بچنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔

    اہم یہ ہے کہ مشکل وقت کو گزارا جائے اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ بچے کو بغیر کسی سہارے کے اپنی سمجھ بوجھ اور حالات کے مطابق مشکلات کا سامنا کرنا سکھائیں۔

  • بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    بچوں کو گھر کے کام کس طرح سکھائے جائیں؟

    ہمارے یہاں اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے اپنے کمرے کو بے ترتیب رکھتے ہیں، اپنا کوئی کام نہیں کرتے اور معمولی سے کام کے لیے بھی انہیں امی یا بہن کی مدد درکار ہوتی ہے۔

    یہ عادت نوجوانی تک ساتھ رہتی ہے اور کئی افراد بڑے ہونے کے بعد بھی اپنا کوئی ذاتی کام تک ڈھنگ سے انجام نہیں دے پاتے۔

    دارصل مائیں شروع میں تو لاڈ پیار میں بچوں کے سارے کام انجام دے دیتی ہیں لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ کام کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور اس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچے کو نہایت بدسلیقہ اور کاہل بنا دیا ہے۔

    ایسے بچے اس وقت پریشانی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب انہیں ملک سے باہر اکیلے رہنا پڑے اور سارے کام خود کرنے پڑیں تب انہیں بھی احساس ہوتا ہے انہیں تو کچھ کرنا نہیں سکھایا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو بچپن ہی سے نظم و ضبط میں رہنے کی عادت سکھائی جائے تو وہ آگے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات سے بچ جاتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس طرح سے گھر کے کام سکھائیں جائیں؟ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک خاتون جینی اس کا بہت شاندار طریقہ تجویز کرتی ہیں۔

    جینی 16 عدد بچوں کی والدہ ہیں، جی ہاں 16 بچے۔ جینی کا کہنا تھا کہ جب ان کے بچوں کی تعداد 7 ہوگئی تو انہوں نے سوچا کہ وہ تو سارا وقت ان کے کام کرنے میں مصروف رہیں گی اور ان کی زندگی میں کچھ باقی نہیں بچے گا۔

    چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کاموں میں مصروف کریں۔

    جینی کا کہنا تھا کہ اتنے سارے بچوں کی موجودگی کے باعث وہ انفرادی طور پر کسی پر توجہ نہیں دے سکتیں تھیں اور انہیں ڈر تھا کہ جب بچے بڑے ہو کر خود مختار زندگی گزاریں گے تو ان کے لیے زندگی مشکل ہوگی۔

    اب جبکہ جینی کے گھر میں 4 سے 28 سال تک کی ہر عمر کے افراد موجود ہیں، تو ان کے گھر میں ایک ہفتہ وار شیڈول تیار کیا جاتا ہے۔ اس شیڈول میں ہر شخص کو کام دیے جاتے ہیں کہ کس دن اس نے کون سا کام سر انجام دینا ہے۔

    یہ شیڈول دیوار پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو ہر بار نئے کام دیے جاتے ہیں تاکہ ہر بچہ تمام کام کرنا سیکھ جائے۔

    جینی کی اس حکمت عملی کی بدولت اب ان کا 12 سالہ بیٹا 20 افراد کے لیے باآسانی ڈنر تیار کرسکتا ہے اور اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    جینی کا کہنا ہے کہ جب بچے چھوٹے تھے تب انہیں سکھانے کی ضرورت پڑی تھی، اب بڑے بچے چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں یوں تمام کام باآسانی انجام پاجاتے ہیں۔

    جینی دوسری ماؤں کو بھی یہی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کے بچے عملی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں، بلکہ وہ گھر کے کاموں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

    کیا آپ اس حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیں گے؟

  • نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافہ، والدین نے سرکاری اسکولوں کارخ کرلیا

    نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافہ، والدین نے سرکاری اسکولوں کارخ کرلیا

    کراچی: نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے پر والدین نے سرکاری اسکولوں کارخ کرلیا، والدین کا کہنا ہے فیسوں میں اضافہ اورروزانہ ایکٹیوٹی کےنام پر پیسے لیے جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے پر والدین نے ضلع جنوبی کےدرجنوں نجی اسکولوں میں بچوں کے داخلے منسوخ کرا دیےاور سرکاری اسکولوں کارخ کرلیا۔

    والدین کا کہنا ہے فیسوں میں اضافہ اورروزانہ ایکٹیوٹی کےنام پر پیسے لیےجاتے ہیں۔

    سرکاری اسکول کی پرنسپل نے کہا 2300بچوں نےگورنمنٹ چرچ مشن اسکول میں داخلہ حاصل کیا، رواں سال اب تک مزید ایک ہزار سےزائد داخلہ فارم لےچکے ہیں اور والدین کی بڑی تعدادداخلے کیلئے رجوع کررہی ہے۔

    مزید پڑھیں : نجی اسکولوں کی فیسوں میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیرقانونی قرار‘ سندھ ہائی کورٹ

    یاد رہے کہ ستمبر 2018 میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کا اختیارنہیں ہے جبکہ عدالت نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس وصولی سے روک دیا تھا۔

    پرائیوٹ اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسکولوں کی جانب سے اضافی فیسوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔

  • چودہ سالہ بچی کی عدم بازیابی کے خلاف والدین کا خودسوزی کرنے کا اعلان

    چودہ سالہ بچی کی عدم بازیابی کے خلاف والدین کا خودسوزی کرنے کا اعلان

    لاہور : چودہ سالہ مغوی بچی کی عدم بازیابی پر اس کے والدین نے پنجاب اسمبلی کے سامنے خودسوزی کرنے کا اعلان کردیا، والدین کا کہنا ہے کہ دوماہ گزرنے کے باوجود پولیس ہماری مدد نہیں کررہی۔

    تفصیلات کے مطابق دو ماہ قبل پنجاب کے شہر بہاولپور سے اغواء ہونے والی چودہ سالہ صدف کے والدین نے اپنی بچی کی عدم بازیابی کیخلاف پنجاب اسمبلی کے سامنے خودسوزی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچی کے اغواء کو دو ماہ گزر چکے ہیں مگر پولیس سمیت کوئی حکومتی ادارہ بچی کی بازیابی کیلئے انکی مدد کو آگے نہیں آیا۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے خواجہ نصیر کے مطابق بہاولپور کے علاقے یزمان سے اغواء کی جانے والی چودہ سالہ صدف کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ دو ماہ قبل علاقے کے بااثر افراد نے انکی نابالغ بیٹی کو نہ صرف اغواء کیا بلکہ زبردستی اس کا نکاح بھی کروادیا۔

    مقدمے کے انداراج کے باوجود پولیس ان کی بیٹی کو بازیاب نہیں کررہی، غم سے نڈھال صدف کی والدہ کا کہنا ہے کہ بیٹی واپس نہ ملی تو پورا خاندان پنجاب اسمبلی کے سامنے خود سوزی کرلے گا۔

    یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں بھی نابالغ صدف کے اغواء کے معاملے کو ایوان میں اٹھایا گیا تھا، متعلقہ صوبائی وزیر نے مغویہ کی بازیابی کی زبانی کلامی یقین دہانی تو کروائی لیکن تاحال عملی طور پر کچھ نہ ہو سکا۔

  • بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا ان کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ اپنے بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور آپ نے ان کے پڑھنے، کھیلنے، ٹی وی دیکھنے اور سونے کا وقت مقرر کیا ہوا ہے؟ تو پھر آپ کے لیے ایک خوشخبری ہے۔

    اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ بچوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا والدین اور بچوں کے درمیان تعلق پر منفی اثر ڈالتا ہے تاہم اب نئی تحقیق نے اس بات کی نفی کردی ہے۔

    یونیورسٹی آف سڈنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانا اور ان کی ہر سرگرمی کا وقت مقرر کرنا ان کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    چائلڈ بی ہیویئر ریسرچ کلینک کے پروفیسر مارک ڈیڈز کہتے ہیں کہ مخصوص وقت کی تکنیک بچوں کو نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے۔ ان کے مطابق اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ ایسا کرنا بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تاہم یہ غلط ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ جو بچے ذہنی صدموں جیسے مار پیٹ، والدین کی جانب سے نظر انداز کیے جانے یا والدین سے الگ کیے جانے کے صدمے کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی اس طرز زندگی سے معمول پر آنے لگتے ہیں اور ان کی ذہنی صحت میں بہتری واقع ہونے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طریقہ کار کا مطلب یہ نہیں بچوں کو الگ تھلگ کردیا جائے، درست طریقے سے اس تکنیک کو استعمال کرنا والدین اور بچوں دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

  • دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی : خواتین و بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ 98 فیصد بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار خود والدین ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں بچوں و خواتین کےلیے حقوق کےلیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دبئی فاؤنڈیشن (ڈی ایف ڈبلیو اے سی) نے بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ متاثرین کے ساتھ بدسلوکی میں اکثر ان کے والدین ملوث ہوتے ہیں۔

    دبئی فاؤنڈیشن نے سنہ 2018 میں موصول ہونے والے بدسلوکی کے کیسز کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایف ڈبلیو اے سی کو گزشتہ برس 52 بچوں سمیت 1027 افراد کے ساتھبدسلوکی کے کیسز موصول ہوئے تھے۔

    ڈی ایف ڈبلیو اے سی کی ڈائریکٹر گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ’ہم 33 بچوں کو شیلٹر فراہم کررہے ہیں جس میں 54 فیصد کا تعلق امارات سے ہے اور بدسلوکی کا شکار بننے والے بچوں میں 83 فیصد متاثرین کے ساتھ ان کے والد اور 15 فیصد بچوں کے ساتھ والدہ نے بدسلوکی کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے معمولی اقسام والدین کے ہاتھوں، جسمانی، زبانی اور احساساتی زیادتیاں بشمول مالیاتی اور جنسی بدسلوکی بھی شامل ہیں۔

    گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ہمیں والدین کی جانب سے بچوں کو بے عزتی، جسمانی تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    گنیما حسن البحری نے رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس فاؤنڈیشن کو آٹھ کیسز انسانی اسمگلنگ کے وصول ہوئے تھے جس میں پانچ لڑکیاں تھیں جن کی عمریں 13، 14، 15 برس تھی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کے مطابق فاؤندیشن نے بتایا کہ 2017 میں 1200 بدسلوکی کے کیشز وصول ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس 133 کیسز کی کمی آئی تھی۔

  • لندن : داعشی لڑکی کی برطانوی شہریت منسوخ، والدین نے فیصلہ عدالت میں چیلنج کردیا

    لندن : داعشی لڑکی کی برطانوی شہریت منسوخ، والدین نے فیصلہ عدالت میں چیلنج کردیا

    لندن :‌داعشی لڑکی کے اہل خانہ نے ساجد جاوید کی جانب سے شمیمہ بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کے فیصلے کو برطانوی عدالت میں‌ چیلنج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق شام و عراق میں دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے والی تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی لڑکی نے کچھ دن قبل برطانیہ لوٹنے کی خواہش کا اظہارکیا تھا، جس کے بعد برطانوی حکومت نے مذکورہ لڑکی کی شہریت منسوخ کردی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شمیمہ بیگم کے اہل خانہ نے وزارت داخلہ کی جانب سے شہریت منسوخ کرنے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کردی ہے۔

    شمیمہ بیگم کے اہل خانہ نے وزیر داخلہ ساجد جاوید کو ارسال کیے گئے خط میں لکھا ہے کہ ’شمیمہ کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں اور اس کا معاملہ اب برطانوی عدالت میں ہے‘۔

    تاہم داعشی لڑکی کے والدین کا کہنا ہے کہ ’شمیمہ کے تبصروں نے انہیں پریشان کردیا ہے‘ ہم اس کے نومولود بچے برطانیہ لانے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

    داعشی لڑکی نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اسے شام جانے پر کوئی افسوس نہیں ہے لیکن وہ داعش کے ہر اقدام کے اتفاق نہیں کرتی‘۔

    شمیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 2017 میں مانچسٹر ایرینا حملے نے مجھے پریشان کردیا تھا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کی ذمہ داعش نے قبول کی تھی لیکن یہ داعش کے ٹھکانوں پر اتحادی افواج کی کارروائی کا رد عمل تھا۔

    مزید پڑھیں : داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی لڑکی ، گھر لوٹنے کی خواہش مند

    یاد رہے کہ برطانوی داعشی لڑکی نے بتایا تھا کہ ’میں فروری 2015 اپنی دو سہیلیوں 15 سالہ امیرہ عباسی، اور 16 سالہ خدیجہ سلطانہ کے ہمراہ گھر والوں سے جھوٹ کہہ کر لندن کے گیٹ وک ایئرپورٹ سے ترکی کے دارالحکومت استنبول پہنچی تھی جہاں سے ہم تینوں سہلیاں داعش میں شمولیت کے لیے شام چلی گئی تھیں‘۔

    شمیمہ بیگم اب ایک پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزار رہی ہے اور وہ اپنے نومولود بیٹے کی خاطر واپس برطانیہ لوٹنا چاہتی ہے۔

    مزید پڑھیں : انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے والی شمیمہ کو ایک موقع دینا چاہیے، سابق داعشی خاتون

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ کسی کو شمیمہ سے ہمدردی نہیں ہے لیکن تانیہ جویا مذکورہ لڑکی کی مشکلات کے معتلق سب کچھ جاتنی ہیں، سابق داعشی خاتون تانیہ نے کہا کہ 19 سالہ لڑکی حاملہ لڑکی کو اپنے بچے کے ہمراہ برطانیہ لوٹنے کا موقع دینا چاہیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تانیہ جویا امریکا سے تعلق رکھنے والے داعش کے سینئر دہشت گرد جون کی اہلیہ تھیں جو اب مکمل طور پرسماجی بحالی کے عمل سے گزرچکی ہیں اوراب اپنے دوسرے شوہر کے ہمراہ خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔

    واضح رہے کہ داعش کے ساتھ گزارے گئے دنوں میں شمیمہ کے دو بچے پیدا ہوکر ناقص طبی سہولیات اور ناکافی غذا کے سبب موت کے منہ میں جاچکے ہیں، اوراب وہ اپنے تیسرے بچے کی زندگی کے لیےبرطانیہ واپس آنا چاہتی ہے۔

  • بچوں کو رات سونے سے قبل کہانی سنانے کے فوائد جانتے ہیں؟

    بچوں کو رات سونے سے قبل کہانی سنانے کے فوائد جانتے ہیں؟

    کیا آپ رات سونے سے قبل اپنے بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں؟ ایک قدیم وقت سے چلی آنے والی یہ روایت اب بھی کہیں کہیں قائم ہے اور کچھ مائیں رات سونے سے قبل ضرور اپنے بچوں کو سبق آموز کہانیاں سناتی ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ کہانیاں سنانے سے بچے جلد نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں اور پرسکون نیند سوتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے اس کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات سونے سے قبل سنائی جانے والی کہانیاں بچوں کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہیں۔

    جرنل آرکائیوز آف ڈیزیز ان چائلڈ ہڈ نامی میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کہانیاں بچے میں سوچنے کی صلاحیت کو مہمیز کرتی ہیں جبکہ ان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات میں کہانیاں سننے سے بچے مختلف تصورات قائم کرتے ہیں، یہ عادت آگے چل کر ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ان کی زبان بھی بہتر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کہانیاں سننے کے برعکس جو بچے رات سونے سے قبل ٹی وی دیکھتے ہیں، یا اسمارٹ فون، کمپیوٹر یا ویڈیوز گیمز کھلتے ہیں انہیں سونے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

    سونے سے قبل مختلف ٹی وی پروگرامز دیکھنے والے بچے نیند میں ڈراؤنے خواب بھی دیکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات سونے سے قبل بچے کے ساتھ وقت گزارنا بچوں اور والدین کے تعلق کو بھی مضبوط کرتا ہے۔

    اس وقت والدین تمام بیرونی سرگرمیوں اور دیگر افراد سے دور صرف اپنے بچے کے ساتھ ہوتے ہیں جو ان میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے، خصوصاً ورکنگ والدین کو اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کیا آپ اپنے بچے کو رات سونے سے قبل کہانی سناتے ہیں؟