پروفیسر وحید الدین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثر نگار، شاعر، ماہرِ لسانیات اور واضع اصطلاحات تھے اور بات کی تہ کو خوب پہنچتے تھے۔ ان کی تحریر میں بڑی قوت تھی اور حافظہ غیر معمولی پایا تھا۔ مولانا بڑے زندہ دل اور ظریفُ الطبع مشہور تھے اور ان کی یہ تحریر نہ صرف ظرافت کی ایک مثال ہے بلکہ یہ ان کے ذہین و طباع ہونے کے ساتھ ہمارے طرزِ زندگی میں غور و فکر کی عادت کا ثبوت بھی ہے۔
یہ پروفیسر وحید الدّین سلیم کے مضمون بعنوان "عورتوں کا بناؤ سنگھار کیوں ضروری ہے؟” سے چند پارے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
عورتیں بچپن سے مرتے دم تک اپنی زینت وآرائش اور بناؤ سنگھار میں مشغول رہتی ہیں اور ان کی ساری کوشش اسی کام میں صرف ہوتی ہے کہ اپنے تئیں حسین اور جمیل بنائیں اور ان کا حسن وجمال لوگوں کی نظر میں دلکش اور دل فریب معلوم ہو۔
کوئی مرد عورتوں کے اس مشغلے پر اعتراض نہیں کرتا کیونکہ ان کو ایسے کاموں کے کرنے کی آزادی دی گئی ہے جو ان کی خوشی اور رضامندی کا باعث ہوں۔ مگر مردوں کا اعتراض نہ کرنا اور ان کے بناؤ سنگھار کے مشغلے سے بے پروائی کا برتاؤ کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ ہر مرد پر لازم ہے کہ جب وہ کسی عورت کو بناؤ سنگھار اور زینت وآرائش میں مشغول دیکھے تو نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار کرے اور اس بات کی کوشش کرے کہ وہ عورت اپنے اس مشغلے کو ہمیشہ جاری رکھے۔ کیوں کہ عورتوں کا بناؤ سنگھار میں مشغول ہونا اور اپنے حسن وجمال کو دل فریب اور دلکش بنانے کی کوشش کرنا ان کی تندرستی اور صحت کا بہت بڑا سبب ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عورتوں کی صحت و تن درستی نوعِ انسان کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئی عورت اپنے تئیں حسین و جمیل نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ کامل طور پر تندرست نہ ہو۔ مثلاً اگر کسی عورت کا جسم حد سے زیادہ فربہ ہو تو وہ حسین اور جمیل نہیں ہو سکتی اور جب تک کہ اس کا جسم دبلا نہ ہو جائے وہ نہایت بے چین اور پریشان رہتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت حد سے زیادہ دبلی اور ناتواں ہو تو وہ اپنے حسن و جمال کو نمایاں نہیں کر سکتی، جب تک کہ اس کے جسم میں ترقی نہ ہو اور وہ اعتدال پر نہ آ جائے۔
بلاشبہ آج کل کی عورتیں حسن و جمال کا مدار جسم کے دبلے ہونے پر خیال کرتی ہیں مگر یہ وہم دیرپا نہیں رہ سکتا۔ کچھ عرصے کے بعد خود بخود یہ وہم ان کے دلوں سے نکل جائے گا اور وہ یقین کرنے لگیں گی کہ حسن و جمال اس جسم میں نہیں رہ سکتا جو ہڈیوں کی مالا ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے جسموں کو معتدل اور تندرست رکھنے کی کوشش کریں گی۔ عورت اپنے چہرے کے رنگ پر ناز کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ جوانی اور تندرستی کا خون اس کے رخساروں میں جھلکے اور وہ گلابی دکھائی دیں اور ان کا رنگ زرد نہ ہو مگر عورت کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ کامل طور پر تندرست نہ ہو۔
عورتوں کا اپنے خوبصورت رنگ پر فریفتہ ہونا اور ان کا اس خیال میں رات دن محو رہنا نہایت مفید ہے۔ جس قوم کی عورتیں صحیح اور تندرست اور طاقتور ہیں اور ان کے جسم معتدل ہیں، اس قوم کے بچے نہایت تندرست اور ذہین اور طاقتور پیدا ہوتے ہیں۔ ہزار یگانے عورت کو نصیحت کریں، ہزار بے گانے اس کو تندرستی کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کریں مگر کوئی نصیحت اور کوئی ہدایت اس کے حق میں اس قدر مفید نہیں ہو سکتی جس قدر کہ اس کا بناؤ سنگھار میں رہنا اور اپنے تئیں حسین و جمیل بنانے کا شائق ہونا اس کے حق میں مفید ہے۔
عورتیں جو کھانے کھاتی ہیں، اس کی تاثیروں کو اپنے چہروں کے آئینوں میں دیکھتی رہتی ہیں۔ بعض ثقیل اور دیر ہضم کھانوں کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کے چہروں کا رنگ ملگجا اور بے رونق ہو جاتا ہے۔ بعض کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کے رنگ کی سرخی حد سے زیادہ بڑھ جاتی اور بدنما معلوم ہوتی ہے۔ ان تجربوں سے عورتیں جان جاتی ہیں کہ کون سے کھانے ایسے ہیں جو ان کی تندرستی قائم رکھنے اور رنگ کو خوشنما رکھنے میں مفید ہیں اور کون سی غذائیں ایسی ہیں جن کے کھانے سے ان کے حسن و جمال کو نقصان پہنچتا ہے۔ مجبوراً وہ دوسری قسم کے کھانوں سے پرہیز کرتی ہیں اور حسین و جمیل رہنے کی خواہش ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی تندرستی کو قائم رکھیں۔
بناؤ سنگھار اور زینت و آرائش کا شوق جو عورتوں میں پایا جاتا ہے، وہ ایک قدرتی شوق ہے اور قدرت نے اس شوق میں ایک بڑی حکمت پوشیدہ رکھی ہے، جس کا ہم نے ابھی بیان کیا۔ پس جو شخص اس شوق کے رستے میں حائل ہوتا ہے وہ گویا قدرت سے ڈرتا ہے اور اوّل عورتوں کی تندرستی کا، پھر تمام قوم کی زندگی اور بقا کا دشمن ہے۔