Tag: وجوہات اور علاج

  • کھانسی کے بعد بلغم کیوں آتا ہے؟ احتیاط وعلاج

    کھانسی کے بعد بلغم کیوں آتا ہے؟ احتیاط وعلاج

    اکثر افراد کو کھانسی کے بعد بہت زیادہ بلغم آنے کی شکایت درپیش ہوتی ہے جس سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن وہ اس کی وجوہات سے لاعلم ہوتے ہیں۔

    بلغم جسے انگلش میں mucus بھی کہا جاتا ہے کہ ہر انسان میں ہوتا ہے اور یہ جسم کے لیے ضروری بھی ہے جو کہ مختلف ٹکڑوں کے لیے رکاوٹ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے انزائمے اور پروٹین اپنے اندر رکھتا ہے جو کہ ہوا میں موجود جراثیم سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    بلغم کس وجہ سے آتا ہے؟

    کھانسی کے بعد بلغم آنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے الرجی، ناک ، گلے یا پھیپھڑے میں خراش، تمباکو نوشی یا نظام ہاضمہ کے مختلف امراض وغیرہ۔

    یعنی اس کی زیادہ مقدار موسمی نزلہ زکام یا فلو، الرجی، ناک، گلے یا پھیپھڑوں میں خراش، نظام ہاضمہ کے مکتلف مسائل، تمبا کو نوشی، پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا یا کینسر وغیرہ کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔

    بلغم کا آنا صحت کی مختلف صورتحال کی وجہ سے ہوسکتا ہے جس کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے۔

    انفیکشنز

    اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن جیسے فلو یا زکام یا شدید انفیکشن جیسے بیکٹیریل نمونیا زیادہ بلغم وجوہات میں سے ایک ہے۔

    الرجی

    گرد و غبار، فضائی آلودگی یا جرگ (pollens) سے الرجی اور سینے کی سوزش بھی بلغم کی پیداوار میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔

    پھیپھڑوں کی بیماری

    پھیپھڑوں کی دائمی بیماریاں جیسے دمہ، دائمی برونکائٹس، سسٹک فیبروسس، انٹرسٹیشل پلمونری ڈیزیز یا پھیپھڑوں کا کینسر بھی زیادہ بلغم کا سبب بن سکتا ہے۔

    صحت کے دیگر مسائل

    دیگر صحت کے مسائل میں دائمی ایسڈ ریفلوکس (GERD)، دل کی ناکامی یا دیگر ماحولیاتی عوامل شامل ہیں۔

    ٹھنڈی ہوا

    ٹھنڈی ہوا بھی گلے میں سوزش پیدا کر سکتی ہے اور زیادہ بلغم کو پیدا کرسکتی ہے۔

    چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    دوپہر کے کھانے اور ناشتے کے درمیان گاجروں کا جوس پئیں کہ اس سے بلغم سے نجات ملے گی۔ رات کو سونے سے کرین بیریز کا رس پئیں جس سے آپ کے پھیپھڑے میں موجود خطرناک بیکٹیریا ختم ہو جائیں گے۔ اسی طرح بلیو بیریز کا استعمال بھی بہت مفید ہے۔

  • بالوں سے خشکی کیوں نہیں جاتی؟ اصل وجہ سامنے آگئی

    بالوں سے خشکی کیوں نہیں جاتی؟ اصل وجہ سامنے آگئی

    گرمی کے موسم میں پسینے کے باعث سر میں خشکی یعنی ڈینڈرف ہوجانا عام سی بات ہے لیکن یہ صورتحال اس وقت تشویشناک ہوجاتی ہے جب یہ پریشانی مستقل طور پر ہوجائے۔

    سر میں مسلسل کھجلی ہونا، سفید پپڑی گرنا اور جلد کا خشک ہوجانا اس کی اہم علامات ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف موسم یا گندگی ہی نہیں جسم میں زنک کی کمی بھی ڈینڈرف کی بڑی وجہ بن سکتی ہے۔

    جی ہاں ! اس حوالے سے ایک سینئر ڈرمیٹالوجسٹ ڈاکٹر نیہا سود کا کہنا ہے کہ ڈینڈرف صرف کھوپڑی پر فنگل انفیکشن کا نتیجہ نہیں ہے، یہ ہمارے جسم میں غذائی اجزاء کی کمی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سر میں خشکی ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جیسے کہ جسم میں وٹامن بی (خاص طور پر بی2، بی6 اور بی12) اور اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی کمی جلد اور کھوپڑی کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔

    یہ عناصر کھوپڑی کو ہائیڈریٹڈ اور صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں لیکن ان کی کمی کی وجہ سے سر کی جلد خشک اور پھٹی ہوئی ہو جاتی ہے جس سے خشکی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہر صحت نے بتایا کہ زنک ایک ضروری معدنیات ہے جو ہماری جلد، بالوں اور ناخنوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ جسم میں خلیوں کی مرمت، سوزش کو کنٹرول کرنے اور کھوپڑی کے تیل کی پیداوار کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    جب جسم میں زنک کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو سر کی جلد کمزور پڑنے لگتی ہے جس کی وجہ سے مردہ خلیے زیادہ مقدار میں گرنے لگتے ہیں اور مردہ جلد خشکی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

    ان کاکہنا ہے کہ اگر خشکی بار بار ہو رہی ہے توخوراک میں تبدیلی کرکے زنک کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ کدو کے بیج، دودھ اور دودھ کی مصنوعات زنک حاصل کرنے کے اچھے ذرائع ہیں۔

    اس کے علاوہ خشکی کی تکلیف اور پریشانی سے نجات کے لیے چند سادہ مگر دلچسپ ٹوٹکے بہت مددگار ثابت ہوسکتے ہیں جن کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جارہا ہے۔

    اسپرین

    اسپرین ایسے اجزاء(سیلی کائی لیک ایسڈ) سے بھرپور دوا ہے،اسپرین کی 2 گولیوں کو پیس کر سفوف کی شکل دیں اور سر پر لگانے کے لیے جتنا شیمپو لیتے ہیں اس میں شامل کرلیں، اس مکسچر کو اپنے بالوں پر ایک سے دو منٹ تک لگا رہنے دیں اور پھر اچھی طرح دھولیں، اس کے بعد پھر سادہ شیمپو سے سر کو دھوئیں آپ اس کا اثر دیکھ حیران رہ جائیں گے۔

    کھانے کا سوڈا

    اپنے بالوں کو گیلا کریں اور پھر اس میں مٹھی بھر کر کھانے کا سوڈا زور سے رگڑیں، شیمپو کو چھوڑ کر بالوں کو دھولیں۔ یہ سوڈا خشکی کا باعث بننے والے عناصر کو متحرک ہونے سے روکتا ہے۔

    سیب کا سرکہ

    بالوں کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ سیب کے عراق کا سرکہ سر کی خشکی کا بہترین حل ہے۔ ایک چوتھائی کپ سرکے کو چوتھائی کپ پانی سے بھری اسپرے بوتل میں شامل کریں اور اپنے سر پر چھڑکاﺅں کریں۔ اپنے سر پر تولیہ لپیٹ لیں اور پندرہ منٹ سے ایک گھنٹے تک آرام سے بیٹھ جائیں جس کے بعد سر کو معمول کے مطابق دھولیں۔

    ناریل کا تیل

    ناریل کا تیل خشکی کا آزمودہ اور مؤثر علاج ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کی مہک بھی مزاج پر ناگوار بھی گزرتی ہے۔ نہانے سے پہلے تین سے پانچ چائے کے چمچ ناریل کے تیل سے سر کی مالش کریں اور ایک گھنٹے تک لگا رہنے دیں پھر شیمپو سے دھولیں۔

    لیموں

    خشکی سے نجات پانے کے لیے دو چائے کے چمچ لیموں کے عرق یا جوس کی مالش اپنے سر پر کریں اور پانی سے دھولیں۔ اس کے بعد ایک چائے کا چمچ لیموں کا جوس ایک کپ پانی میں ملائیں اور اپنے سر کو اس سے بھگولیں۔ اس طریقہ کار کو روزانہ اس وقت استعمال کریں جب تک خشکی کا خاتمہ نہ ہوجائے۔

    نمک

    شیمپو سے پہلے عام نمک کو سر پر رگڑنا یا مالش خشکی کا خاتمہ کرنے میں زبردست کردار ادا کرسکتا ہے۔ نمک اپنے سر پر چھڑکیں اور پھر اسے بالوں میں پھیلالیں جس کے بعد کچھ دیر مالش کریں۔ کچھ دیر بعد سر کو شیمپو سے دھو کر حیرت انگیز اثر محسوس کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • اپنے سر درد کو کیسے پہچانیں؟ وجوہات اور علاج

    اپنے سر درد کو کیسے پہچانیں؟ وجوہات اور علاج

    دنیا میں آج تک کوئی ایسا شخص نہیں جس کے سر میں کبھی درد نہ ہوا ہو مسئلہ یہ نہیں کہ درد کا علاج کیا ہے اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ انہیں سر درد کس قسم اور کس نوعیت کا ہے ؟

    کچھ لوگ خوفزدہ ہوکر سوچتے ہیں کہ شاید ہمارے سر میں ٹیومر تو نہیں؟ جبکہ کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ کہیں سر کی رگ ہی نہ ڈیمج ہوگئی ہو۔

    اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد انیس نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سر کے درد کی تشخیص کے بارے میں بتایا کہ اسے کیسے پہچانا جائے کہ درد کس نوعیت کا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کے سر کے اگلے حصے یعنی ماتھے میں درد ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نزلہ زکام کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ اسٹریس کم کریں اور معمولی علاج سے تو یہ خود بخود کم ہوجائے گا۔

    اس کے علاوہ اگر سر کے اوپری حصے کھوپڑی میں درد ہے تو یہ پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے ہوتا ہے اس کیلیے اور آر ایس یا لیموں پانی پئیں اور کوئی پین کلر ٹیبلٹ لیں گے تو اس سے بھی افاقہ ہوجائے گا۔

    ڈاکٹر محمد انیس کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اگر سر کے پچھلے حصے میں درد ہے یا گردن سے ہوتا ہوا آگے کی طرف آتا ہے تو یہ زیادہ تر گردن کی اکڑن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یا پھر آپ نے لمبی ڈرائیونگ کی ہے یا کوئی کام مستقل دیر تک کام کیا ہو جس سے تھکاوٹ ہوگئی ہو۔

    اس کیلیے گردن کا مساج کریں گے تو یہ کافی حد تک بہتر ہوجائے گا اور مناسب وقت تک آرام کرنا بھی ضروری ہے۔

    اور اگر آپ کے سر کے ایک سائیڈ پر درد ہورہا ہو اور ساتھ میں متلی یا بینائی کا دھندلا پن بھی ہوتا ہے تو یہ مائیگرین کی علامت ہے، اس کے وقتی طور پر علاج کیلیے کوئی اسٹرونگ پین کلر لیں تو یہ بہتر ہوسکتا ہے تاہم مائیگرین کا کوئی مستقل اور مصدقہ علاج ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی ذاتی اور عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی مشورے نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے، اور اس پر عمل کرنے سے پہلے اپنے ذاتی معالج سے ضرور رابطہ کریں۔

  • اعصابی دباؤ سے بچاؤ کیلیے یہ کام لازمی کریں

    اعصابی دباؤ سے بچاؤ کیلیے یہ کام لازمی کریں

    اعصابی یا ذہنی دباؤ ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

    ڈپریشن یا اضطراب کے وقت تمباکو نوشی اور شراب نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں جیسے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 6 فیصد تک بڑھاجاتا ہے۔

    ذہنی دباؤ مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے اور اکثر لوگ اس کے مختلف اثرات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو صحیح بات نہیں ہے۔

    ہماری تیز رفتار، زیادہ تناؤ والی دنیا میں اعصابی خرابی کی علامات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ علامات کو جلد پہچاننا زیادہ موثر علاج اور بہتر نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

    این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں ذہنی دباؤ کے حوالے سے ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ذہنی دباؤ زیادہ بڑھ جائے تو آپ کے مدافعتی نظام کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر، دل کی صحت اور متوازن نیند سمیت کئی جسمانی افعال کو متاثر کر سکتا ہے۔

    اعصابی خرابی، جسے ذہنی خرابی بھی کہا جاتا ہے، کوئی طبی اصطلاح نہیں ہے بلکہ شدید ذہنی پریشانی کے دور کو بیان کرنے کا ایک بول چال کا طریقہ ہے۔

    احتیاط و علاج

    ابتدائی درجے کے ذہنی دباؤ کو روز مرّہ معمولات میں کچھ مثبت تبدیلیوں کے ذریعے بھی کم کیا جا سکتا ہے، جیسے علی الصبح بیدار ہو کر نماز ِفجر کے بعد سیر کو معمول بنالیں۔

    مختلف تفریحی سرگرمیوں کا اہتمام کرنے کے ساتھ دوستوں کے لیے وقت نکالیں۔ گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت لازماً گزاریں۔ کچھ وقت فلاحی و رفاہی کاموں کو دیں۔ اپنی صحت اور خوراک پر توجّہ مرکوز کریں۔

    کسی بات پر شدید غصّہ آئے ،تو اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کریں، خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں سے زیادہ توقعات ہرگز نہ رکھیں۔ تنہائی سے دُور رہیں، مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں۔

    جو چیز حاصل نہ ہو سکے، اس سے متعلق سوچنے سے گریز کریں۔ مسکنات (خواب آور) ادویات کاسہارا نہ لیں کہ ان سے عارضی طور پر تو سکون حاصل ہوجاتا ہے، مگر مابعد اثرات شدید ہوتے ہیں۔

  • مرگی کے مریض کو کروٹ سے لٹائیں اور پانی بالکل نہ پلائیں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    مرگی کے مریض کو کروٹ سے لٹائیں اور پانی بالکل نہ پلائیں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    مرگی محض ایک مرض ہی نہیں بلکہ یہ مختلف کیفیات کی علامت ہے جن کا مشترک پہلو یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں مرگی کے مریض کو دماغی خلل کے باعث بار بار اچانک دورے پڑتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہتے ہیں کہ مختلف مریضوں میں مرگی کی وجوہات و علامات بھی مختلف ہو سکتی ہیں اور دماغی مرض یا نقص کی تقریباً سبھی صورتیں مرگی کی وجہ بن سکتی ہیں۔

    مرگی کیا ہے اور اس سے محفوظ رہنے کیلیے کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر رضا خیرات رضوی نے ناظرین کو مفید مشوروں  سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ مرگی کے مریض میں یہ کیفیت دماغ کی نشوونما میں خرابی، متعدی عمل، دماغی رسولی، سر میں چوٹ، فالج یا کسی ایسے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوسکتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    ان کا کہنا تھا کہ مرگی زیادہ فعال نیورانوں کے گروپ سے پیدا ہوتی ہے جو دماغ کے ارد گرد کے خلل پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں دورے پڑتے ہیں۔

    احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

    ڈاکٹر رضا خیرات رضوی نے بتایا کہ مریض کو مرگی کا دورہ پڑنے سے پہلے اس بات کا احساس کافی حد تک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے سر چکرانے لگتا ہے، اس لیے اس کو چاہیے کہ وہ اگر گاڑی چلا رہا ہے تو فوری طور پر روک لے اور اگر گھر میں ہے تو آگ یا شیشے کے قریب نہ کھڑا ہو بلکہ کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ جائے۔

    مریض کے اہل خانہ کو چاہیے کہ اسے فوری طور پر کروٹ سے لٹائیں اور پانی وغیرہ بالکل نہ پلائیں، کیونکہ مریض اس وقت بے ہوشی کے عالم میں ہوتا ہے اور پانی اس کی سانس کی نالی یا پھیپھڑوں میں جا سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ چمچے کی پچھلی سائیڈ سے اس کی زبان دبائی جائے تاکہ اسے سانس لینے میں آسانی ہو اور  اگر اس کا سانس رک رہا ہو تو ضرورت پڑنے پر منہ کے ذریعے جسم میں ہوا داخل کی جائے اور جتنا جلدی ہوسکے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی قسم کی ہدایات نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • سردیوں میں جوڑوں کے درد پر کیسے قابو پایا جائے؟

    سردیوں میں جوڑوں کے درد پر کیسے قابو پایا جائے؟

    ہر سال سردیوں کے آتے ہیں ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے خصوصاً بڑی عمر کے افراد میں جوڑوں کے درد کی شکایات عام ہوجاتی ہیں، اس کی وجہ کیا ہے اور اس مشکل پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔

    مذکورہ صورتحال سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا لازم ہیں اور ساتھ ہی درد سے نجات کیلئے دوا کا استعمال یا کسی تیل کی مالش بھی اہمیت کی حامل ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر ندیم آصف نے اس کیفیت کے پیدا ہونے کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق ناظرین کو مفید مشورے دیے۔

    انہوں نے بتایا کہ جوڑوں کے درد کی اہم اور عام وجہ تو یہ ہے اس موسم میں خون کی رگیں سکڑ جاتی ہیں جس کے سبب خون کی روانی متاثر ہوتی ہے، لیکن اس کی سب سے اہم وجہ جسمانی سرگرمیوں کا نہ ہونا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سردی کی وجہ سے ہم بستر اور لحاف کو جلدی نہیں چھوڑتے جس کا براہ راست اثر پٹھوں اور جوڑوں پر پڑتا ہے کیونکہ ان کو حرکت نہیں دی جاتی۔ لہٰذا بستر پر لیٹے لیٹے بھی اپنے ہاتھ پیروں کی ورزش کریں تاکہ خون کی روانی بہتر ہو۔

    ڈاکٹر ندیم آصف کا کہنا تھا کہ سردی میں پیاس نہیں لگتی اور لوگ پانی کی کمی کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن کی علامات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سردیوں میں پائے، یخنی یا گوند کتیرا کا حلوہ کھا لیا تو گھٹنے مضبوط ہوجائیں گے ایسا کچھ نہیں کیونکہ یہ سب کھانے سے وٹامنز اور پروٹین تو مل جاتے ہیں ان کا گھٹنوں کی طاقت سے کوئی تعلق نہیں، یہ صرف دماغی خلل ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کو سردیوں میں جوڑوں کے درد اور ہڈیوں میں تکلیف کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، عام طور پر یہ درد ہاتھوں، پیروں کے جوڑوں میں ہوتا ہے، یہ خطرناک تو نہیں ہوتا مگر تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے مناسب گرم ملبوسات اور باہر زیادہ دیر تک رہنے سے گریز کرنا چاہیے۔

  • کم عمر لڑکیوں کے چہرے پر جھریاں کیوں پڑتی ہیں؟ وجوہات اور علاج

    کم عمر لڑکیوں کے چہرے پر جھریاں کیوں پڑتی ہیں؟ وجوہات اور علاج

    عمر بڑھنے کے ساتھ چہرے کے خدوخال اور جلد میں تبدیلی قدرتی عمل ہے لیکن اگر کم عمری یا جوانی میں پڑنے لگیں تو یہ بات انتہائی قابل تشویش ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ماہر جِلد ڈاکٹر بتول نے چہرے پر پڑنے والی جھریاں و جھائیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ناظرین کو اپنے مفید مشوروں سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جھائیوں کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ہیمو گلوبن بڑھ رہا ہے یا پھر آئرن لیول کم ہورہا ہے، اور زیادہ تر یہ کیفیت آئرن کی کمی سے ہوتی ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بتول نے بتایا کہ چہرے پر جھریاں پڑنے کی وجہ موبائل فون یا ٹی وی اسکرین کا زیادہ استعمال بھی ہے کیونکہ اسکرین دیکھتے ہوئے جتنا زور آنکھوں پر پڑتا ہے اس کے اثرات جھریوں کی شکل  میں سامنے آتے ہیں۔

    ڈاکٹر بتول نے بتایا کہ درمیانی عمر میں چہرے پر جھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں اور عموماً ایسا چہرے کے ان حصوں میں ہوتا ہے جو موبائل یا اسکرین دیکھنے ہوئے چہرے کے تاثرات کے دوران متحرک رہتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس 15 سال کی عمر تک کی بچیاں بھی یہی شکایت لے کرآتی ہیں اور میں انہیں یہی کہتی ہوں کی اسکرین ٹائم کم سے کم کردو اور کوئی اچھی کریم یا سیرم استعمال کرو۔

    انہوں نے بتایا کہ لیپ ٹاپ یا ٹی وی استعمال کرتے ہوئے چشمہ لازمی پہنیں تاکہ آنکھوں پر زیادہ زور نہ پڑے۔

    اس کا علاج اور احتیاط بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے بچنے کیلیے وہ غذائیں کھائیں جو آپ کے جسم کی ضروریات کو پورا کرسکیں، اس کے علاوہ میوے بھی کھائیں اور زنک کا استعمال بھی اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔

  • گردے کی پتھری کی وجوہات اورعلاج

    گردے کی پتھری کی وجوہات اورعلاج

    روزمرہ کی غذا میں بے ترتیبی اور وقت بے وقت کھانا کھانے کی عادت معدے کی خرابی اور فضلے کے اخراج کے عمل کو متاثر کرتی ہے جو گردے کی پتھری کا بڑا سبب ہے۔

    گردوں میں پتھری بہت تکلیف دہ مرض ہوتا ہے، عام طور پر گردوں میں پتھری کا سامنا 40 سے 60سال کی عمر کے درمیان افراد کو ہوتا ہے مگر ہر عمر کے افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    زیادہ تر جن افراد کو ایک بار گردوں میں پتھری کا سامنا ہوتا ہے، انہیں مستقبل میں بھی کم از کم ایک بار ضرور اس عارضے کا علاج کرانا پڑتا ہے۔

    پتھری کیوں پیدا ہوتی ہے؟

    گردے کی پتھری اس وقت بنتی ہے جب پتھری بنانے والے مادے (نمک) پیشاب میں خارج ہوتے ہیں۔ پیشاب کی ساخت میں تبدیلی یا پیشاب کی مقدار میں کمی گردے کی پتھری کی تشکیل کو فروغ دیتی ہے۔ ایسی صورت حال کا سبب بننے والے کچھ عام عوامل میں شامل ہیں:

    پانی کی کمی کم سیال کی مقدار یا سخت ورزش کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پیشاب کے اخراج میں کسی قسم کی رکاوٹ ۔ پیشاب کی نالی میں انفیکشن۔ میٹابولزم کیے مسائل کی وجہ سے پیشاب کی ساخت میں تبدیلی۔ بعض غذائی عادات جیسے پروٹین کی زیادہ مقدار، نمک یا چینی کی زیادتی، وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا طویل استعمال اور آکسیلیٹ پر مشتمل غذا جیسے پالک کا زیادہ استعمال ہے۔

    پتھری کسے کہتے ہیں؟

    بنیادی طور پر یہ پتھر نہیں بلکہ منرلز اور دیگر نامیاتی مرکبات کے جمع ہونے سے بننے والے بڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

    کیلشیئم آکسلیٹ کی پتھری سب سے عام ہوتی ہے جس کے بعد کیلشیئم فاسفیٹ اور یورک ایسڈ کا نمبر آتا ہے۔

    جب پیشاب میں یہ منرلز کافی زیادہ تعداد میں ہو جاتے ہیں اور مناسب سیال موجود نہیں ہوتا تو وہ سخت پتھر جیسی شکل اختیار کرلیتے ہیں جن کا حجم ریت کے ایک دانے سے لے کر ایک گولف بال جتنا ہوسکتا ہے۔

    یہ سخت ٹکڑے پیشاب کی نالی میں سفر کرتے ہوئے پیشاب کے بہاؤ کو بلاک کر سکتے ہیں جس سے گردوں کی سوجن کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    علاج کیسے کریں؟

    اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خوراک کو معمول پر لایا جائے اور اپنی روزانہ کی خوراک میں پانچ گرام سے زیادہ نمک شامل نہ کریں۔

    روزانہ زیادہ مقدار میں پانی پینا عادت بنائیں، اس مقصد کے لیے کم از کم ڈھائی لیٹر پانی پینا ضروری ہے۔

    سبزی خوروں کو چاہیے کہ پروٹین کی مقدار پوری کرنے کے لیے نان ویجیٹیرین کھانے کی بجائے دالیں وغیرہ استعمال کریں۔

    چاکلیٹ، پالک، گری دار میوے (کاجو، بادام، پستے) سے گردے کی پتھری کا خطرہ بڑھ سکتا ہے تاہم، نمک یقینی طور پر گردے کی پتھری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    عام طور پر 5-6 ملی میٹر کی پتھری پیشاب کے ذریعے نکل جاتی ہے تاہم اس دوران کچھ درد ہو سکتا ہے۔ اگر پتھری زیادہ بڑی ہو تو علاج کی ضرورت ہے۔

    اگر علامات ظاہر ہوں تو پہلے الٹراساؤنڈ کرانا چاہیے۔ اس میں بڑے سائز کے پتھر نظر آ جاتے ہیں۔

    لیموں ملا پانی بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں موجود سیٹرک ایسڈ منرلز کے اجتماع کی روک تھام کرتا ہے۔

    البتہ میٹھے مشروبات جیسے سوڈا کے استعمال سے گردوں میں پتھری کا خطرہ بڑھتا ہے تو ان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

     

  • کام کا دباؤ جسم اور دماغ کیلیے کتنا خطرناک ہے؟

    کام کا دباؤ جسم اور دماغ کیلیے کتنا خطرناک ہے؟

    موجودہ دور میں ذہنی دباؤ یا اسٹریس بہت عام ہوگیا ہے جس کی بڑی وجہ وہ کام ہے جو ہم اپنی ڈیوٹی کے طور پر کرتے ہیں۔

    دباؤ یا اسٹریس معمول کی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی فرد کو کسی بھی صورت حال کی وجہ سے لاحق ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان دماغی اور جسمانی ردعمل کا شکار ہو جاتا ہے۔

    جب کسی شخص پر کام کا دباؤ اس کی صلاحیت سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار محسوس کرتا ہے۔ کام سے متعلق تناؤ کی علامات کو پہچان کر اور اس سے جلد نمٹنے سے اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

    کام کی جگہ پر ہلکا تناؤ انسان کو کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن اگر دباؤ اور مطالبات بہت زیادہ ہو جائیں اور طویل عرصے تک جاری رہیں تو یہ کام سے متعلق تناؤ کا باعث بنتا ہے۔

    آئیے چند ایسے طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کے ذریعے آپ کام کا دباؤ کم کر سکتے ہیں۔

    تناؤ کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کام کا تناؤ بعض وجوہات کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔

    اس بات کی نشاندہی کرنا کہ آپ کے کام کا کون سا حصہ تناؤ کا باعث بنا رہا ہے، تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں ہر 40 میں سے تقریباً ایک کارکن کام سے متعلق تناؤ سے متاثر پایا گیا۔ کام سے متعلق تناؤ کی وجوہات میں بہت زیادہ کام کا بوجھ، غیر حقیقی اہداف، غیر معقول کام کی ڈیڈ لائن، کام کرنے کے انداز پر کنٹرول نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کام کے اوقات کی حد اور ہدف کو حقیقت پسندانہ بنایا جائے۔ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً ٹریننگ لیتے رہیں، ساتھیوں سے کام میں مناسب تعاون حاصل کریں۔

    اپنے کام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لیے تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لیں، اپنے وقت کو بہتر انداز میں ترتیب دیں، کام کی جگہ پر اپنے کاموں کو ترجیح دیں۔ کچھ کام دوسروں کو سونپیں۔ اگر آپ اضافی کام یا ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے تو نہ کہنا سیکھیں۔

    کام کے دوران ضرورت کے مطابق باقاعدگی سے وقفے لیں، باہر جائیں اور کچھ وقت کے لیے چہل قدمی کریں، باقاعدہ حدود میں کام کریں، چھٹی لیں۔ ساتھیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔

    شراب اور دیگر منشیات کا استعمال ہرگز نہ کریں، اس سے تناؤ مزید بڑھتا ہے، متوازن غذا لیں، اس سے جسم اور دماغ کو کام کرنے کے لیے مناسب توانائی ملتی ہے۔

  • ہاتھ پیروں میں جلن کا احساس، تکلیف سے نجات کیسے ممکن

    ہاتھ پیروں میں جلن کا احساس، تکلیف سے نجات کیسے ممکن

    عام طور پر ہاتھ پیروں میں جلن کی شکایت ضعیف العمر کے افراد میں ہوتی ہے، تاہم اب ادھیڑ عمر کے لوگ بھی اس طرح کی تکالیف کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگرچہ یہ شکایت بے ضرر سی معلوم ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ہاتھ پیروں میں جلن کا تعلق کسی بنیادی طبی حالت سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس کیفیت میں پاؤں مستقل طور پر گرم رہتے ہیں اور یہ گرمائش تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    ہاتھ پیروں میں جلن کی یہ شدت متعدل سے سنگین ہوسکتی ہے اور عموماً رات کو یہ احساس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں اور علاج کا انحصار بھی اسی وجہ پر مبنی ہوتا ہے۔

    زیر نظر مضمون میں ہاتھ پیروں میں جلن کے احساس کی وجوہات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن پر قابو پاکر اس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔

    ذیابیطس

    کئی بار پیروں میں جلن کی وجہ جسم میں ہائی بلڈ شوگر ہوتی ہے۔ جب جسم میں بلڈ شوگر کی سطح مسلسل زیادہ رہے تو ہاتھوں اور پیروں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے جس کے باعث کبھی کبھار یا اکثر جلن کا احساس بھی ہوتا ہے۔

    اگر پیروں میں جلن کے ساتھ ساتھ انگلیوں میں سوئیاں چبھنے یا سنسناہٹ جیسے احساسات ہوں تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے شوگر ٹیسٹ کرانا چاہیے۔

    اعصاب کے مسائل

    ریڑھ کی ہڈی سے ہاتھوں، ٹانگوں اور پیروں کو جوڑنے والے اعصاب کو نقصان پہنچنے پر بھی پیروں میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔

    ذیابیطس کا ذکر تو اوپر ہوچکا ہے مگر اعصاب کو مختلف وجوہات سے نقصان پہنچ سکتا ہے جیسے گردوں کے مسائل، جوڑوں کے امراض، زہریلے کیمیکلز، انفیکشن اور غذائی مسائل سے بھی اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    فنگل انفیکشن

    پیروں میں فنگل انفیکشن کافی عام ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں چبھن اور خارش کا سامنا ہوتا ہے، مگر پیروں میں جلن بھی محسوس ہوتی ہے۔

    وٹامن بی 12 کی کمی

    اعصاب کو صحت مند رہنے کے لیے وٹامن بی 12 کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کمی کے باعث پیروں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جیسے اکثر جلن کی شکایت ہوتی ہے۔

    عام طور پر وٹامن بی 12 گائے کے گوشت، انڈوں، دودھ اور پنیر وغیرہ میں کافی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔

    ۔ اس کے علاوہ غذائیت کی کمی، ہائپوتھائیرائڈزم، انفیکشن والی بیماری، گردے کی بیماری، آرٹری کی بیماری، کیموتھراپی، پاؤں کے جلنے کی دیگر وجوہات میں شامل ہیں۔

    گھریلو نسخے :

    ہات پیروں کی جلن اور درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے کچھ گھریلو علاج بھی کیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ اپنے پیروں کو ٹھنڈے پانی میں بھگو دیں جو پاؤں کے جلنے کے علاج کے لیے سب سے مؤثر گھریلو علاج ہے۔ اس سے وقتی طور پر جلنے والے پاؤں کے سنڈروم کی علامات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    ہلدی

    ہلدی ایک وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا کھانا پکانے کا مسالا ہے جس کے علاج کے حوالے سے بے شمار فوائد ہیں۔ اس میں سوزش اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں جو تکلیف کو دور کرنے اور آپ کے پیروں کو سکون دینے اور ٹھنڈا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

    احتیاط

    صابن، سرف یا کسی بھی کیمیکل کو استعمال یا ہاتھ لگانے سےاجتناب کریں اس سے جِلد متاثر ہوتی ہے اور پیروں میں جلن کی شکایت ہوسکتی ہے۔