Tag: وزیراعظم

  • ٔسپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی

    ٔسپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کور ٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی ہوگئی،سلمان اکرم راجہ اگلی سماعت پر اپنے دلائل کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےپاناماکیس کی سماعت کی۔

    تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید،جہانگیر ترین،سراج الحق اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ کب اور کتنے جوابات جمع کرائے،جس پرحسین نواز کے وکیل نےکہاکہ تاریخوں کے حساب سے عدالت کو کچھ دیر میں آگاہ کروں گا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ زیادہ ترجوابات مشترکہ طور پرجمع کرائے گئے ہیں،انہوں نےکہاکہ منروا کےساتھ سروسزکا ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ میرے موکل نےایرینا کمپنی کی جانب سے معاہدہ کیا۔انہوں نےکہاکہ حسین نواز نےفیصل ٹوانہ کو بطور نمائندہ مقرر کیا تھا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ تمام دستاویزات گزشتہ رات لندن سے منگوائی ہیں،جبکہ منروا کمپنی کو ادائیگیوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کر دی ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ فیصل ٹوانہ حسین نواز کی جانب سے منروا کمپنی سےڈیل کرتے تھے،ہدایات حسین نواز دیتے تھے۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ جودستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ آف شور کمپنیوں کےڈائریکٹرز کے نام ہیں؟سوال یہ ہےنیلسن اور نیسکول کا ڈائریکٹر کون تھا؟انہوں نےکہا کہ دستاویزات سےثابت کریں حسین نواز کمپنیاں چلا رہے تھے۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فروری 2006 سےجولائی 2006 تک مریم نواز بطور ٹرسٹی شیئر ہولڈر رہیں،جبکہ جولائی 2006 میں منرواکمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ منروا کمپنی نے نیلسن اور نیسکول کے اپنے ڈائریکٹرز دیے،2014میں شیئرزمنروا سےٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ فروری سے جولائی تک شیئرز سرٹیفکیٹ مریم نواز کے پاس رہے،بیئریرسرٹیفکیٹ کی منسوخی سےمریم کی بطور شیئرز ہولڈرز حیثیت ختم ہو گئی۔

    انہوں نےکہاکہ مریم نےبیئریر سرٹیفکیٹ بطور ٹرسٹی اپنے پاس رکھے،جس پرجسٹس اعجاز افضل نےاستفسارکیاکہ شیئرز ٹرانسفر ہونے سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم ہو گئی؟۔

    سلمان اکرم راجہ نےدلائل دیتےہوئے کہاکہ مریم زیرکفالت ثابت بھی ہو تب بھی فلیٹس کی مالک ثابت نہیں ہوتیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ حسین نواز کے پاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کےلیےسرمایہ کاری کو بھی دیکھنا ہے،انہوں نےکہاکہ مریم اگر حسین نوازکےبطورنمائندہ کام کرتی تھی تواس دستاویز کو بھی دیکھنا ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ وہ دستاویز ٹرسٹ ڈیڈ ہےجو حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان 2006 میں ہوئی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ جولائی 2006 بیریئرسرٹیفکیٹ کی منسوخی کےلیےحسین نواز گئے یا مریم نواز؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ حسین نواز نےسرٹیفکیٹ منسوخ کرائے یا مریم نے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ اصغر خان کیس میں اسد درانی اور اسلم بیگ نے الزامات کو تسلیم کیا،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کیا اصغر خان کیس میں شواہد ریکارڈ ہوئے؟حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ الزام تسلیم کر لینے پر شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ سرٹیفکیٹ منسوخی سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم نہیں ہوئی،جبکہ موزیک نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔انہوں نےکہاکہ مریم نواز نے بھی کہہ چکی ہیں دستاویز پر دستخط ان کے نہیں ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےسوال کیاکہ یہ دستاویز آخر آئی کہاں سے؟جس کےجواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں۔دستاویز کون کہاں سے لایا،کچھ علم نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ مریم کے بینفشیل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کرائی گئی،جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں فلیٹس سے متعلق چین مکمل ہو چکی۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد لینے کے لیے سرمایہ نہیں تھا،سلمان اکرم راجہ نے جواب میں کہاکہ جائیداد قطری سرمایہ کاری کے بدلے حسین نواز کو ملی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی،جس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آرٹیکل 10 اے میں شفاف ٹرائل کا کہا گیا ہے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ کمیشن کسی شخص کو سزا یا جزا نہیں دے سکتا،کمیشن انکوائری کےنتیجےمیں صرف اپنی رائے دے سکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کمیشن کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کر سکتا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے،انہوں نےکہاکہ مقدمے کی نوعیت کیا ہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ آپ کہتے ہیں ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا،جبکہ اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا۔سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت کو دیکھنا ہےکیا یہ جرم ہے یا ریکارڈ نہ رکھنے میں کوئی لاقانونیت ہے۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہا کہ عدالت کو دیکھنا ہےاس حوالےسے قانون کیا کہتا ہے،جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ کےکیس میں 2 باتیں ہو سکتی ہیں،یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں۔

    انہوں نےکہاکہ آپ کے پاس ایک یہ ہی موقف ہےاور دستاویزات نہیں ہیں،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آپ قطری والا موقف تسلیم نہیں کرتے تو پھردرخواست ثابت کرے ہم نےجرم کیا۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اسی لیےتو کہہ رہا ہوں آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں ہیں۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ سراج الحق کہتے ہیں کرپشن نظر انداز نہ کی جائے،ملوث افراد کونا اہل قرار دیا جائے،انہوں نےکہاکہ اگر وہ ثابت کرتے ہیں تو ٹھیک،ورنہ سراج الحق کی درخواست سیاسی رقابت ہی سمجھی جائےگی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے شک و شبہ سے بالا اپنا کیس ثابت کرے،جس کےجواب میں حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ جب کوئی جرم نہیں ہوا تو کمیشن بنانے کا بھی جواز نہیں۔

    انہوں نےکہاکہ اصغر خان کیس میں بھی عدالت نے متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دیا تھا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اصغر خان کیس میں عدالت نے پہلے ڈیکلیریشن دیا تھا،جبکہ اصغر خان کیس کا کرمینل حصہ تحقیقات کے لیے بھجوایا گیا تھا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت نے ڈیکلیریشن اعترافی بیانات پر دیا تھا، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت ڈکلیریشن دے سکتی ہے۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ عدالت 184/3 میں کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی،جرم کی تحقیقات متعلقہ اد ارے ہی کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ کے موکل نے بھی تو جائیداد یں ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ جائیداد کا اعتراف حسین نوا ز نے کیا،نواز شریف کا جائیداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جسٹس کھوسہ نےکہاکہ میاں شریف کا انتقال ہو چکا تھا،بچوں کی اس وقت آمدن نہیں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت اس بنیاد پر کچھ بھی فرض نہیں کر سکتی،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جائیداد سے متعلق فنڈز کی تفصیلات بھی دستاویزنہیں ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ عدالت وضاحت مسترد کر دے تو بھی درخواست گزار کا موقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ فلیٹس کے حوالے سے خاندان کے بیانات میں تضاد ہے۔

    انہوں نےکہاکہ امریکہ میں سربراہ مملکت کے خلاف تحقیقات ہوں تو اس کے لیے الگ ادارہ ہے،جس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ امریکہ میں اس کام کے لیے الگ ادارہ قانون کے مطابق بنایاگیا۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ امریکہ میں یہ کام عدالتوں کے ذریعے نہیں ہوا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ جب تحقیقاتی ادارے آزاد تھے،تب عدالتیں مداخلت نہیں کرتی تھیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ وقت اور حالات کے مطابق عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی،انہوں نےکہاکہ ادارے لکھ دیں کچھ نہیں کر سکتے تو عدالت کیا کرے۔

    جسٹس اعجا ز افضل نےکہاکہ حدیبیہ مل کیس میں اپیل نہ کرنے کی نیب کی وجوہات ٹھوس نہیں،انہوں نےکہا طیارہ سازش کیس میں نواز شریف نے بھی مقررہ مدت کے بعد اپیل کی۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے آنے والی اپیل بھی منظور کی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالتی کاروای پبلک ٹرائل بنتی جا رہی ہے،انہوں نےکہاکہ میڈیا اورہمارے ساتھی روزانہ شام کو فیصلہ سنا رہے ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نے کہاکہ ون ایٹی فور تھری کے تحت عدالت کوئی فیصلہ دے تو اپیل کا حق نہیں ہو سکتا،انہوں نےکہاکہ اپیل کے حق کا تصور اسلامی قوانین میں بھی موجود ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ عدالت کسی بھی شخص کو فیصلے کے خلاف اپیل کے حق سے محروم نہیں کر سکتی،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ 184/3کے تحت مقدمے میں عدالت متنازع حقائق میں نہیں جا سکتی۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اسی لیے ہم اس مقدمے میں غیر معمولی احتیاط سے کام لے رہے ہیں،جس پر حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ شیطان کو بھی وضاحت کا موقع دیا گیا، مچھلیاں پکڑنے والی انکوائری نہیں کی جا سکتی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ شیطان کو صفائی موقع شریعیت کے قانون کے مطابق دیا گیا،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آج بھی پی ٹی آئی نے 800 صفحات جمع کرائے ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ بھی اس کے جواب میں 80صفحات جمع کرا دیں،انہوں نےکہاکہ اتنی دستاویز آئیں گی تو کیس کیسے ختم ہوگا۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف،عوامی مسلم لیگ،جماعت اسلامی کے وکلا دلائل مکمل کرچکے ہیں،وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل کے دلائل کے بعداٹارنی جنرل اپنے دلائل دیں گے۔

  • وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کااجلاس

    وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کااجلاس

    اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیرصدرات وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری ہے،جس میں 32نکاتی ایجنڈے پر غور کیاجا ئےگا۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں اہم اجلاس جاری ہے،جس میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور اس حوالے سے قابل عمل پالیسی پر بھی مشاورت کی جائے گی۔

    وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات اور احتساب کمیشن سے متعلق سفارشات بھی زیرغور آئیں گی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شریک ہیں۔

    مزید پڑھیں:انشاءاللہ2018تک تمام وعدے پورے کریں گے‘وزیراعظم نوازشریف

    واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف کاکہناتھاکہ 2013میں عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو سال2018تک پورا کریں گے۔

  • ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں‘ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں‘ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد : وزیراعظم نوازشریف کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،12ملین درہم کیسے ملے؟نظر نہیں آرہا،سپریم کورٹ نے پاناماکیس میں اہم سوالات اٹھادیے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجربینچ نے پاناماکیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجسٹس گلزاراحمدنےکہاکہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی،جس پر وقاص ڈارنے جواب دیاکہ ایسےلاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائرنہیں کی گئی۔

    وقاص ڈار نےکہاکہ ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ایسے بہت سے مقدمات ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اس پہلو کو زیر غور لائیں گے جب نیب کی بار آئے گی،جس پر پراسیکیوٹر نیب نےجواب میں کہاکہ ججز کے متفقہ فیصلے کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے فیکٹری کی فروخت سے 12 درہم ملین ملے،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ ہو سکتا یے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ75فیصد حصص کی فروخت سے21 ملین درہم قرض کی مد میں ادا کیے،انہوں نےکہاکہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا۔

    جسٹس اعجازافضل کے سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کاروبار پر کنٹرول میاں شریف کا تھا،انہوں نےکہاکہ طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کے مطابق بھٹو دور میں 6 نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے،جسٹس گلزار نےکہاکہ جب پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی مل ایک حقیقت ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں،ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے،انہوں نےکہا کہ غلطی ہوسکتی ہے کہ ہمیں نظرنہ آیا ہو۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر ی سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ قطری خاندان کی رضامندی کے بعد قطر سرمایہ کاری کا موقف سامنے لایا گیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ فیکٹری کی رقم کے12ملین درہم کیسے ملے،طارق شفیع جانتے تھے،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ عدالت طارق شفیع کو کٹہرے میں بلالے۔انہوں نےکہاکہ سلمان اکرم12 ملین درہم کیسے ملے یہ نظر نہیں آ رہا۔

    جسٹس عظمت سیعدنےکہاکہ فیکٹری کی فروخت کا معاہدہ موجود ہے،انہوں نےکہاکہ معاہدے میں لکھاگیا ہے12 ملین درہم ملے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ 12ملین درہم کی رقم نقد وصول کی تھی یا بینک کے ذریعے ؟جس پر حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ بیان حلفی میں طارق شفیع نے اس متعلق تفصیل بیان نہیں کی۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ جوسوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطورگواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں،ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ بارہ ہزار درہم کی رقم الثانی فیملی کو6اقساط میں سرمایہ کاری کےلیےدی گئی،انہوں نےکہا کہ بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم میری ان دو کتابوں سےزیادہ نہیں ہوگا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے، انہوں نےکہاکہ شریف فیملی کا جہاز کراچی بندرگاہ روک لیا گیا جس سے 50 کروڑ کا نقصان ہوا۔

    انہوں نےکہاکہ شریف فیملی نے1993 سے1996 میں لندن کے فلیٹس نہیں خریدے،جبکہ لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے،جس پر حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ یہ کوئی راز نہیں،شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ 1993سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا،جس پر سلمان اکرم نےکہاکہ شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے،انہوں نےکہاکہ 12ملین ریکارڈ میں ثابت ہےدیکھ لیں۔انہوں نےکہاکہ یہاں جرح یا ٹرائل نہیں ہو رہا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے یہ غیر متنازع حقائق ہیں،انہوں نےکہاکہ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے لیکن 12 ملین درہم کیش میں لے لیے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں، نقد رقم بھی لی جاتی ہے،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ پاناما کا مقدمہ اپنی نوعیت کا کیس ہے۔انہوں نےکہا کہ جو دستاویز لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ 1980میں دبئی میں 1000 درہم کا نوٹ موجود تھا،انہوں نےکہاکہ یہ اتنی بڑی رقم نہیں کہ اونٹوں پر لے جائی جاتی،جبکہ 2006سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے۔

    انہوں نےکہاکہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق 93 میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ تسلیم نہیں کر رہا رپورٹ آئی تو ذکر کیا۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ الثانی خاندان نے 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ حماد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے،جسٹس گلزار نےکہاکہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 میں ان فلیٹس میں حسن، حسین رہتے تھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ بڑےگہرے تعلقات تھے،شریف فیملی 13 سال تک رہائش پذیر رہی،جس پر حسین نواز کے وکیل نے جواب دیاکہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا۔انہوں نےکہاکہ الثانی خاندان کےپاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے،انہوں نےکہاکہ لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ کیا شیزی نقوی پاکستانی شہری ہے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ شیزی نقوی پاکستانی ہے اور ابھی تک التوفیق کمپنی سے وابستہ ہے۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ کیا شیزی نقوی کے بیان حلفی کی نقل کاپی موجود ہے،جس پر حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ نقل کاپی موجود ہے، تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ شیزی نقوی کی برطانوی عدالت میں دی گئی بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان پر فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا،کیادوسری پارٹی کی عدم موجودگی پر یہ حکم دیا گیا؟جس پر حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ التوفیق کمپنی کےواجبات 34 ملین ڈالر کے نہیں تھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا،سلمان اکرم راجہ نےجواب دیاکہ التوفیق کیس سے ثابت نہیں ہوتا شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ 13سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہانگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ یقیناً آپ کو قدموں پرکھڑاہونا ہے،گھٹنوں پرنہیں۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ التوفیق کمپنی نے16 ملین ڈالر قرض کے لیے برطانوی عدالت میں مقدمہ کیا،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہمیں بتایا گیا قرض کی رقم 34 ملین ڈالرز تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ 34 ملین ڈالرز قرض کا معاملہ نہیں تھا،جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ التوفیق کمپنی سے قرض کی سیٹلمنٹ حتمی طور پر کتنی رقم پر ہوئی۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ 8ملین ڈالرز قرض کی سیٹلمنٹ ہوئی،جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ قرض کے لیے کیا گارنٹی دی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حدیبیہ مل کی مشینری کو بطور گارنٹی رکھاگیاتھا،جسٹس عظمت نےکہاکہ یہ تمام ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس بھی ہونا چاہیے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ التوفیق کمپنی سے جب سیٹلمنٹ ہوئی کیا حسن اور حسین برطانیہ میں تھے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسین نواز پاکستان میں حراست میں تھے۔

    انہوں نےکہاکہ حسین نواز کو سیٹلمٹ کا مکمل علم نہیں کیونکہ یہ 2000 کے آوائل میں ہوئی،حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ اکتوبر1999 سے دسمبر 2000 تک پوری فیملی حراست میں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسن نواز 1999 میں لندن میں تھے،جسٹس عظمت نےکہاکہ مطلب یہ ہے8ملین ڈالرز شریف فیملی نےادا نہیں کیے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ ادارے کچھ نہیں کر رہے تو یہ چیز عدالت کے راستے میں رکاوٹ نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ معاملہ اگر چیف ایگزیکٹو کاہوتوکیا کیاجائے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ چیف ایگزیکٹو اداروں کےسربراہ کا تقرر اپوزیشن کی مشاورت سے کرتے ہیں،انہوں نےکہاکہ عدالت اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ اگر آپ عدالت کو دائرہ سماعت پر جانے کا کہیں گے تو میں اس کا حامی نہیں،جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ
    واپس جانے کو تیار نہیں آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ میں تو صرف قانون پر عملدرآمد کا کہہ رہا ہوں،انہوں نےکہاکہ عدالت 184/3 کے مقدمےمیں سزا نہیں دے سکتی۔انہوں نےکہاکہ فیصلوں میں موجود ہےعدالت نے درست تحقیقات کو یقینی بنایا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کو دیکھنا ہےتو ریکارڈ کو سامنے رکھا جائے،انہوں نےکہاکہ کیاعدالت وزیراعظم کی تقریر اور ریکارڈ کو دیکھ کر نا اہلی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا عدالت شواہد ریکارڈ کیے بغیر اتنے سنجیدہ ایشو پر فیصلہ دے سکتی ہے،انہوں نےکہاکہ عدالت صرف غیر متنازع حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حقائق متنازع نہیں تھے اس لیے مشرف کے خلاف عدالت نے براہ راست فیصلہ دیا،انہوں نےکہاکہ عمران خان نے عدالت میں کہہ دیا ہمارا کام الزام لگانا ہے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ دوسری جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا،انہوں نےکہاکہ یہاں ٹرائل نہیں ریکارڈ کا جائزہ لیا جا رہاہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ حسین نواز اگرکچھ چھپا رہے ہوں توکیا سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟ انہوں نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کو مسترد نہیں کر سکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کے پہلے وکیل نے تقریر کو سیاسی کہا،انہوں نےکہاکہ مخدوم علی خان نے بہتر الفاظ استعمال کیےاورکہاکہ تقریر عمومی نوعیت کی تھی۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اگرنتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کے وکیل نےعدالت میں کہا جائیداد بچوں کی ہے ان سے پوچھیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوس نےکہاکہ مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں،اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں۔اگر عدالت کو کچھ نہیں بتانا اور کہیں کر لیں جوکرنا ہے۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ جو معاملہ شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کی توقع نہ کی جائے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ آپ بہت بڑا جو کھیل رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیامیاں شریف نے سرمایہ کاری پربچوں کو آگاہ نہیں کیا تھا،سرمایہ کاری کی رقم 20 سال قطر پڑی رہی۔انہوں نےکہاکہ کاروباری شراکت دار نے تفصیلات کیوں نہیں دیں۔

  • پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم نوازشریف کے بیٹوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجز بینچ نے پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

    وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے پاناماکیس میں اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اسحاق ڈارکےخلاف نااہلی کی درخواست،انٹراکورٹ اپیل خارج ہوئی۔

    نیب نے اسحاق ڈارکی معافی سےمتعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا،عدالت نے نیب سےریکارڈ طلب کر رکھا تھا۔ریکارڈ کےمطابق 20اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی۔

    چیئرمین نیب نے21اپریل کومعافی کی درخواست منظور کی،جبکہ 24اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی۔نیب ریکارڈ کےمطابق 25اپریل کواسحاق ڈار کااعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل شاہد حامد نےکہا کہ نواز شریف،دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکاہے،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا؟۔

    وفاقی وزیر خزانہ کے وکیل نے جسٹس آصف کھوسہ کے سوال کے جواب میں کہاکہ دوبارہ تفتیش کرانے کےمعاملے پر2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا؟جس پرشاہد حامد نے جواب دیاکہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟جس پر اسحاق ڈارکے وکیل نےکہاکہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیاگیا۔

    وفاقی وزیرخزانہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا،جس پرجسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ آپ دلائل مکمل کر لیں پھر پراسیکوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کااعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا،جس پر شاہد حامد نےجواب دیاکہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا ہےاب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل نے کہاکہ یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد ججز سن چکے ہیں،انہوں نےکہاکہ منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا،جبکہ نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لیے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے،جس پر شاہد حامد نے جواب دیاکہ لاہور ہائی کورٹ کے5 ججز نے کہا ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا،جس کےجواب میں شاہد حامد نےکہاکہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی،انہوں نےکہا کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی؟ معافی کےبعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کابیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ بیان اسحاق ڈار نہیں وزیر اعظم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہو سکتا،جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر غور نہیں کریں گے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ چاہے درخواست گزار ایسا کرنے کی استدعا ہی کیوں نہ کرے،انہوں نےکہاکہ اسحاق ڈار پر ڈبل جیو پرڈی کا اصول لاگو ہوگا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کو اس کیس میں سزا نہیں ہوئی،انہوں نےکہاکہ اس لیے یہاں ڈبل جیوپرڈی کااصول نہیں لگے گا۔

    جسٹس عظمت نےاسحاق ڈارکے وکیل سے کہاکہ آپ اس نکتے پر دلائل دیں ایک شخص کا 2 مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہےیا نہیں،جس پر شاہد حامدنےکہاکہ اسحاق ڈار سے بیان یہ کہہ کر لیا گیا بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس کی تفصیلات بیان کیں۔عدالت نےاسحاق ڈارکی بریت کے خلاف اپیل دائرنہ کرنے پرتحریری جواب منی لانڈرنگ کیس میں طلب کیا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ نیب،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک نے اپیل دائر کیوں نہیں کی،جس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ میں اس کاتحریری جواب دوں گا۔

    سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں وقفے کے دوران اعتزازاحسن نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئےکہاکہ قطری شہزادےکاخط اوپن منی لانڈرنگ کااعتراف ہے۔

    اعتزازاحسن کا کہناتھاکہ شریف خاندان کاکون ساشخص ہےجوان کےکاروبارکی دیکھ بھال کرتاہے،پیپلزپارٹی کے رہنمانےکہاکہ نوازشریف اعتراف کرچکےہیں کہ انہوں نےاربوں کاکاروبارکیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہناتھاکہ قطری اور سونے کاانڈا دینے والی مرغی میں کوئی فرق نہیں،انہوں نےکہا دوسری منی ٹریل اسحاق ڈار کے اردگرد گھومتی ہے۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ حدیبیہ پیپرمل کے نام سےجعلی مل بنائی گئی،اور پیسہ باہربھیج کرحدیبیہ پیپرمل کے ذریعےوائٹ کیاگیا۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما انوشا رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ 2نجی اداروں کےدرمیان نجی طورپرٹرانزیکشنزہوئیں،انہوں نےکہاکہ جوٹرانزکشنز ہوئیں وہ عوام کاپیسہ تھانہ ہی بینکوں سےلیاگیاتھا۔

    انوشارحمان کا کہناتھاکہ بندوق کےزور پر لیےگئے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کی توپوں کارخ اب اسحاق ڈارکی طرف ہوگیا ہے۔

    وزیراعظم کے بیٹوں حسین اورحسن نوازکے وکیل کے دلائل شروع

    حسین اورحسن نواز کےوکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں،انہوں نےکہاکہ فلیٹ کےمالک حسین نواز ہیں پوری فیملی کوملزم بنادیاگیا۔

    سپریم کورٹ نےسلمان اکرم راجہ کے دلائل پرریماکیس دیےکہ آپ کو یہ بات ثابت کرناہو گی فلیٹس حیسن نواز کی ملکیت ہیں،اوران کےوالد کاان فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےعدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئےکہا کہ میرے کیس کے تین پہلو ہیں،تینوں پہلوؤں پر دلائل دوں گا،انہوں نےکہاکہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں۔

    وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل نےکہاکہ الزام ہے حسین نواز کی بے نامی جائیدادہے،اصل مالک نواز شریف ہیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگاجائیدادیں آپ کی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ درخواست گزار چاہتا ہےلندن کی جائیداد ضبط کی جائے،انہوں نےکہاکہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ درخواست گزار چاہتا ہے لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ الزام ہےلوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا،انہوں نےکہاکہ آرٹیکل 184/3میں عدالتی اختیارات وسیع ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کرسکتی،انہوں نےکہا کہ الزام لگانے والوں نے عدالت کے سامنے شواہد نہیں رکھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ یہ حقیقت ہے حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں،انہوں نےکہاکہ آپ کے موکل کہتے ہیں وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے،انہوں نےکہاکہ کیا کمپنیوں کےریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے۔

    انہوں نےکہاکہ آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے،انہوں نےکہا کہ شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےاستفسارکیاکہ گلف فیکٹری کب سے کمرشلی آپریشنل ہوئی؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیےقرض کب لیا؟انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیے قرض کن شرائط پر لیا گیااور کس چیز پر لیاگیا یہ تو واضح ہی نہیں ہے۔

    حسین اور حسن نواز کے وکیل نےکہاکہ یہ میاں شریف کا پرانا ریکارڈ ہےجو پیش کررہا ہوں،انہوں نےکہاکہ قرض سےمتعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ تسلیم شدہ ہےدبئی کی گلف فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کردی گئی۔

    جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ گلف فیکٹری کےواجبات 36 ملین درہم تھے،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375 ملین درہم بنتی ہے۔

    انہوں نےکہا کہ فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے،بتایا جائے،جسٹس گلزار نےکہاکہ بظاہرتو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو12 ملین درہم کا منافع کیسے ہوا؟۔جس پر حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہیں تھا۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ 1978میں فیکٹری کے75 فیصد حصص فروخت کرکے15 ملین واجبات باقی تھے،انہوں نےکہاکہ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔

    وزیراعظم کے بچوں کےوکیل نے کہاکہ کلثوم نوازاس کیس میں فریق نہیں ان کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا،انہوں نےکہاکہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبارکا چار دہائیوں کا تجربہ ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ‏فیکٹریاں قومیائے جانے کےباعث 1973میں دبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیاگیا،انہوں نےکہاکہ دبئی کی رائل فیملی نےاسٹیل پلانٹ لگانے کےلیے میاں شریف کوویلکم کیا۔

    حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ‏1975 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئر فروخت کیے،انہوں نےکہاکہ ‏1980میں فیکٹری کےباقی 25فیصد شیئرز کی فروخت سے 12ملین درہم ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے،انہوں نےکہاکہ 1970کی دہائی میں میاں شریف نے فیکٹری لگائی۔

    انہوں نےکہا کہ چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی،یہ اکاؤنٹ میاں شریف کے تھے،حسن اور حسین کے نہیں،انہوں نےکہاکہ بارہ ملین درہم شریف فیملی کو فیکٹری کی فروخت سے ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے،انہوں نےکہاکہ 1980میں دبئی اسٹیل کی فروخت کے دستاویز پر طارق شفیع نےخود دستخط کیے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ طارق شفیع کےدستخطوں میں بہت زیادہ فرق لگتا ہے،انہوں نےکہاکہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے۔

    سلمان اکرم راجا نےکہاکہ وقت گزرنے کےساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ 1972میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کوئی وضاحت نہیں کی گئی پیسہ کہاں سے آیا،صرف کہا گیا قرض لےکر فیکٹری لگائی،جس کےجواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیےملتوی کردی گئی،حسین اور حسن نواز کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

  • کیوبک کی مسجد میں فائرنگ ‘دہشتگرد حملہ ہے ‘وزیراعظم جسٹن ٹروڈو

    کیوبک کی مسجد میں فائرنگ ‘دہشتگرد حملہ ہے ‘وزیراعظم جسٹن ٹروڈو

    اوٹاوہ: کینڈین وزیراعظم نے کیوبک شہر کی مسجد میں مسلح حملہ آوروں کی جانب سے فائرنگ کےواقعےکو بزدلانہ حرکت قراردیا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیوبک مسجد حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندان سے ہمدری کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اس واقعے پر افسردہ ہے۔

    کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیوبک شہر کی مسجدمیں مسلح افراد کی فائرنگ کو دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔

    وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ فائرنگ کے اس واقعےکی تحقیقات کی جارہی ہے،انہوں نےکہا کہ مسلمان کمیونٹی ہماری سوسائٹی کا اہم حصہ ہے۔انہوں نےکہا کہ اس طرح کے حملوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

    مزید پڑھیں: کینیڈا میں مسجد پر فائرنگ ‘6نمازی شہید

    واضح رہےکہ کینیڈاکےشہرکیوبک کی مسجد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کےنتیجےمیں چھ نمازی شہید جبکہ آٹھ افراد زخمی ہوگئے،فائرنگ کے وقت مسجد میں 40افراد موجود تھے۔

  • ضرورت ہوئی تو نوازشریف کو عدالت بلائیں گے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    ضرورت ہوئی تو نوازشریف کو عدالت بلائیں گے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کےلیےملتوی ہوگئی،مریم نوازکے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناماکیس کی سماعت کی۔

    جماعت اسلامی کےوکیل توفیق آصف نے پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر آج تیسرے روز وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے متعلق عدالت عظمیٰ میں اپنے دلائل دیے۔

    توفیق آصف نے پاناماکیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئےظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا،جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اس کیس میں خالدانورنواز شریف کے وکیل نہیں تھے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں خالد انور کے عدالت میں دلائل بیان کرنا چاہتاہوں،انہوں نے کہا کہ میں اس بات کواجاگرکروں گاخالدانور ان کی وکالت کرتےرہےہیں۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہا کہ آپ عدالتی فیصلے کی فائنڈنگ بتائیں،انہوں نےکہا کہ وکیل کی کیااستدعا تھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ظفرعلی شاہ کیس میں نوازشریف کو فریق بنایا گیا تھا،جس پرعدالت نے اعتراض کیا تھامگر بات درست تھی۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کی درخواست میں بھی لکھاگیاتھاخالد انور وکیل تھے،جس پرتوفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کے فیصلے کو پڑھوں گا۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ذکر ہےلندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہماری دلچسپی اس مقدمے میں عدالتی فائنڈنگ پر ہے،جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ عدالت نے فیصلے میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔انہوں نےکہا کہ مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ خالد انور کس کی جانب سے پیش ہو رہے تھے،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وہ ظفر علی شاہ کے وکیل تھے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ نہیں وکیل صاحب آپ کو پتہ ہی نہیں ہے،آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا نواز شریف گڈگورننس میں ناکام ہوئے،جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا،خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا،انہوں نےکہا کہ لندن فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھےگئے۔

    توفیق آصف نے کہا کہ مجھے پیراگراف 127 پڑھنے کی اجازت دیں،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ یہ تو اس عدالت نے قوم پر بڑا احسان کیا ہے،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ جی ہاں ایسا ہی ہے۔

    جسٹس عظمت نےکہا کہ نہ آپ نے فائل دیکھی نہ فیصلہ پڑھا، آپ نے بے بس کر دیا،انہوں نے کہاکہ آپ نے بالکل ہی مذاق بنا لیا ہے کچھ تو پڑھ لیا ہوتا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ پانچ منٹ دیں درستی کرتا ہوں،جس پرجسٹس عظمت سیعد شیخ نےکہا کہ پڑھیں جو آپ کا دل کرتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے،انہوں نےکہا کہ خالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ شک ہے دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ عدالت نواز شریف کو طلب کر کے بیان ریکارڈ کرے،انہوں نےکہا کہ نواز شریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ جب ہم سب کوسن لیں گےتوفیصلہ کریں گے،انہوں نےکہا کہ ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں۔

    سپریم کورٹ کےباہرمسلم لیگ ن کے رہنما کی گفتگو

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے دانیال عزیز نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے لکھا عمران خان نے تباہی مچائی ہوئی ہے،انہوں نےکہاکہ چھ مرتبہ عمران خان کولکھا گیامگرمنی ٹریل نہیں دی گئی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناتھاکہ عمران خان نے امریکہ میں کمپنیاں بنائیں اورپیسے پاکستان لائے،انہوں نےکہا کہ عمران خان آپ کے پاس کیا کیا ہے،اب آپ کی تلاشی ہونی ہے۔

    دانیال عزیز نےکہا کہ ہمیں پتہ ہے آپ کی دائیں جیب میں کیا ہے اوربائیں میں کیا ہے،انہوں نےکہا کہ جہانگیرترین سند یافتہ کرپٹ آدمی ہیں،وہ اپنے ملازموں کے نام پر کاروبار کرتے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناتھاکہ استثنیٰ یہ مانگ رہے ہیں،نام نوازشریف کا لیا جارہا ہے،انہوں نےکہا کہ ہمارے وکلا اپنے اپنے حصے کاحصہ ضرور بتائیں گے۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ نوازشریف کے خلاف پہلے بھی دو مرتبہ ایسی چالیں چلی گئیں،انہوں نےکہا کہ جہاں جہاں انتخابات ہوئے مسلم لیگ(ن)کامیابی حاصل کرتی آئی ہے۔

    پاناماکیس میں شیخ احسن الدین نےکہا کہ ثبوت سامنے آگئے ہیں عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے،جس پر جسٹس گلزاراحمدنے استفسارکیاکہ سارے ثبوت کون سے ہیں؟۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ آپ انہیں ثبوت نہیں میٹریل کہہ سکتے ہیں،جسٹس عظمت نےکہا کہ قانون شہادت کے تحت مواد پرکھنے پر معلوم ہوکہ بڑاحصہ فارغ ہےتو پھرکیاہوگا؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے عدالت کو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ؟جس پر شیخ احسن الدین نےکہا کہ میں طریقہ کار کا تعین کیسے کرسکتاہوں، یہ آپ نے دیکھنا ہے۔

    شیخ احسن الدین نےکہا کہ لغت کے مطابق زیر کفالت کی تشریح کرتا ہوں،ایسا شخص جو دوسرے شخص سے سہارا حاصل کرے۔

    توفیق آصف آپ کے زیر کفالت ہیں،جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر قہقہے،انہوں نےکہا کہ زیر کفالت پر کسی کی نااہلی کا فیصلہ بھی دکھا دیں۔

    شیخ احسن الدین نےکہا کہ 2012میں مریم کے نام پر نواز شریف نے مانسہرہ میں جائیداد خریدی،انہوں نےکہا کہ قطری خط کو ایک شعر میں بیان کروں گا۔

    شیخ احسن الدین نےکہاکہ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو،ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ شیخ صاحب یہ شعر آپ کی عمر کے مطابق نہیں ہے۔

    مریم نوازکے وکیل کے دلائل کا آغاز

    پاناماکیس کی سماعت کے دوران مریم نوازکے وکیل شاہد حامد نے مریم نواز کا تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنا یا جس میں کہاگیا ہےکہ میں شادی شدہ خاتون ہوں،میری شادی 1992میں پاک فوج کے حاضر سروس کیپٹن سے ہوئی۔

    مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے شوہر نے بعد میں سول سروس جوائن کر لی،انہوں نےکہا کہ کیپٹن صفدر 1986 میں آرمی میں بھرتی ہوئےآج تک ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے رائے ونڈ میں شمیم اینگری فارمز میں پانچ میں سے ایک رہائش گاہ حاصل کی،اس کی مالک میری دادی تھیں،میرے تین بچےدو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

    انہوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ بیٹا زیر تعلیم اور ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے،عدالت نے مریم نواز کا تحریری بیان مسترد کردیا۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کا تحریری بیان مستردکرتے ہوئےکہا کہ اس پر مریم کے دستخط نہیں اس لیے اس کی اہمیت نہیں ہے۔

    مریم نوازکے بیان میں کہا گیاہےکہ 2000میں جلاوطن کیا گیا،میں والدین کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئی،انہوں نےکہا کہ میرے شوہر بھی میرے ہمراہ تھے،والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

    انہوں نےکہا کہ میرے شوہرکو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا،ہم جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے اور دوبارہ شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیار کی۔

    مریم نواز نے کہا کہ میرے شوہر دو ہزار آٹھ اور دو ہزار تیرہ میں ایم این اے منتخب ہوئے،انہوں نےکہا کہ میرے شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹ سرونٹ آتی رہی۔

    وزیراعظم کی بیٹی نےکہاکہ میرے والد نے جو مجھے تحائف دیےوہ شفقت کے تحت دیے،انہوں نےکہا کہ دیےگئے تحفوں میں والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔

    انہوں نےکہا کہ 1992کے بعد سے میں کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی،انہوں نےکہا کہ 2013میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے اس وقت بھی ان کے زیر کفالت نہیں تھی۔

    مریم نوازنےکہا کہ میں کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینیفشل آنر نہیں رہی،نہ ہی ان فلیٹس سے کبھی کوئی مالی فائدہ کیا۔انہوں نےکہا کہ لندن فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہونے کاجھوٹا الزام عائد کیاگیا۔

    انہوں نےکہا کہ درخواست گزار جس دستاویز پر انحصار کر رہا ہے اس کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہوں،انہوں نےکہا کہ درخواست گزار جس نے الزام لگائے اس کا اپنا دامن بھی صاف نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ میرے بھائی حسین نواز نے 2 شادیاں کر رکھی ہیں،ایک اہلیہ سے چار اور دوسری سے تین بچے ہیں۔انہوں نےکہا کہ حسین نواز کی دونوں بیویاں مختلف ممالک کی شہریت رکھتی ہیں۔

    وزیراعظم کی بیٹی نے اپنے جواب میں کہا کہ حسین نواز اور الثانی خاندان کے درمیان سیٹلمنٹ جنوری 2006 میں ہوئی،انہوں نےکہا کہ سیٹلمنٹ کے بعد منروا کے ڈائریکٹرز کو تعینات کیاگیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ ایک صفحے کا بیان جو آپ نے جمع کرایا اس پر کسی کے دستخط نہیں،اس لیے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    مریم نوازشریف کے وکیل شاہد حامد نےکہا کہ میں دستخط کراکر بیان دوبارہ جمع کروا دوں گا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے اب فریقین کے 3بیان ہیں۔انہوں نےکہا کہ ایک جواب اور دو ضمنی جوابات اور بیانات ہیں۔

    شاہد حامد نے کہاکہ الزام ہے مریم کو دیے گئےتحائف کا ان کے شوہر کے ٹیکس گوشواروں میں ذکر نہیں،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ضروری ہےاہلیہ کے تحائف کا شوہر گوشواروں میں ذکرکرے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ الزام ہے31ملین تحفوں کاٹیکس گوشواروں میں ذکر نہیں،جس پر شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا تھا۔

    مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ جماعت اسلامی اور طارق اسد کی درخواستیں علیحدہ ہو چکیں ہیں،عمران خان کی درخواست میں مریم صفدر پر ٹیکس کی عدم ادائیگی اور زیر کفالت کا الزام ہے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ زیر کفالت پر مریم کا بیان پڑھ چکا ہوں،جبکہ ٹیکسوں کے حوالے سے دستاویزات جمع کروا دوں گا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آپ اپنی موکلہ کی جانب سے ان کے والد کی مدد کے لیے تو دلائل دیں گے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ جی میری موکلہ والد کی مدد کریں گی۔

    انہوں نےکہا کہ مریم نواز کے 12-2011کے ٹیکس ریٹرن عدالت میں پیش کر دیے گئے،مریم پر ایک الزام والد کے زیر کفالت ہونےکا ہے۔یہ الزام بھی لگا کیپٹن صفدر نے مریم کے تحائف کا گوشواروں میں ذکر نہیں کیا۔

    شاہد حامد نےکہا کہ کیپٹن صفدر نے مریم کے گوشوارے بھی ساتھ ہی جمع کرائے تھے،جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ الزام ہے ٹیکس گوشواروں میں مریم کے اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا قانونی طور پر اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہے؟جس پر شاہد حامد نےکہا کہ قانونی طور پر لازمی نہیں کیونکہ مریم خود بھی ٹیکس دیتی ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل نےکہا کہ ٹیکس گوشوارے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کرائے گئے تھے،انہوں نےکہا کہ کیپٹن صفدر1986 سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، این ٹی این 2013 میں بنا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےاستفسار کیا کہ کیپٹن صفدر نے گوشوارے کب جمع کرانا شروع کیے، جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ درخواست گزاروں نے کاغذات نامزدگی کا الزام ہی نہیں لگایا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاآپ پر الزام ٹیکس گوشواروں میں اثاثےظاہر نہ کرنے کا ہے،جس پر شاہد حامد نےکہا کہ مریم نواز عام شہری ہیں ان کے خلاف 184/3کے تحت سماعت نہیں ہو سکتی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ 184/3عام شہری کے حق میں اور حکومت کے خلاف عدالت کو اختیار سماعت دیتا ہے،انہوں نےکہا کہ تحفہ 2011 میں ملا،اس وقت کیپٹن صفدر کے پاس این ٹی این نہیں تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ نعیم بخاری نے کہا تھا کیپٹن صفدر ٹیکس ادا نہیں کرتے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ نعیم بخاری نے کہا کیپٹن صفدر کی کوئی آمدن نہیں۔انہوں نےکہا کہ آمدن نہ ہونے کے باعث کہاگیامریم والد کے زیر کفالت ہیں۔

    شاہد حامد نےکہا کہ ایم این اے بننے کے بعد کیپٹن صفدر کے گوشوارے جمع کرواچکاہوں،انہوں نےکہا کہ کیا الیکشن کمیشن سےریفرنس اٹھا کر 184/3 عدالت میں لایاجاسکتا ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ نوازشریف پر بعض الزمات مریم صفدر کے حوالے سے ہیں،مریم نواز کے وکیل نےکہا کہ مریم نواز کے خلاف درخواست گزاروں نے کوئی استدعا نہیں کی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ شیخ رشید نے مریم،کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کو فریق نہیں بنایا،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یعنی آپ صرف کیپٹن صفدر کے ٹیکس معاملے پر دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ زیر کفالت ہونے کے معاملے پر بھی دلائل دینا ہوں گے،مریم نواز کےوکیل کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کےلیےملتوی کردی گئی۔

  • وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں‘ وکیل جماعت اسلامی

    وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں‘ وکیل جماعت اسلامی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک لیےملتوی ہوگئی،جماعت اسلامی کے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کےپانچ رکنی لارجربینچ نےپاناماکیس کی۔

    سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملاجیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے۔

    جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کےلیے پوچھتے ہیں،سوالات فیصلہ نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی،انہوں نےکہا کہ استحقاق آئین اورقانون کے مطابق ہی دیا جا سکتا ہے۔

    انہوں نےکہا کہ منگل کو اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے ہوتا ہے،جس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں رولز معطل کرکے کوئی اور کارروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا،جس پر جسٹس گلزاراحمد نےکہا کہ کیاوزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا۔

    توفیق آصف نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی تقریر کے بعد اسمبلی سے واک آؤٹ کیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ توفیق آصف آپ آرٹیکل 69 پڑھیں،اس پر دلائل دیں،انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہاہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی،انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی توآپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی،جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کو وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دیناچاہیے تھی۔

    جسٹس گلزار نے استفسارکیا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی؟ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ تقریر اسمبلی کارروائی کا حصہ ضرور ہے مگر اس کو استحقاق حاصل نہیں،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں تقریر پیر کے روز کی۔

    توفیق آصف نے کہا کہ اسپیکر منگل کے روز قواعد معطل کر سکتے ہیں،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہےاس دن تقریر نہیں ہو سکتی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کر دیا،جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل کی وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کردی جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ تقریر کےمتن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے؟۔جس پرممکن ہے ترجمہ کرتےوقت کوئی غلطی ہو گئی ہو۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا ہم یہاں شواہد ریکارڈ کر رہے ہیں۔

    توفیق آصف نے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہم آپ کی جمع کرائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ثبوت کا ذکر نہیں کیا، قانونی نکات کا انبار لگا دیا،جسٹس عظمت سیعد نےکہاکہ لگتا ہے باتیں دہرا کر آپ سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آپ چاہے جتنے دلائل دیں،ہم خاموشی سے سنیں گے۔

    جماعت اسلامی کےوکیل نے وزیراعظم کی تقریر کے چند نکات پڑھے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ بتائیں وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کیا چھپایا ہے؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تصویر تقریر میں پیش کی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزرا عدالت آ رہے ہیں،حکومتی مشینری کیس کا دفاع کر رہی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہاجاچکا بہت ہے،انہوں نے کہا اب سب لوگ انتظار کریں،جس نے جو برا بھلا کہنا تھاکہہ دیا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پاناما کادفاع کر رہی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیس کو چلنے دیں،انہوں نے کہا کہ سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں۔

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتےہوئےکہا کہ جج صاحب نےکہاسرکاری وکیل نےاب تک ثبوت نہیں دیے۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید نے کہا کہ 2ہفتےمیں پاناما کےہاتھی کی طرف کوئی نہیں آیا،کیس قانون اورضابطوں کی طرف جارہے ہیں۔

    شیخ رشید کا کہناتھاکہ ملکیت پرفیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جےرپورٹ کومکمل طورپردرست مانتاہوں۔

    تحریک انصاف کے رہنمافواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے کہاکہ آج جرمن اخبار نےنئی دستاویزات جاری کیےہیں۔

    فواد چوپدری کا کہناتھاکہ اب لازم ہے مریم نوازکانام ای سی ایل میں ڈال دیاجائے،انہوں نےکہا کہ اربوں روپے کے تحائف کاتبادلہ ہوا، پیسے کہاں سے آئے۔

    تحریک انصاف کےرہنما کا کہناتھاکہ مریم نواز05-2004میں کمپنیاں کس طرح چلا رہی تھیں،انہوں نے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے اربوں روپے کیسے باہرگیا اور پھر واپس آیا۔

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنماامیر مقام نے کہا کہ بغیرثبوت کے سیاسی قیادت پرالزامات لگائے جاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کسی کے پاس ثبوت ہیں توپیش کرے،عدالت فیصلہ کرے گی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا،انہوں نے کہا کہ پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلےہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے پہلے سچ ثابت کرنا پڑتا ہے،انہوں نےکہا کہ سچ ثابت کرنے کے لیےانکوائری کرنا ہوتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جب جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا،جس پر توفیق آصف نےرضوان گل جعلی ڈگری کیس کا حوالہ دیا۔جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ وہ مقدمہ الیکشن ٹریبونل سے شروع ہوا تھا سپریم کورٹ سے نہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ تحقیقات کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ کیا،جس پر جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ وزیراعظم نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے دائرہ اختیار پر دلائل دوں گا،جس پر جسٹس گلزار نےکہاکہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ ہم قرار دے چکے آرٹیکل 184/3 کے تحت سن سکتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ شریف خاندان کہتا ہے کاروبار میاں شریف کا تھا،انہوں نے کہا کہ اس سے وزیراعظم کا تعلق ثابت کریں۔

    جسٹس گلزار نےکہا کہ 2004میں میاں شریف کی وفات تک وہ کاروباردیکھتے رہے،انہوں نےکہا کہ کاروبار سے وزیراعظم کا تعلق کیسے بنتا ہے؟ جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ دبئی مل کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ موجود ہے،انہوں نےکہا کہ ریکارڈ سچا ہے یا جھوٹا؟ کچھ تو ہے۔

    جسٹس گلزار نےکہا کہ کون سا ایسا ریکارڈ ہے جو نواز شریف نے جمع نہیں کرایا،جس پر توفیق آصف نے کہا کہ دبئی مل طارق شفیع کے نام ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ دبئی فیکٹری کی کوئی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ رقم دبئی سے جدہ جانے کا بھی ریکارڈ نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیاکہ کیا جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے آپ کو کوئی ہدایت دی، جس پر وزیراعظم کےوکیل نےکہا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہیں، آج واپس آئیں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےمخدوم علی خان سے کہا کہ جتنا جلدی ہو جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کےوکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتے،جس پر انہوں نے جواب دیاکہ ایک وقت میں ایک سوال ہو تو جواب دوں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ثبوت اسی نے دینا ہے جس پر الزام ہے،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے خود کہاثبوت ہیں لیکن نہیں دیے۔

    توفیق آصف نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کر دیں اور قوم کو امتحان سے نکالیں۔

    جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ حضرت عمر نے کرتے کے سوال پر استثنیٰ نہیں مانگاتھا،وزیر اعظم یہاں روز استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

    توفیق آصف نےکہا کہ یوسف رضاگیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل کیا،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ این آر او کیس میں عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس ہوا۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قراردیا گیا،انہوں نےکہانااہل کرنے سے پہلے گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود تھا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت سچ جاننا عوام کا حق ہے،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ کیا کسی خاندان کی زندگی کے بارے میں آرٹیکل 19اے لگایا جا سکتاہے۔انہوں نےکہا کہ کیا آپ پر آرٹیکل 19اے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ وزیر اعظم عوامی عہدہ رکھتے ہیں جبکہ یہ ان کاذاتی معاملہ تھا،انہوں نےکہا کہ ایان علی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ عتیقہ اوڈو اور ایان علی کو قومی اسمبلی تک رسائی ممکن نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ طے کر لیں آپ ایان علی کے وکیل ہیں یاعتیقہ اوڈھوکے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمیں مطمئن کریں،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نے کاغذات نامزدگی میں کیا چھپایا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ نے اپنےمقدمے میں غلط روٹ اپنایا ہوا ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ میں عدالت کی معاونت کی کوشش کر رہا ہوں،جس پر جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیا پاکستان میں تھی؟۔انہوں نےکہا کہ مل پاکستان میں تھی تو التوفیق کیس لندن میں دائر کیوں ہوا؟۔

    توفیق آصف نےکہا کہ التوفیق کیس بارے شریف فیملی خود بتاسکتی ہے،جس پر جسٹس عظمت سیعد نے کہا کہ آپ کا نام توفیق ہے کیا التوفیق آپ کا بینک تو نہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ کیا آپ اپنی گزارشات پر ہم سے ڈیکلریشن چاہتے ہیں،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ بالکل چاہتا ہوں۔انہوں نےکہا کہ نواز شریف کے دونوں بیانات میں تضاد ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ قطری خط نواز شریف کے بچوں نے پیش کیا،انہوں نےکہا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے اپنا اور خاندان کا دفاع کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق بار ثبوت شریف خاندان پر ہے یہ باتیں ہوچکیں۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت پرجماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے دلائل دیے گئے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

  • پاراچنارا دھماکہ: وزیراعظم سمیت سیاسی رہنماؤں کی شدید مذمت

    پاراچنارا دھماکہ: وزیراعظم سمیت سیاسی رہنماؤں کی شدید مذمت

    اسلام آباد: وزیراعظم نوازشریف نے پاراچناردھماکےمیں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کی ہےاور قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کیا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے پاراچنار سبزی منڈی میں دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ دھماکے میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔

    وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پارا چنار دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے دھماکے میں ہونے والے جانی ومالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پاراچنار دھماکے شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہےکہ عوامی مقامات کی سیکورٹی مزید سخت کی جائے۔

    سابق صدر آصف علی زرداری نے پارا چنارمیں دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی نرسریوں کوختم کرناہوگا۔

    آصف علی زرداری نے کہا کہ شہیدوں کےورثاکےغم میں شریک ہیں،اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعاگوہیں۔

    پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزردای نے پاراچنار دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جاں بحق افرادکےلواحقین کےغم میں برابرکےشریک ہیں۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا دہشت گردوں کو شکست دینےکے لیے عوام کوہماراساتھ دیناہوگا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پاراچنار کے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہےکہ دہشت گرد کارروائیاں قوم کا عزم کمزور نہیں کرسکتیں۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے پاراچنار سبزی منڈی میں دھماکےکی مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ بزدل دہشت گردمعصوم لوگوں کونشانہ بنارہےہیں۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پاراچنار میں ہونے والے دھماکے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ دھماکے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے غم میں برابرکےشریک ہیں۔

    گورنر خیبرپختونخواہ ظفر اقبال جھگڑا نے پاراچنار دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔

    جماعت اسلامی کے امیر سراج نے الحق نے پاراچنار دھماکے کی شدید مذمت کی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاکی۔

    مزید پڑھیں: کرم ایجنسی:پاراچنارسبزی منڈی میں دھماکہ،20افراد جاں بحق

    واضح رہےکہ آج صبح پاراچنارسبزی منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں 20افراد جاں بحق جبکہ 40 سےزائدافراد زخمی ہوئے ہیں۔

  • آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کل تک کے لیےہوگئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےکی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر مریم صفدر کے وکیل کی جانب سے وزیراعظم کی بیٹی کے نام خریدی گئی جائیداد کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئی۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ والد نے بیٹی کے نام زمین خریدی،مریم نے قیمت ادا کی تو جائیداد بیٹی کو ٹرانسفر کر دی گئی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا ہے،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ان عدالتی فیصلوں میں دو فریقین کے درمیان تنازع تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کے درمیان جائیداد کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے،اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ مریم نواز کسی کے کفالت نہیں ،مالی طور پر خود مختار ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےوہ اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں،انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں مزید حقائق شامد حامد پیش کریں گے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا،جبکہ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف ہے۔

    وزیر اعظم کے وکیل نے بے نامی جائیداد سے متعلق ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وکیل صاحب آپ نے خود کہا جائیداد نام پر رکھی گئی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ مریم کو تحفے میں رقم دی گئی جو اس نے بعد میں والد کوواپس کی،انہوں نے کہا کہ تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی۔اس سے لگتا ہے مریم نواز والد کی زیر کفالت ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مریم نواز کے مالی حالات میں 2011 کے بعد بہت تبدیلی آئی،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز 2010 میں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں۔

    جسٹس شیخ عظمت کہا کہ معاملہ الیکشن کا نہیں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت کا ہے،وزیر اعظم کے عہدہ رکھنے کو چیلنج کیا گیاہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ محمود اختر نقوی کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھاوزیر اعظم کو نہیں،نواز شریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دوسرے فریق کا کہنا ہےنواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہناہے کہ کل کےدلائل پرآج وضاحت دی گئی،انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی پٹیشن میں کرپشن، ٹیکس چوری سے ہٹ چکے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہناتھا کہ عمران خان کہتے ہیں ہمارا کیس غلط بیانی کا ہے،انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہے کہ تحریک انصاف مقدمے سے متعلق تذبذب کا شکار ہے،انہوں نے کہا کہ نوازشریف عدالت کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناہے کہ عمران خان کہتے ہیں میں پاناما پرکمیشن نہیں بننے دوں گا،انہوں نےکہا کہ گالی گلوچ کے ذریعے اداروں کودباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہےکہ وزیراعظم کے خلاف بغیرثبوت مقدمہ چلایا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ منفی ہتھکنڈے اور وارداتیں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہناہےکہ تحریک انصاف مقدمے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کا ہر لیڈر سماعت کو اپنا ایک رنگ دیتا ہے۔

    طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت عظمیٰ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ عدالتیں دباؤ میں نہیں آیا کرتیں لیکن پی ٹی آئی کی کوشش پوری ہے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ایک بھی سوال کاحقائق پرمبنی جواب نہیں دیا۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ یہ کہتے ہیں وزیراعظم کی تقریر کو ریکارڈ پرنہ لایا جائے،انہوں نے کہا کہ پہلے پیسے باہر گئے،پھر بیٹے نے اپنے والد کو بھیجے۔والد نے اپنی بیٹی کو دیے،بیٹی نے والد سے زمین خریدلی۔

    پاناماکیس کی سماعت کی وقفے کےبعد دوبارہ آغاز پر جسٹس آٓف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں،انہوں نے کہا کہ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 184/3کا اختیار یقینی طور پر عدالت قانون کے مطابق استعمال کرے گی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جب تک کسی دستاویز کی تصدیق نہ ہو جائے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب سے کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی کتاب عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کر سکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں ہو اور سپریم کورٹ میں آجائے تو کیا کہیں گے،انہوں نے کہا کہ 1993میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سناگیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہو تو کیاپھربھی ایسا کیس سپریم کورٹ سن سکتی ہے،انہوں نے کہاکہ فوجداری کیس میں کسی کتاب کے مصنف کو بھی بلانا پڑتا ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معاملات برسوں ہائی کورٹ میں رہیں تو سپریم کورٹ سماعت کر سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے تحت اخباری خبریں شواہد نہیں،قانون شہادت کے تحت خبروں کو قانون کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ 184/3کے تحت اخباری خبر کوعدالت مختلف انداز سے دیکھتی ہے،جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ 184/3کے کچھ مقدمات میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کو وسیع کیا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ان مقدمات میں شواہد کا جائزہ لے کرحقائق تک پہنچاگیا۔عدالت نےکہا کہ اٹھاون ٹوبی کے تحت سپریم کورٹ نےحکومتوں کی برطرفی کے مقدمات سنےاورفیصلے کیے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیا عدالت واقعاتی یا نتیجہ شہادت کا جائزہ نہیں لے سکتی ہے،جس پران مقدمات میں جائزہ لیا فیصلہ لیتے وقت صدرکے سامنے کوئی مواد تھا یا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ جرم کی سزا پانچ سال ہے تو براہ راست نااہلی کی سزا ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم کے دلائل مکمل ہوگئے،سپریم کورٹ نے سماعت کل تک لیے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کے لیےملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پانامالیکس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت آج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

    لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

    درخواستوں کی سماعت کاآغاز کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کو کسی صورت التواکا شکار نہیں ہونے دیا جائےگااورسماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

    سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئےوزیراعظم کی 4 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیا،نعیم بخاری کا کہناتھا کہ نواز شریف نے غلط بیانی کی،وہ صادق اورامین نہیں رہے،نااہل قراردیا جائے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی تقریر میں دوبئی فیکٹری کا کوئی ذکر نہیں،نواز شریف کی تقریر جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کی مطابقت بھی واضع کریں۔

    جسٹس اعجازالحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی دو تقریروں پر ہے،کیاوزیر اعظم کی یہ دستخط شدہ دستاویز ہیں۔

    نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز نہیں ہے،آئی سی آئی جے کی دستاویزات اور رپورٹس عالمی سطح پر جاری ہوئیں لیکن انہیں ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔

    نعیم بخاری نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے،عدالت چیئرمین نیب کو تاخیر کے باوجودہائی کورٹ کےفیصلےکےخلاف اپیل کرنےکاکہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کراچکے ہیں،چیئرمین نیب کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر قطری شہزادے کے خط کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو سارا کیس واضح ہوجائے گا۔

    عدالت نے نعیم بخاری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آف شور کمپنیاں 2006 سے پہلے ہی وزیراعظم کے بچوں کی ملکیت میں تھیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نومبر میں سابق قطری وزیراعظم کے پیش کیے گئے خط کے مطابق لندن فلیٹس الثانی فیملی کی ملکیت تھےجس کے بعد شریف خاندان نے انہیں خریدا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ الثانی خاندان ہی ان فلیٹس کا مالک تھا۔

    عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو حکم دیا کہ وہ پارک لین فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی معلومات واضح کریں۔

    قطری شہزادے کےخط کے مطابق لندن کے پارک لین فلیٹس نواز شریف کے والد میاں شریف نے 1980 میں خریدے، دستاویز کے مطابق ان فلیٹس کو دبئی اسٹیل ملز فروخت کرکے خریدا گیا۔

    جس پر جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ان فلیٹس میں سرمایہ کاری اس قدر منافع بخش تھی کہ 1980 سے 2006 تک اربوں روپے حاصل ہوگئے۔

    دوران سماعت سیاستدانوں کی سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا ٹاک پر بھی عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ احاطے کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنایا جائے۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا نواز شریف نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا، وزیراعظم 1980سے1997تک بزنس اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے۔

    عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کب منتخب ہوئے، ملک بدر کب ہوئے، پنجاب کے وزیراعلیٰ کب بنے، اور پنجاب کے وزیر خزانہ کب رہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے یہ تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔

    پاناما کیس کی سماعت سے قبل آج سپریم کورٹ کے باہر گفتگو میں تحریک انصاف کےچیئرمین کا کہنا تھا کہ امید ہے اب حالات بدل جائیں گے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنا معیار اوروقارکھودیا،کُل جماعتی کانفرنس بلاکرنگران حکومت کا اعلان کیا جائے۔

    تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمد قریشی کا کہنا تھا کہ موسم بدل رہا ہے،وکیل بدل چکے ہیں،لگتا ہے رُت بدلنےوالی ہے۔

    وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز،حسین نواز اور بیٹی مریم صفدر کے خلاف گذشتہ سال ستمبر میں چار درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں تھیں۔

    درخواست گزاروں میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ اس سے قبل ان درخواستوں کی سماعت کر چکی ہے لیکن چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سماعت کرنے والے بینچ کے ٹوٹ جانے کے بعد اب ان درخواستوں کی ازسر نو سماعت شروع کی جا رہی ہے۔

    خیال رہےکہ گزشتہ سال سپریم کورٹ کے لارجر بینج نےسابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاناما کیس کی 10 سماعتیں کیں تھی۔

    مزید پڑھیں:پاناما کیس، پی ٹی آئی نے مزید دستاویزات جمع کرا دیں

    یاد رہےکہ تحریک انصاف کی طرف سے پاناما پیپرز کیس میں اضافی دستاویزات داخل کی گئی ہیں۔دستاویزات میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2005ء میں مریم صفدر آف شور کمپنیوں اور لندن فلیٹس کی ٹرسٹی نہیں حقیقی وارث ہیں،ان کے ٹرسٹی ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔

    دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کا مقدمہ سلمان اسلم بٹ کے بجائےاب معروف قانون دان مخدوم علی خان لڑرہےہیں،مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کی وکالت شاہد حامد کررہےہیں،حسین نواز کی طرف سے اب اکرم شیخ نہیں سلمان اکرم راجہ مقدمہ لڑرہے ہیں۔

    واضح رہے کہ شریف خاندان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی یہ مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کی قیادت کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔