Tag: وقار محسن

  • بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    بلّی کے گلے میں گھنٹی!

    برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جاسکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی اور لوگوں کے پیٹ کے امراض میں اضافہ ہوتا رہے۔

    جب گندم اور سوکھی روٹیوں کی نئی کھیپ آتی تو چوہوں کی عید ہوجاتی۔ جب سیر ہو کر کھانے کے بعد ان کے پیٹ لٹک جاتے تو وہ نئے نئے خواب دیکھنے لگتے اور اس قسم کی تقریریں ہوتی۔

    ایک بزرگ چوہا اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔

    ’’میرے عزیز ہم وطنو! آخر ہم کب تک چوہے دانوں اور بلّی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آخر کب وہ انقلاب آئے گا جب ہر گودام، ہر باورچی خانہ اور ہر پرچون کی دکان پر ہماری حکومت ہوگی؟‘‘

    اگلا نوجوان چوہا دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر پہلوانوں کی طرح ران پر ہاتھ مارتے ہوئے۔

    ’’اس بار نامراد بلّی مجھے نظر آجائے پھر دیکھنا اس کا کیاحشر کرتا ہوں۔ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت ہے۔‘‘

    اگلا ضعیف چوہا کھانستے ہوئے۔ ’’ہم صدیوں سے بلّی کے مظالم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں اگر ہم بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے میں کام یاب ہو جائیں تو ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘

    بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تدبیر واقعی چوہوں کی قوم میں ایک عرصہ سے گردش کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ سنجیدہ اور انقلابی اقدامات بھی ہوئے لیکن کام یابی حاصل نہ ہوسکی۔ ایک بار چند نوجوان وہ گھنٹہ گھسیٹ لائے جو اسکول میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بجایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھاری تھالی نما گھنٹہ سپاہیوں سے سنبھل نہ سکا اور دو تین اسی کے نیچے دب کر رحلت فرما گئے۔ دوسری بار کچھ کم فہم نوجوان کسی بیل کی گھنٹی گھسیٹ لائے۔ اس کے گھسیٹنے میں ایسا شور مچا کہ سوئی ہوئی بلیاں جاگ گئیں اور یوں تمام انقلابی بلّیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    جو جو ایک نہایت چالاک شریر اور نڈر چوہا تھا۔ والدین کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ چوہے دان میں لگا مکھن پنیر یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا صاف نکال لاتا اور چوہے دان کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا۔ جو جو بھی اپنے بزرگوں کے دعوے اور احمقانہ تقریریں سنتا رہتا۔ آخر اس نے بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔

    اس نے اپنے تینوں دوستوں چوں چوں، گو گو اور چمکو کو اپنی اسکیم تفصیل سے سمجھائی اور تنبیہ کر دی کہ اس اسکیم کی اطلاع کسی بزرگ کو نہ دی جائے۔

    چمکو کا گھر بوتل گلی کی مشہور دکان عطر ہاؤس میں تھا۔ چاروں دوست وہاں سے ایک خوب صورت سنہری عطر کی خالی شیشی لے کر آئے اور اسے صاف کر کے ایک مخمل کی ڈبیا میں رکھ دیا۔

    اگلے دن چاروں دوست وہ شیشی لے کر پھول باغ پہنچے۔ ایک کیاری میں چنبیلی کے پھول آنکھیں موندے سورہے تھے۔ جو جو نے ان کی نازک گردن ہلا کر کہا۔

    ’’چنبیلی بہن! معاف کرنا ہم آپ کی نیند میں مخل ہوئے۔ آپ کی بہت مہربانی ہو اگر آپ اپنی خوشبو کے چند قطرے عنایت کردیں۔‘‘ چنبیلی نے مسکراتے ہوئے چند قطرے شیشی میں ٹپکا دیے۔

    اس کے بعد چاروں دوست گلاب کے پاس گئے جو کھکھلا کر بلبل سے باتیں کر رہا تھا۔ چوں چوں نے گلاب کو سلام کر کے کہا۔

    ’’پھولوں کے راجہ اگر آپ ہمیں اپنی خوشبو کے چند قطرے دے دیں تو آپ کا بہت احسان ہوگا۔‘‘

    ’’ارے ہمارا تو کام ہی خوشبو بانٹنا ہے۔ بھر لو شیشی۔‘‘ گلاب نے ہنس کر کہا۔

    یوں چاروں دوست بیلا، چمپا، رات کی رانی، دن کا راجہ کے پاس بھی گئے اور ان کی خوشبوؤں کے قطرے بھی حاصل کر لیے اور سنہری شیشی پتوں میں چھپا دی۔

    بلّیوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے تھے اور برکت فلور مل پر مانو چمپا کی حکومت تھی۔ جو جو کو علم تھا کہ بائیس جنوری کو بی چمپا کی سالگرہ ہے اور اس دن فلور مل کی چھت پر علاقہ کی بلّیاں جمع ہو کر جشن منائیں گی اور یوں اس دن چاروں دوست اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک چوہے گاڑی پر وہ خوشبوؤں سے بھری شیشی لاد کر اس وقت چھت پر پہنچے جب بلّیوں کا جشن عروج پر تھا۔

    فرش پر ایک سفید دستر خوان پر گوشت کی بوٹیوں، نرم نرم ہڈیوں اور مچھلیوں کا ڈھیر تھا۔ مٹی کے کونڈوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ چاروں دوست ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔

    کچھ دیر بعد جب بی چمپا کی نظر ان چاروں پر پڑی تو اس کی دُم اور کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور اس نے چیخ کر کہا۔’’تم! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری محفل میں آنے کی۔‘‘

    ایک اور مہمان بلّی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔’’چلو اچھا ہوا۔ اب کھانے کے مینو میں ان چاروں کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

    جو جو نے ادب سے سر جھکا کر کہا۔

    ’چمپا بہن ہماری نیّت صاف ہے۔ ہم لوگ آپ کی سالگرہ پر ایسا نایاب تحفہ لے کر آئے ہیں کہ آپ کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جب جو جو نے خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھولا تو مست کر دینے والی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔

    مانو چمپا نے حیرت سے سنہری شیشی کی طرف دیکھا اور پھر چند قطرے اپنے ریشمی بالوں پر لگا لیے جس سے اس کے پورے جسم سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔

    چمپا نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واقعی تم لوگوں کا تحفہ لاجواب ہے۔ اس لیے ہم اس خوشی میں آج تم لوگوں کو نوش فرمانے کا ارادہ ترک کرتے ہیں۔‘‘

    اس کے بعد جب بھی بی چمپا خوشبو لگا کر نکلتیں تو چاروں طرف مہک پھیل جاتی اور تمام چوہے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے اور یوں جو جو کی عقل مندی سے آخر کار چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے بجائے انھیں خوشبو میں معطّر کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ان کا بلّی سے ہوشیار رہنے کا خواب پورا ہوگیا۔

    (مصنّف: وقار محسن)

  • ایک حماقت ایک شرارت

    ایک حماقت ایک شرارت

    معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دل فریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔

    اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پُر رونق، رنگین اور پُر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرہ تک محدود ہوتی ہے جب کہ ہمارے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

    اکثر ہمارے کھیلوں کے شور اور ہنگاموں سے گھر والے اور کبھی کبھی اہلِ محلّہ بھی عاجز رہتے تھے۔

    ہمارے بچپن کے محبوب کھیل آنکھ مچولی، چور سپاہی، اندھا بھینسا، اونچ نیچ اور کوڑا جمال شاہی ہوتے تھے۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو گلی ڈنڈا، کبڈی، گیند تڑی، گیند بلا، فٹ بال اور پتنگ بازی کی طرف راغب ہوئے۔ لُو کے گرم تھپیڑوں اور دانت کٹکٹانے والی سردی میں بھی ہم اسی طرح ان کھیلوں میں محو رہتے۔

    بچپن کی یادوں کی کہکشاں سے ایک شرارت کا احوال بھی سن لیں۔

    ہمارے جگری دوستوں میں ایک یونس کپاڈیا تھے جن کو ہم پیار سے کباڑیا کہتے تھے کیوں کہ حلیہ سے وہ لگتے بھی ایسے ہی تھے۔ کباڑیا کا شمار محلّے کے شریر ترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر روز کسی نئی شرارت کا پروگرام لے کر آتے اور کبھی کبھی ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ اکثر وہ تو اپنی چالاکی کی وجہ سے بچ کر نکل جاتے اور ہم پھنس جاتے۔

    ایک بار ہمارا دل پلاؤ کھانے کے لیے بہت مچل رہا تھا۔ دبی دبی زبان سے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوب صورتی سے ٹال دیا۔ ایک دن دوپہر کو گلی ڈنڈا کھیلنے کے بعد ہم اور کباڑیا نیم کے نیچے بیٹھے سستا رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پلاؤکھانے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کچھ دیر ہونٹ سکوڑ کر سوچتے رہے پھر بولے۔

    ’’یار ایک ترکیب ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ جب تمہارے ماموں موتی میاں حسن پور سے آتے ہیں تو تمہاری اماں پلاؤ ضرور بناتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں وہ تو ہے لیکن فی الحال تو ماموں کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔

    ’’یار سنو تو۔ تم تو گاؤں کے گاؤدی ہو۔ ایسا کرو کہ ماموں کی طرف سے اپنے گھر کے پتے پر ایک خط لکھو جس میں یہ اطلاع ہو کہ تمہارے ماموں فلاں فلاں تاریخ کو تمہارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد کی خبر سن کر تمہاری امی ان کی پسند کے کھانے پکائیں گی۔ ماموں نے تو آنا نہیں ہے۔ کچھ دیر انتظار کر کے گھر کے لوگ ہی وہ کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’یار کباڑیا! بات تو پتے کی ہے لیکن اگر پول کھل گیا تو شامت آجائے گی۔‘‘ ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔

    ’’اماں کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد یہ بات پرانی ہوجائے گی۔ تمہارے ماموں کون سے روز روز آتے ہیں لیکن دوست! ہمیں بھی اس موقع پر یاد رکھنا۔‘‘ کباڑیا مسکرائے۔

    قصہ مختصر کہ دو پیسے کا پوسٹ کارڈ خریدا گیا۔ کباڑیا کی بیٹھک میں کواڑ بند کر کے ہم نے کانپتی انگلیوں سے قلم پکڑا۔ کباڑیا نے ڈانٹتے ہوئے قلم لے لیا۔

    ’’یار تم بالکل عقل سے پیدل ہو۔ ایک تو تمہارا خط اتنا خراب ہے کہ تم خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر کوئی تمہاری تحریر پہچانتا ہے۔ فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ یوں خط لکھنے کے فرائض کباڑیا نے انجام دیے۔

    خط ماموں کی طرف سے ہماری اماں کے نام تھا جس میں یہ اطلاع تھی کہ ماموں ہفتہ کی شام تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم وہ خط چوکی چوراہے کے لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے تو ڈر کے مارے پیر کانپ رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بہت انتظار کے بعد جمعرات کے دن وہ تاریخی خط پہنچ گیا۔

    ہم نے دیکھا کہ دوسری ڈاک کے ساتھ وہ پوسٹ کارڈ ہمارے والد صاحب کے سرہانے رکھا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد ہمارے والد صاحب نے ہماری اماں سے کہا:’’ارے بھئی سنتی نہیں ہو (قبلہ والد صاحب ہماری والدہ کو ’’سنتی نہیں ہو‘‘ یا ’’کہاں گئیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے) ہفتہ کی شام کو موتی میاں آرہے ہیں۔‘‘

    امّاں بہت خوش ہوئیں۔ ابھی تک ہماری اسکیم کام یاب جارہی تھی۔ ہفتہ کے دن تیسرے پہر پلاؤ کی یخنی چولھے پر چڑھ گئی۔ شامی کباب کے لیے چنے کی دال اور قیمہ سل پر پسنا شروع ہوا۔ کھانے کی خوش بُو سے شام ہی سے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے۔

    شام چار بجے ایک ایسا بم گرا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہم سائیکل پر دہی لے کر آرہے تھے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک سائیکل رکشے سے ہمارے موتی ماموں اپنا مخصوص خاکی رنگ کا تھیلا لیے اتر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے گلے سے لگایا۔ ہماری ایسی سٹی گم تھی کہ ہمیں ان کو سلام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ماموں کے خط کا ذکر ضرور آئے گا اور ہماری شرافت کا سارا پھول کھل جائے گا۔

    ماموں کے گھر میں آتے ہی ہم ان سے چپک گئے کہ جیسے ہی خط کا ذکر آئے ہم بچاؤ کی کچھ ترکیب کریں۔ دو تین گھنٹے خیریت سے گزر گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ ماموں محفل سجائے شکار کے فرضی قصے سنا رہے تھے۔ ہماری امّاں ادھر سے گزریں اور کہنے لگیں۔

    ’’ارے بھیا! تُو نے تو لکھا۔۔۔‘‘ اتنا سنتے ہی ہم پیٹ دبا کر ایسے کراہے کہ سب گھبرا کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ہم پیٹ پکڑ کرپلنگ پر لیٹ گئے۔ اماں کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکیں۔ ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے وہی مخصوص کڑوا لال شربت دے کر چکنی غذا سے پرہیز کی تاکید کردی۔

    رات کو سب لوگ دسترخوان کے گرد بیٹھے پلاؤ اور شامی کباب کے مزے لے رہے تھے اور ہم چمچے سے دلیا کھاتے ہوئے حسرت سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ گلی میں سے کباڑیا کی مخصوص سیٹی کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ بھی بھوک سے تلملا رہے تھے۔