Tag: وفیات

  • معروف اداکار انور اقبال انتقال کر گئے

    معروف اداکار انور اقبال انتقال کر گئے

    کراچی: معروف اداکار انور اقبال طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیلی وژن کے سینئر ترین اداکار محمد انور اقبال بلوچ کا انتقال ہو گیا، ان کے داماد شہمرید بلوچ نے انتقال کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے مداحوں سے گزارش کی ہے کہ مرحوم کے لیے دعائیں کریں۔

    سینئر آرٹسٹ انور اقبال نے پاکستان ٹی وی انڈسٹری کے ٹاپ کلاس ڈراموں ’شمع‘ اور ’آخری چٹان‘ سے بے پناہ شہرت حاصل کی، وہ ڈراما انڈسٹری کے معروف اداکار تھے، انھوں نے اردو اور سندھی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار ادا کیے۔

    انور اقبال کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز تھی، اور کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ گردوں کی تکلیف میں ایک عرصے سے مبتلا تھے۔

    ٹی وی کے معروف سینئر اداکار انور اقبال شدید علیل، دعائے صحت کی اپیل

    یاد رہے کہ چند دن قبل سوشل میڈیا پر اداکار انور اقبال کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اسپتال کے بستر پر موجود ہیں، اس تصویر پر انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر لی گئی۔

    انھوں نے فیس بک پوسٹ میں 26 جون کو کہا کہ اسپتال میں میری مرضی کے بغیر میری تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں، جس سے میری اور میرے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہوئی، میں میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ میری پرائیویسی اور میرے اہل خانہ اور مداحوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار ایس بی جان انتقال کرگئے

    پاکستان کے معروف گلوکار ایس بی جان انتقال کرگئے

    کراچی: پاکستان کے معروف گلوکار سنی بینجمن جان المعروف ایس بی جان کراچی میں ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار و موسیقار ایس بی جان طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئے، وہ 1934 میں کراچی میں ایک کرسچن گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔

    سنی بینجمن جان کی عمر 87 سال تھی، وہ کئی روز سے علیل تھے، بیٹے نے بتایا کہ والد کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی، 3 روز سے وینٹی لیٹر پر تھے، سنی بینجمن جان کے بیٹوں اور اسپتال انتظامیہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی۔

    اس سے قبل سوشل میڈیا پر آج دوپہر کو ان کے انتقال کی خبریں وائرل ہو گئی تھیں، تاہم بیٹے نے اس وقت اس کی تردید کر دی تھی، اور اسے کزن کی غلط فہمی قرار دیا تھا۔

    ایس بی جان نے گلوکاری کا آغاز 20 مئی 1950 کو ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا تھا، ان کو 2011 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    ایس بی جان کو ان کی منفرد انداز میں غزل گائیکی کی وجہ سے شہرت ملی، ان کا شمار پاکستان کے 1960 سے 1975 کے معروف گلوکاروں اور غزل گائیکوں میں ہوتا ہے، اگرچہ ان کے متعدد گانے مشہور ہوئے، تاہم ان کی مقبولیت کی وجہ ’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘ گانا بنا۔

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں

    بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں

    پشاور: معروف خاتون سیاست دان بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بیگم نسیم ولی خان 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں، اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ شوگر اور عارضہ قلب میں مبتلا تھیں، مرحومہ کی نماز جنازہ کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

    مرحومہ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کی سوتیلی والدہ اور خان عبدالولی خان مرحوم کی بیوہ تھیں، ان کی نماز جنازہ چارسدہ میں ادا کی جائے گی۔

    بیگم نسیم ولی خان صوبہ خیبر پختون خوا سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون سیاست دان تھیں، وہ ایک بار رکن قومی اسمبلی، تین بار رکن صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں، اور اور عوامی نیشنل پارٹی کی سابق صوبائی صدر تھیں۔

    یاد رہے کہ بیگم نسیم ولی کے شوہر اور پاکستان کے نامور سیاست دان خان عبدالولی خان کا انتقال 26 جنوری 2006 کو پشاور میں ہوا تھا، وہ 11 جنوری 1917 کو ضلع چارسدہ کے علاقے اتمان زئی میں پیدا ہوئے تھے۔

    بیگم نسیم ولی خان

    بیگم نسیم ولی خان کی پیدائش اور پرورش ایک قدامت پسند سیاسی گھرانے میں ہوئی، میدانِ سیاست میں وہ 1975 میں اس وقت منظرِ عام پر آئیں جب اُن کے شوہر اور پشتون قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے صدر ولی خان کو گرفتار کر لیا گیا، اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں بیگم نسیم ولی خان نے این اے پی کی باگ ڈور سنبھال لی اور حیدر آباد جیل سے اپنے شوہر اور اے این پی کے درجنوں ساتھیوں کی رہائی کے لیے ایک کامیاب مہم چلائی۔

    اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں ہی میں بیگم ولی نے اس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب وہ 1977 کے عام انتخابات میں جنرل نشست پر خیبر پختون خوا سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بنیں، انھوں نے 1993 اور 1997 میں اے این پی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے مرد حریفوں کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی۔

    بعض سیاسی اختلافات کی وجہ سے بیگم نسیم ولی نے 2014 میں عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کیا، وہ اپنی پارٹی بنانے والی چارسدہ کی پہلی پختون ہیں، وہ ہمیشہ انتخابی عمل میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی مضبوط حامی رہیں، اور اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ خواتین کو سیاست میں ضرور حصہ لینا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کا بڑا حصہ ہیں۔

  • لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں

    لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں

    لاہور: معروف پاکستانی لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق لوک فن کار عارف لوہار کی اہلیہ رضیہ عارف کا گزشتہ رات ایک نجی اسپتال میں انتقال ہو گیا، وہ کرونا کی مشتبہ مریضہ تھیں۔

    نجی اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عارف لوہار کی اہلیہ رضیہ عارف کو 2 گھنٹے قبل اسپتال لایا گیا تھا، وہ کرونا وائرس کی علامات میں مبتلا تھیں، ان کا کرونا ٹیسٹ کیا جا رہا تھا لیکن ٹیسٹ کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

    بشریٰ انصاری کی بہن اداکارہ سنبل شاہد انتقال کرگئيں

    یاد رہے کہ چند دن قبل پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سنبل شاہد بھی کرونا وائرس کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئی تھیں، ان کا علاج لاہور کے سی ايم ايچ ميں جاری تھا لیکن وہ صحت یاب نہ ہو سکیں، سنبل شاہد اداکارہ بشریٰ انصاری اور اسما عباس کی بہن تھیں۔

    گزشتہ ماہ شہنشاہ غزل مرحوم مہدی حسن کے صاحب زادے عارف مہدی انتقال کر گئے تھے، خاندانی ذرائع کے مطابق عارف مہدی کا انتقال ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوا، وہ طویل عرصے سے شوگر کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    رشید امجد کے سانحۂ ارتحال پر رنجیدہ و ملول سلام بِن رزّاق نے بتایا کہ رشید امجد کا افسانہ "بگل والا” بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں بارہویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار اور مترجم سلام بِن رزّاق مہاراشٹر اردو رائٹرز گِلڈ کے صدر ہیں جن کے مطابق حال ہی میں رشید امجد کا افسانہ نصاب میں‌ شامل کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوچکا ہے اور مختلف ویب سائٹوں پر گوشۂ ادب میں بھی قارئین کی بڑی تعداد نے اسے پڑھا اور سراہا ہے۔

    5 مارچ 1940ء کو کشمیر میں پیدا ہونے والے رشید امجد پاکستان کے نام وَر افسانہ نگار، نقّاد اور دانش وَر کی حیثیت سے بھارت میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 3 مارچ 2021ء کو ہوا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے رشید امجد کو ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ بھی عطا کیا تھا۔ وہ کئی اہم ادبی رسالوں کے مدیر رہے ہیں۔

    اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر رشیدامجد کہتے ہیں:

    ”میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ جیسے سب سَر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہوگا، ہماری رائے کی اہمیت ہوگی۔ یہ خواب سہی، میری بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔”

    ایک انٹرویو کے دوران رشید امجد نے بتایا تھاکہ وہ کیسے لکھنے کی طرف مائل ہوئے:

    ”ایک ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں فارغ وقت میں پڑھتا رہتا تھا۔ وہیں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ یوں میں نے لکھنا شروع کیا اور پھر مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ”

    رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں ہوا جس کے اثرات ان کے ابتدائی افسانوی میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب انھوں نے فکری پختگی کی نئی منزلوں کا سفر طے کیا تو دوسرا مارشل لاء جمہوریت کی بساط لپیٹ چکا تھا۔ یہ افسانے جبر کے دور میں لکھے گئے۔ اگرچہ اس دور کو معروف معنوں میں علامتی و تجریدی نام دیا گیا، لیکن اس تکنیک میں سادہ لفظوں میں پوشیدہ معنٰی کےجہان آباد ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں:

    رشید امجد کا شعری لہجہ، علامتی اظہار اور تجریدی ڈھانچہ سب مل کر اس کے فن کی ایک نمائندہ جہت اور اس کا منفرد تشخص قائم کرتے ہیں۔ اس نے ٹھوس کہانی کو گرفت میں لینے اور سماج کی اصلاحی خدمت سَر انجام دینے کے بجائے اس تاثر کو پکڑنے کی سعی کی جو تجربے کے مرکز میں سیال صورت میں موجود ہوتا ہے اور اکثر شعری انداز میں افسانہ نگار کی طرف سفر کرتا ہے۔

    رشید امجد کے افسانوں میں معاشرے کی انفرادی و اجتماعی سطح کے لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ، کرب اور بے چینی کی مختلف کیفیات دکھائی دیتی ہیں۔

    نام ور افسانہ نگار رشید امجد کے افسانوی مجموعوں اور دیگر موضوعات پر کتابوں میں ”ایک عام آدمی کا خواب، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، ریت پر گرفت، پاکستانی ادب تنقید، پت جھڑ میں خود کلامی، تمنّا بے تاب، ست رنگے پرندے کے تعاقب میں” شامل ہیں۔

  • جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

    اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے

    ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

    نوحہ
    مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
    لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

    اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
    اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

    اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
    اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

    کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
    مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

    آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
    آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

    آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
    مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

  • انڈونیشیا کے قونصل جنرل کا کراچی میں انتقال

    انڈونیشیا کے قونصل جنرل کا کراچی میں انتقال

    کراچی: انڈونیشیا کے قونصل جنرل کراچی میں انتقال کر گئے، سفارت خانے نے بھی تصدیق کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق قونصل جنرل توتوک پریانامتو گزشتہ روز کراچی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے، توتوک عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، انھیں ایک ہفتہ قبل سینے میں تکلیف پر اسپتال لایا گیا تھا۔

    انڈونیشیا کے قونصل جنرل 3 سال سے کراچی میں تعینات تھے، ان کی میت سرد خانے منتقل کر دی گئی ہے، سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ این او سی ملنے پر قونصل جنرل کی میت انڈونیشیا لے جائی جائے گی۔

  • اردو کے معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی انتقال کر گئے

    اردو کے معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی انتقال کر گئے

    نئی دہلی: اردو زبان و ادب کے معروف نقاد، شاعر اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شمس الرحمٰن فاروقی کو کرونا وائرس لاحق ہوا تھا جس سے صحت یاب بھی ہو گئے تھے، تاہم اس کے اثرات کی وجہ سے وہ کافی دنوں سے علیل تھے۔

    شمس الرحمٰن فاروقی آج صبح ہی دہلی سے ایک پرواز کے ذریعے الہ آباد پہنچے تھے، جہاں ان کا انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصال پہنچا ہے۔

    معروف نقاد اور شاعر فاروقی کی تدفین آج شام جامعہ کے نزدیک اشوک نگر کے قبرستان میں انجام دی گئی۔

    شمس الرحمٰن فاروقی کو دنیائے ادب میں ایک زیرک تنقید نگار کے طور پر جانا جاتا ہے، انھوں نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو سمجھا اور پھر اردو ادب میں ان کا اطلاق کیا۔

    شمس الرحمٰن 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے تھے، آزاد خیال ماحول میں پرورش پائی، انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامات پر ملازمت کی، اور 1960 میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔

    وہ 1960 سے 1968 تک انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور 1994 تک پوسٹل سروسز بورڈ، نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔

    شمس الرحمٰن نے امریکا کی پنسلوانیا یونی ورسٹی میں ساؤتھ ایشیا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    فاروقی الہ آباد میں معروف ادبی جریدے ’شب خوں‘ کے ایڈیٹر رہے، ان کی تصانیف کئی چاند تھے سرِ آسماں، افسانے کی حمایت میں اور اردو کا ابتدائی زمانہ کو اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ان کی سب سے منفرد تصنیف شعر شور انگیز ہے جو میر تقی میر کی شاعری پر ہے۔

    شمس الرحمٰن کو اردو ادب میں منفرد خدمات پر سرسوتی ایوارڈ کے علاوہ 1986 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، سال 2009 میں انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔