Tag: ورلڈ فوڈ پروگرام

  • غزہ میں لوگ کئی دنوں سے کچھ نہیں کھا سکے، 5لاکھ افراد قحط جیسی صورتحال سے دوچار، ورلڈ فوڈ پروگرام

    غزہ میں لوگ کئی دنوں سے کچھ نہیں کھا سکے، 5لاکھ افراد قحط جیسی صورتحال سے دوچار، ورلڈ فوڈ پروگرام

    ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کی ایک تہائی آبادی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھاسکی، غزہ میں 5لاکھ افراد قحط جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔

    غزہ کی صورتحال پر ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بحران خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے، غزہ میں امداد کی فراہمی کا واحد حل مستقل جنگ بندی ہے، جنگ بندی کے بغیر پوری آبادی تک محفوظ اور مسلسل امداد ممکن نہیں۔

    ڈبلیوایف پی نے کہا کہ ہمارے پاس 21 لاکھ افراد کے لیے 3 ماہ کی خوراک موجود ہے، خوراک غزہ میں موجود یا راستے میں ہے بس رکاوٹیں ہٹانا ہوں گی۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کے لوگوں تک امداد پہنچانے کا طریقہ منظم، محفوظ اور پیشگی طے شدہ ہونا چاہیے۔

    غزہ جنگ بندی معاہدہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، امریکی وزیر خارجہ

    دریں اثنا غزہ میں بھوکے بچوں کی تصاویر، اموات پر اسرائیل عالمی تنقید کی زد میں ہے، غزہ میں فاقہ کشی، غذائی قلت سے اموات کی رپورٹس دنیا بھر میں پھیل گئی ہیں، اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کا اسرائیل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

    اسرائیل کے اتحادی ممالک نے بھی امدادی رکاوٹوں کا الزام عائد کیا ہے، مارچ سے مئی تک اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کا مکمل داخلہ روکے رکھا۔

    اسرائیل نے امداد روکنے کی پالیسی کو حماس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا، اقوام متحدہ نے امدادی مراکز کو ’موت کے پھندے‘ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ نے کہا کہ ایک ہزارسے زائد فلسطینی امداد لیتے ہوئے شہید ہوچکےہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/jordan-and-uae-begin-delivering-aid-to-gaza-by-parachute/

  • کیا حماس غزہ پہنچنے والی امداد لوٹ رہی ہے؟ ورلڈ فوڈ پروگرام نے سچ بتا دیا

    کیا حماس غزہ پہنچنے والی امداد لوٹ رہی ہے؟ ورلڈ فوڈ پروگرام نے سچ بتا دیا

    غزہ: ورلڈ فوڈ پروگرام نے اسرائیل کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے کہ حماس غزہ پہنچنے والی امداد لوٹ رہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ حماس غزہ پہنچنے والی امداد کی لوٹ مار نہیں کر رہی، جب فلسطینی ڈبلیو ایف پی کا ٹرک دیکھتے ہیں تو ان کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

    سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے جب سنڈی مک کین سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کوئی ثبوت دیکھا ہے کہ حماس خوراک کی وہ تھوڑی مقدار بھی چھین کر لے جا رہی ہے جس کی اسرائیل 2 ماہ سے زیادہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اب غزہ میں جانے کی اجازت دے رہا ہے؟ ڈبلیو ایف پی کی ایگزیگیٹو ڈائریکٹر سینڈی میک کین نے امریکی میڈیا کو بتایا ’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا یہ بس غزہ کے مایوس لوگ ہیں، یہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں کیوں کہ صہیونی ریاست بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، غزہ میں روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔


    اسرائیل کا غزہ کے اسکول پر فضائی حملہ، مزید 25 فلسطینی شہید


    انھوں نے حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ فلسطینی شہری جب ورلڈ فوڈ پروگرام کا ٹرک آتا دیکھتے ہیں تو اس کی جانب دوڑ پڑتے ہیں، اس کا حماس سے کوئی تعلق نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔

    واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری گزشتہ رات بھر بھی جاری رہی، خان یونس میں اسرائیلی ٹینکوں نے بے گھر فلسطینیوں پر چڑھائی کر دی، دیر البلح کی خیمہ بستی پر بمباری کی گئی، جس میں 11 بچوں سمیت 25 فلسطینی شہید ہو گئے۔ مرنے والوں میں ریڈ کراس کے 2 کارکن، صحافی حسن امجدی، ان کی اہلیہ اور بچے بھی شامل ہیں۔


    حماس کے خلاف جنگ ختم ہونے والی نہیں، اسرائیلی آرمی چیف


    غزہ جنگ میں اب تک 53 ہزار 939 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے 81 فی صد حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔

  • غزہ شدید غذائی قلت کا خطرہ، ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کردیا

    غزہ شدید غذائی قلت کا خطرہ، ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کردیا

    ورلڈ فوڈ پروگرام نے غزہ میں غذائی قلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ دوبارہ شروع کرنے سے غزہ میں پھر شدید بھوک کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ تین ہفتے سے زیادہ ہوگئے ہیں غزہ میں خوراک کی فراہمی نہیں ہوئی۔ ہزاروں فلسطینیوں کے شدید بھوک اورغذائی قلت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ہمارے پاس صرف دوہفتے کی خوراک کا ذخیرہ رہ گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری امداد بحال کرنے کیلئے اقدام کرے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے مارچ کے آغاز سے غزہ میں امداد کی فراہمی پر پابندی لگا رکھی ہے۔

    واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے بربریت کا سلسلہ جاری ہے، مارکیٹ سمیت مختلف علاقوں پر حملہ کر کے مزید 50 فلسطینیوں کو زندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسزکی جانب سے راشن تقسیم کرنے والے مرکز پر بم برسائے گئے۔ جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔

    اسرائیلی فوج نے مارکیٹ سمیت غزہ کے مختلف علاقوں پر حملہ کر کے مزید 50 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

    رپورٹس کے مطابق 3 ہفتوں سے ہر طرح کے امدادی سامان کی ترسیل روکے جانے سے فلسطینی رمضان میں شدید بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔

    کینیڈا و امریکا کے تعلقات، مارک کارنی نے بڑا اعلان کردیا

    اقوامِ متحدہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسرائیل نے 80 فیصد سے زائد امداد کی نقل و حمل روک رکھی ہے۔

  • غزہ میں غذائی قلت : ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردارکردیا

    غزہ میں غذائی قلت : ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردارکردیا

    غزہ : نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی بربریت کا سلسلہ برقرار ہے غزہ کے مکینوں کو بھول افلاس نے بھی جکڑ لیا۔

    اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں صورتحال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے جب کہ وہاں صرف پانچ دن کے غذائی اجناس کا ذخیرہ باقی رہ گیا ہے۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق تباہی کی وجہ سے غذائی اجناس کو ذخیرہ کرنے میں پریشانی کا سامنا ہے، ضروری غذائی اجناس کا موجودہ ذخیرہ مزید 5دنوں تک کیلئے میسر ہوگا۔

    رپورٹ کے مطابق غزہ میں شہریوں کو روٹی تک رسائی بھی مشکل ہوگئی ہے، واحد فلور مل ایندھن کی کمی کی وجہ سے گندم پیسنے سے بھی قاصر ہے، 7 اکتوبر سے اب تک 11بیکریوں کو نشانہ بنا کر تباہ کیا جاچکا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے زور دیا ہے کہ اسے امداد اور طبی سامان کی فراہمی کے لیے غزہ تک فوری رسائی کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے رفح کراسنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہم نے رفح کے جنوب میں امداد فراہم کی ہے اور غزہ میں داخلے کے لیے اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔

  • غزہ میں دستیاب کھانا ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا، ورلڈ فوڈ پروگرام نے صورت حال تباہ کن قرار دے دی

    غزہ میں دستیاب کھانا ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا، ورلڈ فوڈ پروگرام نے صورت حال تباہ کن قرار دے دی

    غزہ: ورلڈ فوڈ پروگرام نے محصور شہر غزہ کی صورت حال تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں دستیاب کھانا ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا۔

    العربیہ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے فلسطین کنٹری آفس میں تعینات عالیہ ذکی نے بتایا کہ غزہ کی صورت حال تباہ کن ہو گئی ہے، محصور شہر میں خوراک، پانی اور بجلی کی فراہمی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔

    عالیہ ذکی کے مطابق ڈبلیو ایف پی کی زیر نگرانی آدھی دکانوں اور بیکریوں میں ایک ہفتے کے اندر کھانا ختم ہو جائے گا، بجلی کی بار بار بندش سے دستیاب خوراک کے خراب ہو جانے کا بھی خدشہ ہے۔

    اسرائیل نے غزہ کی جانب خوراک، پانی اور بجلی کی ترسیل روک دی ہے، عالیہ ذکی نے کہا تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے خوراک کی پیداوار اور دکانوں اور بیکریوں میں خوراک کی تقسیم میں شدید رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔

    خوراک کس طرح پہنچائی جا رہی ہے؟

    عالیہ ذکی کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے کے 8 لاکھ سے زیادہ افراد خوراک، پانی اور ضروری سامان تک رسائی سے محروم ہیں، جنھیں خوراک کی لائف لائن کی فراہمی کے لیے ہنگامی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

    اسرائیلی بمباری کے بعد غزہ میں موت کے سائے، قیامت صغریٰ کے مناظر

    ڈبلیو ایف پی نے غزہ کے ایک لاکھ 37 ہزار بے گھر باشندوں کو کھانے کے لیے تیار تازہ روٹی اور ڈبہ بند کھانا پہنچایا، ایک لاکھ 64 ہزار افراد کو الیکٹرانک واؤچرز میں ہنگامی کیش ٹاپ اپ بھی فراہم کیا گیا ہے، جس کے ذریعے وہ مقامی دکانوں سے کھانا خرید سکتے ہیں۔

    تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار بے گھر افراد غزہ کی پٹی میں انروا کے 88 اسکولوں میں پناہ گزین ہیں، جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، عالیہ ذکی نے یہ تشویش ناک بات کہی کہ جلد ہی ان کے پاس پہلے سے رکھا ہوا کھانے کا ذخیرہ اور وسائل ختم ہو جائیں گے۔

    غزہ میں بجلی

    گزشتہ روز بدھ کی سہ پہر کو غزہ کی بجلی اتھارٹی نے محصور شہر کا واحد پاور پلانٹ ایندھن ختم ہونے کے سبب بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد رہائشی پاور جنریٹر استمعال کر رہے ہیں تاہم اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث جنریٹرز کو چلانے کے لیے ضروری ایندھن بھی ختم ہونے لگا ہے۔

    عالیہ ذکی کے مطابق بجلی کی سپلائی مکمل طور پر منقطع ہونے سے خوراک کا جو تھوڑا ذخیرہ بچا ہے اسے بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی صورت حال اتنی تشویش ناک ہو گئی ہے کہ سویڈن اور ڈنمارک سمیت وہ متعدد ممالک جنھوں نے فلسطینی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا، اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداریوں کو کھولا جائے، لیکن صہیونی ریاست کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔

    یاد رہے کہ ہفتہ 7 اکتوبر کو علی الصبح فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ سے غیر متوقع طور پر اسرائیل پر شدید اور بڑا حملہ کر دیا تھا، جس کے بعد سے یہ جنگ آج چھٹے روز بھی جاری ہے، اور غزہ شہر کی صورت حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر خوفناک بمباری کی جا رہی ہے، فاسفورس بم بھی برسائے جا رہے ہیں اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی گئی ہے۔

  • افغان شہریوں تک خوراک کی ترسیل: اقوام متحدہ پاکستان کی مدد لے گا

    افغان شہریوں تک خوراک کی ترسیل: اقوام متحدہ پاکستان کی مدد لے گا

    اسلام آباد: اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے خوراک افغان شہریوں تک خوراک کی امداد پہنچانے کے لیے پاکستان کی مدد لے گا، اس حوالے سے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اجازت جاری کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ فوڈ پروگرام کی جانب سے افغانستان میں فوڈ سپلائی کے لیے پاکستان معاونت کرے گا، ورلڈ فوڈ پروگرام برائے افغانستان کے لیے پاکستان سے مشروط فضائی آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔

    سول ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل تک خوراک کی ترسیل کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کا استعمال ہوگا، عالمی ادارہ خوراک کو آپریشن کے لیے مقررہ فیس ادا کرنی ہوگی۔

    جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ادارے کو افغانستان کے لیے امدادی سامان کی تفصیلات بھی فراہم کرنا ہوں گی، آپریشن کے لیے 2 افراد پر مشتمل فکس ونگ طیارہ استعمال ہوگا۔

    پرواز اسلام آباد سے روزانہ کابل کے لیے روانہ ہوگی، ایم 18 ہیلی کاپٹر کے ذریعے 6 افراد پشاور سے خوراک کابل لے کر جائیں گے جبکہ آپریشن کے لیے اسلام آباد اور پشاور کے ایئر پورٹ استعمال ہوں گے۔

    سی اے اے کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ فوڈ پروگرام نے پاکستان سے مدد مانگی تھی۔

  • ’یہاں خوراک ہے نہ ایندھن، یہ جہنم ہے‘ مسلمان ملک سے متعلق سربراہ ڈبلیو ایف پی کا بیان

    ’یہاں خوراک ہے نہ ایندھن، یہ جہنم ہے‘ مسلمان ملک سے متعلق سربراہ ڈبلیو ایف پی کا بیان

    روم: یہاں خوراک ہے نہ ایندھن، یہ جہنم ہے، یہ الفاظ عالمی ادارہ خوراک کے سربراہ کے ایک مسلمان ملک یمن سے متعلق ہیں، جن سے یمن کے لوگوں کی اذیت اور بے پناہ تکلیف کا اندازہ ہوتا ہے۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یمن روئے زمین کی سب سے بد ترین جگہ بن رہی ہے، اسے انسانوں ہی نے اس حد تک پہنچایا ہے۔

    سربراہ ڈبلیو ایف پی کا کہنا تھا کہ یہاں خوراک ہے نہ ہی ایندھن، یہ جہنم ہے، یمن میں 4 لاکھ بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

    یمن، نومنتخب وزرا کا جہاز اترتے ہی ایئرپورٹ دھماکوں سے گونج اٹھا، 26 جاں‌ بحق

    ڈیوڈ بیسلے نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار نہیں، بلکہ یہ لوگوں کی حقیقت ہے، ہمیں یہ سب روکنے کے لیے جلد از جلد مدد کی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ یکم جنوری 2021 کو یمن کے ساحلی شہر حدیدہ میں ایک شادی ہال میں جاری تقریب کے دوران بم دھماکے سے 5 خواتین جاں بحق ہو گئی تھیں، جب کہ واقعے کی ذمہ داری یمن کی حکومت اور حوثی باغی ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔

    اس واقعے سے محض 2 دن قبل عدن ایئر پورٹ پر بھی خوف ناک دھماکے ہوئے تھے، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے، عدن ایئر پورٹ کو دھماکوں سے اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب حکومتی وزرا وہاں پہنچے تھے۔

    سعودی عرب سے عدن واپس پہنچنے والے طیارے میں وزیر اعظم مائین عبدالمالک، سعودی سفیر اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔

  • اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بدترین انسانی بحران کا سال ثابت ہوسکتا ہے اور 12 ممالک قحط کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ کووڈ 19 سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال صحیح معنوں میں آفت زدہ سال ثابت ہوگا۔

    وبا اور جنگوں کے باعث انسانی ضروریات میں 2 گنا اضافہ ہونے پر توجہ مبذول کروانے والے بیسلے کا کہنا ہے کہ قحط اور فاقہ کشی 12 ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔

    انہوں نے ان 12 ممالک کے نام تو نہیں دیے تاہم فی الفور اقدامات سے اس خطرے کا سدباب کیے جانے پر زور دیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل رواں سال کے وسط میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ممالک میں کرونا وائرس کے وبائی مرض نے جاری جنگوں کے اثرات پر ایک نیا بوجھ ڈال دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پہلے سے زیادہ افراد غربت کی طرف چلے گئے ہیں اور وہ خوراک حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔