Tag: والدین

  • آرمی چیف کی معصوم زینب کے قتل کی مذمت، مجرموں کی فوری گرفتاری کی ہدایت

    آرمی چیف کی معصوم زینب کے قتل کی مذمت، مجرموں کی فوری گرفتاری کی ہدایت

    راولپنڈی: آرمی چیف کی جانب سے معصوم زینب کے وحشیانہ قتل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے فوجی حکام کو سول انتظامیہ سےمکمل تعاون کی ہدایت کی گئی ہے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ظلم اور بربریت کا شکار بننے والی زینب کے والدین کی اپیل پر فوجی حکام کو سول انتظامیہ سے مکمل تعاون کی ہدایت کی ہے۔

    ISPR

    آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ آرمی چیف نے زینب کے والدین کی اپیل پر ردعمل دیتے ہوئے مجرموں کو گرفتار کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی خصوصی ہدایت جاری کی ہیں، یاد رہے کہ مقتول زینب کے والد  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب حکومت پرعدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئےآرمی چیف آف پاکستان سے انصاف کی فراہمی میں مدد کی اپیل کی تھی۔

    یاد رہے کہ چار روز قبل اغوا ہونے والی ننھی زینب کو درندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا کردیا تھا‘ سات سالہ بچی زینب کو گزشتہ روز آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا‘ ننھی پری کی نمازجنازہ علامہ طاہرالقادری نے پڑھائی تھی۔

     اغوا کے وقت زینب کے والدین عمرےکی سعادت کے لیے سعودیہ عرب میں موجود تھے اور وہ اپنی خالہ کے گھر مقیم تھی‘  گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران قصورمیں بچیوں کواغواکےبعد قتل کرنے کا یہ دسواں واقعہ ہے اور پولیس ایک بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

  • عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ بچوں کی پرورش نہایت ہی توجہ طلب معاملہ ہے کیونکہ آپ کی تربیت ہی آگے چل کر کسی بچے کو معاشرے کے لیے اچھا یا برا انسان بنا سکتی ہے۔

    اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔


    نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔


    بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔


    ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔


    اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔


    ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔


    قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • والدین کا پسندیدہ بچہ کون سا ہے؟

    والدین کا پسندیدہ بچہ کون سا ہے؟

    ہم میں سے اکثر افراد اپنے والدین سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام بچوں میں سے ان کا پسندیدہ بچہ کون سا ہے، اور اس کے بدلے میں ہمیں ایک نہایت سیاسی سا جواب ملتا ہے جس میں والدین مختلف کہاوتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ انہیں تمام ہی بچے یکساں پیارے ہیں۔

    تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق نے اس راز سے کسی حد تک پردہ اٹھا دیا ہے۔

    جرنل آف میرج اینڈ فیملی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماؤں کو اپنا پہلا بچہ سب سے پیارا ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل کی گئی 75 فیصد ماؤں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے پہلے بچے سے زیادہ محبت محسوس کرتی ہیں۔

    حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی ہی ایک تحقیق 10 سال پہلے بھی کی گئی تھی اور اس کے نتائج بھی تقریباً یہی تھے۔

    مزید پڑھیں: پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    اس سے قبل اسی نوعیت کی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ عموماً والدین اپنے سب سے پہلے بچے کو زیادہ محبت اور توجہ دیتے ہیں جس کے باعث چھوٹے بچے کم اعتمادی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں جو تاعمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق والدین روز مرہ کے معمولات میں اپنے پہلے بچے کے ساتھ ترجیحی رویہ اپناتے ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ والدین کی یہ عادت بچوں کے لیے ان کی تمام تر قربانیوں اور بہترین تربیت کو ضائع کرسکتی ہے اور بچے بڑے ہو کر والدین کو توجہ نہ دینے کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بچپن میں سر پر لگنے والی چوٹ بعد میں دماغی مسائل کا سبب

    بچپن میں سر پر لگنے والی چوٹ بعد میں دماغی مسائل کا سبب

    کھیل کود کے دوران بچوں کو مختلف چوٹیں لگ جانا عام بات ہے جو کچھ دن بعد مندمل ہوجاتی ہیں، تاہم بعض چوٹوں کا اثر ساری زندگی نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ مختلف مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

    اسی سلسلے میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نے بتایا کہ بچوں کو بچپن میں دماغ پر لگنے والی چوٹیں اور ضربیں ایک دہائی بعد مختلف دماغی مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: جلدی سونے والے بچے ڈپریشن سے محفوظ

    ماہرین کے مطابق یہ چوٹیں نوجوانی میں بے چینی (اینگزائٹی)، ڈپریشن اور مختلف اقسام کے خوف (فوبیا) پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

    آسٹریلیا میں کی جانے والی اس تحقیق کی سربراہ مشیل کا کہنا ہے کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ دماغ پر لگنے والی چوٹوں کا اثر کچھ عرصہ تک باقی رہتا ہے، تاہم حالیہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ یہ اثرات طویل المدتی اور دیرپا ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس کا دار و مدار اس چوٹ پر بھی ہے جس نے دماغ کو متاثر کیا۔ چوٹ جتنی زیادہ شدید ہوگی، بعد میں پیدا ہونے والے مسائل بھی اتنے ہی شدید ہوں گے۔ کم شدت کی چوٹوں کے اثرات آسانی سے کنٹرول کیے جانے کے قابل ہوں گے۔

    دوسری جانب نیوزی لینڈ میں دماغی صحت پر کام کرنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں میں سے 90 فیصد افراد بچپن میں کسی جسمانی حادثے کا شکار ہوئے ہوتے ہیں جس نے ان کے دماغ کو بری طرح متاثر کیا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن میں لگنے والی شدید چوٹ دماغی امراض کے امکان میں 5 گنا اضافہ کردیتی ہے، بہ نسبت ان کے جنہیں بچپن میں کوئی شدید چوٹ نہیں لگتی۔

    ماہرین کے مطابق اس چوٹ کے باعث جو دماغی امراض جنم لے سکتے ہیں ان میں خوف، گھبراہٹ یا بے چینی کا ڈس آرڈر، کسی چیز کا فوبیا اور ڈپریشن شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    بچوں کی تربیت ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے جو نرمی اور سختی دونوں کی متقاضی ہے۔ تاہم حال ہی میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ والدین کے 2 قسم کے ’شدت پسندانہ‘ رویے بچوں میں نفسیاتی مسائل جنم دے سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نارویجیئن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام کی گئی۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے جیلوں میں بند خطرناک جرائم میں ملوث قیدیوں کا طبی و نفسیاتی معائنہ کیا۔ ان مجرمان کو خطرناک ترین قرار دے کر سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ماہرین نے ان قیدیوں کے ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ان تمام مجرمان کے ماضی میں ایک بات مشترک تھی۔ یہ تمام لوگ یا تو والدین کی مکمل طور پر غفلت کا شکار تھے، یا پھر والدین کا رویہ ان کے ساتھ نہایت سختی اور ہر معاملے میں نگرانی اور روک ٹوک کا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ دونوں رویے بچوں کو تشدد پسندانہ خیالات اور رویوں کا مالک بنا سکتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور ایک عام زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ مجرمان اپنے بچپن میں جسمانی یا نفسیاتی طور پر تشدد کا شکار بھی ہوئے۔

    مذکورہ تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر اینا گل ہیگن کا کہنا ہے، ’یہ افراد اپنے نگرانوں (والدین یا سرپرست) کے ہاتھوں جسمانی و ذہنی طور پر زخمی ہوئے‘۔ ان کے مطابق بچپن گزرنے کے بعد ان لوگوں کے اندر ابھرنے والا تشدد پسند اور مجرمانہ رویہ انہی زخموں کا ردعمل تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کو بالکل نظر انداز کرنا، ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور یہ سوچنا کہ بچے خود ہی اپنی زندگی گزار لیں گے، یا والدین کا ہر بات پر روک ٹوک کرنا، ہر معاملے میں بچوں سے سختی سے پیش آنا اور بچوں کی مرضی اور پسند نا پسند کو بالکل مسترد کردینا، یہ 2 ایسے رویے ہیں جو بچوں کو بالآخر نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق والدین کو درمیان کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے، بچوں پر سختی بھی رکھنی چاہیئے اور ان کی پسند نا پسند کو اہمیت دیتے ہوئے ان کی بات بھی ماننی چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    ڈاکٹر اینا کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیق کے لیے جتنے بھی مجرمان سے ملیں وہ یا تو اپنے بچپن میں اپنے والدین کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیے گئے، یا پھر انہوں نے بے تحاشہ سختی اور درشتی برداشت کی اور انہیں اپنی پسند کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

    ماہرین کے مطابق کسی شخص کو مجرم بنانے میں حالات و واقعات کا بھی ہاتھ ہوتا ہے تاہم اس میں سب سے بڑا کردار والدین کی تربیت اور ان کے رویوں کا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    کیا آپ کو لگتا ہے دنیا میں ہر نیا آنے والا بچہ پہلے آنے والے بچے کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور تیز طرار ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس غلط فہمی کو اب دور کرلینے کی ضرورت ہے کیونکہ ماہرین نے تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ والدین کا پہلا بچہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈن برگ میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق چونکہ کسی بھی جوڑے کا پہلا بچہ اپنے والدین کی تمام تر توجہ، نگہداشت اور دھیان پانے میں کامیاب رہتا ہے لہٰذا اس کی سطح ذہانت اپنے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت بلند ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یوں تو والدین اپنی تمام اولادوں کو یکساں توجہ اور شفقت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم تحقیق کے لیے کیے جانے والے سروے میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے لاشعوری طور پر بچوں کے لیے ان کی توجہ کے لیے کمی آتی جاتی ہے۔

    پہلی بار والدین بننا چونکہ ان کے لیے نیا تجربہ ہوتا ہے لہٰذا وہ پہلے بچے کا حد سے زیادہ دھیان اور خیال رکھتے ہیں، اور معمولی معمولی مسائل پر بھی بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ دیگر بچوں کے ساتھ ان کا رویہ معمول کے مطابق ہوجاتا ہے اور وہ ان کا خیال تو رکھتے ہیں، مگر وہ غیر معمولی حد تک نہیں ہوتا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    والدین کی یہی اضافہ توجہ بڑے بچوں کو ذہین اور باصلاحیت بنا دیتی ہے۔

    ماہرین نے اس سے پہلے بھی اسی سلسلے کی ایک تحقیق میں آگاہ کیا تھا کہ اپنے والدین کے پہلے بچے زندگی میں نہایت کامیاب ثابت ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے امکانات اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • والدین سےآج بھی ڈرتا ہوں‘  سلمان خان

    والدین سےآج بھی ڈرتا ہوں‘ سلمان خان

    ممبئی : بالی ووڈ سپراسٹار سلمان خان کاکہناہےکہ وہ آج بھی اپنے والدین سے بہت ڈرتے ہیں اورکوشش کرتے ہیں کہ ان کےرویے سےفیملی اور دوستوں کا دل نہ دکھے۔

    تفصیلات کےمطابق بالی ووڈ کی پہچان کروڑوں دلوں کی جان خانوں کےخان سلمان خان کےبارے میں کہاجاتا ہےکہ اگر وہ کسی سے غصہ ہوجائیں تو پھرانڈسٹری میں اس کا کوئی دوست نہیں رہتا۔لیکن خود وہ کس سے ڈرتے اور کس کا خوف ان کے دل میں ہمیشہ رہتاہے،سپراسٹار نےانکشاف کردیا۔

    میڈیا رپوٹس کےمطابق حال ہی میں بالی ووڈ کےسلطان نےاپنی ایپ پر مداحوں سےبات کرتے ہوئے کہاکہ وہ آج بھی اپنے والدین سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں اور انہیں ہمیشہ یہ خوف رہتاہےکہ کہ ان کے کسی بھی فعل سے ان کے خاندان یادوست احباب کا دل نہ دکھے۔


    مزید پڑھیں:کیاسدیپ’ٹائیگر زندہ ہے‘میں ولن کا کردارنبھائیں گے؟


    دبنگ خان کاکہناتھاکہ جب آپ بہت زیادہ کامیاب ہوجاتےہیں توسب کولگتا ہےکہ آپ جو کچھ کرتےیا کہتے ہیں وہ ٹھیک ہی ہوتا ہےلیکن اصل میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔

    سلمان خان نےکہاکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جب وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں توان کاخاندان،دوست احباب انہیں بتاتے ہیں کیاصحیح ہےاور کیا غلط ہے۔

    واضح رہےکہ سپراسٹارسلمان خان ان دنوں اپنی فلم ’ٹائیگر زندہ ہے‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں اور مداحوں کے لیےفلم رواں سال کرسمس پرریلیز کی جائے گی۔

  • بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ اب اس کی ساری توجہ کا مرکز اس کے بچے ہوتے ہیں جنہیں بہتر سے بہتر زندگی فراہم کرنے میں وہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔

    لیکن اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔

    :نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    kid-6

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔

    :بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    kid-3

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔

    :ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    kid-5

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

    :اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    kid-4

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔

    :ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    kid-2

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔

    :قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    kid-1

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔

  • کرن جوہرجڑواں بچوں کے باپ بن گئے

    کرن جوہرجڑواں بچوں کے باپ بن گئے

    ممبئی : بالی ووڈ کےنامور ڈائریکٹر کرن جوہرکاکہناہےکہ وہ جڑواں بچوں کے باپ بن گئے ہیں اور اب سے ان کے بچے ہی ان کی دنیا اور پہلی ترجیح ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق بالی ووڈ کے مشہور ہدایت کار کرن جوہر نے جڑواں بچوں کے باپ بننے پر خوشی کااظہاکرتے ہوئےکہاکہ بیٹی کانام ماں کےنام ’ہیرو‘ کو ترتیب دے کر ’روہی‘ اور بیٹے کا نام ’یش‘ رکھا ہے۔

    کرن جوہر نےسماجی رابطےکی ویب سائٹ ٹویٹر پرمداحوں سے اپنی خوشی کوشیئرکرتے ہوئےکہاکہ کہ میں آپ سب کو بتاناچاہتاہوں کہ روہی اور یش میری زندگی میں بہت ہی خوبصورت اضافہ ہیں اور یہ دونوں میری زندگی ہیں۔

    بالی ووڈ ہدایت کار نےکہاکہ میں فخرمحسوس کرتا ہوں کہ طبی سائنس کےعجائبات کی مدد سے میرے دل کے ٹکرے روہی اور یش میری زندگی کاحصہ بنے۔44سالہ فلم ساز جوکہ پوری دنیا میں سفرکرتے رہتے ہیں جانتے ہیں کہ بچوں کا باپ ہونا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور بچے ان کے کام سے بھی پہلے ہیں۔

    واضح رہےکہ ہدایت کارکرن جوہرجوکہ بالی ووڈ میں اپنی فلموں ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘ ’کبھی خوشی کبھی غم‘ ’دل والے‘ سمیت دیگرشاندار فلموں کےحوالے سےجانے جاتے ہیں۔

  • اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت کا شکار کر رہی ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔

    امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے امراض کی بنیاد پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اس کے تحت چند اخبارت میں کچھ رہنما مضامین شائع کروائے۔

    ان ماہرین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔

    ماہرین نے جب ان بچوں کی روزمرہ عادات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ اسمارٹ فونز ان بچوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے جو ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    ان ماہرین کے مطابق بعض والدین خود بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب سے ان کے بچوں نے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے رویوں اور عادات میں منفی تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ البتہ کچھ والدین کو اس کا علم نہیں تھا اور وہ اس بات کو ماننے سے انکاری تھے کہ اسمارٹ فون ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ایک خوفناک مثال

    نیویارک کی رہائشی ایک والدہ سوزین کا کہنا تھا کہ اس کا 6 سالہ بیٹا ایک زندہ دل اور خوش مزاج بچہ تھا جو کھیلوں اور پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا تھا۔ پھر اسے اس کی ساتویں سالگرہ پر انہوں نے آئی پیڈ تحفہ میں دیا اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔

    سوزین کے مطابق انہوں نے یہ تحفہ اسے اس لیے دیا تاکہ وہ اپنی تعلیم کے لیے دنیا بھر کی ریسرچ سے استفادہ کرسکے۔ ساتھ ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔

    kids-3

    شروع میں ایسا ہی ہوا، انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگیا اور گفتگو کے دوران وہ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت کرنے لگا، لیکن پھر آہستہ آہستہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔

    اب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت خاموشی سے آئی پیڈ کے ساتھ گزارنے لگا۔ اس کے رویے میں تبدیلی آتی گئی۔ جس وقت آئی پیڈ اس کے پاس نہ ہوتا وہ گم صم رہتا۔ پڑھائی اور کھیلوں سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔

    مزید پڑھیں: فیس بک کا زیادہ استعمال بچوں کو بدتمیز بنانے کا سبب

    سوزین کا کہنا تھا کہ ایک دن رات کے وقت وہ یہ سوچ کر اس کے کمرے میں گئیں کہ وہ سورہا ہوگا، لیکن وہ جاگ رہا تھا اور اپنے آئی پیڈ پر جانوروں کو قتل کرنے والے ایک کھیل میں مشغول تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر آنکھیں پھاڑے، کسی حد تک ایب نارمل انداز میں اسکرین کو گھور رہا تھا اور جیسے ایک ٹرانس میں محسوس ہورہا تھا۔ سوزین کو اسے متوجہ کرنے کے لیے کئی دفعہ زور سے ہلانا پڑا تب وہ بری طرح چونک اٹھا۔

    سوزین کے مطابق اس صورتحال سے وہ بے حد خوفزدہ ہوگئیں اور اگلے ہی دن اسے ماہر نفسیات کے پاس لے آئیں۔

    جدید دور کی ایجاد لت کیسے؟

    سوزین جیسے کئی اور والدین بھی تھے جنہوں نے کم و بیش اسی صورتحال سے گھبرا کر ماہرین نفسیات سے رجوع کیا۔ بعض والدین نے بتایا کہ اسمارٹ فونز میں موجود گیمز بچوں کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہوچکے ہیں کہ وہ خواب میں بھی انہیں ہی دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر بتاتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں کتنے دشمنوں کو مار گرایا۔

    ماہرین نفسیات نے جب اس سلسلے میں دیگر ماہرین سے رجوع کیا اور مزید تحقیق کی تو ان پر انکشاف ہوا کہ جدید دور کی یہ اشیا بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا کہ یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریوں کو خوش آمدید کہیئے

    طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس لت کا شکار بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزار، اداس اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچے چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہوگئے۔

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت کا شکار ہوگئے وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کا شکار شخص کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا (فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا۔

    بچوں کو کیسے بچایا جائے؟

    دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایجاد کی گئی یہ اشیا کس قدر مضر ثابت ہوسکتی ہیں، شاید اس کا اندازہ خود ان کے خالقوں کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیو جابز اپنے بچوں کو ایک ٹیکنالوجی سے دور رکھنے والا والد تھا۔ سیلیکون ویلی کے سرکردہ افراد اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہوتا ہے۔

    یہی حال امیزون کے خالق جیف بیزوس اور وکی پیڈیا کے خالق جمی ویلس کا بھی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کروایا جہاں  ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر 3 میں سے ایک بچہ بولنے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقف ہوجاتا ہے۔

    تو پھر آخر بچوں کو اس نشے سے کیسے بچایا جائے؟

    مزید پڑھیں: بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو اغوا ہونے سے محفوظ رکھیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نشے کے شکار افراد کی طرح ایسے افراد اور بچوں کی زندگی سے بھی ٹیکنالوجی کو بالکل خارج کردیا جائے۔ اسمارٹ فونز، کپیوٹر حتیٰ کہ ٹی وی کو بھی ممنوعہ بنادیا جائے۔

    آج کل کے دور میں یہ ایک نا ممکن بات تو ہے مگر بچوں کو بچانے کا واحد حل یہی ہے۔

    kids-2

    ماہرین نے مزید تجاویز دیں کہ بچوں کو 12 سال کی عمر سے قبل کسی قسم کی ٹیکنالوجی سے متعارف نہ کروایا جائے۔

    بچپن سے ہی بچوں کو کتابوں اور روایتی کھلونوں سے مصروف رکھا جائے۔

    انہیں باہر جا کر جسمانی حرکت والے کھیل جیسے کرکٹ اور فٹبال یا سائیکل چلانے کی ترغیب دی جائے۔

    مزید پڑھیں: باغبانی کے بچوں پر مفید اثرات

    قدرتی اشیا جیسے سبزہ زار، پھولوں، درختوں، سمندر اور ہواؤں سے روشناس کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی اور اہمیت بتائی جائے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    گھر کے اندر انہیں گفتگو میں مصروف رکھا جائے۔ ان سے روزمرہ کی مصروفیات، اسکول، دوستوں اور کھیلوں کے بارے میں باتیں کی جائیں۔

    گھر میں تمام افراد مل کر کھانا کھائیں اور اس دوران موبائل فونز کو دور رکھیں۔

    جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔

    ٹی وی دیکھتے ہوئے والدین میں سے کوئی ایک بچوں کے پاس رہے اور انہیں مثبت پروگرامز جیسے کارٹون، معلوماتی پروگرامز اور کھیلوں کے میچ وغیرہ دیکھنے کی جانب راغب کیا جائے۔ ایسا اسی صورت ہوگا جب والدین خود یہ پروگرامز دیکھیں گے۔

    بچوں کو کہانی سناتے ہوئے انہیں تصوراتی دنیا میں بھیجنے سے گریز کریں۔ انہیں حقیقی زندگی کی کہانیاں اور قصے سنائیں۔

    یاد رکھیں کہ جب بچے تنہا اور بوریت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ یہ جانے بغیر کہ کیا چیز ان کے لیے نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند، کسی بھی چیز کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں اور اس کے عادی بن سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور انہیں بھرپور وقت دیں۔