Tag: وبا

  • کرونا وائرس، برٹش ایئر ویز کا چین کے لیے پروازوں کی منسوخی کی مدت میں اضافہ

    کرونا وائرس، برٹش ایئر ویز کا چین کے لیے پروازوں کی منسوخی کی مدت میں اضافہ

    مانچسٹر: کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر برٹش ایئر ویز نے چین کے لیے اپنی تمام براہ راست پروازوں کی منسوخی کی مدت میں اضافہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ایئر ویز نے کرونا وائرس کے خطرے کے باعث چین کے لیے براہ راست پروازیں منسوخ کر رکھی ہیں، اب 17 اپریل تک کوئی بھی براہ راست پرواز چین نہیں جائے گی۔

    ترجمان ایئر لائن نے کہا کہ پروازیں منسوخ کرنے کا فیصلہ فارن آفس کی جانب سے جاری ہدایات اور وائرس سے اموات میں اضافے کے پیش نظر کیا گیا، کرونا وائرس سے اب تک 2 ہزار اموات ہو چکی ہیں، ہمارے لیے صارفین کی سیفٹی اہم ہے۔

    کرونا وائرس سے متاثرہ جہاز ڈائمنڈ پرنسز کے 2 مسافر ہلاک

    خیال رہے کہ کمپنی نے اس سے قبل یکم اپریل تک پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا جسے اب 17 اپریل تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ایئرلائن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے براہ راست پروازیں جاری رہیں گی۔

    واضح رہے کہ چین میں کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2118 تک پہنچ گئی ہے، جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 74576 ہو چکی ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مہلک وائرس سے مزید 114 اموات ہوئی ہیں۔

  • کرونا وائرس کا خطرہ شمالی آئرلینڈ بھی پہنچ گیا

    کرونا وائرس کا خطرہ شمالی آئرلینڈ بھی پہنچ گیا

    لندن: چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے مہلک کرونا وائرس کا خطرہ ناردرن آئرلینڈ بھی پہنچ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی آئرلینڈ کے ایک 6 ماہ کے بچے اور اس کی ماں کے لیے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انھیں مہلک وائرس لگ گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئرلینڈ کے حکام نے مذکورہ ماں بیٹے کو ایمرجنسی پروٹوکول کے ساتھ اسپتال منتقل کر دیا ہے، جہاں ان کے ٹیسٹ کیے گئے، تاہم اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

    بتایا گیا کہ ماں اور بچہ ہانگ کانگ گئے تھے اور حال ہی میں برطانیہ لوٹے ہیں، ان میں ایسی علامات پائی گئیں جو مہلک وائرس کرونا کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال یہ کنفرم نہیں کر سکتے کہ بچے اور اس کی ماں کو کرونا وائرس لگ چکا ہے یا نہیں۔

    بری خبر، کروناوائرس کے تیسرے کیس کی تصدیق ہوگئی

    دوسری طرف یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام کے لیے فی الحال خطرہ بہت کم ہے، کیوں کہ شمالی آئرلینڈ میں تا حال ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جس کی تصدیق کی جا چکی ہو۔

    خیال رہے کہ متعدد آئرش باشندے چین میں وبا کے دوران کرونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں، دوسری طرف آئرلینڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک کرونا وائرس کے 15 مشتبہ کیسز سامنے آ چکے ہیں، جن کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں تاہم کوئی کنفرم کیس سامنے نہیں آیا۔ آئرلینڈ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے چیف نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح بین الاقوامی سطح پر کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئرلینڈ میں ایک کرونا وائرس کیس ممکن ہے۔

    ادھر آئرلینڈ میں یہ بھی مشہور ہو گیا ہے کہ کرونا وائرس چینی بیماری ہے، جس پر رد عمل دیتے ہوئے آئرلینڈ کے ہیلتھ سروس ایگزیکٹو نے کہا کہ یہ توہین آمیز طرز اظہار ہے، اس سے مہلک وائرس کو دی جانے والی توجہ میں کمی کا بھی خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ چینی بیماری نہیں ہے، یہ دنیا بھر کے لوگوں کو لاحق ہو رہا ہے، اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ایک کیس بھی نظر انداز ہو۔

  • ڈینگی: ملک بھر میں مزید کیسز کی تصدیق، اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ

    ڈینگی: ملک بھر میں مزید کیسز کی تصدیق، اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ

    اسلام آباد: ملک بھر میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وفاقی دار الحکومت میں وبائی صورت حال کے باعث ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد نے ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈینگی کی وبائی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد میں انتظامیہ کی جانب سے ٹائر شاپس مالکان پر ٹائرز ڈسپلے کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔

    ضلعی مجسٹریٹ نے تنبیہہ کی ہے کہ خلاف ورزی پر سیکشن 144 کے تحت کارروائی ہوگی، شہری پودوں کو پانی دینے میں بھی احتیاط سے کام لیں۔

    ادھر پنجاب میں ڈینگی وائرس کے مزید کیسز سامنے آ گئے ہیں، 24 گھنٹے میں مزید 130 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ڈی جی ہیلتھ آفس کا کہنا ہے کہ 60 افراد کا تعلق راولپنڈی سے اور 58 کا اسلام آباد سے ہے۔

    لاہور، بہاولپور، نارووال سے ڈینگی وائرس میں مبتلا 2،2 مریض رپورٹ ہوئے، اٹک سے 6، سرگودھا سے5، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ سے 4،4 مریض، ٹوبہ ٹیک سنگھ، وہاڑی، سیالکوٹ، گجرات سے ایک ایک مریض رپورٹ ہوئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں ڈینگی نے وبائی صورت اختیار کر لی

    ڈی جی ہیلتھ کے مطابق پنجاب میں رواں سال 1299 افراد ڈینگی وائرس میں مبتلا ہوئے، صوبے میں ڈینگی وائرس میں مبتلا 2 مریضوں کی موت ہوئی۔

    خیبر پختون خوا سے بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، سوات میں مزید 13 افراد میں ڈینگی وائرس کا شکار ہو گئے ہیں، لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 10 ہو گئی۔

    کوہاٹ میں بھی انسداد ڈینگی کے لیے محکمہ صحت کی کوششیں کار آمد ثابت نہ ہو سکیں، ضلع میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 32 تک پہنچ گئی ہے۔

    کراچی میں ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر خادم کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی ڈینگی کا شکار رہے ہیں، ڈی ایم ایس کے 3 بچے بھی ڈینگی سے متاثر ہوئے تھے، مجھے لیاری میں مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی ہوا تھا، چند ماہ پہلے بخار کے بعد معائنہ کرایا تو ڈینگی کی تصدیق ہوئی، ایسے مقامات کی نشان دہی کرنا ہوگی جہاں ڈینگی لاروا موجود ہوتا ہے۔

    دریں اثنا، آج وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان کی زیر صدارت انسداد ڈینگی وائرس سے متعلق خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ڈینگی کے تدارک سے متعلق وزیر اعلیٰ کے پی کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    بتایا گیا کہ صوبے میں ڈینگی وائرس کے 1889 میں سے 891 کیسز کی تصدیق ہوئی، اب تک ڈینگی وائرس سے کسی مریض کی موت نہیں ہوئی، وائرس کی تشخیص کے لیے سرکاری اسپتالوں میں خصوصی سیل قایم کر لیے گئے ہیں۔

    وزیر اعلیٰ محمود خان نے ہدایت کی کہ ڈینگی وائرس سے متعلق افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، مسئلے کے مستقل حل کے لیے ہنگامی بنیاد پر اینٹومالوجسٹ کی بھرتی کو یقینی بنایا جائے، متعلقہ محکمے انسداد ڈینگی وائرس کے لیے فعال کردارادا کریں۔

    قبل ازیں، پشاور میں وزیر صحت ہشام انعام اللہ نے ڈینگی کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا کہ صوبے میں ڈینگی وائرس پھیلا ہوا ضرور ہے لیکن وبائی شکل اختیار نہیں کی، یہ پشاور کے چند نواحی علاقوں سمیت کچھ اضلاع میں پھیلا ہے، متاثرہ علاقوں میں ہر سال ڈینگی وائرس آتا ہے۔

    انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ 1800 کیسز میں سے 903 میں ڈینگی وائرس پایا گیا، کوشش ہے اگلے سال ڈینگی وائرس کو مکمل ختم کر دیں، ادویات بھی اسپتالوں کو مطلوبہ مقدار سے زیادہ مہیا کی جا چکی ہیں۔

  • بھارت: دماغی بیماری سے 10 روز میں 53 بچے ہلاک

    بھارت: دماغی بیماری سے 10 روز میں 53 بچے ہلاک

    بہار: مودی کے بھارت میں ایک خطرناک دماغی بیماری نے ایک بار پھر بچوں کا شکار شروع کر دیا ہے، صرف 10 روز میں اب تک 53 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے علاقے مظفر پور میں ایک دماغی بیماری سے 53 بچے ہلاک ہو گئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں محض دس روز میں ہوئی ہیں۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ خطرناک دماغی بیماری کے باعث زیر علاج بچوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے، بچوں کو آئی سی یو میں رکھا گیا ہے اور انھیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ اس خطرناک دماغی بیماری کی وجہ لیچی فروٹ ہو سکتی ہے، رپورٹس کے مطابق دماغی بیماری لیچی کے موسم بچوں کو لاحق ہو رہی ہے۔

    خیال رہے کہ بچے موسم گرما کا پھل لیچی بہت شوق سے کھاتے ہیں، ادھر امریکی ماہرین نے بتایا ہے کہ ایک قسم کا زہریلا مواد لیچی میں ہوتا ہے اور امکان ہے کہ اسی زہریلے مواد کی وجہ سے بچے شکار ہو رہے ہوں۔

    مذکورہ دماغی بیماری کو مقامی طور پر چمکی بخار کہا جاتا ہے، جس کی علامات میں بخار، قے اور بے ہوشی شامل ہیں، بتایا گیا ہے کہ ضلع مظفر پور میں لیچی کی فصل سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بھارت میں پہلی صف میں بیھٹنے پر طالب علم قتل

    واضح رہے کہ 2014 میں جب اس ضلع میں 150 اموات ہوئیں تو لانسٹ گلوبل ہیلتھ ریسرچ نے تحقیقات کر کے معلوم کیا کہ اس بیماری کا تعلق لیچی سے ہے۔

    ماہرین کے مطابق لیچی میں غیر معمولی مقدار میں امینو ایسڈ ہوتا ہے، جس کے زیادہ استعمال سے دماغ کو درکار گلوکوز شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔

    ایک خلیجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2008 اور 2014 کے درمیان اس بیماری encephalitis سے اترپردیش، بہار میں 6 ہزار اموات ہوئی تھیں جب کہ 44 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔

  • ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ڈینگی کا موذی مرض ہر سال اپنی تباہ کاریوں سے ہمارے ہم وطنوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی کے شماریاتی ماڈل کے ذریعے دو سے تین ماہ قبل پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس علاقے میں ڈینگی کی وبا پھوٹے گی، اور پیشگی حفاظتی انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حال ہی میں کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی نے ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کی قبل از وقت پیش گوئی کرنے کے لیے ایک شماریاتی ماڈل بنایا ہے جس کی بنیاد پچھلے چند برسوں میں کسی مخصوص علاقے کے درجہ حرارت میں اضافے اور وہاں بارشوں کی سالانہ اوسط پر رکھی گئی ہے۔

    اس ماڈل پر کام کرنے والے محققین نے برازیل اور اطراف کے ممالک کے لیے 1999ء سے 2016ء تک درجہ حرارت اور بارشوں کی اوسط کا ایک شماریاتی ڈیٹا تیار کرکے یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کن کن علاقوں میں ڈینگی کی وبا پھوٹ پڑنے کا امکان ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل ان علاقوں کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے جہاں مختصر یا طویل المدت خشک سالی کے بعد بارشوں کا آغاز ہوا ہو، جو عموماً کئی ماہ لگاتار جاری رہتی ہیں اور سیلاب کا سبب بنتی ہیں، کیوں کہ سیلاب کا پانی اترتے ہی یہ وبائی امراض بہت تیزی سے پھوٹ پڑتے ہیں۔

    محققین کے مطابق یہ شماریاتی ماڈل کسی بھی ملک کی پبلک ہیلتھ پالیسی بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف ڈینگی بلکہ دیگر وبائی امراض کے پھیلنے کے رسک کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ ماڈل پاکستان میں ایک ہیلتھ پالیسی اور ڈیزاسٹر اسٹریٹجی بنانے میں بہت معاونت کرسکتا ہے جہاں لاہور و کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی نکاسی آب کا درست انتظام نہیں اور معمول سے تھوڑی زیادہ بارشیں ہوتے ہی پورے شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں جبکہ گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی کئی روز بارش کا پانی کھڑا رہنے کے باعث مچھروں کی افزائش کا سبب بنتا ہے۔

    اگر 1995ء یا اس کے بعد کسی بھی سال سے شماریاتی ڈیٹا تیار کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں ڈینگی کے زیادہ تر کیسز صوبہ بلوچستان میں سامنے آئے تھے جہاں وقتاً فوقتاً طویل یا مختصر المدت خشک سالی کے اوقات اب معمول بن چکے ہیں جبکہ 2018ء میں یہ کیسز سندھ سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بارشوں کی قلت کے باعث خشک سالی جڑیں پکڑتی جارہی ہے۔

    شماریاتی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کرنا آسان ہوگا کہ اگلے چند ماہ یا 2019ء میں کون سے صوبے یا مخصوص علاقوں کو ان وبائی امراض کے حملے کا سامنا رہے گا۔ اس ماڈل کی بنیاد پر ہر صوبے میں ایک ارلی وارننگ سسٹم بھی بنایا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو اور مقامی میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہو تاکہ پانی کے ذخائر اور درجہ حرارت کے حوالے سے مسلسل معلومات ملتی رہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر 2 سے 3 ماہ پہلے وارننگ جاری کی جائے اور مقامی افراد کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف میں صفائی وستھرائی کا بھرپور انتظام کرتے ہوئے باقاعدگی سے جراثیم کش سپرے کریں، پانی کے ذخائر کو آلودہ اور بدبودار ہونے سے بچایا جائے تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2016ء میں 16 ہزار 580 افراد ڈینگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 257 کی صرف لاہور میں موت واقع ہوئی تھی۔ 2017ء میں یہ اعداد و شمار اچانک ہولناک شکل اختیار کرگئے اور پورے ملک سے 78 ہزار 820 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے صرف 17 ہزار 828 افراد کی لیبارٹری سے تصدیق ہوسکی، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ برس زیادہ تر کیسز پنجاب کے بجائے خیبر پختونخوا سے سامنے آئے جن کی تعداد 68 ہزار 142 تھی۔

    صحت سے متعلق پالیسی بنانا یقیناً حکومت کا کام ہے مگر جب تک مقامی آبادی ان پالیسیوں میں عمل درآمد میں حکومت کی معاونت نہیں کرے گی تب تک یونہی ہر برس ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض نئے مقامات پر حملے کرکے اسی طرح تباہی پھیلاتے رہیں گے۔