والٹ ڈزنی کا نام سنتے ہی ذہن میں مکی ماؤس، ڈونلڈ ڈک اور اسنو وائٹ جیسے کرداروں کے نام آتے ہیں جو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی بہت مقبول ہوئے اور آج بھی ان پر بنائی گئی کارٹون فلمیں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ یہ کردار والٹ ڈزنی کی تخلیق تھے جن سے موسوم والٹ ڈزنی کمپنی دنیا بھر میں اپنی کارٹون فلموں اور انٹرٹینمنٹ کے لیے مشہور ہے۔ اس سال والٹ ڈزنی کمپنی کے قیام کو سو برس مکمل ہوجائیں گے۔ والٹ ڈزنی نے اس کا جشن بعنوان ”ڈزنی حیرت کے سو سال‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔
والٹ ڈزنی تو اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن کارٹون کرداروں پر مشتمل ان کا بنایا ہوا پارک ڈزنی لینڈ کے نام سے دنیا بھر سے آنے والوں کی توجہ کا مرکز ہے جب کہ اس مصوّر اور تفریحی دنیا کے اختراع ساز کی زندگی کے ادوار کی جھلکیاں اور اس سے متعلق اشیاء اُس میوزیم میں دیکھی جاسکتی ہیں جسے والٹ ڈزنی میوزیم کہا جاتا ہے۔ والٹ ڈزنی نے اپنے کارٹوںوں اور فلمی کام پر 932 ایوارڈز حاصل کیے تھے جن میں سے 248 ایوارڈ اس میوزیم میں موجود ہیں۔ اسے متعدد بار آسکر جیسے معتبر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ میوزیم بالخصوص بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ اور حیرت انگیز جگہ ہے۔
ڈزنی ورلڈ کو ایک نہایت دل چسپ جادوئی دنیا کہا جاسکتا ہے، جس کے روحِ رواں والٹ ڈزنی 1966ء میں پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
اس ادارے کی بنیاد 16 اکتوبر 1923ء کو رکھی گئی تھی اور یہ وہ موقع تھا جب والٹ ڈزنی نے ”ایلس اِن ونڈر لینڈ‘‘ سمیت بارہ فلمیں نیویارک کی فلم رینٹل کمپنی کو فروخت کی تھیں۔ اس سال مئی میں صد سالہ جشن پر ڈزنی کلاسک ”دی لٹل مرمیڈ‘‘ کا لائیو ایکشن ری میک سنیما پر ریلیز کیا جائے گا۔
والٹ ڈزنی کے کرداروں کی مقبولیت اور اس کی کمپنی کی دنیا میں شہرت کا سفر آسان تو نہیں تھا کیوں کہ وہ کبھی امریکا کا ایک غریب اور بدحال آدمی تھا جس کے فن اور کام کو کوئی سمجھنے یا اہمیت دینے کو تیّار نہیں تھا۔ والٹ ڈزنی ان دنوں امریکا کے شہر کنساس میں مقیم تھا۔ اسے بچپن سے ہی آرٹسٹ بننے کا بہت شوق تھا لیکن بمشکل وہ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وقت نکال پاتا تھا۔ کیوں کہ وہ چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کررہا تھا۔ بالآخر بڑی دوڑ دھوپ کرنے کے بعد اسے گرجا گھروں کے لیے ڈرائنگ اور تصاویر بنانے کی ایک معمولی سی نوکری مل گئی۔ بعد میں اس نے آگے بڑھنے کے لیے مزید کوشش کی اور اپنے شوق کو کام یابی کا زینہ بناتے ہوئے بالآخر ہالی وڈ تک پہنچ گیا۔
ایک دن والٹ ڈزنی کوئی نیا کارٹون کریکٹر تخلیق کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک خیال اس کے ذہن کے پردے پر بجلی کی طرح کوندا۔ اس نے چوہیا کا اسکیچ بنانا شروع کر دیا۔ یہ دراصل مکی ماؤس کا ابتدائی خاکہ تھا جسے والٹ ڈزنی نے ابتدائی طور پر مورٹی مر ماؤس کا نام دیا جو بعد میں مکی ماؤس ہو گیا۔ بعد کے برسوں میں اس نے متعدد یادگار کارٹون کردار تخلیق کیے اور اپنے ننھے ناظرین سمیت بڑوں کو بھی محظوظ ہونے کا موقع دیا۔
ڈزنی ورلڈ نے اپنے موجد کی وفات کے بعد ترقی کا سفر جاری رکھا اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی کارٹون فلمیں بنائیں جن میں ہنس کرسچن اینڈرسن کی 1837ء میں لکھی گئی پریوں کی کہانی ”دی لٹل مرمیڈ‘‘ پر مبنی ایک اینی میٹڈ فلم 1989ء میں ریلیز ہوئی تو ڈزنی اسٹوڈیو کو زبردست شہرت اور نفع حاصل ہوا۔ اس فلم کا ایک گیت گولڈن گلوبز، ایک گریمی اور دو آسکر لے اڑا۔ ڈزنی کو اس دور میں حقیقی عروج نصیب ہوا۔ اسٹوڈیو نے مزید کام یاب اینی میٹڈ فلمیں ”بیوٹی اینڈ دی بیسٹ‘‘ (1991)، ”الہٰ دین‘‘ (1992)، ”دی لائن کنگ‘‘ (1994) اور ”پوکوہانٹس‘‘ (1995) دے کر شائقین کے دل جیت لیے۔
پچھلے 100 برسوں میں ڈزنی ورلڈ نے ترقی کے کئی مدارج طے کیے ہیں اور دورِ جدید میں یہ ادارہ اپنے اسٹریمنگ پلیٹ فارم اور متعدد ذیلی کمپنیوں کے ساتھ ایک مضبوط فلم پروڈکشن کمپنی بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈزنی کی شان دار کام یابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فروزن کا نام نہ لیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈزنی کی ایک ایسی امریکی فلم تھی جسے والٹ ڈزنی اینیمیشن اسٹوڈیو نے بنایا اور والٹ ڈزنی پکچرز نے شائقین کے لیے پیش کیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ صد سالہ تقریب کے دوران والٹ ڈزنی کمپنی دہائیوں پرانی اور مقبول ترین ”دی لٹل مرمیڈ‘‘ کو کس طرح نئے انداز سے شائقین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ آج بچّوں اور بڑوں کے لیے تفریح کے بے شمار مواقع موجود ہیں، اور کیا ایسے میں غیر معمولی اور حیرت انگیز صلاحیتوں کی مالک اس ننھی جل پری کا جادو چل سکے گا؟ اس کے لیے چند ماہ انتظار کرنا ہو گا۔