Tag: وزیر آغا کی برسی

  • سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    زندگی میں کبھی ایسا کوئی واقعہ بھی پیش آتا ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، اور اس کی کوئی توجیہ بھی نہیں پیش کر پاتی۔ بہت غور کرنے، سوچنے، واقعات کی کڑیاں ملانے کے باوجود ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ اپنی مشہور خود نوشت سوانح عمری میں نقل کیا ہے۔

    یہ حیران کُن واقعہ اور پُراسرار ہستی کا تذکرہ مصنّف کی کتاب "شام کی منڈیر سے” میں شامل ہے۔ وزیر آغا پاکستان کے ممتاز نقاد، ادیب، شاعر، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ انھوں نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے:

    "میں جھنگ میں دو سال مقیم رہا۔ پہلا سال تو میں نے مگھیانہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گزارا اور دوسرا سال کالج کے ہاسٹل میں۔ میرے یہ عزیز مگھیانہ شہر کے کوتوال تھے۔ نہایت سخت مزاج تھے۔ عام طور سے پنجابی میں باتیں کرتے لیکن جب غصّہ آتا تو اردو میں منتقل ہو جائے اور اردو ایسے کرخت لہجے میں‌ بولتے کہ محسوس ہوتا پشتو بول رہے ہیں۔ البتہ اردو بولنے کے دوران گالیاں پنجابی میں دیتے۔ کہتے اردو میں گالیاں دوں تو ملزم اقبالِ جرم نہیں کرتا۔”

    ان کے مکان کے پاس ایک قدیم قبرستان تھا جس میں ایک فقیر سائیں چھلّے شاہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے اس عزیز کے پاس بھی آتا اور گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے رخصت ہو جاتا۔ میرے یہ عزیز اس کے عقیدت مند تھے اور اسے ایک پہنچا ہوا فقیر سمجھتے تھے مگر ہم لڑکے بالے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔”

    "ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ ہُوا یہ کہ میں‌ گھر کے باہر ایک میدان میں چارپائی پر لیٹا سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سائیں چھلّے شاہ دوسری چارپائی پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے رہے۔ پھر کہا، مجھے کچھ روپے دو! میں‌ بے اختیار ہنس پڑا۔ میں نے کہا، بابا جی میرے پاس روپے کہاں؟ واقعی میری جیب میں اس وقت بمشکل ایک روپے کی ریزگاری ہوگی۔ اگر روپے ہوتے بھی تو میں اسے کیوں دیتا؟ بابا نے گھور کر مجھے دیکھا اور تقریباً چیخ کر کہا۔ روپے نہیں‌ ہیں‌ تمھارے پاس؟ اور وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے حیران ہو کر کہا، کون سا دس روپے کا نوٹ بابا جی؟ مگر بابا جی نے میری بات کا جواب نہ دیا اور بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔”

    "دوپہر جب میں‌ نہانے کے لیے غسل خانے میں‌ گیا اور میں‌ نے قمیص کے نیچے پہنی ہوئی بنڈی کو اتارا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ جب میں وزیر کوٹ سے آیا تھا تو میری ماں نے بنڈی کی جیب میں‌ دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سِی دیا تھا۔ انھیں سلانوالی کا تلخ تجربہ شاید یاد تھا۔ اس لیے انھوں نے میرے لیے واپسی کے کرایہ کا بندوبست کردیا تھا۔ میں نے جیب کو چُھوا، نوٹ جیب میں‌ موجود تھا۔ یکایک مجھے بابا جی کا سوال یاد آیا گیا اور میں‌ تادیر سوچتا رہا کہ بابا جی کو اس نوٹ کا علم کیسے ہوگیا؟ اس واقعے کو آج اڑتالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ تاحال مجھے اس کا جواب نہیں‌ ملا۔”

  • اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    آج دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات اور نئے زاویوں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922 کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956 میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول ثابت ہوا جریدہ ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین "نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا اور اسی طرح انشائیے بھی کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کے متعدد شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    7 ستمبر 2010 کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گائوں میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔