Tag: ورلڈ کپ 2024

  • امریکی سفیر کا ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار

    امریکی سفیر کا ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار

    اسلام آباد : امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ورلڈکپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا امید ہے پاکستان کیلئے یہ ایونٹ یادگار ثابت ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے سوشل میڈیا ایکس پراپنے پیغام میں کہا کہ امریکاپہلی بارٹی 20ورلڈکپ کی میزبانی کررہا ہے، یقین ہے ٹی 20 ورلڈ کپ میں دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

    امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ورلڈکپ کیلئےروانگی سےقبل پاکستان ٹیم کی میزبانی کی، کپتان بابر اعظم اور ٹیم کیلئےنیک خواہشات ہیں، پاکستانی ٹیم سے بیٹنگ اور بولنگ ٹپس بھی لیں۔

    خیال رہے پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈکپ میں شرکت کیلیے ڈیلس پہنچ گئی، کھلاڑی دو روز آرام کے بعد تین جون سے تیاریوں کا آغاز کریں گے۔

    ڈیلس کے گرینڈ پریری اسٹیڈیم میں پریکٹس کریں گے، قومی ٹیم میگا ایونٹ میں اپنا پہلا میچ چھے جون کو میزبان امریکا سے کھیلے گی۔

    پاکستان کےگروپ میں بھارت، امریکا، کینیڈا اور آئرلینڈ کی ٹیمیں شامل ہیں۔

  • الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    دنیائے کرکٹ کے کئی بڑے ناموں اور عالمی ریکارڈ ہولڈرز کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان کی کرکٹ ٹیم شکستوں کے بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ اب انگلینڈ سے شکستوں کا داغ لے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا مشن سر کرنے کے لیے امریکا پہنچ گئی ہے۔ وہاں ہمارے یہ اسٹار کیا گل کھلاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتا دے گا، مگر حالیہ چند ماہ کی کارکردگی جس نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور قوم کی ٹیم سے لگائی گئی امیدیں خوش فہمی میں تبدیل ہو کر اب دم توڑنے لگی ہیں۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 شروع ہونے میں اب ہفتے اور دن نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس میگا ایونٹ میں پہلی بار 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں، جس میں کئی ٹیمیں اپنا انٹرنیشنل کرکٹ یا ورلڈ کپ میں ڈیبیو کر رہی ہیں مگر سوائے قومی ٹیم کے سب کی تیاریاں مکمل ہیں جب کہ ہم نے ورلڈ کپ کا کمبینیشن بنانے کے لیے جس آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز پر تکیہ کیا تھا، اس میں سے ہوا کسی غبارے کی طرح نکل گئی۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کی شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، لیکن میگا ایونٹ کے لیے ٹیم کمبینیشن نہ بن سکا۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کرتا دھرتا افراد نے ہر دور میں اپنی من مانی کی، جس سے ہمیشہ قومی ٹیم کو اور اس سے وابستہ قوم کی امیدوں کو نقصان پہنچا۔ 2023 میں ایشیا کپ اور پھر ون ڈے ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کو جواز بنا کر جب بابر اعظم کو قیادت سے ہٹایا گیا تو شاہین شاہ کو نئے مسیحا کے طور پر لایا گیا مگر صرف ایک سیریز میں ناکامی کو جواز بنا کر ہی پی سی بی کی نئی آنے والی انتظامیہ نے انہیں قیادت کے لیے نا اہل جانا اور ایک بار پھر بابر اعظم کو لایا گیا یعنی میر تقی میر کے شعر کے مطابق

    میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

    کیونکہ اگر بُری قیادت کو جواز بنا کر بابر اعظم کو ہٹایا گیا تھا تو دو ماہ میں ان میں ایسے کیا سُرخاب کے پر لگ گئے کہ دوبارہ اسی مسند پر بٹھا دیا گیا جس نے ٹیم کا مورال بھی ڈاؤن کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے پاکستان اپنے ہی گھر میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز وائٹ واش کرنا تو دور کی بات جیت بھی نہ سکا اور برابر کرنے پر اکتفا کیا۔ پھر ٹیم انتظامیہ نے امیدیں لگائیں آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز سے لیکن ہوا کیا، آئرلینڈ جیسی کم درجہ ٹیم سے پاکستان کی ورلڈ کلاس ٹیم بمشکل دو ایک سے سیریز جیت کر اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوئی جب کہ انگلینڈ نے چار میچوں کی سیریز دو صفر سے مات دے دی۔ دو میچ بارش کے باعث نہ ہوسکے پہلے تو شائقین کرکٹ اس بارش کو زحمت کہتے رہے لیکن قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اب سب اسے رحمت سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اگر بارش نہ ہوتی تو گرین شرٹس کو وائٹ واش کا داغ بھی لگ سکتا تھا۔

    پاکستان کرکٹ کے گزشتہ 6 ماہ کے دوران صرف دو بار قیادت ہی تبدیل نہیں کی گئی بلکہ چار سال قبل ریٹائرمنٹ لینے والے محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بھی بنایا گیا۔ اس سے قبل انہیں نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز بھی کھلائی گئیں، گوکہ اس میں عماد وسیم کو مناسب مواقع نہیں دیے گئے مگر سینیئر فاسٹ بولر محمد عامر بھرپور مواقع ملنے کے باوجود اپنی واپسی کو یادگار نہ بنا سکے۔

    ورلڈ کپ 2023 کے اختتام کے بعد سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل تک پاکستان ٹیم نے 16 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے اور پی سی بی نے ان میچز کو ورلڈ کپ کی تیاری سے تعبیر کیا، لیکن اس سے ٹیم کی کیا تیاری ہوئی، یہ ہمیں میچ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے جس میں سے صرف 5 میچ ہی جیت پائی ہے جب کہ 9 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یعنی قیادت کی تبدیلی بھی کچھ کام نہ کر پائی اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات یعنی شکست در شکست ہی رہا۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا فارمیٹ ایسا ہے کہ 20 ٹیموں کو پانچ پانچ ٹیموں پر مشتمل چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ کی دو ٹاپ ٹیمیں اگلے مرحلے سپر 8 کے لیے کوالیفائی کریں گے۔

    پاکستان ورلڈ کپ کے گروپ اے میں ہے اور گروپ کو ماہرین کرکٹ قدرے آسان کہہ رہے ہیں، کیونکہ اس گروپ میں پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکا، آئرلینڈ اور کینیڈا شامل ہیں، جو آن پیپر تو بہت ہی آسان، بلکہ دوسرے لفظوں میں گروپ کی دو بڑی ٹیموں پاکستان اور بھارت کے لیے حلوہ ہے۔ تاہم آئرلینڈ نے جس طرح حال ہی میں پاکستان کو تین میچوں کی سیریز میں ناکوں چنے چبوا دیے اور امریکا نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو چاروں شانے چت کر کے سیریز جیتی ہے، تو اس کو دیکھتے ہوئے گروپ کو آسان نہیں بلکہ پاکستان کے لیے تو ڈیتھ گروپ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ 2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور آئرلینڈ کے گروپ میں تھا اور تمام ٹیمیں اس وقت کارکردگی میں گرین شرٹس سے پیچھے تھیں اور پھر وہ ہوا تھا جو پاکستانی شائقین کرکٹ شاید کبھی نہ بھول سکیں کہ پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز اور پھر آئرلینڈ نے اپ سیٹ شکست دے کر پاکستان کو پہلے راؤنڈ میں ورلڈ کپ سے رسوا کن انداز میں باہر کر دیا تھا۔

    شکستوں کے بھنور میں گھرنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بھی قوم سے اپیل کر دی ہے کہ قومی ٹیم کو ایک ماہ تک تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم پر تنقید نہ کی جائے، بلکہ کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں، اور انہیں امید ہے کہ پاکستانی ٹیم چار ہفتے بعد فائنل میں ہوگی جب کہ بابر اعظم بھی کہتے ہیں کہ فتح کے لیے اسٹرائیک ریٹ بڑھانا اور ماڈرن کرکٹ کھیلنا ہوگی مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟ آج جو وہ کہہ رہے ہیں یہ بات تو سابق کرکٹرز کافی عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں اگر ان کی باتوں، مشوروں اور تنقید کو مثبت لیتے ہوئے اس جانب توجہ دی جاتی تو شاید آج یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

    میگا ایونٹ شروع ہوگا تو ون ڈے ورلڈ کپ کی طرح اس میں بھی انڈیا آئی سی سی کی نمبر ون رینکنگ ٹیم کے طور پر اپنا سفر شروع کرے گا، جب کہ پاکستان کی پوزیشن چھٹی ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، انگلینڈ کے خلاف کپتان بابر اعظم اور دیگر کھلاڑیوں نے کئی انفرادی عالمی ریکارڈز ضرور قائم کیے ہیں، لیکن انفرادی ریکارڈ اس وقت اہم گردانے جائیں گے، جب اس کا فائدہ مجموعی طور پر ٹیم کو ہو اور ٹیم فتح کی پٹڑی پر چل رہی ہو۔ اگر شکست در شکست ہوتی رہے تو پھر انفرادی ریکارڈز بنانا خودغرضی کے زمرے میں آتا ہے۔

    جب کارکردگی میں تسلسل نہ ہو تو پھر ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے لیے کیا خاک کمبینیشن بنے گا۔ اب تک تو یہ طے نہیں ہوا کہ بیٹنگ لائن اپ کیسی ہوگی۔ اگر بابر اور رضوان اوپن کریں گے تو کیا عثمان خان ون ڈاؤن آئیں گے، یا پھر فخر کو لایا جائے گا۔ مڈل آرڈر مسلسل ناکام ہے۔ افتخار احمد، اعظم خان، شاداب خان کوئی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے اور کوئی بھی ایسا فی الحال نہیں دکھائی دے رہا کہ جو میچ کو فنش کر سکے۔ اس پوزیشن پر کس کو کھلایا جائے یہ بھی کپتان اور ٹیم منیجمنٹ کے لیے ایک درد سر ہے۔ بولنگ میں شاہین شاہ کی کارکردگی بہتر ہے، عباس بھی اچھا بیک اپ دے رہے ہیں، مگر محمد عامر کی واپسی کے بعد کارکردگی خود سوالیہ نشان ہے۔ انجری سے واپسی پر نسیم شاہ بھی اپنے بھرپور رنگ میں دکھائی نہیں دے رہے۔

    قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہی کئی بین الاقوامی کرکٹرز جن میں سنیل گواسکر، برائن لاروا، میتھیو ہیڈن، ایرون فنچ، ٹام موڈی جیسے بڑے نام شامل ہیں وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فائنل فور ٹیموں میں پاکستان کو دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔

    ہم تو یہی دعا کریں گے کہ پی سی بی چیئرمین کی امید پوری ہو اور پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا کر وطن واپس آئے، کیونکہ یہ صرف ان کی امید ہی نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش بھی ہے کہ جن کے خون پسینے کی کمائی سے ان کرکٹرز کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں اور یہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ لیکن خواب جاگتی آنکھوں نہیں دیکھے جاتے بلکہ بند آنکھوں دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جس جذبے اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی ٹیم میں نظر نہیں آ رہی۔

  • کیا یہی ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری ہے؟

    کیا یہی ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری ہے؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم جس کو دنیائے کرکٹ میں شاہینوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپنے کئی شکار ہاتھ سے جانے کے بعد آئرلینڈ اور انگلینڈ کو شکار کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں بابر اعظم کی قیادت میں آئرلینڈ کی سر زمین پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں وہ تین میچوں کی سیریز کے بعد انگلینڈ کا رخ کرے گی۔ برطانیہ میں 4 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے بعد پھر شاہینز امریکا اور ویسٹ انڈیز کی طرف اڑان بھریں گے، جہاں وہ 20 ممالک کی ٹیموں سے سجے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کریں گے۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کا آغاز سر پر آن پہنچا ہے اور صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ یکم جون سے ویسٹ انڈیز کے ساتھ پہلی بار کرکٹ کے آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والے ملک امریکا میں اس میگا ایونٹ کا آغاز ہوگا۔ ٹورنامنٹ میں پہلی بار ریکارڈ 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں سے دفاعی چیمپئن انگلینڈ سمیت بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، افغانستان سمیت 15 ممالک اپنے اسکواڈز کا اعلان کر چکے ہیں، مگر پاکستان کا ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان تو دور کی بات، ابھی تک یہ ہی طے نہیں ہوسکا ہے کہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کون سے کھلاڑی جائیں گے اور کون گھر میں ٹی وی اسکرینز پر یہ میچز دیکھیں گے۔

    کھیل کوئی بھی ہو، ورلڈ کپ سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں شرکت کا خواب ہر کھلاڑی دیکھتا ہے، ٹورنامنٹ کو جیتنے اور ٹرافی اٹھانے کی خواہش ہر ٹیم میں ہوتی ہے، جس کے لیے وہ سالوں پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے۔ ہر میگا ایونٹ میں ناکامی کے بعد ہمارے کھیلوں کے کرتا دھرتا، اس کو اپنے لیے ایک سبق قرار دیتے ہوئے اگلے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور جب چار سال گزرتے ہیں تو قوم کھیلوں کے اداروں اور ٹیموں کو وہیں کھڑا دیکھتی ہے جہاں وہ چار سال قبل کھڑی ہوتی ہیں اور منیر نیازی کی مشہور نظم کے اس مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم جس نے پہلی اور آخری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں جیتا تھا۔ اس کے بعد گرین شرٹس 5 بار تو سیمی فائنل میں پہنچے لیکن ٹرافی اٹھانے کی جانب پیش قدمی تو درکنار ٹیم فائنل میں بھی نہ پہنچ سکی۔ گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی قومی ٹیم کا بابر اعظم کی قیادت میں سفر سیمی فائنل پر ہی تمام ہو گیا تھا۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ جس پر ملکی سیاست ہمیشہ سے سایہ فگن رہی ہے۔ اسی لیے جس طرح ہماری سیاست اور اس کی پالیسیوں میں استحکام نہیں ہے، اسی کا عکس پی سی بی اور اس کے فیصلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی ہلچل عروج پر پہنچتی ہے تو پی سی بی حکام کو اپنی کرسیاں خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے، اب ایسے میں وہ کرکٹ کی ترقی پر فوکس کرنے کے بجائے اپنی کرسیاں بچانے کے لیے لابنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کا سراسر نقصان کرکٹ کے کھیل کو ہی ہوتا ہے۔

    اس تماشے کو دیکھنے کی عادی قوم گزشتہ ڈیڑھ برس سے پی سی بی کی میوزیکل چیئر بنی کرسی اور اس کے نتیجے میں پاکستان ٹیم کی گرتی کارکردگی کو مسلسل دیکھ رہی ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی کی انتظامی تبدیلی جڑی ہے تو حکومت کے ساتھ یہ تبدیلی بھی ہو کر رہی اور 15 ماہ میں چیئرمین پی سی بی پر چوتھی شخصیت کو تعینات کیا گیا۔ جب ادارے کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو پھر منیجمنٹ اور کپتان بھی اسی کی پسند کا ہوتا ہے اور پاکستان ٹیم کی قیادت عرصہ دراز سے اسی کھینچا تانی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اور اس خرابی بسیار کھیل میں ہمارے سابق بڑے بڑے لیجنڈ کرکٹرز کے نام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ اسی روایت کے تحت ٹیم میں ایک بار پھر گروپنگ کی خبروں نے زور پکڑا جس کو ممہیز نیوزی لینڈ کی سی ٹیم جو 10 بڑے ناموں سے محروم تھی سے سیریز برابر کرنے پر مزید پھیلی۔

    بابر اعظم جنہیں گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد قیادت سے ہٹنا پڑا تھا اور ان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو ٹی 20 کی قیادت سونپی گئی تھی مگر اسٹار فاسٹ بولر کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے پی سی بی حکام نے صرف نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی سر زمین پر کھیلی گئی سیریز اور پی ایس ایل 9 میں لاہور قلندرز کی ناکامی کو پیمانہ قرار دیا اور کپتانی کا تاج ایک بار پھر بابر اعظم کے سر پر سجا دیا یہ سوچے بغیر کہ شاہین شاہ مسلسل دو سال تک لاہور قلندرز کو پی ایس ایل چیمپئن بنوا چکے ہیں۔

    پاکستان ٹیم ڈھائی سال سے اپنی سر زمین پر کوئی بھی سیریز جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ جب نو آموز نیوزی لینڈ ٹیم آئی تو شائقین کو وائٹ واش کے ساتھ امید تھی کہ گرین شرٹس اپنی سر زمین پر ڈھائی سال بعد کوئی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگی، مگر ہمارے سپر اسٹار کھلاڑیوں سے سجی ٹیم کو کیویز کی سی کلاس ٹیم کے بچوں نے ناکوں چنے چبوا دیے اور گرین شرٹس پہنے نامور کھلاڑیوں کی ڈفر پرفارمنس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ پاکستان ٹیم ڈھائی سال میں دو بار نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم سے بھی سیریز نہ جیت سکی۔ انگلش ٹیم شکست کی دھول چٹا کر گئی۔ کینگروز نے بھی شاہینوں کے پر کاٹ دیے۔

    نیوزی لینڈ سیریز کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کہا جا رہا تھا لیکن جس بری طرح سے یہ آغاز ہوا ہے، آگے کی کہانی واضح نظر آتی ہے۔ بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ میں کئی خامیاں سامنے آئیں۔ پانچ میں سے چار میچز کھیلے گئے اور صرف دو نصف سنچریاں ایک بابر اعظم اور ایک فخر زمان نے بنائیں۔ محمد عامر چار سال بعد اپنی ٹیم میں واپسی کو یادگار نہ بنا سکے اور تین میچز میں صرف تین وکٹیں ہی لے پائے۔ اس کارکردگی کے بعد اب پی سی بی انتظامیہ نے اپنا راگ بدلتے ہوئے آئرلینڈ اور انگلینڈ دوروں کو ورلڈ کپ کی تیاری سے نتھی کر دیا ہے جس پر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے صرف طنزیہ مسکرا ہی سکتے ہیں کیونکہ میگا ایونٹ سے 10 یا 15 دن قبل کیسی تیاری اور کمبینیشن بنایا جا سکتا ہے۔

    سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی ہے وہ قومی ٹیم کا کمزور ترین مڈل آرڈر ہے۔ دنیا کی 10 بڑی کرکٹ ٹیموں میں ہمارا مڈل آرڈر نویں نمبر پر اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر ٹی 20 کرکٹ میں 7 سے 15 اوورز کے درمیان محض 7.30 رنز سے اسکور کررہا ہے جو آئرلینڈ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے بھی کم ہے اور صرف افغانستان سے بہتر ہے اور یہ اعداد وشمار لمحہ فکریہ اور پی سی بی حکام کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔

    نیوزی لینڈ سے سیریز برابر ہونے کے بعد سلیکشن کمیٹی نے دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا جس میں گزشتہ ورلڈ کپ میں اوسط درجے سے بھی کم کارکردگی دکھانے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہنے کے باوجود سینیئر فاسٹ بولر حسن علی کی واپسی نے ان کی سلیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کی سلیکشن میں ایک بار پھر دوستی یاری کو ترجیح دی گئی ہے جس کا خمیازہ ہم ون ڈے ورلڈ کپ 2023 میں پہلے ہی راؤنڈر میں باہر ہو کر بھگت چکے ہیں۔

    پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں کے لیے ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کا اعلان کرنے کے لیے 22 مئی تاریخ دی اور ساتھ ہی یہ لطیفہ بھی سنا ڈالا کہ ’’پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ٹیم کے اعلان میں مشکل پیش آ رہی ہے۔‘‘ اگر اس ٹیلنٹ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں قومی ٹیم کی حالیہ کچھ ماہ کی کارکردگی رکھی جائے تو حقیقت سب پر عیاں ہو جائے گی۔

    اب ٹیم آئرلینڈ پہنچ چکی ہے لیکن گرین شرٹس یاد رکھیں کہ آئرش ٹیم اپ سیٹ کرنے میں ماہر ہے۔ پاکستان کے پاس ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے صرف 7 میچز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے شاہین اس میں کیا تیر مارتے ہیں۔ ٹیم کی حالت دیکھ کر ہم تو قوم کو یہی مشورہ دیں گے کہ حسب سابق سہانے خواب دیکھے مگر جاگتی آنکھوں کے ساتھ مصلّٰی و تسبیح بھی ساتھ رکھے کہ ٹیم کو اگلے ماہ پھر قوم کی دعاؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ہم تو ہر میگا ایونٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی گاڑی کو دعاؤں سے ہی آگے دھکیلنے کی کوشش کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔