Tag: ورلڈ کپ

  • ورلڈ کپ جیتنا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، کپتان بابر اعظم نے کیا کہا؟

    ورلڈ کپ جیتنا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، کپتان بابر اعظم نے کیا کہا؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا ہے کہ وہ ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 جیت کر قوم کو خوشیاں دینا چاہتے ہیں۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے پی سی بی کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی سب سے بڑی خواہش بتا دی اور کہا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 جیت کر قوم کو خوشیاں دینا چاہتے ہیں تاہم ورلڈ کپ جیتنے کے لیے ٹیم کو ایک ہو کر کھیلنا اور ہر ٹیم کو ہرانا ہوگا۔

    بابر اعظم نے کہا کہ امریکا میں کھیلنا ایک مختلف تجربہ ہوگا اور یہ ایک چیلنج ہوگا۔ ورلڈ کپ میں صرف بھارت کا نہیں بلکہ تمام میچ ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb)

    انہوں نے کہا کہ افسوس ہے پچھلے 2 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بہت قریب آکر نہ جیت پائے۔ گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں اگر شاہین شاہ زخمی نہ ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا، بحیثیت کپتان آئی سی سی ایونٹ نہ جیتنے کا افسوس ہے تاہم اس بار جیتنا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb)

    بابر اعظم نے کہا کہ میری اولین ترجیح پاکستان ٹیم ہے اور کبھی اپنے ذاتی ریکارڈ کے لیے نہیں کھیلا۔ اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر کرنے پر کافی کام کیا ہے۔

    قومی کپتان نے کہا کہ میں صائم ایوب یا فخر زمان نہیں بن سکتا۔ گیم کو چلانے والا کھلاڑی میدان میں جاتے ہی چھکے نہیں مار سکتا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb)

    انہوں نے کہا کہ ٹیم کا ماحول بہت اچھا ہے اور سب کا مقصد صرف ایک کہ ورلڈ کپ جیتنا ہے۔ قومی سے اپیل ہے کہ وہ پاکستان ٹیم کو سپورٹ کرے۔

    https://urdu.arynews.tv/t20-world-cup-2024-colorful-opening-ceremony-video/

  • امریکی سفیر کا ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار

    امریکی سفیر کا ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار

    اسلام آباد : امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ورلڈکپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا امید ہے پاکستان کیلئے یہ ایونٹ یادگار ثابت ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے سوشل میڈیا ایکس پراپنے پیغام میں کہا کہ امریکاپہلی بارٹی 20ورلڈکپ کی میزبانی کررہا ہے، یقین ہے ٹی 20 ورلڈ کپ میں دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

    امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ورلڈکپ کیلئےروانگی سےقبل پاکستان ٹیم کی میزبانی کی، کپتان بابر اعظم اور ٹیم کیلئےنیک خواہشات ہیں، پاکستانی ٹیم سے بیٹنگ اور بولنگ ٹپس بھی لیں۔

    خیال رہے پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈکپ میں شرکت کیلیے ڈیلس پہنچ گئی، کھلاڑی دو روز آرام کے بعد تین جون سے تیاریوں کا آغاز کریں گے۔

    ڈیلس کے گرینڈ پریری اسٹیڈیم میں پریکٹس کریں گے، قومی ٹیم میگا ایونٹ میں اپنا پہلا میچ چھے جون کو میزبان امریکا سے کھیلے گی۔

    پاکستان کےگروپ میں بھارت، امریکا، کینیڈا اور آئرلینڈ کی ٹیمیں شامل ہیں۔

  • الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    دنیائے کرکٹ کے کئی بڑے ناموں اور عالمی ریکارڈ ہولڈرز کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان کی کرکٹ ٹیم شکستوں کے بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ اب انگلینڈ سے شکستوں کا داغ لے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا مشن سر کرنے کے لیے امریکا پہنچ گئی ہے۔ وہاں ہمارے یہ اسٹار کیا گل کھلاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتا دے گا، مگر حالیہ چند ماہ کی کارکردگی جس نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور قوم کی ٹیم سے لگائی گئی امیدیں خوش فہمی میں تبدیل ہو کر اب دم توڑنے لگی ہیں۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 شروع ہونے میں اب ہفتے اور دن نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس میگا ایونٹ میں پہلی بار 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں، جس میں کئی ٹیمیں اپنا انٹرنیشنل کرکٹ یا ورلڈ کپ میں ڈیبیو کر رہی ہیں مگر سوائے قومی ٹیم کے سب کی تیاریاں مکمل ہیں جب کہ ہم نے ورلڈ کپ کا کمبینیشن بنانے کے لیے جس آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز پر تکیہ کیا تھا، اس میں سے ہوا کسی غبارے کی طرح نکل گئی۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کی شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، لیکن میگا ایونٹ کے لیے ٹیم کمبینیشن نہ بن سکا۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کرتا دھرتا افراد نے ہر دور میں اپنی من مانی کی، جس سے ہمیشہ قومی ٹیم کو اور اس سے وابستہ قوم کی امیدوں کو نقصان پہنچا۔ 2023 میں ایشیا کپ اور پھر ون ڈے ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کو جواز بنا کر جب بابر اعظم کو قیادت سے ہٹایا گیا تو شاہین شاہ کو نئے مسیحا کے طور پر لایا گیا مگر صرف ایک سیریز میں ناکامی کو جواز بنا کر ہی پی سی بی کی نئی آنے والی انتظامیہ نے انہیں قیادت کے لیے نا اہل جانا اور ایک بار پھر بابر اعظم کو لایا گیا یعنی میر تقی میر کے شعر کے مطابق

    میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

    کیونکہ اگر بُری قیادت کو جواز بنا کر بابر اعظم کو ہٹایا گیا تھا تو دو ماہ میں ان میں ایسے کیا سُرخاب کے پر لگ گئے کہ دوبارہ اسی مسند پر بٹھا دیا گیا جس نے ٹیم کا مورال بھی ڈاؤن کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے پاکستان اپنے ہی گھر میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز وائٹ واش کرنا تو دور کی بات جیت بھی نہ سکا اور برابر کرنے پر اکتفا کیا۔ پھر ٹیم انتظامیہ نے امیدیں لگائیں آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز سے لیکن ہوا کیا، آئرلینڈ جیسی کم درجہ ٹیم سے پاکستان کی ورلڈ کلاس ٹیم بمشکل دو ایک سے سیریز جیت کر اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوئی جب کہ انگلینڈ نے چار میچوں کی سیریز دو صفر سے مات دے دی۔ دو میچ بارش کے باعث نہ ہوسکے پہلے تو شائقین کرکٹ اس بارش کو زحمت کہتے رہے لیکن قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اب سب اسے رحمت سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اگر بارش نہ ہوتی تو گرین شرٹس کو وائٹ واش کا داغ بھی لگ سکتا تھا۔

    پاکستان کرکٹ کے گزشتہ 6 ماہ کے دوران صرف دو بار قیادت ہی تبدیل نہیں کی گئی بلکہ چار سال قبل ریٹائرمنٹ لینے والے محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بھی بنایا گیا۔ اس سے قبل انہیں نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز بھی کھلائی گئیں، گوکہ اس میں عماد وسیم کو مناسب مواقع نہیں دیے گئے مگر سینیئر فاسٹ بولر محمد عامر بھرپور مواقع ملنے کے باوجود اپنی واپسی کو یادگار نہ بنا سکے۔

    ورلڈ کپ 2023 کے اختتام کے بعد سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل تک پاکستان ٹیم نے 16 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے اور پی سی بی نے ان میچز کو ورلڈ کپ کی تیاری سے تعبیر کیا، لیکن اس سے ٹیم کی کیا تیاری ہوئی، یہ ہمیں میچ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے جس میں سے صرف 5 میچ ہی جیت پائی ہے جب کہ 9 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یعنی قیادت کی تبدیلی بھی کچھ کام نہ کر پائی اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات یعنی شکست در شکست ہی رہا۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا فارمیٹ ایسا ہے کہ 20 ٹیموں کو پانچ پانچ ٹیموں پر مشتمل چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ کی دو ٹاپ ٹیمیں اگلے مرحلے سپر 8 کے لیے کوالیفائی کریں گے۔

    پاکستان ورلڈ کپ کے گروپ اے میں ہے اور گروپ کو ماہرین کرکٹ قدرے آسان کہہ رہے ہیں، کیونکہ اس گروپ میں پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکا، آئرلینڈ اور کینیڈا شامل ہیں، جو آن پیپر تو بہت ہی آسان، بلکہ دوسرے لفظوں میں گروپ کی دو بڑی ٹیموں پاکستان اور بھارت کے لیے حلوہ ہے۔ تاہم آئرلینڈ نے جس طرح حال ہی میں پاکستان کو تین میچوں کی سیریز میں ناکوں چنے چبوا دیے اور امریکا نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو چاروں شانے چت کر کے سیریز جیتی ہے، تو اس کو دیکھتے ہوئے گروپ کو آسان نہیں بلکہ پاکستان کے لیے تو ڈیتھ گروپ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ 2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور آئرلینڈ کے گروپ میں تھا اور تمام ٹیمیں اس وقت کارکردگی میں گرین شرٹس سے پیچھے تھیں اور پھر وہ ہوا تھا جو پاکستانی شائقین کرکٹ شاید کبھی نہ بھول سکیں کہ پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز اور پھر آئرلینڈ نے اپ سیٹ شکست دے کر پاکستان کو پہلے راؤنڈ میں ورلڈ کپ سے رسوا کن انداز میں باہر کر دیا تھا۔

    شکستوں کے بھنور میں گھرنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بھی قوم سے اپیل کر دی ہے کہ قومی ٹیم کو ایک ماہ تک تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم پر تنقید نہ کی جائے، بلکہ کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں، اور انہیں امید ہے کہ پاکستانی ٹیم چار ہفتے بعد فائنل میں ہوگی جب کہ بابر اعظم بھی کہتے ہیں کہ فتح کے لیے اسٹرائیک ریٹ بڑھانا اور ماڈرن کرکٹ کھیلنا ہوگی مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟ آج جو وہ کہہ رہے ہیں یہ بات تو سابق کرکٹرز کافی عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں اگر ان کی باتوں، مشوروں اور تنقید کو مثبت لیتے ہوئے اس جانب توجہ دی جاتی تو شاید آج یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

    میگا ایونٹ شروع ہوگا تو ون ڈے ورلڈ کپ کی طرح اس میں بھی انڈیا آئی سی سی کی نمبر ون رینکنگ ٹیم کے طور پر اپنا سفر شروع کرے گا، جب کہ پاکستان کی پوزیشن چھٹی ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، انگلینڈ کے خلاف کپتان بابر اعظم اور دیگر کھلاڑیوں نے کئی انفرادی عالمی ریکارڈز ضرور قائم کیے ہیں، لیکن انفرادی ریکارڈ اس وقت اہم گردانے جائیں گے، جب اس کا فائدہ مجموعی طور پر ٹیم کو ہو اور ٹیم فتح کی پٹڑی پر چل رہی ہو۔ اگر شکست در شکست ہوتی رہے تو پھر انفرادی ریکارڈز بنانا خودغرضی کے زمرے میں آتا ہے۔

    جب کارکردگی میں تسلسل نہ ہو تو پھر ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے لیے کیا خاک کمبینیشن بنے گا۔ اب تک تو یہ طے نہیں ہوا کہ بیٹنگ لائن اپ کیسی ہوگی۔ اگر بابر اور رضوان اوپن کریں گے تو کیا عثمان خان ون ڈاؤن آئیں گے، یا پھر فخر کو لایا جائے گا۔ مڈل آرڈر مسلسل ناکام ہے۔ افتخار احمد، اعظم خان، شاداب خان کوئی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے اور کوئی بھی ایسا فی الحال نہیں دکھائی دے رہا کہ جو میچ کو فنش کر سکے۔ اس پوزیشن پر کس کو کھلایا جائے یہ بھی کپتان اور ٹیم منیجمنٹ کے لیے ایک درد سر ہے۔ بولنگ میں شاہین شاہ کی کارکردگی بہتر ہے، عباس بھی اچھا بیک اپ دے رہے ہیں، مگر محمد عامر کی واپسی کے بعد کارکردگی خود سوالیہ نشان ہے۔ انجری سے واپسی پر نسیم شاہ بھی اپنے بھرپور رنگ میں دکھائی نہیں دے رہے۔

    قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہی کئی بین الاقوامی کرکٹرز جن میں سنیل گواسکر، برائن لاروا، میتھیو ہیڈن، ایرون فنچ، ٹام موڈی جیسے بڑے نام شامل ہیں وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فائنل فور ٹیموں میں پاکستان کو دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔

    ہم تو یہی دعا کریں گے کہ پی سی بی چیئرمین کی امید پوری ہو اور پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا کر وطن واپس آئے، کیونکہ یہ صرف ان کی امید ہی نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش بھی ہے کہ جن کے خون پسینے کی کمائی سے ان کرکٹرز کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں اور یہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ لیکن خواب جاگتی آنکھوں نہیں دیکھے جاتے بلکہ بند آنکھوں دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جس جذبے اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی ٹیم میں نظر نہیں آ رہی۔

  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024، بھارتی ٹیم کا پہلا گروپ امریکا روانہ

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024، بھارتی ٹیم کا پہلا گروپ امریکا روانہ

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بھارتی کرکٹ ٹیم کا پہلا گروپ امریکا روانہ ہوگیا۔

    بھارتی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بھارتی کپتان روہت شرما، رشبھ پنٹ، رویندرا جڈیجا، کلدیپ یادو اور دیگر امریکا روانہ ہوئے جبکہ دیگر کھلاڑی آئی پی ایل کے باعث ابھی روانہ نہ ہوسکے۔

    بھارتی ٹیم کے آل راؤنڈر ہاردیک پانڈیا امریکا روانہ ہونے والے پہلے اسکواڈ میں شامل نہیں تھے، ان کے امریکا نہ روانہ ہونے سے متعلق باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا۔

    دوسری جانب ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل میزبان ویسٹ انڈیز کو بڑا دھچکا پہنچا ہے، اسٹار آل راؤنڈر عالمی کپ سے باہر ہوگئے۔

    ورلڈکپ کی میزبانی کے لیے تیار ویسٹ انڈین ٹیم کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر آل راو?نڈر جیسن ہولڈر کی خدمات حاصل نہیں ہونگی۔ جیسن ہولڈر کاؤنٹی چیمپئن شپ کے دوران انجری کے باعث ٹی 20 ورلڈکپ سے باہر ہوگئے ہیں۔

    ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے ہولڈر کے متبادل کا اعلان کردیا ہے، ٹیم میں جیسن ہولڈرکی جگہ اوبیڈ مک کوئے کو ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے چند روز قبل ہی جنوبی افریقا کے خلاف سیریز جیت کر ویسٹ انڈیز نے دوسری ٹیموں کو اپنے ارادوں سے خبردار کردیا ہے۔

    ویسٹ انڈیز کو جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں فتح دلانے میں روسٹن چیس کا اہم کردار رہا، انھوں نے دوسرے میچ میں 38 گیندوں پر 67 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔

    کیا آپ کی ہاردک سے طلاق ہوگئی ہے؟ نتاشا اسٹینکووچ نے بتا دیا

    ویسٹ انڈیز نے اتوار کو سبینا پارک میں جنوبی افریقہ کو دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں 16 رنز سے شکست دی۔ کیربیئنز کو تین میچوں کی سیریز میں 0-2 کی ناقابل شکست برتری مل گئی ہے۔

  • ارجنٹینا کے لیجنڈ فٹبالر لیونل میسی کے نام ایک اور بڑا اعزاز

    ارجنٹینا کے لیجنڈ فٹبالر لیونل میسی کے نام ایک اور بڑا اعزاز

    ارجنٹائن کے اسٹار فٹبالر لیونل میسی ایک بار پھر فیفا کے بہترین پلیئر منتخب ہوگئے انہوں نے تیسری بار یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔

    لیونل میسی کو 2023 کے لیے سال کا بہترین پلیئر منتخب کیا گیا، لیونل میسی نے اس سے قبل 2019ء اور 2022ء میں بھی یہ ٹائٹل جیتا تھا۔

    مجموعی ووٹنگ کے بعد ایرلنگ ہالینڈ اور میسی کے درمیان ٹائی ہوا تھا۔ میسی اور ہالینڈ کے پوائنٹس 48، 48 تھے اور فیفا ایوارڈ قوانین کے مطابق میسی کو دیگر کپتانوں کی اولین چوائس ہونے کی بنیاد پر منتخب کیا گیا۔

    پلیئر ایوارڈ کی ووٹنگ میں کپتان، کوچز، میڈیا نمائندوں اور فینز نے حصہ لیا، مینز پلیئر آف دی ایئر کی لسٹ میں کلییان ایمباپے 35 پوائنٹس سے تیسرے نمبر پر آئے۔

    علاوہ ازیں برازیل کے ایڈرٹن کو بہترین گول کیپر کا ایوارڈ دیا گیا جبکہ اسپین کی آئیتانا بونماتی خواتین کی بہترین پلیئر اور انگلینڈ کی میری ائیرپس بہترین گول کیپر قرار پائیں۔

    رپورٹس کے مطابق فیفا پلیئر آف دی ایئر کی تقریب لندن میں ہوئی اس تقریب میں لیونل میسی نے شریک نہیں کی تھی۔

    یاد رہے کہ ارجنٹینا نے دسمبر 2022 میں لیونل میسی کی قیادت میں فیفا ورلڈ کپ جیتا تھا، اسی ورلڈ کپ میں لیونل میسی پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ جیتنے میں بھی کامیاب رہے تھے۔

  • ورلڈ کپ 2024: سابق بھارتی کھلاڑی کا روہت شرما کی کپتان سے متعلق بڑا دعویٰ

    ورلڈ کپ 2024: سابق بھارتی کھلاڑی کا روہت شرما کی کپتان سے متعلق بڑا دعویٰ

    معروف بھارتی کمنٹیٹر اور سابق کھلاڑی آکاش چوپڑا نے ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 میں روہت شرما کی کپتانی سے متعلق بڑا دعویٰ کیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق معروف بھارتی کمنٹیٹر اور سابق کھلاڑی آکاش چوپڑا نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر روہت شرما ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلتے ہیں تو ٹیم کی کپتانی کی کمان بھی ان کے سپرد کی جائے گی۔

    سابق بھارتی کھلاڑی کا کہنا تھا کہ اگر آل راؤنڈر ہاردیک پانڈیا انجری کے بعد ٹیم پلئینگ 11 کا حصہ بن بھی گئے  تو اسٹار بلے باز روہت شرما ہی بھارت کی قیادت کریں گے۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ، پاک بھارت ٹاکرے کی پوسٹ پر بھارتی کیوں جَل بُھن گئے؟

    انہوں نے کہا کہ افغانستان کے خلاف ٹی 20 سیریز میں روہت کو کپتان مقرر کیا گیا ہے، روہت شرما اب کپتان ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں بھی کپتان ہوں گے، اگر وہ ورلڈ کپ کھیلتے ہیں تو کپتان روہت ہی ہوگا ۔

    انہوں نے اپنے تبصرے میں مزید کہا کہ ’ یہ مت سوچیں کہ ہاردیک واپس آنے کے بعد کپتان بن جائیں گے، میں اس بات کو لکھ کر دے سکتا ہوں کہ اگر وہ واپس آئے بھی تو بطور کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

  • ورلڈ کپ 2023: ویزا اور پچ تنازع کے ساتھ  بھارتی ٹیم کا جال

    ورلڈ کپ 2023: ویزا اور پچ تنازع کے ساتھ بھارتی ٹیم کا جال

    کرکٹ کا عالمی میلہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کا 13 واں ایڈیشن بھارت میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے کے بعد آسٹریلیا کو چھٹی بار حکمرانی کا تاج پہنانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فائنل میچ میں حیران کُن طور پر ٹورنامنٹ میں تمام مخالف ٹیموں کو روند کر نا قابل شکست رہنے والی میزبان ٹیم بھارت کو شکست ہوئی۔ اس نتیجے نے بڑے مقابلے سے پہلے جہاں کرکٹ ماہرین کے دعوؤں، تجزیوں کی نفی کر دی وہیں بھارت کا تیسری بار ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

    عالمی کپ کا آغاز گزشتہ ماہ 5 اکتوبر سے ہوا جو اپنے آغاز سے پہلے سے ہی کئی تنازعات میں گھر گیا تھا جب کہ ایونٹ کے دوران دیگر کئی تنازعات نے بھی اس کو اپنی لپیٹ میں لے کر میگا ایونٹ کی رنگینی کو گہنانے کی کوشش کی۔ بات کریں تنازعات کی تو ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل پاکستانی ٹیم کو ویزے میں تاخیر اور پھر پاکستانی شائقین اور صحافیوں کو ویزوں کی عدم فراہمی کے معاملے نے بھارت کے پاکستان مخالف اقدامات کو آئی سی سی کے سامنے ایک بار پھر آشکار کر دیا لیکن کرکٹ کی عالمی کونسل حسب معمول اس معاملے پر اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔

    ورلڈ کپ میں شریک 10 ٹیموں میں سے بھارت میں 9 ٹیموں کے سپورٹرز اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہے، جب کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث گرین شرٹس اس سپورٹ سے محروم رہی۔ بالخصوص ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے مشہور احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاک بھارت ٹاکرے میں ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کے مجمع میں صرف میدان میں موجود 11 پاکستانی کھلاڑی ہی گرین شرٹس میں نظر آئے جب کہ باقی اسٹیڈیم نیلے رنگ کی جرسیوں کا ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص پرفارمنس میں ایک عنصر مخالف ٹیم کے سوا لاکھ سپورٹرز کے متعصبانہ نعرے اور رویے کا دباؤ بھی تھا کہ دو فتوحات سے ٹورنامنٹ کا آغاز کرنے والی پاکستان ٹیم بھارت سے اس میدان میں شکست کھا کر ایسی گری کہ پھر سنبھل نہ سکی اور بالآخر اسے خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔

    بھارت نے ورلڈ کپ میں اپنی مہم کا آغاز اور اختتام آسٹریلیا کے ساتھ ہی کیا۔ چنئی میں اپنے افتتاحی میچ میں میزبان ٹیم نے کینگروز کو آسان ہدف بنانے کے بعد سامنے آنے والی ہر ٹیم کو تر نوالہ سمجھا۔ پھر چاہے سامنے جنوبی افریقہ آیا یا نیوزی لینڈ، پاکستان آیا یا سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان، نیدر لینڈ یا پھر دفاعی چیمپئن انگلینڈ۔ بھارت نے سب کے ساتھ یکساں برتاؤ روا رکھا اور تمام ٹیموں کو روندتے ہوئے فائنل فور میں ناقابل شکست ٹیم کے طور پر جگہ بنائی۔

    آسٹریلیا نے میگا ایونٹ میں اپنی ابتدا دو شکستوں کے ساتھ کی۔ بھارت کے بعد جنوبی افریقہ سے ہارنے کے بعد 5 بار کی سابق عالمی چیمپئن ٹیم اور اس کے قائد پیٹ کمنز کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں تجزیے اور تبصرے ہونے لگے، لیکن مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی ہار نہ ماننے اور گر کر اٹھنے اور پھر فتح یاب ہونے کے ہنر سے آگاہ کینگروز سری لنکا کے خلاف فتح یاب ہو کر جیت کا جو سفر شروع کیا تو فائنل تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور فائنل میں بھارت کو شکست دے کر ابتدائی شکست کا حساب کتاب بھی چکتا کر دیا۔

    ورلڈ کپ کے پورے ایونٹ میں بھارتی سر زمین پر جہاں دیگر ملکوں کے بولرز کو مخالف بیٹرز کو آؤٹ کرنے میں جہاں قدرے مشکلات پیش آئیں وہاں بلیو شرٹس کے فاسٹ بولرز ہوں یا اسپنر یا میڈیم پیسر سب کے سب ہی کامیاب رہے جس پر ہمارے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے ایک نجی ٹی وی شو میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ کر ڈالا کہ بھارتی بولرز کو میچ میں خاص گیند دی جاتی ہے اس لیے وہ کامیاب رہتے ہیں تاہم اس مفروضے کو سنجیدہ خیال کرکٹ طبقے نے اہمیت نہ دی یوں یہ بات تو آئی گئی ہوگئی۔ تاہم بھارت اور نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل کے موقع پر برطانوی میڈیا کے اس انکشاف نے ہلچل مچا دی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارت نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے سیمی فائنل کی پچ کو تبدیل کرایا اور اپنے مفاد میں سلو پچ پر میچ کھیلا جس میں وہ کیویز کو 70 رنز سے شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی۔

    دنیائے کرکٹ میں ابھی پچ تنازع کی گونج تھی کہ بھارتی کپتان کے اپنے میچوں میں ٹاس کا سکہ قدرے دور پھینکنے کا ایک اور شور اٹھا جس نے بھی معاملات کو مشکوک بنایا لیکن اس حوالے سے بی سی سی آئی اور آئی سی سی تاحال خاموش ہیں۔

    تاہم ان سب میں پچ تنازع اتنی سنگین صورتحال اختیار کر گیا کہ خود انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو میدان میں آنا پڑ گیا اور اس نے کہا کہ میزبان ٹیم کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی پچ استعمال کر سکے۔ آئی سی سی کی یہ وضاحت اپنی جگہ مگر پچ تنازع کے بعد جس طرح فائنل میں بھارت کے شیر کینگروز کے آگے گھر میں ہی ڈھیر ہوگئے اس نے اس تنازع کی چنگاری کو بھڑکا دیا اور اب خود سابق بھارتی کھلاڑی، کمنٹیٹرز اور اسپورٹس صحافی اپنے مفاد کے لیے پچ کا سہارا لینے والی بھارتی ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

    میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق بھارت نے اپنے اسپنرز کے ذریعے کینگروز کو قابو کرنے کے لیے پچ خشک رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن حریف کپتان پیٹ کمنز بھارتیوں کی سوچ سے کہیں زیادہ سیانے نکلے کسی اور نے پچ تبدیلی تنازع پر کان دھرے یا نہ دھرے لیکن پیٹ کمنز نے اس کو لگتا ہے اتنی سنجیدگی سے لیا کہ فائنل میچ سے ایک روز قبل پچ معائنے کے دوران اپنے موبائل فون کے ذریعے پچ کی تصویریں لے لیں اور پھر ٹاس ہوا تو بیٹنگ کے بجائے فیلڈنگ کا دلیرانہ فیصلہ کرکے سب کو حیران اور بھارت کو خود اس کے بچھائے گئے شکنجے میں کس دیا۔

    سابق بھارتی کھلاڑی اور موجودہ کمنٹیٹر آکاش چوپڑا نے تو فائنل کے نتیجے کے بعد واضح کہہ دیا کہ ہم نے کھیل کے لیے غلط پچ کا انتخاب کیا اور بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے لیے بچھائے گئے پچ کے جال میں خود پھنس گئی۔ سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ، انگلش کپتان مائیکل وان اور ناصرحسین نے بھی پچ کی تیاری پر تنقید کی اور کہا کہ بھارت کی چال خود ان پر ہی الٹ گئی۔

    پچ تنازع پر ان ماہرین کی رائے کی روشنی میں اگر پورے ٹورنامنٹ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صورتحال بھارت کے میگا ایونٹ میں فائنل سے قبل تک ناقابل شکست رہنے کے اعزاز کو مشکوک بناتی ہے اور اس کی شاندار کامیابیوں کو بھی گہنا دیا ہے، کیونکہ بلیو شرٹس نے اس ورلڈ کپ میں جب بھی پہلے بیٹنگ کی وہاں رنز کے پہاڑ کھڑے کر دیے لیکن کینگروز کے سامنے بھارتی شیروں کا یوں بھیگی بلی بن جانا کسی کو آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا ہے یہی وجہ ہے اب ورلڈ کپ کے بعد اس میچ کا ہر پہلو سے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے

    کسی بھی ملک میں کھیل کا کوئی بھی ایونٹ ہو، اس ملک کے شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ٹیم فاتح بنے اور بھارت تو ورلڈ کپ میں نا قابل شکست چلا آ رہا تھا، جس کے باعث بلیو شرٹس کھلاڑیوں کا اعتماد اور شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھو رہی تھیں، لیکن جب نتیجہ امیدوں کے برعکس آیا تو ڈیڑھ ماہ تک ہنستے مسکراتے کھلاڑیوں کو دنیا بھر کے شائقین کرکٹ نے نم آنکھوں اور بجھے دل کے ساتھ گراؤنڈ سے باہر نکلتے دیکھا۔

    کھیل کوئی بھی ہو اس میں ایک ٹیم جیتتی اور دوسری ہارتی ہے۔ کھیلوں سے محبت کرنے والے ہار کو بھی حوصلے سے برداشت کرتے ہیں لیکن بھارتی شائقین نے اس ہار کے بعد اپنی روایات کو دہراتے ہوئے جو غیرمہذبانہ طریقہ اختیار کیا وہ ان کے خود کو کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم قرار دینے کے دعوے کے برعکس ہے کیونکہ اسپورٹس سے محبت کرنے والے تعصب نہیں کرتے بلکہ اچھا کھیلنے والوں کو داد دیتے ہیں اور شکست کو حوصلے سے برداشت کرتے ہیں تاہم بھارت کی ہار کے بعد دیکھا جا رہا ہے پورا انڈیا سوگ میں ایسا ڈوبا ہے کہ کرکٹ فینز غم کی حالت میں اپنے ہوش و‌ حواس ہی گنوا بیٹھے ہیں اسی لیے تو اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے اور پست ذہنیت کی انتہا کرتے ہوئے آسٹریلوی کھلاڑیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ اور ان کی فیمیلز کے خلاف اخلاق باختہ الفاظ اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    یہ رویہ اپناتے ہوئے بھارتی شائقین اپنی ٹیم کی بڑی فتوحات یاد کریں کہ 1983 ورلڈ کپ فائنل میں ویسٹ انڈیز، 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان، 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں سری لنکا کو ہرایا تو کیا مخالف ملکوں کے عوام نے بھارتیوں کو برا بھلا کیا تھا یا مہذب قوم کی طرح بہترین رویے کا مظاہرہ کرکے بھارت کی جیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا۔

  • ورلڈ کپ کی ٹیم آف دی ٹورنامنٹ کا اعلان، کیا پاکستانی کھلاڑی شامل ہے؟

    ورلڈ کپ کی ٹیم آف دی ٹورنامنٹ کا اعلان، کیا پاکستانی کھلاڑی شامل ہے؟

    لندن: ورلڈ کپ 2023 کے آسٹریلیا کی جیت کے ساتھ اختتام کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آ ئی سی سی ) نے ٹیم آف ٹورنامنٹ کا اعلان کر دیا۔

    آئی سی سی کی اعلان کردہ ٹیم میں ورلڈکپ کی رنر اپ ٹیم بھارت کے 6، آسٹریلیا کے 2، نیوزی لینڈ، سری لنکا، جنوبی افریقہ کے ایک ایک کھلاڑی شامل ہے جب کہ کوئی بھی پاکستان کھلاڑی اس ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔

    بھارت کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کو آئی سی سی ٹیم آف دی ٹورنامنٹ کا کپتان مقرر کیا گیا ہے ان کے علاوہ بھارت کے ویرات کوہلی، لوکیش راہول، رویندرجڈیجہ، جسپریت بمراہ اور محمد شامی ٹیم آف دی ٹارنامنٹ کا حصہ ہیں۔

    آئی سی سی فائنل کی چیمپئن آسٹریلیا کے میکسویل اور ایڈم زیمپا نے ٹیم میں جگہ بنائی ہے، نیوزی لینڈ کے ڈیرل مچل، جنوبی افریقہ کے کوئنٹن ڈی کاک اور سری لنکا کے مدوشنکا بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

    جنوبی افریقی آل راؤنڈر جیرالڈ کوٹزی بارہویں کھلاڑی کے طور پر منتخب کیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ آسٹریلیا آئی سی سی مینز ون ڈے ورلڈکپ کے فائنل میں ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست اور میزبان ٹیم بھارت کو 6 وکٹوں سے ہرا کر چھٹی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا۔

  • ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ اور کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کی افواہوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب حقیقت بن چکی ہیں اور صرف ٹیم کا قائد ہی نہیں بلکہ پوری ٹیم منیجمنٹ کی کایا پلٹ دی گئی ہے۔ لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ نئی نہیں بلکہ پرانی کہانی کو نئے چہروں سے سجایا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے چہرے کیا ایسا نیا کرتے ہیں کہ جس سے دم توڑتی کرکٹ کو نئی زندگی مل سکے۔

    کچھ عرصہ قبل تک پڑوسی ملک کا ایک ٹی وی سوپ ’’کہانی گھر گھر کی‘‘ کا بہت شہرہ تھا جو سازشوں، کھینچا تانی، بغض، نفرت، حسد اور دُہرے روپ کے چاٹ مسالہ کے ساتھ بالخصوص خواتین کا من پسند تھا، لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بھی کچھ اسی کی مثل ہو چلی ہے جہاں ’’کہانی ہر ورلڈ کپ کی‘‘ کی صورت میں ایسے ہی ‘لوازمات’ سے بھرپور ڈراما اسٹیج کر کے کرکٹ کے کرتا دھرتا چند چہروں کو ادھر سے اُدھر سرکاتے ہیں اور اپنے آرٹیفیشل اقدامات پر واہ واہ سمیٹ کر کرسی کو مضبوط کرتے ہیں۔

    15 نومبر کا دن پاکستانی کرکٹ کا ہنگامہ خیز دن تھا، جب پی سی بی ہیڈ کوارٹر افواہوں اور خبروں کا مرکز رہا کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابر اعظم تینوں فارمیٹ کی قیادت سے خود دستبردار ہو گئے۔ شان مسعود ٹیسٹ اور شاہین شاہ ٹی 20 کے لیے ٹیم کے کپتان بنا دیے گئے۔ مکی آرتھر جنہیں گزشتہ پی سی بی منیجمنٹ ان کی شرائط پر لائی اور ان کے لیے ٹیم ڈائریکٹر کا عہدہ تخلیق کیا گیا لیکن پی سی بی نے جب ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی پر پورے کوچنگ اسٹاف کو ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹیم ڈائریکٹر کی کرسی پر محمد حفیظ کو براجمان کر دیا گیا یہ وہی حفیظ ہیں جن کی گزارشات کو اسی پی سی بی انتظامیہ نے ورلڈ کپ سے قبل درخور اعتنا نہ سمجھا جس کی وجہ سے وہ ٹیکنیکل کمیٹی چھوڑ گئے تھے۔ بولنگ کوچ مورنی مورکل کا پی سی بی کو قبل از وقت چھوڑ جانا تو پرانی بات ہو چکی ان کی جگہ اب عمر گل کا نام لیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے چند روز قبل توصیف احمد کی قیادت میں بنائی گئی اپنی ہی عبوری سلیکشن کمیٹی کو ختم کر دیا اور جلد نئی سلیکشن کمیٹی بنانے کی نوید بھی سنا دی۔

    یہ سب تبدیلیاں پاکستان کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ کہانی 1996 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی ہے جو چہروں کی تبدیلی اور اسکرپٹ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ مسلسل دہرائی جا رہی ہے لیکن ہر چار سال بعد تبدیلی کتنی سود مند ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے ہی ہو جانا چاہیے ہم ہر چار سال بعد پرانی پوزیشن پرکھڑے ہوتے ہیں اور پھر نئی تبدیلیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    1996 سے 2023 تک کرکٹ معاملات اور ہر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پر نظر ڈالیں تو وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شاہد آفریدی، مصباح الحق، سرفراز احمد اور اب بابر اعظم کو قیادت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ درجنوں کھلاڑیوں کے کیریئر پر فل اسٹاپ لگ گیا یا لگا دیا گیا جن میں سعید انور بھی شامل ہیں جنہیں 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد جب باہر کیا گیا تو ان کی آخری اننگ روایتی حریف بھارت کے خلاف سنچری سے سجی ہوئی تھی۔ اس دوران کرپشن الزامات پر کمیشن بنے، کچھ کو سزائیں کچھ کو صرف سرزنش کی گئی لیکن جتنے تواتر کے ساتھ کرکٹرز کا احتساب کیا گیا اتنے تواتر کے ساتھ بورڈ عہدیداروں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

    سوال تو یہ ہے کہ گزشتہ 27 سال سے ہر ورلڈ کپ کے بعد مستقبل مزاجی سے دہرائی جانے والی اس کہانی سے اب تک کیا مثبت نتائج ملے ہیں۔ اگر غور کریں تو اس سارے قضیہ میں ہمیشہ بورڈ انتظامیہ معصوم بنی رہتی ہے اور سارا نزلہ میدان میں موجود کھلاڑیوں اور ٹیم منیجمنٹ پر گرایا گیا، جب کہ اس عرصے میں کچھ فتوحات ملیں تو اس کا کریڈٹ پورا پورا بورڈ حکام نے لیا۔

    ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم پینک (خوف و ہراس) بٹن جلد دبا دیتے ہیں اور صورتحال کو اتنا پرخطر بنا کر پیش کرتے ہیں کہ پھر تبدیلیوں کا عوامی شور اٹھتا ہے جس کی گرد میں بعض اوقات اصل ذمے دار چھپ جاتے ہیں۔

    یہ درست کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی جس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن اسی ورلڈ کپ کو دیکھیں دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی کارکردگی ہماری ٹیم سے بھی زیادہ خراب تھی تاہم وہاں کسی نے خوف وہراس نہیں پھیلایا۔ 2007 میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت بھی شرمناک انداز میں پہلے ہی راؤنڈ میں بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوا لیکن وہاں قیامت نہیں آئی اور نہ ہی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ دھونی پر اعتماد برقرار رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بھارتی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان بن گیا اور بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ون ڈے کا عالمی چیمپئن بھی بنوایا۔ جب 2003 میں جنوبی افریقہ کے پولاک سے قیادت لی گئی تو 22 سالہ گریم اسمتھ کو کپتان بنایا گیا جو مسلسل 11 سال تک کپتان رہے۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے دو ون ڈے ورلڈ کپ اور 4 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلے لیکن ایک بھی نہ جیت سکے لیکن کسی نے ٹی وی پر بیٹھ کر اسمتھ یا پوری ٹیم کو باہر کرنے کے مطالبے نہیں کیے۔ ایسی کئی مثالیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی بڑی کرکٹ ٹیموں سے بھی جڑی ہیں۔

    بات یہ ہے کہ جن ممالک کا ذکر کیا گیا وہاں کرکٹ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا اور اس کی ترقی کے لیے ایک مستقل اور مربوط پالیسی مرتب کی گئی جس پر ہر دور میں من وعن عمل کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی سیاست پوری طرح متحرک ہے۔ دیگر ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حکمران بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے جب کہ ہمارے یہاں تو حکومت تبدیل ہوتے ہیں بورڈ میں چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور پھر جس طرح ملکی پالیسیوں پر یوٹرن لیا جاتا ہے اسی طرح کرکٹ کے معاملات بھی من مانے انداز میں صرف اس سوچ کے تحت چلائے جاتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ہماری کرسی مضبوط اور محفوظ رہے اور اس کے لیے کرکٹ کے کھیل سے کھیل کھیلا جاتا ہے۔

    کرکٹ میں سیاسی مداخلت کا شاخسانہ سری لنکا کرکٹ کو بہت مہنگا پڑا ہے اور آئی سی سی نے حال ہی میں لنکا کرکٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک الارمنگ صورتحال بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں ایسے حریف بھارت کا سامنا ہے جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے باز نہیں آتا، جب کہ آئی سی سی جو بھارتی خوشنودی کے لیے بعض اوقات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل کا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے، ان کا گٹھ جوڑ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے نئی مشکل لا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ کرتا دھرتاؤں کو خواب غفلت اور ذاتی مفادات سے نکل کر ہوش مندی سے صرف اور صرف کی کرکٹ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ سیاست نہیں ایک کھیل ہے اور اس کو کھلاڑی ہی اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ہمیں میرا چیئرمین تیرا چیئرمین کی پالیسی سے نکلنا ہوگا اس لیے کرکٹ میں اصلاح احوال کے لیے بڑوں سے یہی گزارش ہے کہ کرکٹ کو کھیل سمجھیں اس کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں اور جینٹلمین گیم کے لیے جینٹل مین فیصلے کریں کہ اگر روش نہ بدلی تو پھر ’’تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘

  • ورلڈ کپ کے بعد غیر ملکی کوچ نے پی سی بی سے راہیں جدا کر لیں

    ورلڈ کپ کے بعد غیر ملکی کوچ نے پی سی بی سے راہیں جدا کر لیں

    ورلڈ کپ میں پاکستان کی بدترین کارکردگی کے بعد جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے قومی ٹیم کے بولنگ کوچ مورنی مورکل نے پی سی بی سے راہیں جدا کر لیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر ناکامی کے ساتھ ختم ہوتے ہی قومی ٹیم کے بولنگ کوچ مورنی مورکل نے پی سی بی کے ساتھ اپنا سفر ختم کر دیا۔

    مورنی مورکل نے پاکستان کرکٹ بورڈ کواپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے اور وہ قومی ٹیم کی ذمے داریوں سے علیحدہ ہو کر اپنے ملک جنوبی افریقہ ٹی ٹوئنٹی لیگ میں مصروف ہو گئے ہیں۔

    جنوبی افریقہ کے سابق فاسٹ بولر مورنی مورکل کا پی سی بی کے ساتھ رواں سال جون میں 6 ماہ کا کوچنگ معاہدہ ہوا تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم کے بولنگ کوچ کے لیے سابق پاکستانی پیسر عمر گل مضبوط امیدوار ہیں۔

    واضح رہے کہ مورنی مورکل کی کوچنگ کے دوران پاکستانی بولرز کی کارکردگی عروج سے زوال کی جانب گامزن ہوئی اور گزشتہ دو ماہ کے دوران ایشیا کپ کے بعد کرکٹ کے سب سے بڑے عالمی میلے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی بولنگ اٹیک کا پول کھل گیا۔

     

    دنیا کا سب سے مضبوط قرار دیے جانے والے بولنگ اٹیک کے سامنے نیوزی لینڈ نے 401 رنز اسکور کیے جب کہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ سمیت کئی ٹیموں نے متعدد بار 300 سے زائد رنز اسکور کیا جب کہ دو بار تو پاکستان کی جانب سے بنائے گئے 300 سے زائد رنز کا دفاع کرنے میں پاکستانی بولرز ناکام رہے۔