Tag: وبا

  • کراچی میں ڈینگی وائرس نے وبائی صورت اختیار کر لی، اسپتال میں حبس سے مریض بے ہوش

    کراچی میں ڈینگی وائرس نے وبائی صورت اختیار کر لی، اسپتال میں حبس سے مریض بے ہوش

    کراچی: شہر قائد میں ڈینگی وائرس نے وبائی صورت اختیار کر لی ہے، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی میں شدید گرمی اور حبس سے ڈینگی مریض بے ہوش ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں ڈینگی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں تاہم کراچی میں صورت حال تشویش ناک ہو گئی ہے، مریضوں کی بھرمار کی وجہ سے اسپتالوں میں بستر کم پڑ گئے ہیں۔

    سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی میں ڈینگی بخار میں مبتلا مریض رل گئے، شدید گرمی اور حبس میں ڈینگی کے مریض بے ہوش ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

    معلوم ہوا ہے کہ سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی میں جنریٹر ہونے کے باوجود انتظامیہ نہیں چلا رہی، جس پر ڈینگی کے شکار مریض اور تیمار داروں نے شدیدغم و غصے کا اظہار کیا۔

    مریضوں نے اسپتال انتظامیہ پر جنریٹر نہ چلانے اور فیول فنڈز میں خود برد کا الزام لگایا، دوسری طرف اسپتال انتظامیہ نے مؤقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔

    صوبائی محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں کراچی میں ڈینگی کے مزید 192 کیسز رپورٹ ہوئے، ضلع شرقی سے 45، وسطی سے 26، کورنگی سے 63 کیسز سامنے آئے۔

    رواں ماہ اب تک کراچی میں 1620 ڈینگی کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جب کہ سندھ بھر میں رواں سال اب تک ڈینگی کیسز کی تعداد 4230 ہو گئی ہے۔

    ادھر اسلام آباد میں بھی ڈینگی کے مزید 72 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں کیسزکی مجموعی تعداد 943 ہو گئی، پنجاب میں ڈینگی کے 164نئے کیس سامنے آئے۔

  • آنے والے وقت میں وباؤں میں اضافہ ہوسکتا ہے

    آنے والے وقت میں وباؤں میں اضافہ ہوسکتا ہے

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کئی وباؤں کا سامنا ہوسکتا ہے، کرونا وائرس کی طرح مزید وبائیں آسکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے برسوں میں کرونا وائرس کی طرح کے بہت زیادہ متعدی امراض کی وبائیں عام ہو سکتی ہیں۔

    طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت کسی فرد کی زندگی میں کووڈ 19 جیسی وبا کا امکان 38 فیصد ہے مگر یہ خطرہ آنے والے برسوں میں دگنا بڑھ جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ آنے والے برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ایک اور وبا پھیلنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین نے گزشتہ 400 برسوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کر کے کسی وبائی مرض کے پھیلنے کے امکانات کا تخمینہ لگایا۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی وبا کے پھیلنے کی شرح ماضی میں مختلف تھی مگر اس شرح کو مدنظر رکھ کر آنے والے برسوں میں کسی شدید وبا کے امکان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تخمینے سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عام ہوتے جارہے ہیں۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ جانوروں میں اکثر وبائی بیکٹریا اور وائرس کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے قدرتی دنیا گھٹ رہی ہے، اس طرح کی چیزوں کا سامنا ہونے کا امکان بھی بڑھ رہا ہے، موسم سے وائرسز کی زیادہ آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے۔

    اس وقت نئے پھیلنے والے 75 فیصد امراض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ دنیا کو متاثر کرنے والی کسی نئی وبا کی روک تھام کے لیے سرویلنس سسٹمز پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جبکہ ممکنہ وائرل انفیکشنز کے ابتدائی آثار کے بارے میں معلومات شیئر کرنا ہوگی۔

    محققین کے مطابق اس وقت دنیا کے متعدد مقامات میں بیماری کی جانچ پڑتال کی بنیادی صلاحیت بھی موجود نہیں اور اسی وجہ سے معاملات کو جاننے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔

  • کرونا وائرس سے مزید 2 مریض جاں بحق، 459 نئے کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس سے مزید 2 مریض جاں بحق، 459 نئے کیسز رپورٹ

    اسلام آباد: گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں کرونا انفیکشن سے 2 مریض انتقال کر گئے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ پاکستان کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں مزید 459 نئے کیسز سامنے آئے ہیں، جب کہ دو مریضوں کا انتقال ہو گیا۔

    این آئی ایچ کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 18 ہزار 45 کرونا ٹیسٹ کیے گئے، جن میں مثبت کیسز کی شرح 2.54 فی صد رہی۔

    قومی ادارہ صحت کے مطابق کووِڈ نائنٹین سے ہونے والے انفیکشن کے باعث ملک بھر کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج 172 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے، جنھیں‌ انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر اب تک 15 لاکھ 63 ہزار 347 کرونا کیسز سامنے آ چکے ہیں، جب کہ مجموعی اموات کی تعداد 30 ہزار 529 ہو چکی ہے۔

  • اسلام آباد میں اچانک ڈائریا کیسز میں اضافہ

    اسلام آباد میں اچانک ڈائریا کیسز میں اضافہ

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈائریا کی وبا پھیل گئی، اب تک شہر میں 2 ہزار سے زائد ڈائریا کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ڈائریا وبائی شکل اختیار کرنے لگا، شہر میں ایک ماہ کے دوران 2 ہزار 157 ڈائریا کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ڈائریا سے تاحال کوئی مریض جاں بحق نہیں ہوا، ڈائریا کے بیشتر کیسز پولی کلینک اسپتال میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پولی کلینک میں ایک ہفتے کے دوران 991 ڈائریا کیسز رپورٹ ہوئے، پولی کلینک میں ایک ہفتے کے دوران 324 بچوں میں ڈائریا کی تصدیق ہوئی۔

    گزشتہ ہفتے پمز اسپتال میں ڈائریا کے 245 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈائریا کے بیشتر کیسز اسلام آباد کے دیہی علاقوں سے سامنے آرہے ہیں، 90 فیصد کیسز کو اسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق رواں سیزن اسلام آباد میں ہیضے کے 21 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، ڈائریا اور ہیضہ دونوں سے تاحال اموات رپورٹ نہیں ہوئیں۔ مون سون کے دوران ہیضہ اور ڈائریا کیسز رپورٹ ہونا معمول ہے۔

  • منکی پاکس سے متعلق نئے دعوے سے لوگوں‌ میں خوف

    منکی پاکس سے متعلق نئے دعوے سے لوگوں‌ میں خوف

    لندن: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ’منکی پاکس‘ نامی بیماری کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا، یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد لوگوں میں اس سے متعلق ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ایمرجینسیز کے لیے بنے سائنسی ایڈوائزری گروپ کے ایک ایڈوائزر نے کہا ہے کہ منکی پاکس کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کے بہت زیادہ کیسز سامنے آ رہے ہیں اور امکان ہے کہ ہمارے پالتو جانور اس وائرس کو محفوظ رکھیں گے۔

    ڈیلی میل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منکی پاکس اب برطانیہ اور یورپ میں پاؤں جما رہا ہے، کئی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عام طور پر افریقا کے علاقوں تک محدود یہ وائرس دھیرے دھیرے دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے۔

    لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسین کے ایڈم کچاسرکی نے کہا کہ کچھ مقامات پر منکی پاکس کے کیسز کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔

    اس خطرے کو دیکھتے ہوئے یورپی یونین کی ہیلتھ ٹیم منکی پاکس سے متاثر سبھی ہیمسٹر، گیربل اور گنی خنزیروں کو مارنے پر غور کر رہی ہے۔

    یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جمعہ کو عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منکی پاکس کا وائرس 20 سے زائد ممالک میں پھیل گیا ہے، تقریباً 200 مصدقہ کیسز اور 100 سے زائد مشتبہ کیسز اب تک رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔

  • نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    ریاض: سعودی وزارت صحت نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت میں منکی پاکس وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

    سعودی وزارت صحت کے مطابق مملکت میں منکی پاکس سے پھیلنے والی نئی وبا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، وائرس سے نمٹنے کے لیے مملکت پوری طرح تیار ہے۔

    وزارت سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد ممالک میں منکی پاکس وائرس کے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے، وبا کے سلسلے میں سعودی صحت حکام ڈبلیو ایچ او کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

    وزارت نے یہ بھی کہا کہ تمام ضروری طبی اور لیبارٹری ٹیسٹ مملکت میں دستیاب ہیں، اور اس سلسلے میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔

    کرونا کے بعد دنیا پر نئی خطرناک وبا کا خطرہ منڈلانے لگا

    واضح رہے کہ دنیا ابھی کرونا وبا کے برے اثرات سے پوری طرح نکلی نہیں ہے کہ منکی پاکس کا ایک اور خطرناک وبا کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے۔

    منکی پاکس وسطی اور مغربی افریقا کے دور دراز علاقوں میں پائی جانے والی ایک متعدی بیماری ہے، جس میں انفیکشن کا خطرہ صرف اس وقت رہتا ہے جب کسی متاثرہ مریض سے بہت قریبی رابطہ ہو، اس سے متاثرہ مریض کو ہلکا بخار ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، کچھ بڑی علامات میں بخار، جسم میں درد، سوجن، سر درد، تھکاوٹ اور چھالے شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 11 ممالک میں منکی پاکس کے تقریباً 80 کیسز کی تصدیق کی جا چکی ہے، کیسز میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

  • بعض لوگ کرونا وائرس سے کیسے بچے رہے؟

    بعض لوگ کرونا وائرس سے کیسے بچے رہے؟

    کرونا وائرس کی وبا کو دو سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور اس دوران کروڑوں افراد اس سے متاثر ہوئے، لیکن بض افراد ایسے بھی ہیں جو اس وبا سے بچے رہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر کے ماہرین ایک ایسی منفرد تحقیق میں مصروف ہیں جس کے ذریعے وہ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ بعض لوگ تاحال کرونا کا شکار نہیں ہوئے۔

    نیویارک اور واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی کے ماہرین متعدد ممالک کے ماہرین کے ہمراہ ایک ایسی عالمی تحقیق کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ انسانوں میں ایک خصوصی طرح کی جین دریافت کرنا چاہتے ہیں۔

    ماہرین اس بات کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے تاحال دنیا بھر کے بعض لوگ کرونا جیسی وبا سے محفوظ ہیں؟

    مذکورہ تحقیق کے لیے دنیا بھر سے 700 افراد نے خود کو رجسٹر کروالیا ہے جبکہ ماہرین مزید 5 ہزار افراد کی اسکریننگ اور تفتیش کرنے میں مصروف ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے علم ہوتا ہے کہ عام طور پر کرونا سے تاحال محفوظ رہنے والے خوش قسمت لوگ احتیاط کرنے سمیت بر وقت حفاظتی اقدامات کرتے ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے کرونا کے آغاز سے اب تک فیس ماسک کا استعمال کیا اور انہوں نے بھیڑ میں جانے سے گریز کرنے سمیت خود کو محدود رکھا اور ساتھ ہی انہوں نے کرونا ویکسینز اور بوسٹر ڈوز لگوائے، وہ تاحال کرونا سے بچے ہوئے ہیں۔

    ساتھ ہی ماہرین نے بتایا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مکمل اہتمام کے ساتھ فیس ماسک بھی استعمال نہیں کیا، لیکن اس کے باوجود وہ کرونا سے محفوظ رہے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ گزشتہ دو سال سے کرونا سے بچے ہوئے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوگا اور ان میں اینٹی باڈیز کی سطح عام افراد کے مقابلے زیادہ ہوگی۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ تاحال کرونا وائرس سے محفوظ رہنے والے خوش قسمت افراد کی ناک، پھیپھڑوں اور گلے میں وہ خلیات انتہائی کم ہوں گے جو کسی بھی وائرس یا انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر اب تک کرونا سے محفوظ رہنے والے افراد میں خصوصی طرح کی جین ہوگی جو انہیں وائرس اور انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہوگی اور اس بات کا علم لگانا سب سے اہم ہے، کیوں کہ اس سے مستقبل میں بیماریوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔

  • بل گیٹس نے ایک اور وبا کے خطرے سے خبردار کردیا

    بل گیٹس نے ایک اور وبا کے خطرے سے خبردار کردیا

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے ایک اور وبا آنے کے خطرے سے خبردار کردیا، ان کا کہنا ہے کہ طبی ٹیکنالوجی میں پیشرفت دنیا کو اس سے لڑنے کے لیے مزید مدد دے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بل گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ کووڈ 19 جیسی ایک اور وبا جلد دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

    بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس نے تسلیم کیا کہ کووِڈ 19 سے شدید بیماری کے خطرات ڈرامائی طور پر کم ہو گئے کیونکہ لوگ وائرس سے مدافعت حاصل کر رہے ہیں۔

    سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر کرونا وائرس فیملی سے تعلق رکھنے والے مختلف پیتھوجن سے نئی وبا پھیل سکتی ہے تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر ابھی سے سرمایہ کاری کی جائے تو طبی ٹیکنالوجی میں پیشرفت دنیا کو اس سے لڑنے کے لیے مزید مدد دے گی۔

    بل گیٹس نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کو تقریباً 2 سال ہوچکے ہیں اور عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے میں کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہونے کے باعث وبائی مرض کے بدترین اثرات کم ہو رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اومیکرون کی تازہ ترین قسم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدت بھی کم ہو گئی ہے۔

    وبائی مرض پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کو کریڈٹ دینے کے بجائے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ وائرس پھیلنے کے ساتھ ہی اپنی قوت مدافعت بھی پیدا کرتا رہا اور ویکسین سے زیادہ وائرس کے اس رجحان نے اس کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

    انہوں نے کہا کہ شدید بیماری کا امکان، جو زیادہ تر بڑھاپے اور موٹاپے یا ذیابیطس کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، اب اس انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے باعث خطرات ڈرامائی طور پر کم ہو گئے ہیں۔

    بل گیٹس نے کہا کہ سنہ 2022 کے وسط تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے 70 فیصد عالمی آبادی کو ویکسین لگانے کے ہدف تک پہنچنے میں بہت دیر ہو چکی ہے، اس وقت دنیا کی 61.9 فیصد آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک ملی ہے۔

    انہوں نے صحت کے پیشہ ور افراد اور حکام پر زور دیا کہ جب اگلی وبائی بیماری دنیا میں آئے تو وہ ویکسین تیار کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے مزید تیزی سے آگے بڑھیں گی۔

    بل گیٹس نے مزید کہا کہ اگلی بار ہمیں کوشش کرنی چاہیئے اور اسے دو سال کے بجائے، ہمیں اسے چھ ماہ کے اندر اندر ختم کرنا چاہیئے۔ اگلی وبا کے لیے تیار رہنے کی قیمت بہت زیادہ نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلی کی طرح نہیں ہے، اگر ہم عقلی انداز سے سوچیں تو اگلی بار ہم وبا پر جلد قابو پالیں گے۔

  • کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کی وبا کو 2 سال گزر چکے ہیں اور اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خوشخبری سنائی ہے کہ 2022 کرونا وائرس کی وبا کا کے خاتمے کا سال ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرسکے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے امید ظاہر کی ہے کہ 2022 میں کرونا وائرس کی وبا کا اختتام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کے پاس اب اس سے نمٹنے کے لیے آلات موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہانم نے جمعرات کو لنکڈ ان پر اپنی پوسٹ میں خبردار کیا کہ عدم مساوات جتنے طویل عرصے تک برقرار رہے گا، یہ وبا اتنی ہی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

    ٹیڈ روس نے افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وبا کو آئے 2 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے درکار چیزیں اور آلات مناسب طریقے سے برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں محکمہ صحت کے عملے کی اب بھی ہر چار میں سے تین کی مکمل ویکسی نیشن نہیں ہوئی جبکہ یورپ میں لوگوں کو ویکسین کے تیسری خوراک بطور بوسٹر لگ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس خلا کی وجہ سے نئے ویریئنٹ کے پھیلنے کے مواقع مزید بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ سے جانی نقصان، پابندیوں اور مشکلات کے سائیکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ٹیڈ روس نے کہا کہ اگر ہم عدم مساوات ختم کرتے ہیں تو اس وبا کو بھی ختم کردیں گے اور اس عالمی ڈراؤنے خواب کا بھی خاتمہ کردیں گے جس میں ہم جی رہے ہیں اور یہ یقیناً ممکن ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے نئے سال کی آمد کے موقع پر عہد کیا کہ ہم حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ عالمی اقدامات کے تحت ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں اس حوالے سے مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں تو ہم 50 لاکھ سے زائد جانیں لینے والی اس وبا کو ختم کر سکتے ہیں جبکہ اس کے لیے لوگوں کو بھی انفرادی سطح پر ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ 2022 کے وسط تک دنیا کی 70فیصد آبادی کو ویکسین لگا دیں۔

    ٹیڈ روس نے ویکسین کی وافر سپلائی یقینی بنانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے درخواست کی کہ وہ انسانی بنیادوں پر ٹیکنالوجی اور ویکسین بنانے کا طریقہ بڑی کمپنیوں سے شیئر کریں تاکہ ویکسین زیادہ تیزی سے بنائی جا سکیں۔

    انہوں نے نئے سال کے لیے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ تمام حکومتوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے صحت کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم یہ اہداف حاصل کرتے ہیں تو ہم 2022 کے اختتام پر دوبارہ وبا سے قبل والی اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا جشن منا رہے ہوں گے اور اس وقت ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر اپنی خوشیاں کھل کر منا سکیں گے۔

  • کرونا سے بچ جانے والوں‌ میں‌ ایک سال بعد موت کا خطرہ

    کرونا سے بچ جانے والوں‌ میں‌ ایک سال بعد موت کا خطرہ

    فلوریڈا: امریکی سائنس دانوں نے تحقیقاتی مطالعوں کے بعد تشویش ظاہر کی ہے کہ انفیکشن کے 12 ماہ بعد کرونا وائرس سے بچ جانے والوں میں موت کا خطرہ موجود ہے۔

    امریکی جریدے فرنٹیئرز اِن میڈیسن میں شائع ہونے والے نتائج میں دکھایا گیا ہے کہ، 65 سال سے کم عمر کے لوگوں میں، جو کووِڈ 19 کے ساتھ اسپتال میں داخل تھے، انفیکشن کے بعد 12 مہینوں میں موت کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 233 فی صد زیادہ تھا، جنھیں کرونا لاحق نہیں تھا۔

    تحقیقی مطالعے کے مطابق وہ لوگ جو گزشتہ بارہ ماہ میں کرونا سے صحت یاب ہو چکے تھے، ان میں ہونے والی 80 فی صد اموات امراضِ قلب (کارڈیوویسکولر) یا سانس کی بیماریوں سے نہیں ہوئی، یہ نتائج بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس کے اثرات نہ صرف سخت بلکہ بہت وسیع ہیں، حتیٰ کہ انفیکشن سے مقابلہ بھی ہو چکا ہوتا ہے۔

    اس مقالے کے مصنف پروفیسر آرک مینَوس کا کہنا تھا کہ سائنسی برادری میں بہت زیادہ دل چسپی اس بات پر مرکوز ہے کہ کرونا وائرس لاحق ہونے کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ‘طویل کووِڈ’ یا دماغی دھند یا بو کی کمی جیسی مستقل علامات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، لیکن ہمیں کرونا سے بحالی کے بعد موت کے سخت نتائج میں دل چسپی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ کرونا وائرس کا اثر اتنا ضرور ہوگا کہ بحالی کے بعد بھی انسانی جسم میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی، اور یہ کہ اس کا نفسیاتی اور جسمانی صدمہ اتنا ہوگا کہ دیرپا نقصان کے لیے کافی ہوگا۔

    اس تناظر میں فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین نے صحت پر کرونا وائرس کے طویل مدتی اثرات کی پیمائش کرنے کے لیے فلوریڈا یونیورسٹی کے دو شہروں میں موجود ہیلتھ سسٹم میں موجود ان لوگوں کا الیکٹرانک ہیلتھ کیئر ریکارڈ دیکھا، جن کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے تھے، اور ٹیسٹ کے بعد 30 دنوں میں مرنے والوں کو اس تجزیے سے خارج کیا گیا۔

    1 جنوری سے 30 جون 2020 کے درمیان 13,638 لوگوں کا کرونا ٹیسٹ کیا گیا تھا، ان میں سے 424 لوگوں میں کرونا وائرس پایا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 178 افراد کرونا کے شدید انفیکشن میں مبتلا ہوئے۔

    اس کے بعد محققین نے پہلے پی سی آر ٹیسٹ کے بعد 365 دنوں تک ان لوگوں کے الیکٹرانک ہیلتھ کیئر ریکارڈز کا جائزہ لیا، انھوں نے پایا کہ گروہ میں شامل 2,686 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    طبی ٹیم نے اس کے بعد ان افراد میں موت کی وجہ کا تعین کرنے کے لیے ہیلتھ کیئر ریکارڈز کا تجزیہ کیا، اور کرونا مثبت اور کرونا منفی ٹیسٹ والے لوگوں میں موت کے خطرے کا موازنہ کیا۔ انھوں نے پایا کہ جنھیں کرونا لاحق ہوا تھا، ان میں زیادہ تر اموات یعنی 5 میں سے تقریباً 4 اموات کی وجہ امراض قلب یا سانس کی بیماری نہیں تھی، حالاں کہ ان دونوں سسٹمز پر کرونا کے واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ COVID-19 کا اثر اس سے زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے جس کی ہم نے پہلے توقع کی تھی۔

    لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پروفیسر مینَوس نے کہا اگرچہ اس بارے میں کئی طرح کے نظریات گردش کر رہے ہیں کہ کرونا انفیکشن کے بعد کی شدید پیچیدگیاں کیوں نمودار ہوتی ہیں، تاہم یقینی طور پر میکانزم قائم کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جسم میں شدید سوزش جسم کے متعدد حصوں کو متاثر کرتا ہے۔