Tag: وزیراعظم

  • عمران خان: کپتانی سے وزارت عظمیٰ تک، کامیابیوں کی حیران کن کہانی

    عمران خان: کپتانی سے وزارت عظمیٰ تک، کامیابیوں کی حیران کن کہانی

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ، تحریک انصاف ک سربراہ عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

    آئیں، ملک کے منتخب وزیر اعظم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں.

    ذاتی زندگی

    عمران خان 25 نومبر 1952 کو لاہورمیں پیدا ہوئے۔ تعلق نیازی قبیلے سے ہے۔ بچپن میانوالی میں گزرا۔  وہ ایچی سن کالج، لاہور میں زیر تعلیم رہے۔پھر برطانیہ کا رخ کیا۔ وہاں اوکسفرڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔اوکسفرڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔

    انھیں کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جس میں صدراتی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی جمائما خان سے، دوسری ریحام خان سے۔ ابتدائی دونوں شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں۔ انھوں نے تیسری شادی بشری بی بی سے کی۔عمران خان نے اپنے حالات زندگی کو کتابی شکل بھی دی، جو بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ ان کی زندگی پر فلم اور ڈاکومینٹرزی بھی بنائی گئیں۔

    کرکٹ‌ کے میدان اور شوکت خانم

    یہ کرکٹ کا میدان تھا، جہاں بین الاقوامی شہرت نے قدم چومے۔انھوں نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر کا آغاز 1969 میں کیا، 1971 میں انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔پاکستان کو 1992 کا عالمی جتوانا ان کا بڑا کارنامہ تھا۔

    ان کا شمار پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے، جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت اور انگلینڈ کو ان کی سرزمین پر ہرایا۔

    کرکٹ کے بعد سماجی خدمات کے میدان میں نام کمایا۔ کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور میں شوکت خانم میموریل اسپتال بنانا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔

    سیاسی اننگز کا آغاز

    انھوں نے 25 اپریل 1996کو تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی کوششوں میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔2002 کے الیکشن میں وہ صرف میانوالی سے جیت سکے۔ 2008 میں انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔

    2013 میں ان کی جماعت ایک بڑی قوت اختیار کر چکی تھی ۔اس الیکشن مہم کے دوران وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔

    انتخابات کے بعد پی ٹی آئی ن لیگ کے بعد مقبول ترین جماعت ٹھہری۔ اس نے خیبرپختون خواہ میں حکومت بنائی اور بڑی اپوزیشن جماعت بن کر ابھری۔انھوں نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا۔

    بعد ازاں انھوں نے دھرنوں اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے منتخب حکومت کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔پی ٹی آئی ہی نے پاناما کیس کو ہائی لائٹ کیا، جس کی وجہ سے نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔

    انتخابات 2018 میں‌ عمران خان کی قیادت میں‌پی ٹی آئی نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی، عمران خان اپنے پانچوں حلقوں‌ سے کامیابی حاصل کی.

  • عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ، تحریک انصاف ک سربراہ عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔

    تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ووٹنگ میں 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف نے  96 ووٹ حاصل کیے۔


    لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ


     شام 5:38: عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب ہوگئے

    شام 5:30: وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل ختم ہوگیا، ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

    شام 5:07:  شہباز شریف کی آخری لمحات میں پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش، بلاول بھٹو کی نشست پر گئے اور ووٹنگ میں حصہ لینے کی درخواست کی، لیگی رہنما بھی ساتھ موجود تھے، پیپلز پارٹی اپنے فیصلے پر برقرار

    شام 4:57:  ممبران رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کرکے دائیں اور بائیں پولنگ کے لیے مختص کی گئی  لابیوں میں جارہے ہیں ، دائیں ہاتھ والی لابی میں عمران خان کے حق میں ووٹنگ ہوگی اور بائیں ہاتھ کی لابی میں شہباز شریف کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔

    پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکانِ اسمبلی پولنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

    شام 4:51: اسپیکر نے وزارتِ عظمیٰ کے امیداروں کےنام کا اعلان کیا، تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف میدان میں ہیں، ایوان کو ووٹنگ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

    شام 4:41 : اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے ارکان کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے دہی کے لیے مروجہ طریقہ کار سے آگاہ کیا، اور اس کے اصول و ضوابط بیان کیے۔

    شام 4:35: اسپیکر اسد قیصر نے گیلری میں موجود مہمانوں سے گزارش کی کہ نعرے بازی سے گریز کیا جائے ، اور گیلری کے راستے خالی کیے جائیں۔

    شام 4:26: اسپیکر اسد قیصر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ، ان کے آتے ہی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوگیا

     سہ پہر3:39: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف، اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے

     

    پاکستان کے وزرائے اعظم


    قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے رفیق نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم نامزد کیا جنہوں نے 15اگست 1947 ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہیں 16اکتوبر1951ء کو اس وقت کے کمپنی باغ اور آج کے لیاقت باغ راولپنڈی میں قاتل سید اکبرعلی نے گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

    ان کے بعد پاکستان کا دوسرا وزراعظم خواجہ ناظم ا لدین کو بنایا گیا جو اس وقت قائد کی وفات 1948ء کے باعث ان کے خالی ہونے والی نشست پر 14ستمبر1948ء کو بحثیت گورنر جنرل پاکستان مقرر ہوئے او رنوبزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 19 اکتوبر1951ء کو ملک کے دوسرے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کی نرم دلی کے باعث حکومت کو بہت سے مشکل مسائل سے دوچار ہونا پڑا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد نے 17اپریل1953ء کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔

    ان کی جگہ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا جنہوں نے 18اپریل1953ء کو حلف اٹھایا۔ ان کا تمام عرصہ گورنر جنرل کے زیر سایہ اطاعت میں گزرا۔ وہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کوئی اسمبلی ہی نہیں تھی۔ ان کے دور میں ہی نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی۔ اسمبلی منتحب ہونے پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئی کابینہ بنانے میں ناکام ہونے پر 11اگست1955ء میں مجبوراً مستعفی ہو گئے۔

    پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر چوہدری محمد علی نے 11اگست کو ہی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 12ستمبر1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے ہی دور میں مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا۔ انہوں نے حکومت سے اختلافات کے باعث 8ستمبر کو استعفیٰ دے دیا۔

    ان کے بعد پانچویں وزیر اعظم کی حیثیت سے سید حسین شہید سہر وردی کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے نامزد کیا۔ انہوں نے 12ستمبر1956ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن گورنر جنرل اسکندر مرزا سے اختلافات اور ان کی بے ایمانی کے باعث کیونکہ اس نے 24اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی بجائے اسمبلی توڑ دی اور یوں ان کا دور ختم ہوا۔

    پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم کے طور پر اسماعیل ابراہیم چندریگر نے 18اکتوبر کو حلف اٹھایا وہ حکومتی جماعت سے اختلاف کے باعث گیارہ دسمبر1957 ء کو از خود مستعفی ہو گئے۔

    ان کے بعد 16 دسمبر1957 ء کو ملک فیروز خان نون نے ساتویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔ اسکند ر مرزا سے اختلافات شدید ہونے کے باعث ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کرتے ہوئے ملک فیروز خان نون کی حکومت ختم کرکے 8 اکتوبر کو ملک میں مارشل لانافذ کر دیا اور 1956 ء کا آئین منسوخ کر دیا۔ اس طرح وہ پاکستان کے پہلے پارلیمانی دور کے آخری وزیر اعظم بھی تھے۔

    آٹھ اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان جو اس وقت افواج پاکستان کے سربراہ تھے نے چیف ماشل لا ایڈمنسٹریٹر اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ سربراہ مملکت کے طور پر اسکندر مرزا کو برقرار رہنے دیا۔ 24اکتوبر کو اسکندر مرزا نے جنرل محمد ایوب خان کو با ضابطہ طور پر پاکستان کا آٹھواں وزیر اعظم نامزد کر دیا ان کا یہ عہدہ 2نومبر 1958تک برقرار رہا۔ 2نومبر1958ء کو اسکندر مرزا کو جبراً ملک بدر کر دیا گیا اور ایوب خان نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا جو 25مارچ1969ء تک برقرار رہا۔ عوامی دباؤ اور احتجاج کے باعث انہوں نے مجبوراً عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحیٰ خان نے لے لی اور نورالامین کو7دسمبر1971ء کو پاکستان کا نواں وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔

    قومی اسمبلی کے انتخابات دسمبر1970 میں مکمل ہو چکے تھے، اس کے باوجود جنرل یحیےٰ خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا۔ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جس کے باعث 16دسمبر1971کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس طرح نورالامین 7دسمبر سے 22دسمبر تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ صرف چودہ دن ان کی وزارت قائم رہ سکی۔

    اس کے بعد پاکستان کے دسویں وزیراعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے 21دسمبر کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ان کے ہی نامزد کردہ سربراہ افواج پاکستان ضیاء الحق 4اور 5جولائی1977ء کی درمیانی شب بھٹو حکومت کو ختم کرکے ملک میں ایک بار پھر ماشل لا نا فذ کر دیا اور نوے دن میں الیکشن کرانے کے اعلان کے باوجود ضیاالحق نے انتخابات مقررہ وقت پر نہ کرائے ۔

    سنہ 1985 ء میں غیر جماعتی الیکشن کرائے گئے جس کے بعد رکن قومی اسمبلی محمد خان جونیجو سے30مارچ1985ء کو بحثیت وزیر اعظم حلف لیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے29مارچ1988ء کو نہ صرف محمد خان جونیجو کو برطرف کر دیا بلکہ تمام اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔

    پاکستان کے بارہویں وزیر اعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔6اگست 1990ء کواس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر پر بدعنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات عائد کرکے نہ صرف انہیں بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیاں بھی برخاست کر دیں۔

    ان کے بعد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باعث بطور وزیر اعظم2نومبر 1990ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا جو ان سے صدر غلام اسحاق خان نے لیا۔ میاں محمد نواز شریف کا پہلا دور حکومت اسحاق خان سے اختلافات کے باعث ان کی برطرفی پر 17اپریل1993ء کو اختتام پذیر ہوا۔

    سنہ 1993 انتخابات میں محترمہ بے نطیر بھٹو کے منتخب ہونے کے باعث19اکتوبر کو اقتدار محترمہ کو منتقل کر دیا۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر پاکستان کی 17 وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن خود ان کی پارٹی کے صدر فاروق احمد لغاری نے بد عنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات لگا کر ان کی مدت پوری ہونے سے بہت پہلے انہیں اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی رخصت کر دیا ۔

    سنہ 1997 میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو دوسری مدت کیلئے سونپ کر رخصت ہوئے لیکن اکتوبر1999 ء میں میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والے اختلافات نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا اور انہیں جبری طور پر حکومت سے نکال دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کراکر پارلیمنٹ تشکیل دی۔

    سنہ 2002 میں وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے نام وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال نکلا تاہم جلد ہی مسلم لیگ کی قیادت سے اختلاف کے باعث انہیں ہٹا کرمسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے مختصر مدت کے لیے وزیراعظم کے طور پرحلف لیا ۔

    ا سکے بعد شوکت عزیز نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا اور ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے اور اپنی مدت جو پارلیمنٹ سے مشروط تھی پوری ہونے پر رخصت ہوئے۔

    سنہ 2208 کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی 25مارچ2008ء سے 2012ء تک آئینی وزیر اعظم رہے۔ ان کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں جون2012ء میں نااہل قرار دیا جس کے بعد وہ عہدے پر برقرار نہ رہے۔

    گیلانی کی برطرفی سے اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے جو22جون2012ء سے2013ء تک اس عہدہ پر رہے۔

    نواز شریف وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تین بار وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی تا ہم تینوں بار وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔تیسری بار وہ 5جون 2013ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔سپریم کورٹ نے پانامہ لیک اسکینڈل کیس میں انہیں62اور63کے تحت 28جولائی کو نااہل قرار دیا۔

    نواز شریف کی نا اہلی کے بعد قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو28ویں وزیراعظم کے طور پر یکم اگست2017ء کومنتخب کیا جو کہ اپنے عہدے کی مدت 31 مئی 2018 کو ختم کرکے رخصت ہوگئے۔

    نگراں وزرائے اعظم


    اس تمام عرصے میں حکومتوں کے خاتمے پر نگراں حکومتیں قائم ہوتی رہیں جن کی نگرانی کے لیے نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے، اس عہدے پر سب سے پہلے غلام مصطفیٰ جتوئی فائز ہوئے ، اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی، معراج خالد، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسو، اور ناصر الملک بالترتیب فائز رہے۔

    نگراں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا کام صرف یہ ہوتا تھا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت تک انتقالِ اقتدار کے عرصے میں ملک کا نظم و نسق سنبھالے رکھا جائے اور بروقت انتخابات کا انعقاف ممکن بنایا جائے۔

  • اگلا وزیراعظم کون ہوگا ؟ عمران خان یا شہباز شریف، فیصلہ آج ہوگا

    اگلا وزیراعظم کون ہوگا ؟ عمران خان یا شہباز شریف، فیصلہ آج ہوگا

    اسلام آباد : پاکستان کی تاریخ کا ایک اور بڑا دن، آج بائیسویں وزیراعظم کا انتخاب ہوگا، جس میں پی ٹی آئی کے عمران خان اور نون لیگ کے شہبازشریف میں ون ٹو ون مقابلہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں جمہوریت اہم سنگ میل عبور کرنے جارہی ہے، مسلسل تیسری بار اقتدار کی منتقلی جمہوری انداز میں ہورہی ہے۔

    قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے تین بجے شروع ہوگا، جس میں اگلے وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے گا، انتخاب آئین کے آرٹیکل91 کی شق4 کے تحت کیا جائے گا۔

    وزیراعظم کے مضبوط امیدوار عمران خان ہیں جبکہ ان کے مد مقابل ن لیگ کے امیدوار شہباز شریف ہیں۔

    اسپیکراسد قیصر وزیراعظم کا انتخاب کنڈکٹ کریں گے، انتخاب سے قبل اراکین کو بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جائیں گی، عمران خان کے حامی اراکین اسپیکر کے دائیں جانب جبکہ شہباز شریف کےحامی اسپیکرکے بائیں جانب رجسٹر پر اندراج کریں گے۔

    نمبر گیم میں تحریک انصاف مجموعی طور پر ایک سو اننچاس نشستوں کے ساتھ ایوان زیریں میں سب سے آگے ہے جبکہ اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان کی حمایت نے پی ٹی آئی کا میجک نمبر ایک سوستتر تک پہنچا دیا ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان باآسانی پہلے ہی راؤنڈ میں حتمی اکثریت حاصل کرلیں گے، ن لیگ بتائے اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں، پی ٹی آئی کسی جماعت میں فارورڈ بلاک نہیں بنائے گی۔

    مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں اسی ارکان کے ساتھ انتہائی کمزور پوزیشن ہے، اتحادی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نےبھی ن لیگ کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔


    مزید پڑھیں : شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے ووٹ نہیں دیں گے، چوہدری منظور


    جس کے بعد مسلم لیگ ن کے وزیراعظم کا انتخاب جیتنا مزید مشکل ہوگیا اور ایوان میں پیپلز پارٹی 53 نشتیں کم ہوجانے کے بعد ہم خیال جماعتوں کے ارکان کو ملا کر بھی ان کے پاس 100 ارکان موجود نہیں ہیں۔

    خیال رہے وزیراعظم کی نشست کےحصول کے لیے قومی اسمبلی اجلاس میں پہلی بار ووٹنگ کے دوران کامیابی کے لیے امیدوار کو 172ووٹ لینا ہوں گے، امیدوار اگر 172 ووٹ نہ لے سکا تو دوبارہ پولنگ ہوگی ، دوبارہ پولنگ میں جو امیدوار اکثریت لے گا وہی کامیاب قرار پائے گا۔

    امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ18اگست کو ایوان صدر میں صدر ممنون حسین نئے وزیراعظم سے حلف لیں گے۔

    عمران خان

    عمران خان نے اپریل 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، اس وقت فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت ختم کردی، جس کے بعد انتخابات میں پی ٹی آئی بری طرح ہاری، 2002 کے الیکشن ہوئے تو عمران خان صرف اپنی سیٹ نکال سکے اور پی ٹی آئی کو پھر بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    سال 2008 میں مشرف نے پیپلزپارٹی اور پی ایم ایل این سے ڈیل کرلی، جس کے بعد پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی لیکن عمران خان ڈٹے رہے اور دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہے۔

    سال 2011 میں پی ٹی آئی کو عوامی مقبولیت کا عروج ملنا شروع ہوا اور اکتوبر کے مینار پاکستان لاہور کے جلسے نے ہوا کا رخ بدل دیا۔

    پی ٹی آئی نے زبردست انتخابی مہم چلائی لیکن اس دوران ایک ہولناک حادثہ پیش آیا ، عمران خان ایک بلند اسٹیج سے گر کر شدید زخمی ہوگئے قومی امید تھی کہ کپتان بازی مار لے گا لیکن 2013 کے انتخابات میں زبردست دھاندلی کی شکایاتیں سامنے آئیں،اس وقت کے صدر آصف زرداری نےخود ان انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قراردیا۔

    عمران خان نے ہار نہ مانی اور دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوئے، اسلام آباد میں ایک سو چھبیس دن کے دھرنے نے حکمرانوں کےہوش اڑا دیے۔

    دھرنا ختم ہوا تو ن لیگ کی حکومت پانامہ کیس میں پھنس گئی ، سپریم کورٹ سے نااہلی کی سزا کے بعد نواز شریف اوران کی بیٹی کو اڈیالہ جیل کا منہ دیکھنا پڑا۔

    کپتان کی بائیس سالہ جدوجہد کے بعد پچیس جولائی کا دن ایک اور بڑی کامیابی لایا اور عمران خان جیت گئے۔

    شہباز شریف

    شہباز شریف کا سیاسی سفر 30 سال پر محیط ہے، انھوں نے 1988 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، 1990ءکے انتخابات میں شہباز شریف این اے 96 کی نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993 میں ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کی نشست جیت کر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالا۔

    سال 1997 شہباز شریف پہلی بار وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، بارہ اکتوبر 1999ءمیں مشرف مارشل لاءکے باعث انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا، پرویز مشرف اور بے نظیر کے این آر او کے نتیجے میں شریف خاندان کو وطن واپسی کا ٹکٹ ملا۔

    سال 2008 کے عام انتخابات میں نون لیگ پنجاب میں فاتح قرار پائی اور شہباز شریف دوسری بار وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا، 2013 کے عام انتخابات میں بھی ن لیگ نے کامیاب ہوئی اور تیسری مرتبہ شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کا صدر بنایا گیا اور 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

  • وزیراعظم کے لئے عمران خان اورشہبازشریف میں ون ٹو ون مقابلہ ہوگا

    وزیراعظم کے لئے عمران خان اورشہبازشریف میں ون ٹو ون مقابلہ ہوگا

    اسلام آباد : ملک کے نئے وزیراعظم کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف میں ون ٹو ون مقابلہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے لئے کاغذات جمع کرانے کا وقت ختم ہوگیا، وزیراعظم کے لئے عمران خان اور شہباز شریف میں ون ٹوون مقابلہ ہوگا۔

    سیکرٹری قومی اسمبلی 3بجے تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کریں گے، جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد امیدواروں کا اعلان کیا جائے گا۔

    عمران خان اور شہباز شریف کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔


    مزید پڑھیں: وزارت عظمیٰ کے لئے عمران خان کے کاغذات نامزدگی جمع


    عمران خان کے 10ارکان تجویز اور تائید کنندگان ہیں ، تجویز تائید کنندہ میں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے شامل ہیں۔

    شہبازشریف کے 7 تجویز اور تائید کنندگان میں ن لیگ اور جے یو آئی شامل ہیں، پیپلزپارٹی نے شہباز شریف کا تجویز یا تائید کنندہ بننا پسند نہیں کیا۔


    مزید پڑھیں : شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیے


    ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب کل سہ پہر ساڑھے 3بجے ہوگا، قومی اسمبلی کے قواعد کے تحت انتخاب ڈویژن کے ذریعے ہوگا۔

    اجلاس میں اراکین اسمبلی اپنے ووٹوں کے ذریعے وزیر اعظم کا انتخاب کریں گے، امیدوار کو سادہ اکثریت نہ مل سکی تو دوسرے مرحلے میں دوبارہ ووٹنگ ہوگی،اسپیکر گنتی کے بعد امیدوارں کوملنے والے ووٹوں کا اعلان کریں گے۔

    ذرائع کے مطابق یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ18اگست کو ایوان صدر میں صدر ممنون حسین نئے وزیراعظم سے حلف لیں گے۔

  • ایم ایم اے کا وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا عندیہ

    ایم ایم اے کا وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا عندیہ

    لاہور : پیپلزپارٹی کے بعد ایم ایم اے نے بھی وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا عندیہ دے دیا، ایم ایم اے کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے اے پی سی کے فیصلوں سے روگردانی کی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے اتحاد میں پھوٹ پڑگئی، پیپلزپارٹی کےبعد ایم ایم اے بھی ن لیگ سے منحرف ہوگئی، ایم ایم اے نے وزیراعظم کے لئے نامزد امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    ایم ایم اے کا مؤقف ہے کہ ن لیگ نے اے پی سی کے فیصلوں سے روگردانی کی۔

    ایم ایم اے کے رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے ووٹ کے لئے جماعت اسلامی پابند نہیں، اپوزیشن کو واضح اور دو ٹوک ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔


    مزید پڑھیں : شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے ووٹ نہیں دیں گے، چوہدری منظور


    گزشتہ روز پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان سامنے آیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ سے وزیراعظم کا امیدوار تبدیل کرنے کا مطالبہ کریں گے، شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیں گے۔

    قومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے دوران بھی دیکھا گیا کہ پیپلز پارٹی نے احتجاج کے دوران مسلم لیگ نواز کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

    پیپلزپارٹی رہنماچوہدری منظورنے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی مرضی کا امیدوار نہ آیا تو ہوسکتا ہے، ووٹنگ میں حصہ ہی نہ لیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم شہبازشریف کوووٹ نہیں دیں گے، زرداری صاحب رائیونڈ گئے تو شہبازشریف سے نہیں ملے۔

    دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی ہے اور کہا کہ شہباز شریف ہی اپوزیشن کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے امیدوار ہوں گے۔

    مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو قائل کرنے کی آخری وقت تک کوشش کی جائے گی کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کی حمایت کرے،  اگر پی پی نے ساتھ نہ دیا تو بھی عمران خان کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا۔

    خیال رہے وزیر اعظم کا انتخاب کل سہ پہر ساڑھے 3بجے ہوگا،عمران خان اور شہباز شریف کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔

  • صرف جمہوری طریقے سے آنے والی حکومت ہی ملکی مسائل حل کرسکتی ہے: شاہد خاقان عباسی

    صرف جمہوری طریقے سے آنے والی حکومت ہی ملکی مسائل حل کرسکتی ہے: شاہد خاقان عباسی

    کراچی: وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی ترقی کرے گا، تو پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان کی ترقی کراچی سے جڑی ہوئی ہے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی میں نئے انکیوبیشن سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری پیدائش کراچی کی ہے، این ای ڈی یونیورسٹی سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔

    [bs-quote quote=”کراچی میں آپریشن کے بعد جرائم کی شرح انتہائی کم ہوگئی، موجودہ حالات میں فیصلے کرنے بہت مشکل ہوگئے ہیں، تمام مشکلات کے باوجود حکومت نے ترقیاتی کام کئے، ملکی ترقی کے لئے جمہوری نظام کا تسلسل ناگزیر ہے” style=”style-2″ align=”center” author_name=”وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی”][/bs-quote]

    وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا، کراچی میں امن کی بحالی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے.

    وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے بعد جرائم کی شرح انتہائی کم ہوگئی، خوشی ہے کہ ہماری حکومت ہر ہفتے نئے منصوبے کاافتتاح کرتی ہے.

    انھوں نے کہا کہ تمام مشکلات کے باوجود حکومت نے بہت سے ترقیاتی کام کئے، صرف جمہوری طریقے سے آنے والی حکومت ہی مسائل کا حل نکال سکتی ہے.

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں فیصلے کرنے بہت مشکل ہوگئے ہیں، ملک میں جمہوری حکومت نہ ہوتی تو اتنی ترقی نہ ہوتی، سال میں بجلی کے متعدد منصوبے لگائے گئے ہیں، ملکی ترقی کے لئے جمہوری نظام کا تسلسل ناگزیر ہے.

    قبل ازیں وزیراعظم نے کراچی آمد کے بعد پاکستان کے پہلے ڈیپ سی کنٹینر پورٹ کا افتتاح کیا، اس دوران شان دار آتش بازی سے فضا جگمگا اٹھی۔


    نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ ہوگیا، 15 مئی کو اعلان ہوگا


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ن لیگ اتفاق رائے سے نئے صوبے بنانے کے حق میں ہے: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی

    ن لیگ اتفاق رائے سے نئے صوبے بنانے کے حق میں ہے: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی

    بہاولپور: سیاسی فیصلےعدالتیں نہیں، عوام کرتے ہیں، ہم عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، مگر انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔

    ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بہاولپور میں عمائدین اور ن لیگی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انھوں نے کہا کہ سیاسی فیصلے عوام کو کردیں۔

    [bs-quote quote=”ایم پی ایز بیچنے اور خریدنے والوں نے مل کر چیئرمین سینیٹ بنایا، جولائی میں عوام فیصلہ کریں گے کہ گالم گلوچ کی سیاست چاہیے یاحق اورسچ کی” style=”style-2″ align=”left” author_name=”وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ ووٹ خریدنےاور بیچنےوالےملک کو کیاعزت دیں گے، جس پارٹی کا کوئی ایم پی اے نہ ہو، اس کا چیئرمین سینیٹ کیسے بن سکتا ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ایم پی ایز بیچنے اور خریدنے والوں نے مل کر چیئرمین سینیٹ بنایا، جولائی میں عوام فیصلہ کریں گے کہ گالم گلوچ کی سیاست چاہیے یاحق اورسچ کی۔

    انھوں نے کہا کہ کراچی کا امن ن لیگ کی حکومت نے بحال کیا، مشرف کے پاؤں میں بیٹھنے والے نئے صوبے کی بات کر رہے ہیں، ن لیگ اتفاق رائے سے نئے صوبے بنانے کے حق میں ہے، کام نہ کرنے پرعوام نے 2013 میں پی پی کوگھربھیج دیا تھا۔

    وزیراعظم نے کہا کہ پی پی اپنے 5 سال دورمیں ایک منصوبہ بھی مکمل نہ کرسکی، جو کام نہیں کرتا، اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، لوگوں پر450 ارب کرپشن کےالزام لگے لیکن 10سال تک فیصلہ نہ ہوا۔


    سیاست کے فیصلے عدالتوں میں ہونا اچھی روایت نہیں: وزیر اعظم


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • امیروں کیلئےکالادھن سفیدکرنےکی ایک اوراسکیم کااعلان آج متوقع

    امیروں کیلئےکالادھن سفیدکرنےکی ایک اوراسکیم کااعلان آج متوقع

    کراچی :  وزیراعظم شاہد خاقان  عباسی امیروں کے لئے کالا دھن سفید کرنے کی ایک اور ایمنسٹی اسکیم کا اعلان آج کریں گے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ملک اور بیرون ملک چھپائے گئے دونوں طرح کے اثاثوں کیلئے ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امیروں کیلئے کالا دھن سفید کرنے کی ایک اور اسکیم کا اعلان آج متوقع ہے، خفیہ اثاثے ظاہر کرنے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان وزیر اعظم کریں گے۔

    ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اکنامک ایڈوائزری کونسل کا اجلاس آج ہوگا، اکنامک ایڈوائزری کونسل کے اجلاس میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا حتمی جائزہ لیا جائے گا۔

    دو روز قبل ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر عدالت کی طرف سے گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں بنائی گئی خصوصی کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ جمع کرادی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ملک اور بیرون ملک چھپائے گئے دونوں طرح کے اثاثوں کیلئے ہوگی، بیرون ملک چھپائے گئے اثاثے 5فیصد ٹیکس دے کر قانونی کرائے جاسکیں گے اور ملک میں چھپائے گئے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے بھی 5فیصد ٹیکس دے کرقانونی ہوسکیں گے جبکہ چھپائے گئے نقد اثاثے بھی 5فیصد ٹیکس دیکر قانونی کرائے جاسکیں گے۔

    ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے خدوخال کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ اب کوئی بھی شخص بغیر این ٹی این کے فاریکس اکاونٹ نہیں کھول سکے گاجبکہ 1 لاکھ ڈالرسالانہ ترسیلات زر وصول کرنیوالوں کو ذرائع بتانا ہوں گے۔

    اسی طرح گاڑیوں کی درآمد کیلئے گفٹ اسکیم رجیم ختم کردی جائے گی، کوئی بھی شخص پراپر بینک ٹرانسفر کے ذریعے ٹیکس ادا کرکے گاڑی منگوا سکے گا۔

    دوسری جانب یکم جولائی 2018سے پراپرٹی کی ویلیو میں بھی اضافہ متوقع ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • اگلے وزیراعظم کا فیصلہ عدالتوں کا نہیں عوام کا ہونا چاہیے، مریم نواز

    اگلے وزیراعظم کا فیصلہ عدالتوں کا نہیں عوام کا ہونا چاہیے، مریم نواز

    فیصل آباد: مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا یہ فیصلہ کسی عدالت کا نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کا ہونا چاہیے، اب عوام کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

    فیصل آباد کے علاقے سمندری میں مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری محمد شریف  کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور لیڈر کے آنے جانے کا فیصلہ کسی پاناما بینچ یا سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ عوام کا ہونا چاہیے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دینے کی ذمہ داری عوام نے اب اپنے سر پر خود اٹھالی، نوازشریف کے ساتھ ایک اقامےکے معاملے پر زیادتی ہوئی، کرپشن ثابت نہ کرسکے تو بیٹے سے حاصل نہ ہونے والی تنخواہ کو جواز بنا کر نااہل کردیا، اگر کسی شخص نے تنخواہ نہیں لی تو وہ ظاہر کیسے کرے گا؟، اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگادیے مگر کوئی ابھی تک ثبوت نہیں پیش کرسکا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ فیصل آبادکے لوگ وعدہ کریں کہ ووٹ کی عزت کریں گے اور 2018 کے الیکشن میں نوازشریف کے قدم سے قدم ملا کر چلیں گے، اب عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ساری سازشوں کو ناکام بنادیں کیونکہ ان کا بس صرف ووٹ لینے والے نمائندے پر چلتا ہے۔

    اس موقع پر حمزہ شہباز کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اللہ جس کو عزت دیتا ہے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا،  معاملہ پاناما سے شروع ہوا اور اقامہ پر ختم ہوا، مہینوں سےہمارےقائد عدالتوں کے چکر لگا رہےہیں ، آج بھی نوازشریف لوگوں کے دلوں کے وزیر اعظم ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی میں نوازشریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا کیونکہ انہوں نے ایک روپے کی کرپشن نہیں کی، ہم نے دھرنوں کے پیچھے چھپ کر اقتدار حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • وزیراعظم خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

    وزیراعظم خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

    اسلام آباد : وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں علاقائی سلامتی اورخطے کی صورتحال پر غورکیا گیا۔

    اس موقع پر مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود کے علاوہ وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی شریک ہوئے۔

    ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملکی سلامتی، سرحدی صورتحال کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت اور خطے کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

    اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی شدید مذمت کی گئی اور  مظالم کےخلاف کھڑے ہونے اور آواز بلند کرنے پر کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ، معاملے کے عالمی سطح پر نوٹس لینے کی بھی اپیل کی گئی۔

    قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق قابض بھارتی فوج نے20معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کی، بھارتی مظالم نے بھارتی دعوؤں اور پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی ہے، پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔

    بھارتی فوج نے پیلٹ گنز کا استعمال کیا جس سے سیکڑوں کشمیری زخمی اور معذور ہوئے، بھارتی جبر کےسامنے کشمیری عوام کا غیرمعمولی عزم اور حوصلہ قابل تعریف ہے، کشمیریوں کی تحریک نےبھارتی حکومت کے پروپیگنڈے کو بےنقاب کیا۔

    اجلاس میں امن اور استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں پراطمینان کا اظہار کرتے ہوئے خطے کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال سمیت دیگر امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔

    اجلاس میں ڈی جی ملٹری آپریشنز نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیوں، افغان سرحد پر سیکیورٹی مؤثر بنانے اور فاٹا آپریشنز پر تفصیلی بریفنگ دی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔