Tag: وقت

  • ناشتہ کرنے کا وقت مقرر نہیں؟ نئی تحقیق میں پریشان کن انکشاف

    ناشتہ کرنے کا وقت مقرر نہیں؟ نئی تحقیق میں پریشان کن انکشاف

    بے شمار طبی تحقیقوں میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ناشتہ نہ کرنے کی عادت انسانی جسم اور دماغ کے لیے نہایت خطرناک ہے، یہ نہ صرف جسم کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ جسم کو کئی بیماریوں کا گھر بھی بنا دیتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ناشتے کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے، بالخصوص بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے اور انسولین کی مزاحمت کا خطرہ کم کرنے کے لیے اس کا وقت نہایت اہم ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو افراد صبح ساڑھے 8 بجے تک ناشتا کرلیتے ہیں، ان میں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ صبح جلد ناشتا کرنے والے افراد کا بلڈ شوگر لیول کم ہوتا ہے جبکہ انسولین کی مزاحمت بھی کم ہوتی ہے، انسولین کی مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب جسم انسولین کے حوالے سے درست ردعمل پیدا نہیں کرپاتا اور خلیات میں داخل ہونے والی گلوکوز کی مقدار کم ہوتی ہے۔

    انسولین کی مزاحمت اور زیادہ بلڈ شوگر دونوں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ میٹابولک امراض جیسے ذیابیطس کی شرح میں اضافے کے باعث ضروری ہے کہ غذائی عادات پر غور کیا جائے تاکہ خطرات کو کم کیا جاسکے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے 10 ہزار سے زائد بالغ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جو امریکا کے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سروے کا حصہ بنے تھے، ان افراد کو دن بھر میں کھانے کے مجموعی اوقات کے دوران جزو بدن بنانے کے حوالے سے 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جو دن بھر کی غذا 10 گھنٹے میں کھانے کے عادی تھے، دوسرا 10 سے 13 اور تیسرا 13 گھنٹے سے زائد وقت میں غذا کے استعمال کرنے والے افراد پر مشتمل تھا۔

    بعد ازاں ان کو مزید 6 چھوٹے گروپس میں تقسیم کیا گیا جن کی تشکیل غذا کے آغاز یعنی صبح ساڑھے 8 بجے سے پہلے یا بعد کی بنیاد ہر کی گئی۔

    اس ڈیٹا کا تجزیہ کر کے تعین کرنے کی کوشش کی گئی کہ کھانے کے مخصوص اوقات کا خالی پیٹ بلڈ شوگر لیول اور انسولین کی مزاحمت سے تعلق ہے یا نہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ دن بھر میں مجموعی غذا کے دورانیے سے کوئی نمایاں اثر مرتب نہیں ہوتا، تاہم صبح ساڑھے 8 بجے ناشتا کرنے والے افراد میں بلڈ شوگر لیول اور انسولین کی مزاحمت کی شرح کم ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ناشتہ نہ کرنے کی عادت نہ صرف موٹاپے بلکہ مختلف امراض جیسے ذیابیطس ٹائپ 2، بلڈ پریشر اور امراض قلب وغیرہ کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

  • کیا آپ سیکنڈ کے دس کھرب ویں حصے کے بارے میں جانتے ہیں؟

    کیا آپ سیکنڈ کے دس کھرب ویں حصے کے بارے میں جانتے ہیں؟

    ایک سیکنڈ کا وقت بظاہر یوں گزر جاتا ہے کہ اس کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا، لیکن سائنسی تجربہ گاہوں میں کائنات کی پیچیدگیوں کو جاننے کے لیے یہ وقت نہایت طویل ہے۔

    کائنات کے مختلف عناصر کے بارے میں جاننے اور زمین و خلا کی وسعتوں میں نئے تجربات کرنے کے لیے سیکنڈ کے ہزارویں لاکھ ویں حصے کی بھی نہایت اہمیت ہے اور سائنس دان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ہماری کائنات کے بیشتر اہم اور بنیادی نوعیت کے حامل مظاہر فطرت بھی انتہائی مختصر وقت میں رونما ہوتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ مختلف وقتوں کے ماہرین وقت کے مختصرترین دورانیے کو جاننے کی تگ و دو میں تھے۔

    سنہ 1999 میں ایک مصری کیمیا دان احمد زویل نے مالیکیولز کی ہئیت تبدیل ہونے کے وقت کی پیمائش کی تھی، یہ وقت بعد ازاں فیمٹو سیکنڈ کہلایا اور یہ سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کا دس لاکھ واں حصہ تھا۔

    یہ اب تک جانا جانے والا وقت کا مختصر ترین دورانیہ تھا۔ احمد زویل کو اس تجربے کی وجہ سے کیمیا کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔

    تاہم سنہ 2016 میں جرمنی کی گوئٹے یونیورسٹی کے ماہرین نے وقت کا اس سے بھی مختصر دورانیہ دریافت کرلیا۔

    ایک تجربے کے دوران ماہرین کے مشاہدے میں آیا کہ ان کا انجام کردہ کیمیائی عمل پلک جھپکتے میں رونما ہوا، ماہرین نے تفصیلاً اس کی پیمائش کرنے کے بعد اسے زیپٹو سیکنڈ کا نام دیا۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ زیپٹو سیکنڈ کا دورانیہ ایک سیکنڈ کے ارب ویں حصے کا دس کھرب واں حصہ ہے۔

    سنہ 2016 میں ماہرین نے جس کیمیائی عمل کا مشاہدہ کیا وہ 850 زیپٹو سیکنڈز میں رونما ہوا تھا، تاہم رواں برس گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر 2020 میں اسی یونیورسٹی میں ایک تجربے کے دوران ماہرین نے ایک اور کیمیائی عمل کا مشاہدہ کیا جو اس سے بھی کم وقت یعنی 247 زیپٹو سیکنڈز میں رونما ہوا۔

    یہ نیا ریکارڈ پچھلے ریکارڈ سے 3.4 گنا مختصر ہے۔ اسے انسانی تاریخ میں اب تک کی وقت کی مختصر ترین پیمائش قرار دیا گیا ہے۔

  • ہم آج کا کام کل پر کیوں ٹال دیتے ہیں؟

    ہم آج کا کام کل پر کیوں ٹال دیتے ہیں؟

    آج کے کام کو کل پر ٹالنا، یہ وہ عادت بد ہے جو تقریباً ہر شخص کو ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہیں جو آج کا کام آج نمٹا دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں بھی کبھی کبھار کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب وہ کاہلی کا شکار ہو کر کام کو ٹال دیتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

    اس کا جواب ہمیں ایک برطانوی مصنف اور تاریخ دان سرل نارتھ کوٹ پارکنسن نے سنہ 1942 میں پارکنسنز لا (پارکنسن کا قانون) نامی کتاب لکھ کر دیا۔ سرل پارکنسن کو مینجمنٹ کا ماہر کہا جاتا ہے، اس نے 60 کتابیں لکھیں جن میں سے پارکنسن لا کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے جبکہ اس میں لکھا ایک جملہ محاورے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لیے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔

    .Work expands so as to fill the time available for its completion

    اس کی مثال ہم یوں سمجھتے ہیں کہ فرض کریں آپ کو ایک خط لکھنا ہے جس کی ڈیڈ لائن رات 10 بجے ہے۔ آپ دوپہر 12 بجے سے اسے لکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن آپ سب سے پہلے شاور لیتے ہیں۔

    اس کے بعد ایک گھنٹے تک بہترین کاغذ کا انتخاب کرتے ہیں، اگلا ایک گھنٹہ آپ ایک بہترین قلم منتخب کرنے میں گزارتے ہیں اور اس دوران مختلف پینز کو آزما کر دیکھتے ہیں اور انہیں رد کردیتے ہیں۔

    اس کے بعد آپ لکھنا شروع کرتے ہیں، لکھتے ہوئے آپ خوب سوچتے ہیں، ادھر ادھر سے ڈیٹا ڈھونڈتے ہیں، بہترین لفظ تلاش کرتے ہیں اور بالآخر رات کے 10 بجے تک آپ ایک بہترین خط لکھ لیتے ہیں۔

    اس کے برعکس وہی خط لکھنے کے لیے اگر آپ کے پاس صرف 10 منٹ کا وقت ہو، تو آپ شاور لینے کا خیال دل سے نکال کر، جو کاغذ قلم ہاتھ لگے اسی پر خط لکھ ڈالتے ہیں اور 10 منٹ میں بھی اسے پورا کرلیتے ہیں۔

    یہ وہی خط ہے جو وقت ہونے پر آپ نے 10 گھنٹوں میں لکھا، لیکن حقیقت میں یہ صرف 10 منٹ میں لکھا جاسکتا تھا، اور یہی وہ پارکنسن کا قانون ہے جس کے تحت جس کام کے لیے جتنا وقت مختص کیا جائے وہ کام اتنا ہی پیچیدہ اور وقت طلب بنتا جاتا ہے۔

    یہ دراصل ہماری کام کو کل پر ٹالنے کی عادت نہیں، نہ ہی یہ ہماری کاہلی ہے، بلکہ یہ وہ غیر ضروری کام ہیں جو ہم صرف اس لیے کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس وقت ہے۔

    یہ قانون صرف انفرادی طور پر کسی کو اپنا نشانہ نہیں بناتا، بڑی بڑی کمپنیاں بھی اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اگر کسی کمپنی کے کسی پروجیکٹ کی ڈیڈ لائن اگلے ماہ ہے، تو وہ کمپنی روز روز تھوڑا تھوڑا کام کرتی ہے، اس دوران اس پروجیکٹ میں نئے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، طویل میٹنگز ہوتی ہیں، یہاں تک وہ پروجیکٹ 1 ماہ میں ہی ختم ہوتا ہے۔

    لیکن اگر ڈیڈ لائن اگلے ہفتے کی ہے، تو جادوئی طور پر وہ پروجیکٹ ایک ہفتے میں بھی مکمل ہوجاتا ہے۔

    اگر آپ اپنے آپ کو کسی کام کو کرنے کے لیے کم وقت دیں، اس دوران غیر ضروری کام کرنے سے گریز کریں تو کم وقت میں بھی آپ اچھا کام کرسکتے ہیں۔

    تو اب جب بھی آپ کسی کام کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن اگلے سال، اگلے ماہ، یا اگلے ہفتے رکھیں تو پارکنسن کے اس قانون کو ایک بار یاد کریں، کیا پتہ آپ وہ کام کل یا آج ہی ختم کرڈالیں۔

  • کیا ہم کچھ دیر کے لیے "وقت” سے بے نیاز ہوسکتے ہیں؟

    کیا ہم کچھ دیر کے لیے "وقت” سے بے نیاز ہوسکتے ہیں؟

    آنکھ سے دُور نہ ہو دل سے اُتر جائے گا
    وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا
    (احمد فراز)

    وقت یعنی ٹائم، یا وقت کا تعین کرنا ہمارے لیے لازمی اور نہایت بنیادی کام ہے۔

    اگر وقت کی اہمیت اور افادیت ظاہر کرنا ہو تو اسے بیش قیمت کہنے سے بات نہیں بنتی بلکہ اسے انمول کہا جاتا ہے۔ یقیناً وقت کا کوئی بدل نہیں۔ جو ساعت گزر گئی، سو گزر گئی۔ ماضی سے حال کی طرف بڑھتا ہوا ہر پَل گویا وقت ہے جو کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

    گھڑی….دیوار گیر ہو یا کلائی پر سجی ہو، وقت بتاتی ہے اور ہم اسی کے مطابق اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ یہ سوال بہت عجیب ہے، مگر سوچیے کہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی کبھی ہم "وقت” سے مکمل طور پر بے نیاز ہوسکتے ہیں؟

    وقت کا تعلق ہمارے پیمائشی نظام سے ہے جس میں دو واقعات کا درمیانی وقفہ معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس انمول شے کو ناپنے یا معلوم کرنے کا آلہ یا مشین گھڑی ہے جو دیوار پر لٹکنے سے کلائی پر بندھنے تک ہمارے لیے بہت اہم ہے۔

    گھڑی، انسانوں کی اہم ترین، نہایت مفید اور کارآمد ایجادات میں سے ایک ہے۔

    زمانۂ قدیم میں چاند اور سورج کے ابھرنے، ڈوبنے اور ستاروں سے وقت اور دنوں کا حساب جوڑا جاتا تھا اور پھر انسان ٹائم کو گھڑی میں دیکھ کر شمار کرنے کے قابل ہو گیا۔

    پندرھویں اور سولھویں صدی میں گھڑیوں کی تیاری میں جدت اور تیزی آئی۔ اس زمانے میں پنڈولم کی مدد سے گھڑیاں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جب کہ برقی رَو کی ایجاد سے پہلے یہ گھڑیاں میکانکی طرز پر کام کرتی تھیں، انھیں چابی دینا پڑتی تھی۔ بڑے بڑے گھڑیال چوک چوراہوں پر نصب ہوتے اور لوگ ان میں وقت دیکھتے تھے۔

    بیسویں صدی عیسوی میں الیکٹرونک گھڑیاں بنانے کا آغاز ہوا اور یہ دیواروں سے کلائی تک پہنچ گئیں۔ نت نئے ڈیزائن کی گھڑیوں کو کلائی پر سجانا پسند کیا جانے لگا تو ظاہر ہے زنانہ اور مردانہ کی تخصیص اور تمیز بھی کی گئی۔

    پہلے سوئیاں یا کانٹے وقت بتاتے تھے اور پھر ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے گھڑیوں کو ڈیجیٹل کر دیا یعنی ان میں اعداد کے ذریعے وقت معلوم کیا جاتا۔

    آج موبائل فون سیٹوں، کمپیوٹر اسکرین یا مختلف دوسری ڈیوائسز کے ذریعے لوگ وقت معلوم کرلیتے ہیں اور کسی بھی قسم کی گھڑی پہننے کا شوق ختم ہوتا جارہا ہے۔ تاہم اب بھی گھڑیاں تیار کی جاتی ہیں اور ماہر انجینئر، انھیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اب کلائی پر گھڑی نہیں باندھی جاتی، مگر یہ ضرور ہے کہ اس رجحان میں بہت کمی آئی ہے۔

  • بریگزٹ معاملات حل کرنے کیلئے ابھی بھی وقت ہے، انجیلا مرکل

    بریگزٹ معاملات حل کرنے کیلئے ابھی بھی وقت ہے، انجیلا مرکل

    برلن : جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کی راہ میں حائل رکاوٹیں حل کرنے کے لیے اب بھی وقت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے ہاؤس آف بریگزٹ معاہدے کے مسودے میں تبدیلی پر یورپی یونین رہنماؤں کی منظوری کےلیے کوشاں ہیں جبکہ یورپی یونین معاہدے کے مسودے میں بیک اسٹاپ سمیت کسی بھی تبدیلی سے انکاری ہے۔

    جرمن چانسلر نے سرمایہ داروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسٹمز کے طویل طریقے کاروباری افراد کےلیے ناقابل برداشت ہیں لیکن دو مہینوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب بھی فریقین کے درمیان بہتری لائی جاسکتی ہے‘۔

    انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا سیاسی حل اب بھی نکالا جاسکتا ہے، دو ماہ کا عرصہ کم ہے لیکن تھوڑا نہیں، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ’معاملات برطانیہ کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ یورپ سے کس سطح کے تعلقات چاہتا ہے‘، اس مسئلے کے حل کےلیے ’تخلیقی صلاحیت اور اچھی نیت‘ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ  یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم کل یورپی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں کریں گی

    خیال رہے کہ تھریسا مے سے یورپی کمیشن کے صدر جین کلود جینکر اور دیگر رہنماؤں کی ملاقات کل ہوگی، اس دوران برطانوی وزیراعظم ڈیل پر تفصیلی گفتگو کریں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے سیاسی دباؤ کا شکار ہیں، ملاقات کے دوران وہ برطانیہ اور پورپی یونین کے مابین ڈیل کو بچانے کی کوشش پر تبادلہ خیال کریں گی۔

    برطانیہ کو انتیس مارچ کو یورپی یونین سے نکل جانا ہے اور ابھی تک طے شدہ بریگزٹ معاہدے کی برطانوی پارلیمان نے منظوری نہیں دی۔

  • بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    بچے وقت دیکھنا بھول گئے

    ڈیجیٹل دور کی آمد کے ساتھ ہی ہماری زندگی میں ہر شے ڈیجیٹل انداز سے غلبہ پا رہی ہے اور ہماری نئی آنے والی نسل ان چیزوں سے ناواقف ہے جو ان کے بڑوں نے اپنے ادوار میں سیکھیں۔

    ایسی ہی ایک شے وال کلاک بھی ہے جس میں چند عرصے قبل تک بچوں کو وقت دیکھنا اور اس کا حساب لگانا سکھایا جاتا تھا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل گھڑیاں وجود میں آگئیں جس میں براہ راست لکھے ہندسے وقت بتا دیتے ہیں۔ تاہم ان گھڑیوں کا نقصان یہ ہوا کہ نئی نسل پرانی گھڑیوں سے بالکل ہی ناواقف ہوگئی۔

    بچوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے انگلینڈ کے اسکولوں میں اینالوگ یعنی روایتی گھڑیوں کا استعمال ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل گھڑیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    امریکا کے معروف ٹی وی شو کے میزبان جمی کیمل نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا۔ ان کے پروگرام کے دوران چند بچوں کو روایتی گھڑی دکھا کر ان سے وقت پوچھا گیا۔

    یہ گھڑیاں چونکہ ان بچوں کے لیے نہایت اجنبی تھیں لہٰذا انہوں نے اپنی فہم کے مطابق الٹا سیدھا وقت بتایا۔

    ان بچوں میں سے صرف ایک بچہ بالکل درست وقت بتا سکا جس کے لیے حاضرین نے بے شمار تالیاں بجائیں۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں کہ بچوں نے اس گھڑی میں دیکھ کر کس طرح سے وقت بتایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال 2016 اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بہت جلد ہم اس سال اور اس کی یادوں کو الوداع کہہ کر نئے سال میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سال کے اختتام سے چند لمحوں قبل ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بہت کم پیش آتا ہے؟

    آج یعنی 2016 کے آخری دن جب 11 بج کر 59 منٹ ہوں گے تو ہم نئے سال میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں مزید 1 سیکنڈ کا انتطار کرنا پڑے گا۔

    دراصل آج وقت کے دورانیے میں ایک سیکنڈ کا اضافہ ہوجائے گا اور جس وقت 12 بج کر 1 منٹ ہونا چاہیئے اس وقت 12 بجیں گے اور ایک سیکنڈ بعد ہم اگلے سال میں داخل ہوں گے۔

    وقت کی یہ رفتار برطانیہ، آئرلینڈ، آئس لینڈ اور کچھ افریقی ممالک میں اپنی چال بدلے گی جبکہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں وقت وہی رہے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوگی۔

    leap-3

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح فروری کی 29 ویں تاریخ کا سال لیپ کا سال کہلاتا ہے، اسی طرح اس اضافی سیکنڈ کو بھی لیپ سیکنڈ کہا جاتا ہے اور آج اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں 2016 کا آخری منٹ 60 کے بجائے 61 سیکنڈ کا ہوگا۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لیپ سیکنڈ ہر ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد آتا ہے اور آخری لیپ سیکنڈ 30 جون 2015 میں دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پیرس آبزرویٹری کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وقت میں اس اضافے کے بعد، خلا کے وقت کا درست تعین کرنے کے لیے بھی اس میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

    سائنسی و خلائی تحقیقوں کے لیے سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ زمین کے وقت کے ساتھ خلا کے وقت کو بھی درست کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کا دورانیہ ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا اور اس میں چند سیکنڈز کا اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔

    leap-2

    ماہرین کے مطابق یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔

    رائل گرین وچ آبزرویٹری کے سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔

    چند روز قبل ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی گردش کی رفتار کبھی آہستہ ہوتی ہے اور کبھی تیز، لیکن فی الحال مجموعی طور پر زمین کی گردش کی رفتار آہستہ ہوگئی ہے یعنی دن بڑے ہوگئے ہیں۔