Tag: وزن میں اضافہ

  • ماہ رمضان میں وزن گھٹنے کے بجائے بڑھتا کیوں ہے؟ آسان علاج

    ماہ رمضان میں وزن گھٹنے کے بجائے بڑھتا کیوں ہے؟ آسان علاج

    ماہ رمضان میں بہت سے لوگوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ ان کا وزن کم ہو جائے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

    روزے کی حالت میں پورے دن کچھ کھانا پیا نہیں جا سکتا پھر بھی کیا وجہ ہے جو ہر کسی کا وزن کم نہیں ہوتا بلکہ کچھ کا وزن تو پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے؟

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں آخر کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں! اگر آپ رمضان کے مہینے میں اپنی صحت کو درست رکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وزن زیادہ نہ بڑھے تو ڈاکٹر بلقیس کے اس نسخے کا استعمال کرسکتے ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں معروف ہربلسٹ ڈاکٹر بلقیس شیخ نے وزن میں اضافے کی وجوہات اور اس پر قابو پانے سے متعلق مفید مشورے دیئے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزن بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم سحر و افطار میں میٹھی اشیاء مثلاً کجھلا پھینی اور لال شربت اور جوسز جن میں بھرپور چینی شامل کی جاتی ہے بہت شوق سے اپنے دسترخوانوں پر سجاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس علاوہ افطار میں گھی اور تیل میں تیار کیے گئے پکوان جیسے پکوڑے سموسے، رول کچوری وغیرہ بھی وزن بڑھانے کی اہم وجوہات ہیں اور اس کے ساتھ زیادہ تر لوگ ورزش بھی نہیں کرتے۔

    ڈاکٹر بلقیس نے س مسئلے سے چھٹکارے کیلیے ایک نسخہ تیار کرکے بتایا ان کا کہنا ہے کہ یہ جادوئی نسخہ وزن میں کمی کیلیے بے حد مفید اور لاجواب ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 50گرام چھوٹی ہڑ کو دیسی گھی میں گرم کرکے پُھلا لیں، اور دوسری چیز ہے لونگ پیپر فلفل دراز۔ ان دونوں جڑی بوٹیوں کو ہم وزن لے کے اس کا پاؤڈر بنائیں اور رات کو سونے سے پہلے ایک چوتھائی چمچ پانی کے ساتھ لیں۔

    یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ دوا اس وقت کھانی ہے جب رات کا کھانا کھائے ہوئے تین گھنٹے گزر چکے ہوں، اس نسخے کے استعمال سے حیرت انگیز طور پر آپ کا وزن بہت تیزی سے کم ہوگا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ 

  • گرین ٹی کا استعمال اپنی مرضی سے نہ کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ !!

    گرین ٹی کا استعمال اپنی مرضی سے نہ کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ !!

    گرین ٹی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ وزن کم کرتی ہے لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز چائے زیادہ پینے سے یہ صحت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    وزن میں اضافہ انسانی صحت کے لیے کسی بھی لحاظ سے سودمند نہیں، جس سے چھٹکارا پانے کیلیے لوگ اپنی مرضی سے مختلف طریقے اور نسخے استعمال کرتے ہیں۔

    ان ہی نسخوں میں ایک نسخہ گرین ٹی پینا بھی ہے، اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر غذائیت حنا انیس نے سبز چائے کے فوائد اور نقصانات سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ سبز چائے نسبتاً چائے کی تمام اقسام سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں کیفین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے، اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جسمانی توانائی بڑھانے، ہاضمہ بہتر کرنے اور چربی گھلانے کا عمل تیز کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ صحت مند رہنے کیلئے روزانہ اس کا ایک کپ کافی ہے تاہم دن میں گرین ٹی کے دو کپ بھی پیے جاسکتے ہیں لیکن اگر اس سے زیادہ کپ پیے جائیں تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم اس کیلئے اپنے معالج سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔

    ایسے لوگ جن کے جسم میں فولاد کی کمی ہو اور خون نہ بنتا ہو انہیں بھی گرین ٹی سے گریز کرنا چاہئے، ایسے لوگ جنہیں نیند نہیں آتی انہیں بھی احتیاط برتنا ہوگی۔ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض کو اس سے دور رہنا بہتر ہے۔

    ماہر غذائیت حنا انیس نے کہا کہ دن میں 2 سے 3 کپ سبز چائے کے استعمال کرنے چاہئیں اس میں چینی بالکل نہ ہو اور اسے چولہے پر زیادہ دیر تک نہ پکایا جائے اس کے استعمال سے چند دنوں میں کافی حد تک وزن کم کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خشک کھانسی میں مبتلا افراد گرین ٹی بالکل نہ پئیں کیونکہ یہ گلے کو اور بھی خشک کردے گی، اس میں ادرک، ملیٹھی، اجوائن یا سونف ڈال کر پئیں تو اس سے ذائقہ اور بھی بہتر ہوجائے گا اور فائدہ مند بھی۔

     

  • کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    واشنگٹن: جسمانی وزن میں اضافہ کووڈ 19 کے لیے سازگار عنصر قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ زیادہ وزن کرونا وائرس کی سنگینیوں میں اضافہ کرسکتا ہے جبکہ کم وزن والے افراد میں یہ خطرہ کم ہے، اب اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر وزن میں کمی لاکر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں نمایاں کمی لانا کووڈ 19 سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسمانی وزن میں کمی لاتے ہیں تو بیماری کی پیچیدگیوں کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے قبل سرجری کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانے والے افراد میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر اپنے جسمانی وزن کو کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل کم کرلیتے ہیں تو سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ٹھوس شواہد فراہم ہوتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے مگر اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    تحقیق میں شامل 20 ہزار سے زیادہ افراد میں سے 5 ہزار نے اپنا جسمانی وزن سرجری کے ذریعے 2004 سے 2017 کے دوران کم کیا تھا اور ان کا موازنہ باقی 15 ہزار افراد پر مشتمل کنٹرول گروپ سے کیا گیا۔

    کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد ان افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح، اسپتال میں داخلے، آکسیجن کی ضرورت اور سنگین پیچیدگیوں کو دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح دونوں گروپس میں ملتی جلتی تھی مگر جسمانی وزن کم کروانے والی سرجری کے عمل سے گزرنے والے افراد میں بیماری کے بعد کے نتائج دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ وزن کم کرنے والے مریضوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ 49 فیصد، آکسیجن کی ضرورت کا امکان 63 فیصد اور بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ جسمانی وزن میں کمی لانا کووڈ کے مریضوں کو جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران جسمانی وزن میں کمی کو عوامی صحت کی حکمت عملی بنا کر بہتری لاسکتے ہیں۔