Tag: وزیر اعظم تھریسامے

  • وزیر اعظم تھریسامے جون میں مستعفی ہو سکتی ہیں، چیئرمین کنزرویٹو کمیٹی

    وزیر اعظم تھریسامے جون میں مستعفی ہو سکتی ہیں، چیئرمین کنزرویٹو کمیٹی

    لندن : برطانوی سیاست دان گراہم بریڈی کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اس ڈیل کی منظوری کی صورت میں پہلے ہی اپنا منصب چھوڑنے کا عندیہ دے چکی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی طاقت ور کنزرویٹو کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے جون میں وزارت عظمیٰ چھوڑ دینے کی تاریخ کا اعلان کر سکتی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بریڈی نے کہاکہ مے اس وقت بریگزٹ ڈیل منظور کروانے کی کوششوں میں ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم اس ڈیل کی منظوری کی صورت میں پہلے ہی اپنا منصب چھوڑنے کا عندیہ دے چکی ہیں۔

    گراہم بریڈی نے یہ بھی کہا کہ مے کا پختہ عزم ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کو خیرباد کہہ دے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل پر بحث تین جون سے شروع ہونے والے سیشن میں کی جائے گی۔ بریڈی 1922 کمیٹی کے سربراہ ہیں، جو کسی بھی لیڈر کو منصب چھوڑنے کے لیے مجبور کر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : کنزرویٹیوپارٹی کی کانفرنس بدمزگی کا شکار، تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ کی کاؤنٹی ویلز میں کنزرویٹیوپارٹی کی جانب سے کانفرنس منعقد کی گئی، کانفرس کےشرکاء نے وزیراعظم تھریسامے پرکڑی تنقید کرتے ہوئے ان سے مستعفٰی ہونے کا مطالبہ کردیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے خطاب کرنے جیسے ہی اسٹیج پر آئیں تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر بلدیاتی انتخابات میں شکست کا ذمہ دار انہیں ٹھرایا تھا۔

    کانفرنس کے شرکا نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ استعفیٰ کیوں نہیں دیتیں ؟ ہم آپ کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے۔

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے آغاز رمضان پر مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالم اسلام میں رمضان کے آغاز پر برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کیا۔

    وزیر اعظم تھریسامے نے برطانوی مسلمانوں کو برٹش معاشرے کا اہم حصہ قرار دیا، اپنے پیغام میں کہا ’برٹش مسلمان ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔‘

    انھوں نے ماہِ رمضان سے متعلق کہا کہ رمضان صبر، ایثار اور برداشت کا مہینہ ہے، رمضان کے روحانی اثرات مثبت معاشرتی تبدیلیاں لاتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ہوگا

    دریں اثنا، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کو بھی مذکور کیا، کہا کرائسٹ چرچ مسجد اور کولمبو چرچ حملہ آور امن و محبت کے دشمن ہیں۔

    واضح رہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار 5 مئی کو ہوگا، مفتی منیب الرحمان اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    26 اپریل کو محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ رمضان کا چاند 30 شعبان یعنی 6 مئی کو نظر آنے کا امکان ہے اور پہلا روزہ 7 مئی بروز منگل ہوگا۔

  • وزیر اعظم تھریسامے تیسری مرتبہ بریگزٹ‌ معاہدے پر ووٹنگ کےلیے پُرعزم

    وزیر اعظم تھریسامے تیسری مرتبہ بریگزٹ‌ معاہدے پر ووٹنگ کےلیے پُرعزم

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے آئندہ ہفتے تیسری مرتبہ یورپی یونین سے انخلاء کے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کروائیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر اعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ اگر بریگزٹ معاہدے کا مسودہ اس مرتبہ بھی حمایت حاصل نہ کرسکا تو بریگزٹ کےلیے طویل مدت تک انتظار کرنا پرسکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے نے ابھی تک بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے تیسری مرتبہ ہونے والی ووٹنگ کی تاریخ نہیں بتائی ہے۔

    برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ممکن ہے بریگزٹ کم وقت کےلیے موخر کرنا پڑے گا یا طویل مدت کےلیے موخر کرنا پڑے، بریگزٹ اب اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ پر منحصر کہ وہ تھریسامے کے تیار کردہ معاہدے کو منظور کرتے ہیں یا نہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اگر اراکین پارلیمنٹ تھریسامے مے کی یورپی یونین سے سربراہان سے ملاقات سے قبل بریگزٹ معاہدے کو منظور کرلیتے ہیں تو بریگزٹ کےلیے 30 تک توسیع درکار ہوگی۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے خبردار کیا کہ حد زیادہ ترجیحات کے باعث دو مرتبہ بریگزٹ ڈیل مسترد ہوچکی ہے اگر اس مرتبہ بھی مسترد ہوئی برطانیہ کو بریگزٹ کےلیے طویل عرصے تک توسیع لینا پڑے گی کیوں برطانیہ کو یورپی پارلیمنٹ کے الیکشن میں حصّہ لینے کی ضرورت پڑے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق تھریسامے کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ جو نتیجہ آیا وہ صحیح ہے لیکن جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتائج کا سامنا ہاؤس کو کرنا پڑے گا‘۔

    یاد رہے کہ بدھ کے روز برطانوی وزیرعظم تھریسامے کو ایک اور دھچکا لگا تھا جب اراکین پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی ڈیل بھی 242 کے مقابلے میں 391 ووٹوں سے مسترد ہوگئی تھی۔

    بریگزٹ کے تحت برطانیہ کو 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا ہے، جبکہ تھریسا مے کی جانب سے یورپی رہنماؤں سے مسلسل رابطوں کے باوجود وہ ڈیل کو بچانے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ معاہدے میں پیش رفت؟ وقت بہت کم ہے

    یاد رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    دریں اثنا ء کچھ روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

  • بریگزٹ، تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

    بریگزٹ، تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے دو روزہ دورے پر شمالی آئرلینڈ میں ہیں، جہاں وہ ریاست کی پانچ بڑی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کررہی ہیں تاکہ بریگزٹ معاہدے کے مسودے پر حمایت حاصل کرسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے 15 جنوری کو ہونے والی ووٹنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد انہوں نے معاہدے کی منظوری کےلیے دوطرفہ گفتگو پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے شمالی آئرلینڈ کے دو روزہ پر ہیں اور وہ عوام کو یقین دہانی کرانے کی کو شش کررہی ہیں کہ بریگزٹ ڈیل میں وہ یقینی بنائیں گی کہ آئرش بارڈر پر روایتی چیک پوسٹیں قائم نہ ہوسکیں۔

    خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے تھریسامے نے کہا تھا کہ وہ متنازعہ بیک اسٹاپ منصوبے میں تبدیلی کرنا چاہتی ہیں لیکن انہوں نے اسے ختم کرنے کا اشارہ نہیں دیا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات یورپی یونین کمیشن کے صدر جین کلوڈ جینکر اور دیگر یورپی رہنماؤں سے جعمرات کو ملاقات سے قبل ہوئی ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران بریگزٹ معاہدے میں کی گئیں تبدیلوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ یورپی یونین کی جانب معاہدے کے مسودے میں بیک اسٹاپ سمیت کسی بھی تبدیلی سے انکار کیا گیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تھریسامے کو بیک اسٹاپ سے متعلق دو الگ الگ پیغامات دئیے گئے تھے۔

    کنزرویٹو پارٹی کی اتحادی جماعت ڈی یو پی کا کہنا تھا کہ انہیں آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے پر موجودہ تجویز کسی صورت قبول نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ بیک اسٹاپ (اوپن بارڈر) ایک معاہدہ ہے جس کے تحت شمالی آئرلینڈ اور جمہویہ آئرلینڈ کے درمیان سرحدی باڑ اور کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد افراد کو خوفزدہ ہیں کہ آئرلینڈ اور سمالی آئرلینڈ کے درمیان کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے امن کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : بیک اسٹاف کا معاملہ، برطانوی حکام کی متبادل معاہدے پر گفتگو

    خیال رہے کہ  ایک روز قبل وزیر داخلہ ساجد جاوید  نے کہا تھا کہ ’ہمیں موجودہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے‘ جبکہ آئرش وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے خیال کو جائزہ لینے کے بعد پہلے ہی مستر دکرچکے ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    آئرلینڈ کے وزیر اعظم لیو ورڈاکر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا  تھاکہ ’یہ بہت مایوسی کی بات ہے کہ برطانوی حکومت واپس ٹیکنالوجی کے خیال میں جارہی ہے‘۔

  • وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش

    وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت پھر مشکل میں گرفتار ہوگئی، پارلیمنٹ میں تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نے پیش کی، اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی جانب سے جنوری میں بریگزٹ معاہدے پر ہونے والی ووٹنگ کو مسترد کرتے ہیں۔

    جیریمی کوربن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم تھریسامے کی پالیسیوں نے برطانیہ کو بحران سے دوچار کردیا ہے، اس لیے وزیر اعظم پر اعتماد نہیں رہا ارکین پارلیمنٹ تھریسامے کے خلاف حتمی فیصلہ دیں۔

    برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ معاہدے پر رواں ہفتے رائے شماری کروائی جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی تبدیلی آئے گی۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل بھی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، تحریک عدم اعتماد کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے 48 ایم پیز نے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جس میں تھریسامے کی حمایت ختم کرنے کا اعلان گیا تھا۔

    خیال رہے کہ یاد رہے کہ وزیراعظم تھریسامے 11 دسمبر کو ہونے والی رائے شماری یہ کہتے ہوئے ملتوی کردی تھی کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیے جانے پر ان کی حکومت ختم اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    واضح رہے کہ تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے پر اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا ہے جب کہ وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ 14 جنوری تک ملتوی کی تھی۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دئیے تھے۔

  • تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کروں گی، وزیر اعظم تھریسا مے

    تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کروں گی، وزیر اعظم تھریسا مے

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا.

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف پارلیمنٹ میں ٹوری پارٹیز اور حکمران جماعت 48 ایم پیز کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی جسے منظور کرلیا گیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد منظور ہونے پر وزیر اعظم تھریسا مے نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔

    وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کروں گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں قیادت میں تبدیلی ملک کو بڑے خطرے سے دوچار کرسکتی ہے اور تبدیلی کی صورت میں بریگزٹ بھی تعطل کا شکار ہوگی۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت مشکل میں پھنس گئی ہے، پارلیمنٹ نے تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرلی جس پر آج ووٹنگ ہوگی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ درخواستیں جمع کروانے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق کابینہ اراکین سمیت دیگر کا کہنا ہے کہ 48 افراد نے درخواستیں جمع کرو ائی ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر تھریسامے بریگزٹ معاہدے کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے میں ناکام رہی تو حکمران جماعت کو پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب کرنا پڑے گا جو آئندہ کا وزیر اعظم بھی بن جائے گا۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے مختلف رہنماؤں کے نام لیڈڑ شپ اور وزارت داخلہ کے لیے سامنے آرہے ہیں جس میں سابق وزیر بورس جانسن اور موجودہ وزیر داخلہ ساجد جاوید کا نام بھی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ سے متعلق ملتوی ہونے والی رائے شماری آئندہ برس 21 جنوری سے پہلے ہونی ہے۔

  • لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن : سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے وزیر اعظم تھریسامے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2016 برطانوی عوام نے اپنی آزادی کے لیے بریگزٹ کو ووٹ دئیے تھے لیکن حکومت ان کی امید کو پورا نہیں کرسکی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے بریگزٹ کے حوالے سے تھریسامے کے تیار کردہ پلان پر نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے جو تکلیف دہ ہے۔

    سابق وزیر خارجہ نے ٹوری کانفرنس سے پہلے ہی تھریسامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیکرز پلان مضحکہ خیز اور جمہوری تباہی پر مبنی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے رواں سال جولائی میں قیادت کے لیے مدد کی تھی، چیکرز پلان اخلاقی طور پر توہین آمیز ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے ابتداء میں چیکرز پلان کی حمایت کی تھی تاہم مستعفی کے بعد وہ تھریسا مے کی منصوبہ بندی کے خلاف ہوگئے اور اسے تباہ کن قرار دیا۔

    بورس جانسن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تھریسامے کے چیکرز پلان کے ذریعے برطانیہ آدھا یورپی یونین اور آدھا یونین سے باہر ہوجائے گا جو صدیوں کی کامیابیوں سے انحراف ہوگا۔

    بورس جانسن نے برطانوی خبر رساں ادارے میں تحریر کیے گئے کالم میں کہا تھا کہ شہریوں نے سنہ 2016 میں اپنی آزادی کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن افسوس حکومت نے برطانوی شہریوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے رواں ماہ کے اوائل میں برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔