Tag: وحید مراد

  • صحافی وحید مراد کو کالعدم تنظیم سے متعلق پوسٹوں پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے کا انکشاف

    صحافی وحید مراد کو کالعدم تنظیم سے متعلق پوسٹوں پر گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے کا انکشاف

    اسلام آباد: ایف آئی اے نے انکشاف کیا ہے کہ اس نے صحافی وحید مراد کو کالعدم تنظیم سے متعلق پوسٹوں پر گرفتار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات اسلام آباد میں اپنے گھر سے مشکوک انداز میں اٹھائے جانے والے صحافی وحید مراد کو آج اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔

    جج عباس شاہ نے استفسار کیا کہ صحافی وحید مراد کو کب گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ کل رات گرفتار کیا گیا، حکام نے کہا وحید مراد نے کالعدم تنظیم سے متعلق پوسٹس کی ہیں، ایکس اور فیس بک اکاؤنٹ کے حوالے سے تفتیش کرنی ہے، اس لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

    سیشن عدالت کے جج عباس شاہ نے صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا، مراد کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔


    اسلام آباد سے لاپتہ صحافی وحید مراد کی بازیابی کی درخواست دائر


    واضح رہے کہ وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے، درخواست ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے دائر کی، جس میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع، آئی جی اور ایس ایچ او کراچی کمپنی کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ رات دو بجے کالی وردی میں ملبوس افراد جی ایٹ ہمارے گھر آئے، دو پولیس کی گاڑیاں بھی ان کے ساتھ نظر آ رہی تھیں، کالی وردی میں ملبوس لوگ وحید مراد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر آئے افراد نے میرے ساتھ بھی بدتمیزی کی، کراچی کمپنی تھانے میں درخواست دی لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وحید مراد کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے، اور غیر قانونی طور پر اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔

  • فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    جس طرح کسی ڈرامے یا فلم کی شان دار کہانی اور متأثر کن اداکاری ناظرین کے دل جیت لیتی ہے بالکل اسی طرح ان پر نفسیاتی طور پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ فلمیں اپنے ناظرین کو گرفت میں لے لیتی ہیں‌ اور اس کے منفی یا مثبت دونوں طرح کے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔

    اکثر کوئی فرد فلم دیکھنے کے بعد وہی کچھ کرتا ہے جو فلم میں دکھایا گیا ہو۔ ہم نے کئی خبریں‌ سنی اور پڑھی ہیں‌ جب کسی فلم بین نے اپنے پسندیدہ ہیرو یا ولن کی خودکشی کا منظر دیکھنے کے بعد ٹھیک اسی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اسی طرح مار پیٹ یا بینک لوٹنے کے چند واقعات کا محرک بھی کوئی فلم رہی ہے۔ حقیقی زندگی میں کسی بے وفا محبوب کو بھیانک انجام سے دوچار کرنے والوں نے بعد میں بتایا کہ انھوں نے فلاں فلم دیکھنے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا۔ یہ تو چند منفی باتیں تھیں، لیکن فلم بینوں نے اداکاروں کو دیکھ کر کئی فیشن اور وضع قطع کے مختلف انداز بھی اپنائے۔ یہاں ہم صرف بھارتی سنیما کی بات کریں‌ تو پریم پال اشک کے ایک مضمون سے چند پارے آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "فلمیں ہمارے نوجوانوں پر نفسیاتی طور پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں کہ انہی سے نئے نئے فیشن بھی جنم لیتے ہیں۔ مس گوہر اور دیویکا رانی کے بالوں کا ہر اسٹائل خواتین نے اپنایا۔”

    "دیویکا رانی اور نرگس جب سفید ساڑھی میں جلوہ گر ہوئیں تو ملک کی خواتین نے سفید براق ساڑھیاں پہننی شروع کر دیں۔ سلوچنا، مس کنچن اور سادھنا بوس نے بغیر آستین کا پارسی کٹ بلاؤز پہنا تو ہمارے ملک کی خواتین نے بھی اسے فیشن بنا لیا۔ ناڈیا اور نرگس کے ہیئراسٹائل کو دیکھ کر لڑکیوں نے اسی انداز سے اپنے بال ترشوائے۔ اپنے زمانے کی مشہور ایکٹرس سدھنا کا ماتھا چوڑا تھا۔ اس عیب کو چھپانے کے لئے میک اپ مین نے اس کے ماتھے کے سامنے کے بال اس انداز سے سنوارے کہ عیب چھپ گیا اور بالوں کا نیا اسٹائل سادھنا کٹ مشہور ہوگیا۔”

    "اس کے علاوہ دلیپ کمار کی فلموں "بابل”، "میلہ”، دیدار” اور "شہید” وغیرہ میں ان کے بالوں کی ایک لٹھ کو ماتھے پر لانے کا اسٹائل دلیپ کمار اسٹائل بن گیا۔ اگر کسی اداکار کے بالوں کی سائیڈیں یعنی قلمیں بڑی ہوتیں تو وہ بھی نوجوانوں کا فیشن بن جاتا۔ اور اگر بولی وڈ کے نامور اداکار امریش پوری سر گھٹوا کر پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے تو نوجوانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر سر گھٹوانے کو ہی ایک فیشن بنا لیا۔ اسی طرح جب دیو آنند نے کھلی چوڑے پائنچے کی پینٹ اور فلیٹ ہٹ ایک خاص اسٹائل سے پہنی تو نوجوانوں نے اسی کو فیشن بنا لیا۔”

    "راج کپور نے ہندوستانی نوجوانوں کو فیشن کا ایک نیا اسٹائل دیا۔ چوڑی موری کی پینٹ کے پائنچے موڑ کر انہیں اوپر چڑھانے اور فلیٹ ہیٹ پہننے کا مخصوص انداز فلم "آوارہ”‘ اور”چار سو بیس” میں دیکھنے کو ملا جسے نوجوانوں نے بڑے انہماک سے اپنایا۔”

    پاکستان میں فلم انڈسٹری کے نام ور اداکاروں کی تقلید کرتے ہوئے شائقینِ سنیما نے نہ صرف انہی کی طرح بال بنائے، ملبوسات سلوائے بلکہ اسی برانڈ کی گھڑی کلائی پر سجائی، ویسا ہی مفلر، رومال اور بٹوا خریدا جو انھوں نے فلم میں اپنے محبوب ہیرو کے پاس دیکھا تھا۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا ہیئر اسٹائل اور اداکار شاہد کی طرح بڑی بڑی قلمیں رکھنے کا شوق ہر نوجوان نے اس زمانے میں پورا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد "لیڈی کلر” مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد "لیڈی کلر” مشہور ہوگئے تھے

    وحید مراد کو چاکلیٹی ہیرو ہی نہیں لیڈی کلر بھی کہا جاتا ہے۔ پُرکشش سانولی رنگت کے ساتھ اُن کا منفرد ہیئر اسٹائل اور اس پر مستزاد بڑی آنکھوں نے اُنھیں نہایت جاذب و جمیل بنا دیا تھا۔ رومانوی ہیرو کی حیثیت سے وہ پاکستان ہی نہیں برصغیر میں مقبول تھے۔ انھیں لوگ چاہتے تھے، پیار کرتے تھے اور بلاشبہ لڑکیاں اُن پر مرتی تھیں۔

    وحید مراد 23 سال کے تھے جب ہیرو کے طور پر ان کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے برسوں میں انھوں نے اس حیثیت میں انڈسٹری پر راج کیا، لیکن فلم انڈسٹری میں ان کا یہی عروج اور شہرت ان کی شخصیت میں کجی اور ٹیڑھ کا باعث بھی بنی۔ وہ بد دماغ اور تند خُو مشہور ہوگئے۔

    کہتے ہیں سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں۔ 1965ء سے 1975ء تک فلمی پردے پر راج کرنے والے وحید مراد کے اوج کا ستارہ بھی آمادۂ زوال ہوا اور نئے چہروں نے شائقین کی توجّہ سمیٹ لی۔ ادھر وحید مراد کی بعض عادات اور ان رویّے سے بیزار فلم ساز اور ہدایت کار بھی ان سے گریز کرنے لگے اور وہ وقت آیا جب وحید مراد کو ایک پشتو فلم میں کام کرنا پڑا۔

    یہ کردار ان کے سابق ڈرائیور اور گھریلو ملازم بدر منیر نے انھیں آفر کیا تھا۔ بدر منیر نے کبھی اپنے اسی مالک کی سفارش پر فلم انڈسٹری میں کام حاصل کیا تھا اور اب وہ پشتو فلموں کے اسٹار تھے۔ انھوں نے پُرانے مالک سے وفا کی اور یوں وحید مراد نے پشتو فلم میں کردار ادا کیا۔

    وحید مراد 2 اکتوبر 1938ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے جن کا شمار اس دور کے متموّل لوگوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو بڑے لاڈ پیار اور ناز و نعم سے پالا تھا۔

    کراچی میں وحید مراد نے اپنا تعلیمی سفر طے کیا اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں والد کے ادارے سے وابستہ ہوگئے اور فلمیں بھی بنائیں۔ اسی دوران انھیں اداکاری کا شوق ہوا۔

    وہ 1959ء میں فلم ’’ساتھی‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار نبھا چکے تھے۔ جب 1962ء میں وحید مراد کو ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ کردار سونپا تو اس خوب رُو نوجوان نے خود کو باصلاحیت بھی ثابت کردیا۔ شان دار اداکاری اور اس فلم کی گولڈن جوبلی نے وحید مراد کی اگلی منازل آسان کردیں۔

    اس اداکار کو مزید فلموں میں کام مل گیا۔ وحید مراد کی شہرت کا سفر ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے شروع ہوا۔ اس فلم نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے مقبول ترین ہیرو اور کام یاب اداکار وحید مراد نے 125 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس زمانے میں‌ ان کی ہر فلم کام یاب رہی۔

    وحید مراد بیک وقت اداکار، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر بھی تھے۔ اُن کی آخری فلم ’’زلزلہ‘‘ تھی۔ وحید مراد کے ساتھ اپنے وقت کی نام ور اداکاراؤں نے کام کیا۔ ان پر خوب صورت شاعری اور لاجواب دھنوں‌ میں کئی گیت فلمائے گئے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وحید مراد اپنے فلمی کیریئر میں 32 ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد سے متعلق زخمی کانپوری کی کتاب “ذکر جب چھڑ گیا” سے منتخب کردہ یہ قصّہ پڑھیے۔

    “یہ 1964 کی بات ہے جب فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک کراچی میں اپنی فلم ہیرا اور پتھر کی عکس بندی کررہے تھے۔ فلم کے ہیرو وحید مراد تھے جو بڑے تنک مزاج ثابت ہوئے تھے۔

    ایک روز کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں فلم کی شوٹنگ کے دوران وحید مراد کسی بات پر یونٹ کے ایک لڑکے سے الجھ گئے۔ اس لڑکے سے خدا معلوم کون سی غلطی سرزد ہوگئی کہ وحید مراد نے اس غریب کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ سب نے یہ منظر دیکھا اور سب کو بڑا دکھ ہوا۔

    وہ غریب اپنا گال سہلا کر اپنے کام میں لگ گیا، مگر پورے یونٹ نے وحید مراد کی اس حرکت کا برا منایا اور جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پرویز ملک نے وحید مراد سے بڑی نرمی سے کہا کہ تمھیں اس غریب لڑکے کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ دیکھ کر یونٹ کے دوسرے افراد نے بھی وحید مراد سے احتجاج کیا اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ یونٹ کے آدمیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔

    وحید مراد اس فلم کو شیڈول کے مطابق مکمل کرانا چاہتے تھے۔ اس لیے جب یہ منظر دیکھا تو فورا اس لڑکے کو بلا کر گلے لگا لیا اور معافی مانگی اور اس کی دل جُوئی کے لیے اسے سو روپے کا نوٹ بھی دیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔

    بعد میں اس واقعے کی اطلاع ان کے گھر پہنچی تو ان کی ماں نے بھی بہت سمجھایا جس کا اثر یہ ہوا کہ جب ایک ہفتے بعد عید آئی تو وہ عید کا کافی سامان لے کر اس لڑکے کے گھر گئے تاکہ اس کی دل جوئی ہوسکے۔ وہ گھرانہ انتہائی غریب تھا چناں چہ عید کے موقع پر یہ غیبی مدد پاکر بڑا خوش ہوا۔ اس موقع پر وحید مراد نے ایک بار پھر اس لڑکے سے معافی مانگی۔”

    وحید مراد کی زندگی کا باب 23 نومبر 1983ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا تھا۔

  • وحید مراد کا غریب لڑکے کو تھپڑ، معافی اور سو روپے کا نوٹ!

    وحید مراد کا غریب لڑکے کو تھپڑ، معافی اور سو روپے کا نوٹ!

    یہ 1964 کی بات ہے جب فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک کراچی میں اپنی فلم ہیرا اور پتھر کی عکس بندی کررہے تھے۔ فلم کے ہیرو وحید مراد تھے جو بڑے تنک مزاج ثابت ہوئے تھے۔

    ایک روز کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں فلم کی شوٹنگ کے دوران وحید مراد کسی بات پر یونٹ کے ایک لڑکے سے الجھ گئے۔ اس لڑکے سے خدا معلوم کون سی غلطی سرزد ہوگئی کہ وحید مراد نے اس غریب کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ سب نے یہ منظر دیکھا اور سب کو بڑا دکھ ہوا۔

    وہ غریب اپنا گال سہلا کر اپنے کام میں لگ گیا، مگر پورے یونٹ نے وحید مراد کی اس حرکت کا برا منایا اور جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پرویز ملک نے وحید مراد سے بڑی نرمی سے کہا کہ تمھیں اس غریب لڑکے کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ دیکھ کر یونٹ کے دوسرے افراد نے بھی وحید مراد سے احتجاج کیا اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ یونٹ کے آدمیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔

    وحید مراد اس فلم کو شیڈول کے مطابق مکمل کرانا چاہتے تھے۔ اس لیے جب یہ منظر دیکھا تو فورا اس لڑکے کو بلا کر گلے لگا لیا اور معافی مانگی اور اس کی دل جُوئی کے لیے اسے سو روپے کا نوٹ بھی دیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔

    بعد میں اس واقعے کی اطلاع ان کے گھر پہنچی تو ان کی ماں نے بھی بہت سمجھایا جس کا اثر یہ ہوا کہ جب ایک ہفتے بعد عید آئی تو وہ عید کا کافی سامان لے کر اس لڑکے کے گھر گئے تاکہ اس کی دل جوئی ہوسکے۔ وہ گھرانہ انتہائی غریب تھا چناں چہ عید کے موقع پر یہ غیبی مدد پاکر بڑا خوش ہوا۔ اس موقع پر وحید مراد نے ایک بار پھر اس لڑکے سے معافی مانگی۔

    (بحوالہ: "ذکر جب چھڑ گیا” از زخمی کانپوری)

  • نامور چاکلیٹی ہیرو کا81واں یوم پیدائش، گوگل کا ڈوڈل وحید مراد کے نام

    نامور چاکلیٹی ہیرو کا81واں یوم پیدائش، گوگل کا ڈوڈل وحید مراد کے نام

    کراچی : آج پاکستان کے نامور فلمی ہیرو وحید مراد کی 81ویں سالگرہ ہے، اس عظیم فنکار کی خدمات کے پیش نظر گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کردیا۔

    پاکستان فلم انڈسری پر60 اور70 کی دہائی میں راج کرنے والے ناموراداکاروحید مراد دو اکتوبر1938ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنی تعلیمی مدارج بھی کراچی میں مکمل کئے اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

    1960ءمیں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔ ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا۔

    وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھے اور بالاخر1962ء میں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔

    یہ ان کی ہیرو شپ کا نقطۂ آغاز تھا اب انہوں نے اپنے ادارے فلم آرٹس کے تحت فلم ’’ہیرااور پتھر‘‘ شروع کی جس میں انہوں نے زیبا کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔

    اس فلم کے فلمساز پرویز ملک، موسیقار سہیل رعنا اور نغمہ نگار مسرور انور تھے۔ اس فلم کی کامیابی نے وحید مراد کو خواتین کے ایک بڑے حلقے میں چاکلیٹی ہیرو اور لیڈی کلر کے خطابات دلوائے۔

    ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کی کامیابی کے بعد ان چاروں دوستوں نے کئی اورفلمیں بنائیں جن میں فلم ’’ارمان‘‘ نے پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

    اس فلم میں احمد رشدی کے نغمات بھی بے حد مقبول ہوئے اس کے بعد وحید مراد کی اداکاری اور احمد رشدی کی آواز گویا لازم و ملزوم بن گئی۔ وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔

    وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔ وحید مراد 23 نومبر 1983ءکو کراچی میں انتقال کرگئے وہ لاہورمیں گلبرگ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں.

  • چاکلیٹی ہیرو’وحید مراد‘ کو گزرے 35 برس بیت گئے

    چاکلیٹی ہیرو’وحید مراد‘ کو گزرے 35 برس بیت گئے

    پاکستان کے فلمی صنعت میں چاکلیٹی ہیرو کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے وحید مراد نے دو اکتوبر انیس سو اڑتیس کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، تعلیمی مراحل کراچی میں طے کیے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    وحید مراد انیس سو باسٹھ میں پہلی بار کیمرے کے سامنے جلوہ گرہوئے اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’’ارمان‘‘ نے وحید مراد کو پاکستان کا پہلا سپراسٹار بنادیا۔

    احمد رشدی کے گائے ہوئے گانے ’’کوکورینا‘‘ اور ’’اکیلے نہ جانا‘‘ پر وحید مراد کی پرفارمنس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔1960ء میں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔

    ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا، وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھے اوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا۔

    یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔اُن کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ پاکستان کی وہ پہلی فلم ہے جس کی فلم بندی سب سے پہلے بیرونِ ملک میں کی گئی۔ پہلی رنگین فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ تھی۔

    وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔

    وحید مراد تئیس نومبر انیس سو تراسی کو پراسرار حالات میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، آپ لاہور کے گلبرگ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں لیکن اپنی مسحور کن شخصیت کے سبب آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے

    چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے

    کراچی : پاکستان کے فلمی صنعت میں چاکلیٹی ہیرو کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے وحید مراد نے دو اکتوبر انیس سو اڑتیس کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، تعلیمی مراحل کراچی میں طے کیے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    وحید مراد انیس سو باسٹھ میں پہلی بار کیمرے کے سامنے جلوہ گرہوئے اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’’ارمان‘‘ نے وحید مراد کو پاکستان کا پہلا سپراسٹار بنادیا۔

    احمد رشدی کے گائے ہوئے گانوں ’’کوکورینا‘‘ اور ’’اکیلے نہ جانا‘‘ پر وحید مراد کی پرفارمنس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔1960ء میں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔

    ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا، وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھے اوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا۔

    یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔

    اُن کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ پاکستان کی وہ پہلی فلم ہے جس کی فلم بندی سب سے پہلے بیرونِ ملک میں کی گئی۔ پہلی رنگین فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ تھی۔

    وحید مراد پر فلمائے گئے مشہور گانے، قارئین کی نذر


    وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔

    وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔

    وحید مراد تئیس نومبر انیس سو تراسی کو پراسرار حالات میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، یہ مسحور کن شخصیت آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

  • وحید مراد پر فلمائے گئے مشہور گانے

    وحید مراد پر فلمائے گئے مشہور گانے

    دو دہائیوں تک پاکستان فلم انڈسٹری پرا راج کرنے والے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی آج بتیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    وحید مراد کو دلیپ کمار کے بعد وہ دوسرا اداکار قرار دیا جاتا ہے جن کا انداز گفتگو، ہیراسٹائل اور لباس نوجوانوں میں خاصاَ مقبول ہوا، وہ آج بھی انہیں منفرد رکھے ہوئے ہے۔

    ندیم اور محمد علی جیسے بڑے اداکاروں کے سامنے وحید مراد کا طوطی 1979ء تک بولتا رہا، وحید مراد نے اداکاری کے ساتھ ساتھ مصنف اور پروڈیوسر کی خدمات بھی سرانجام دیں تھیں۔

    چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے بے پناہ مشہور ہونے والے بے شمار فلمی گانوں میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

    کو کو کورینہ :‌


    اکیلے نہ جانا:


    ہپ ہپ ہررے:


    تمھے کیسے بتادوں تم منزل ہو:


    بھولی ہوئی وہ داستاں:


    بھابھی میری بھابھی:


    مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو:

    تیرے سوا دنیا میں:

    جو درد ملا اپنوں سے ملا:

  • وحیدمراد کو مداحوں سے بچھڑے 31برس بیت گئے

    وحیدمراد کو مداحوں سے بچھڑے 31برس بیت گئے

    کراچی: پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور لیجنڈ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو اپنے مداحوں سے بچھڑے اکتیس برس بیت گئے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو جدید ہئیر اسٹائل سے معتارف کرانے والے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی کو اپنے مداحوں سے جدا ہوئے اکتیس برس بیت گئے۔

    وحید مراد دو اکتوبر انیس سو اڑتیس کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے. انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا اور ان کو کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا. فلم ہیرا اور پتھر، ارمان، گانا کو کو کو رینا سے زیادہ شہرت ملی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کا درخشاں ستارہ تئیس نومبر انیس سو تراسی کو کراچی میں اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار کرگیا۔ وحید مراد نے اداکاری کے ساتھ ساتھ مصنف اور پروڈیوسر کی خدمات بھی سرانجام دیں تھیں۔