Tag: وفیات

  • معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    کراچی: ممتاز شاعر، ڈراما نگار اور معروف فن کار اطہر شاہ خان عرف جیدی انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فن کی دنیا کے نامور ستارے اور اپنے زمانے میں ٹی وی ناظرین کو چہرے کے تاثرات سے محظوظ کرنے والے فن کار اطہر شاہ خان جیدی طویل علالت کے بعد 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

    اطہر شاہ خان کے صاحب زادے نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی، جیدی گزشتہ چند برس سے علیل تھے اور گلستان جوہر کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    ان کے بیٹے ندیم شاہ نے بتایا کہ اطہر شاہ خان کو دل کا دورہ پڑنے پر فوری اسپتال لے جایا گیا تھا، تاہم وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے وقت کا ابھی طے نہیں ہوا۔

    اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943 کو بھارت کی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے ٹی وی، اسٹیج پر بطور ڈراما نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا، وہ اپنے ہی تخلیق کردہ مزاحیہ کردار ’’جیدی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے پروگرام ’کشت زعفران‘ سے مزاحیہ شاعری میں بھی مقبولیت حاصل کی، اطہر شاہ خان مزاحیہ شاعری میں بھی ’’جیدی‘‘ تخلص کرتے۔

    انھوں نے پی ٹی وی پر طویل عرصے تک راج کیا، وہ ایک بہترین لکھاری بھی تھے اور انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے، انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے جب کہ پی ٹی وی نے اپنی گولڈن جوبلی پر انھیں گولڈ میڈل بھی دیا تھا۔

    اطہر شاہ جیدی نے لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اُردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعد ازاں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا، ان کا شمار ٹیلی وژن کے ابتدائی ڈراما نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔

    جیدی کے مشہور ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آپ جناب، پرابلم ہاؤس، جیدی ان ٹربل، آشیانہ، ہائے جیدی، با ادب با ملاحظہ ہوشیار شامل ہیں، ڈراما سیریل انتظار فرمائیے میں جیدی کے کردار نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔

  • سلطنت عمان کے بادشاہ قابوس بن سعید انتقال کر گئے

    سلطنت عمان کے بادشاہ قابوس بن سعید انتقال کر گئے

    مسقط: عرب ملک سلطنت عمان کے سلطان قابوس بن سعید طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انتقال پر ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق عمان کے 79 سالہ سلطان قابوس اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، سلطان قابوس کافی عرصے سے علیل تھے، وہ اپنے والد سعید بن تیمور کی وفات کے بعد عمان کے بادشاہ بنے تھے۔

    سلطان قابوس 18 نومبر 1940 کو پیدا ہوئے جب کہ گزشتہ روز 10 جنوری 2020 کو مسقط میں انتقال کر گئے، انھیں مسقط ہی میں سپرد خاک کیا گیا۔

    سلطان قابوس کے جانشین کا اعلان ان کا خاندان کرے گا، جانشین پر اتفاق نہ ہونے پر سلطان قابوس کی وصیت کھولی جائے گی، سلطان قابوس نے ابتدائی تعلیم عمان میں حاصل کی جس کے بعد انھیں مزید تعلیم کے لیے برطانیہ بھیجا گیا، انھوں برطانیہ کی سندھرسٹ اکیڈمی سے جنگی تربیت حاصل کی اور جرمنی میں بہ طور لیفٹننٹ جنگی مہموں میں حصہ لیا۔

    سلطان قابوس نے نوال بنت طارق سے شادی کی جو تین سال بعد ختم ہو گئی، نوال سے سلطان قابوس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ عمان کے قانون کے مطابق سلطان قابوس کے جانشین کا فیصلہ تین دن کے اندر ان کے خاندان کو کرنا ہوگا، اگر خاندان کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تو پھر سلطان قابوس کی وصیت کے مطابق حکومت قائم کی جائے گی، سلطان قابوس کو حکومت پاکستان کی جانب سے نشان پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ سلطان قابوس نے اپنے والد کے خلاف کام یاب بغاوت کے بعد 23 جولائی 1970 کو تخت تک رسائی حاصل کی تھی۔ ان کا مقصد دنیا میں سلطنت کی تنہا حیثیت ختم کرنا تھا، وہ چاہتے تھے کہ ملک کے تیل کے ریونیو کو ترقی اور مملکت کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ انھوں نے تخت پر بیٹھنے کے بعد اعلان کیا کہ اب مملکت کو ’مسقط و عمان‘ نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا نام سلطنت عمان سے بدل دیا۔

  • آخری چٹان میں ’جوجی‘ کا تاریخی کردار ادا کرنے والے وکیل فاروقی انتقال کر گئے

    آخری چٹان میں ’جوجی‘ کا تاریخی کردار ادا کرنے والے وکیل فاروقی انتقال کر گئے

    کراچی: ٹی وی اور اسٹیج کے سینئر اداکار اور ہر دل عزیز شخصیت وکیل فاروقی آج کراچی میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹی وی اور اسٹیج کے سینئر اداکار اور ہدایت کار وکیل فاروقی کا انتقال ہو گیا ہے، انھوں نے زندگی بھر ٹی وی اور اسٹیج پر کام کیا، پی ٹی وی کے کلاسیک سیریل آخری چٹان میں چنگیز خان کے بیٹے ’جوجی‘ کے تاریخی کردار سے بے حد مشہور ہوئے۔

    وکیل فاروقی لکھاری بھی تھے، پی ٹی وی کے لیے کئی ڈرامے تحریر کیے، وہ 21 اگست 1948 کو پیدا ہوئے، علامہ اقبال کالج آف کامرس سیالکوٹ سے 1968 میں تعلیم مکمل کی، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سے وابستگی رہی، اس سے قبل ملتان آرٹس کونسل میں بھی کام کیا۔

    مرحوم صاحب طرز اداکار تھے، ان کی آواز ان کی پہچان بنی، اپنے منفرد لب و لہجے کی بدولت ہی پی ٹی وی کے اُس دور میں اے کلاس کیٹیگری میں جگہ بنائی جب قد آور نام اس ادارے سے وابستہ تھے۔

    وکیل فاروقی نے 1966 میں زمانہ طالب علمی ہی میں ریڈیو پاکستان کے بزم طلبہ میں شرکت کی اور گلوکاری سے آغاز کیا، تاہم اس کے بعد گانا چھوڑ کر اناؤنسر بنے اور صداکاری شروع کی۔ اس کے بعد پی ٹی وی کو جوائن کیا اور اپنے پہلے ڈرامے ’چور’ میں کام کیا۔ 1968 میں ایک لائیو پلے میں بھی کام کیا۔

    وکیل فاروقی نے مشہور ڈراموں میں کام کیا، جن میں خدا کی بستی میں ایس ایچ او کا کردار، 73 میں منٹو راما کے دو کھیل، کارواں، خلیج، منڈی، تعبیر شامل ہیں۔ ان کا پہلا سیریل ’بہادر علی‘ تھا جس میں انھوں نے پہلوان کا کردار کیا تھا، اس کے بعد آخری چٹان کا کردار جوجی ان کی شناخت بن گیا۔

    انھیں شکوہ تھا کہ بہادرعلی‘ اور آخری چٹان‘ میں ان کے کردار یقینی طور پر ایوارڈ کے مستحق تھے لیکن پی ٹی وی انتظامیہ نے انھیں نظر انداز کیا۔ گورنر سندھ نے 2012 میں ان کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے چنا مگر فائنل لسٹ میں نہ آ سکے۔

    وکیل فاروقی کو سیاحت کا بھی شوق تھا، انھوں نے ستّر کی دہائی میں 45 ممالک کی سیاحت کی، ان میں مصر، یورپ، لاطینی امریکا، افغانستان، بلغاریہ وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔

  • ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    لاہور: اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور اور دانش ور ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ آج لاہور میں ادا کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف ادیب انور سجاد گزشتہ روز جمعرات کو لاہور میں 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنی رہایش گاہ میں لیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ میں اہل خانہ اور معروف شخصیات سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

    انور سجاد طویل عرصے سے علیل تھے، پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے تاہم لوگوں میں ان کی شہرت ان کے لکھے گئے ڈراموں، اداکاری اور فکشن نگاری کی وجہ سے تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  “خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    دریں اثنا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اردو ادب کا اثاثہ تھے، ادب و فن کے لیے ان کی گراں قدر خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں۔

    خیال رہے کہ ڈاکٹر انور سجاد 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کے سوگواران میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

  • نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    لندن: نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے، جمیل نقش کی نماز جنازہ اور تدفین لندن میں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معاصر آرٹسٹ جمیل نقش آج 16 مئی کو برطانیہ کے سینٹ میری اسپتال میں 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    جمیل نقش کو نمونیا کا مرض لاحق ہو گیا تھا، اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ اور کفن دفن کے معاملات لندن ہی میں ادا کیے جائیں گے۔

    جمیل نقش 1939 میں بھارت کے شہر کیرالہ میں پیدا ہوئے تھے، انھیں فن مصوری میں خدمات پر مختلف ایوارڈز دیےجا چکے ہیں۔

    جمیل نقش کو 1989 میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا، 2009 میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا۔

    معروف مصور کے انتقال پر فن کار برادری نے افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا فن کیوبزم کے عمدہ نمونوں کا عکاس رہا۔ انھوں نے عورت اور کبوتر کو اپنی مصوری کا اہم موضوع بنایا اور دونوں کو ایک ساتھ اس طرح پیش کیا کہ اس امتزاج سے عورت ذات کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے۔

    آرٹ کی معروف نقاد مارجری حسین نے جمیل نقش کے بارے میں لکھا کہ انھوں نے فن کے لیے زندگی گزاری، اپنی مسرت کے لیے پینٹنگز بنائیں، وہ ٹیکسچر، روشنی اور اسپیس کے ماسٹر تھے، یہی ان کی منفرد پینٹنگز کا موضوعاتی پس منظر رہا۔

    جمیل نقش کے بے مثال کام کی نمایش پاکستان، بھارت، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی، 1960 سے 1968 کے درمیان وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے شریک مدیر بھی رہے۔

    جمیل نقش نے 1970 سے 73 تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا۔

    نامور مصور جمیل نقش کی پینٹنگ موہٹہ پیلس میوزیم میں بھی رکھی گئی جو ایک زندہ آرٹسٹ کے لیے انوکھا اعزاز تھا۔

  • معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    لاہور: معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کی آج 8 ویں برسی ہے، اسٹیج کے ور اسٹائل کامیڈین ایوب اختر المعروف ببو برال نے اپنا فنی سفر 1982 میں گوجرانوالہ سے شروع کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق تیس سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے لیجنڈ ببو برال کو بچھڑے آج آٹھ سال بیت گئے ہیں۔

    1982 میں گوجرانوالہ سے فنی سفر شروع کرنے والے ببو برال نے بہت جلد شائقین کے دلوں میں جگہ بنا لی اورجلد ہی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اسٹیج کی دنیا کا 30 سالہ ہنستا مسکراتا سفرشروع کیا۔

    انھیں مداحوں میں بے پناہ مقبولیت لاہور لے آئی تھی، ببو برال نے بہ طور گلو کار البم بھی ریکارڈ کرایا، ان کے اسٹیج شو شرطیہ مٹھے نے بہت شہرت حاصل کی۔

    اپنی فنی زندگی میں ببو برال نے اداکاری کے علاوہ اسٹیج ڈرامے بھی لکھے اور ہدایات کاری بھی کی، ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم چناں سچی مچی تھی۔

    گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اسٹیج کے یہ عظیم فن کار اپنے منفرد اسٹائل کے باعث شہرت کی بلندیوں تک پہنچے، ببو برال اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار بھی تھے۔

    ببو برال نے ٹوپی ڈراما، شرطیہ مٹھے اور عاشقوں غم نہ کرنا جیسے بے شمار ہٹ ڈراموں میں فن کے جوہر دکھائے، ببو برال نے پچاس کے قریب فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    انھوں نے انڈسٹری کو مجھے چاند چاہیے، نو پیسا نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں دیں۔

  • اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    لاہور: اردو ادب کی ممتاز شخصیت، استاد، افسانہ نگار، نقاد اور 100 سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر لاہور میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے نامور نقاد، افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، ماہرِ اقبالیات، ادبی مؤرخ، معلم اور محقق ڈاکٹر سلیم اختر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    [bs-quote quote=”سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ڈاکٹر سلیم اختر کی نمازِ جنازہ بہ روز پیر 10 بجے صبح نرسری گراؤنڈ، جہاں زیب بلاک اقبال ٹاؤن میں ادا کی جائے گی-

    سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، انھیں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکاردگی سے نوازا گیا۔

    ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ 1934 کو لاہور میں پیدا ہوئے، جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم ہی سے بہ طور اردو لیکچرار وابستہ ہوگئے اور مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔

    ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ اردو ادب میں اب تک لکھی گئی تاریخ میں اہم ترین حوالے کے طور پر یاد کی جاتی ہے، انھوں نے ’اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ‘ بھی مرتب کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے


    سلیم اختر نے فکرِ اقبال کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی آشکار کیا، اور شرح ارمغان حجاز لکھی، اقبالیات پر انھوں نے 9 اہم ترین کتابیں تصنیف کیں۔

    ڈاکٹر سلیم اختر اپنے افسانوں کے سبب بھی الگ پہچان رکھتے ہیں، ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں، افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

    ان کی دیگر کتب میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، شادی جنس اور جذبات وغیرہ شامل ہیں۔