Tag: وزیر اعلیٰ سندھ کو خط

  • ٹیکس چور کے خلاف کارروائی پر وفاق اور سندھ کے درمیان ایک نیا ممکنہ تنازع سر اٹھانے لگا

    ٹیکس چور کے خلاف کارروائی پر وفاق اور سندھ کے درمیان ایک نیا ممکنہ تنازع سر اٹھانے لگا

    کراچی: شہر قائد میں ایک ٹیکس چور کے خلاف کارروائی پر وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان ایک نیا ممکنہ تنازع سر اٹھانے لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق زبیر اسٹیلز کراچی کے ڈائریکٹر زبیر گھی والا کے خلاف ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے مقدمے کے بعد زبیر گھی والا نے گریڈ 22 کے ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس کے خلاف فیروزآباد تھانے میں مقدمہ درج کروا دیا ہے۔

    ڈی جی کسٹمز کے خلاف مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ کے حکم پر درج کیا گیا ہے، جس میں اقدام قتل، زخمی کرنے سازش و دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں، یہ مقدمہ ایس پی جمشید ٹاؤن فاروق بجارانی کی مبینہ بے بنیاد رپورٹ پر درج کرایا گیا۔

    اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اک خط لکھ کر اعلیٰ سطح پر ایکشن لینے کی استدعا کی ہے، خط میں وزیر خزانہ نے لکھا کہ اس واقعے کے خلاف اعلیٰ سطح پر سخت ایکشن درکار ہے، اس کیس کو سندھ پولیس کے خود احتسابی یونٹ کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے سینئر حکام سے رابطہ کرنے پر نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس خبر کی تصدیق کی گئی ہے، تاہم سندھ حکومت کی جانب سے خط پر تاحال کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔

    خط کے متن کے مطابق زبیر اسٹیلز کراچی کے خلاف اپریل میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہوا تھا، یہ مقدمہ ڈھائی کروڑ روپے کے ٹیکس کی چوری، اور 4 لاکھ 39 ہزار ڈالر سے زائد منی لانڈرنگ پر درج ہوا، جس کے بعد کمپنی ڈائریکٹر زبیرگھی والا کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی گئی، کارروائی کے دوران مبینہ طور پر اہل کاروں نے فائرنگ کی، جس سے زبیر گھی والا کا ڈرائیور پاؤں میں گولی لگنے سے زخمی بھی ہوا۔

    خط کے مطابق زبیر گھی والا کو فیروزآباد سے گرفتار کیا گیا تھا، تاہم کسٹمز کورٹ سے 9 اپریل کو ان کی ضمانت ہوئی، ضمانت کے بعد زبیر گھی والا نے کسٹمز اہل کاروں کے خلاف مقدمے کے لیے عدالت سے رجوع کیا، اور درخواست میں لکھا کہ مجھے جان سے مارنے کے لیے فائرنگ کی گئی، کسٹمز اہل کاروں نے رشوت طلب کی، نہ دینے پر مقدمہ کر دیا گیا۔

    زبیر گھی والا نے ایڈیشنل سیشن کورٹ ایسٹ سے مقدمے کے لیے رابطہ کیا تھا تاہم عدالت نے مقدمے کے لیے ایس ایچ او سے رپورٹ مانگی جو کسٹمز کے حق میں دی گئی، رپورٹ مخالفت میں آنے پر زبیر گھی والا نے مقدمے کی درخواست واپس لے لی، اور دوبارہ مقدمے کی درخواست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ کو جمع کرائی، جس کے لیے ایس پی جمشید ٹاؤن فاروق بجارانی نے بے بنیاد رپورٹ بنا کر دی۔

    خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایس پی نے زبیر گھی والا کے حق میں اپنے ایس ایچ او کے خلاف رپورٹ جمع کرائی، جس کی بنیاد پر کسٹمز انٹیلیجنس کو سنے بغیر پہلی ہی پیشی پر عدالت کی جانب سے مقدمہ اندراج کا حکم دیا گیا، اور یوں بے بنیاد، جانب دار، حقیقت سے عاری، گمراہ کن پولیس رپورٹ پر مقدمہ درج ہو گیا، یہ مقدمہ ٹیکس چور، فراڈ شخص کی ایس پی جمشید ٹاؤن سے گٹھ جوڑ کے باعث درج ہوا۔

    خط کے مطابق ایس پی جمشید ٹاؤن نے جلد بازی اور بغیر سوچے 22 گریڈ کے افسر کو نامزد کر دیا تھا، یہ تمام کام کسی ویریفکیشن کے بغیر کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے ریاست کے اندر ایک ادارہ دوسرے کے خلاف استعمال ہوتا ہے، اس سے فراڈ عناصر کے غیر قانونی حاصل رقم اور اختیارات کے استعمال کا اندازہ ہوتا ہے۔

  • کے فور منصوبہ ایف ڈبلیو او کے ذریعے مکمل کرایا جائے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تجویز

    کے فور منصوبہ ایف ڈبلیو او کے ذریعے مکمل کرایا جائے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تجویز

    کراچی: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سندھ حکومت کو تجویز دی ہے کہ کے فور منصوبہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے ذریعے مکمل کرایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کو فراہمی آب کے میگا منصوبے میں پائپ مافیا کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پائپ مافیا کی مداخلت سے کے فور کی لاگت 100 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

    اس سلسلے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں تجویز دی گئی ہے کہ کے فور منصوبہ واپڈا سے واپس لے کر ایف ڈبلیو او کے ذریعے کرایا جائے۔

    خط میں کہا گیا کہ ڈیزائن کی تبدیلی کی وجہ سے کے فور منصوبے پر 2018 سے کام بند ہے، واپڈا نیلم جہلم، داسو ڈیم منصوبہ مقررہ لاگت اور وقت پر مکمل نہ کر سکی، واپڈا کے ذریعے کراچی میں فراہمی آب کے میگا منصوبے مکمل کرانے سے مزید تاخیر ہوگی۔

    ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے خط میں ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا، لکھا گیا کہ پائپ مافیا کے دباؤ پر منصوبے کی لاگت میں 55 ارب روپے کے اضافے کا خدشہ ہے، اس لیے 260 ایم جی ڈی پانی کے منصوبے کو طے شدہ امور پر مکمل کیا جائے۔