Tag: وزیر مینشن

  • قائد اعظم کی جائے پیدائش برساتی پانی میں ڈوب گئی

    قائد اعظم کی جائے پیدائش برساتی پانی میں ڈوب گئی

    کراچی: سندھ حکومت کی ناقص رین ایمرجنسی پالیسی کے باعث گزشتہ روز کراچی میں ہونے والی تیز بارش کے پانی میں قائد اعظم کی جائے پیدائش بھی ڈوب گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کھارادر میں موجود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش وزیر مینشن بھی محفوظ نہ رہ سکی، وزیر مینشن بھی برساتی پانی میں ڈوب گیا۔

    مون سون کے تیسرے اسپیل میں کراچی میں ہونے والی تیز بارش کی وجہ سے وزیر مینشن کے سامنے اور اطراف کی سڑکیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں، برساتی پانی کے ساتھ سیوریج کا پانی بھی شامل ہو گیا ہے۔

    وزیر مینشن کے چاروں اطراف اور دروازے کے باہر لگی گرل سے پانی اندر داخل ہوا، دوسری طرف انتظامیہ کی بے حسی کے باعث بانی پاکستان کی جائے پیدائش سے تاحال نکاسی کا کام شروع نہ ہو سکا ہے، علاقے کی بجلی بھی کئی گھنٹوں تک غائب رہی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش ہوئی تھی، جس میں شہر میں 5 افراد جاں بحق ہوئے، اس دوران شہر میں 60 فی صد سے زائد علاقے بجلی سے محروم رہے، متعدد علاقوں میں برساتی نالے ابل پڑے اور سڑکیں تالاب بن گئی تھیں۔

    بارش کے دوران 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائی چلیں، مضافاتی علاقوں میں آندھی آئی، گلشن حدید میں 86.2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، محکمہ موسمیات کے مطابق آج بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

  • وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح کا 142 واں یومِ پیدائش منایا ہے۔ قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو جس گھر میں پیدا ہوئے، اس کا نام وزیرمینشن ہے اوریہ کراچی کے علاقے کھارادرمیں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آ پ کی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پرلی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ‘ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔

    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پرآنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

  • وزیرمینشن: قائدِاعظم کی سب سے اہم یادگار

    وزیرمینشن: قائدِاعظم کی سب سے اہم یادگار

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 138 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو جس گھر میں پیدا ہوئے، اس کا نام وزیرمینشن ہے اوریہ کراچی کے علاقے کھارادرمیں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پرلی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ‘ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔

    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پرآنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

  • وزیر مینشن: میں گاہِ گمشدہ ہوں مجھے یاد کیجئے

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو اپنے گھر میں پیدا ہوئے، جسکا نام وزیر مینشن ہے اور وہ کراچی کے علاقے کھارادر میں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پر لی تھی انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اسکے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی  زیریں منزل کو ریڈنگ ہال میں اور پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور اسکے بعد اسے 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔
     
    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو  وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جنکی مدد سے وہ اپنے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔  

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پر آنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔