Tag: ولادیمیر پیوٹن

  • روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں: پیوٹن

    روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں: پیوٹن

    ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں کہا روسی افواج یوکرین میں مقاصد حاصل کرنے کے قریب ہیں، یوکرینی فوج کو روسی علاقے سے باہر نکال دیں گے، 2022 میں یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے روس مزید مضبوط ہوا۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ چار سال سے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات نہیں کی، اگر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تو بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہوگا، امریکا کے ساتھ میزائل مقابلے کے لیے تیار ہیں، روسی ہائپر سونک بیلسٹک میزائل امریکی میزائل دفاعی نظام کو شکست دے سکتا ہے۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن یوکرین تنازع پر دوسری جانب کے فریق کے تیار ہونے کی ضرورت بھی ہے۔

    روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ چین سے تعلقات بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، اس کے علاوہ روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی، شام میں تمام گروپوں سے تعلقات ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/assad-dispatched-250-million-cash-to-moscow/

  • دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر آ گئی، پیوٹن نے نئی ایٹمی پالیسی پر دستخط کر دیے

    دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر آ گئی، پیوٹن نے نئی ایٹمی پالیسی پر دستخط کر دیے

    ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترمیم شدہ نئی ایٹمی پالیسی پر دستخط کر دیے، جس کے بعد خدشہ ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر آ گئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر دلادیمیر پیوٹن نے نیو کلیئر ڈاکٹرائن میں تبدیلی کی منظوری دے دی ہے، روس یا اس کے اتحادی بیلاروس پر روایتی ہتھیاروں سے حملے کے جواب میں اب روس جوہری ہتھیار استعمال کر سکے گا۔

    روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس جوہری ہتھیاروں سے بھرپور جوابی کارروائی کرے گا۔

    پیوٹن نے نظرثانی شدہ جوہری ڈیٹرنس پالیسی پر دستخط منگل کو کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک جوہری ملک کی شراکت کے ساتھ کسی بھی ملک نے روس پر روایتی حملہ کیا تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔

    روسی صدر نے یہ قدم امریکی صدر جو بائیڈن کے فیصلے کے بعد اٹھایا ہے، جس میں یوکرین کو روس کے اندر اہداف پر لانگ رینج امریکی میزائلوں کے ساتھ حملہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

    روس نے لانگ رینج میزائل حملے پر مغرب کو سنسنی خیز پیغام دے دیا

    پیوٹن کے نظرثانی شدہ ’جوہری نظریے‘ پر مبنی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ روس پر کوئی بھی بڑا فضائی حملہ ’جوہری ردعمل‘ کو متحرک کر سکتا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ روسی صدر کی جانب سے مغربی طاقتوں کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لیے روس کے جوہری ہتھیاروں کو استعمال کی دھمکی پر عمل بھی ہو سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اجازت ملتے ہی یوکرین نے پہلی بار روس پر امریکی لانگ رینج میزائل سے حملہ کیا ہے، روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کی جانب سے داغے گئے 6 میزائلوں کو ہریانسک میں مار گرایا گیا، یوکرین کا دعویٰ ہے کہ روس کے اندر 110 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک اسلحے کے ڈپو پر حملہ کیا گیا، جس سے دوسرے دھماکے بھی ہوئے۔

  • یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت، صدر پیوٹن کی خاموشی نے سب کو پریشان کر دیا

    یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت، صدر پیوٹن کی خاموشی نے سب کو پریشان کر دیا

    ماسکو: مزید دو ماہ کے لیے امریکی صدر کے عہدے پر براجمان جو بائیڈن کی جانب سے جاتے جاتے یوکرین کو امریکی ہتھیاروں کے روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نے جہاں ایک طرف دنیا کو پریشانی میں مبتلا کیا ہے وہاں دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی خاموشی نے بھی سب کو اچنبھے میں ڈال رکھا ہے۔

    بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن کے یوکرین کو روس کے اندر امریکا کی طرف سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے نے روس میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، لیکن جو چیز واقعی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ولادیمیر پیوٹن کیا کہتے ہیں، لیکن اتوار کی رات انھوں نے کچھ نہیں کہا۔

    لیکن روسی صدر پہلے ہی اس سلسلے میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں، بی بی سی کے مطابق حالیہ مہینوں میں کریملن نے مغرب کے لیے واضح پیغام دیا: ’’ایسا نہ کریں، اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال پر عائد پابندیاں نہ ہٹائیں، کیف کو ان میزائلوں سے روسی سرزمین پر گہرائی تک حملہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔‘‘

    ستمبر میں صدر پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایسا ہونے دیا گیا تو ماسکو اسے یوکرین کی جنگ میں نیٹو ممالک کی براہ راست شرکت کے طور پر دیکھے گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو ممالک روس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

    اگلے مہینے ولادیمیر پیوٹن نے روسی ایٹمی نظریے میں آنے والی تبدیلیوں کا اعلان کیا، اور کہا کہ روس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس کا بہت واضح مطلب تھا کہ یوکرین کو روسی سرزمین پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

    بی بی سی نے لکھا کہ ’’ولادیمیر پیوٹن کی اگلی چالوں کا اندازہ لگانا کبھی بھی آسان نہیں رہا، لیکن انھوں نے اشارے چھوڑ رکھے ہیں۔ جون میں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں پیوٹن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر یوکرین کو یورپ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع دیا جائے تو روس کیا ردعمل ظاہر کرے گا؟ صدر پیوٹن نے جواب دیا ’’سب سے پہلے ہم یقیناً اپنے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنائیں گے، ہم ان کے میزائلوں کو تباہ کریں گے۔‘‘

    پیوٹن نے مزید کہا ’’ہمارا ماننا ہے کہ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ہمارے علاقے پر حملہ کرنے اور ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کے لیے ایسے ہتھیاروں کو جنگی علاقے میں فراہم کرنا ممکن ہے، تو ہم اپنے اسی طبقے کے ہتھیار دنیا بھر کے ان خطوں کو کیوں نہیں فراہم کر سکتے جہاں وہ ان ممالک کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے جو روس کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں؟‘‘

  • ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا

    ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا

    ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کا تنازعہ حل کرنے کے لیے نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے۔

    روسی صدر نے کہا یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے تو اس کے بعد ماسکو جنگ بندی کر دے گا اور بات چیت کا آغاز کر دیا جائے گا۔

    صدر پیوٹن نے کہا کہ جنگ بندی کے لیے یوکرین کو اپنی افواج روس سے الحاق کرنے والے یوکرینی علاقوں سے مکمل طور پر نکلنا ہوگا۔ تاہم یوکرین نے اس تجویز پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ہٹلر جیسا ’’الٹی میٹم‘‘ قرار دے دیا ہے۔

    وولودیمیر زیلنسکی ایک عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ یوکرین اس وقت تک ماسکو کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا جب تک روسی افواج کریمیا سمیت یوکرین کے تمام علاقوں کو چھوڑ نہیں دیتیں۔

    بی بی سی کے مطابق ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے جنگ بندی کی یہ شرائط ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب 90 ممالک کے رہنما ہفتے کے روز سوئٹزرلینڈ میں یوکرین میں امن کی راہوں پر بات کرنے کے لیے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں روس کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

    جمعہ کو ماسکو میں روسی سفیروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے یوکرین کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ روس کے زیر قبضہ چار علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسن اور زاپوریژیا سے دست بردار ہو جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو روسی پیش قدمی کو روکنے کے لیے نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی اپنی کوششوں سے باضابطہ طور پر دست بردار ہونا پڑے گا۔

    صدر پیوٹن نے کہا ’’جیسے ہی کیف نے اعلان کیا کہ وہ اس طرح کے فیصلے کے لیے تیار ہے، ہماری طرف سے اسی لمحے فائر بندی اور مذاکرات شروع کرنے کا حکم فوراً عمل میں آئے گا۔‘‘

  • ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 5 ویں بار ملک کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق کریملین میں سرخ قالین سج گیا، منگل کو ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار آئندہ 6 سال کی صدارتی مدت کے لیے حلف اٹھا لیا۔

    کریملن پیلس میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں موجود وزرا اور دیگر افراد سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ہم متحد اور عظیم لوگ ہیں، ہم سب مل کر تمام رکاوٹوں پر قابو پالیں گے۔ انھوں نے عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنے تمام منصوبوں کو مکمل کریں گے اور ہم مل کر جیتیں گے۔

    یاد رہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے رواں برس مارچ میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخابات میں 87.28 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔

    ولادیمیر پیوٹن

    پیوٹن 7 اکتوبر 1952 کو لینن گراڈ (اب سینٹ پیٹرزبرگ) میں پیدا ہوئے، انھوں نے 1975 میں لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور سوویت یونین کی اسٹیٹ سیکیورٹی کمیٹی (KGB) میں خدمات انجام دیں۔

    1990 میں سوویت یونین میں واپس آنے کے بعد پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ اور ماسکو میں مختلف ذمہ داریاں انجام دیں، جن میں سٹی گورنمنٹ اور صدارتی ایگزیکٹو آفس کے عہدے بھی شامل ہیں۔ وہ اگست 1999 میں وزیر اعظم بنے اور 31 دسمبر 1999 کو بورس یلسن کے مستعفی ہونے پر روس کے قائم مقام صدر بنے۔

    پیوتن نے 26 مارچ 2000 کو صدارتی انتخاب جیتا اور 14 مارچ 2004 کو دوسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے، اس کے بعد وہ 2008 سے 2012 تک روس کے وزیر اعظم رہے۔ مارچ 2012 میں پیوٹن نے صدارتی انتخاب جیتا، پھر 2018 میں دوبارہ روس کے صدر منتخب ہوئے، مارچ 2024 میں انھوں نے آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور ایک بار پھر صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

  • روس کے صدارتی انتخابات، ممکنہ نئے صدر کا نام سامنے آگیا؟

    روس کے صدارتی انتخابات، ممکنہ نئے صدر کا نام سامنے آگیا؟

    روس میں صدارتی انتخابات کے لیے کل سے تین روزہ پولنگ شروع ہوگی۔ ملک کی صدارت کے لئے 4 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لیں رہے ہیں، تاہم قوی امکان ہے کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن ہی دوبارہ 6 برس کے لئے صدر منتخب ہوجائیں گے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ روس کے آٹھویں صدارتی انتخابات ہیں، 15 مارچ کو شروع ہونے والی ووٹنگ کا سلسلہ 16 اور 17 مارچ کو بھی جاری رہے گی۔

    صدارتی امیدوار کے طور پر 4 شخصیات نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے، جن میں سے دیگر 3 روسی ایوان زیریں یعنی ڈوما کے اراکین نکولائی خریطونوف، لیانید سُولوستکی اور ویلدیسلوف داونکوف ہیں جبکہ صدر بننے کے خواہشمند الیکسی نوالنی کا انتقال ہوچکا ہے اور دو کے کاغذات مسترد کردیے گئے۔

    سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن ہی دوبارہ صدر بنیں گے۔

    ووٹنگ سے ایک روز پہلے پیغام میں صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کے نتائج آئندہ برسوں میں روس کی ترقی پر براہ راست نتائج مرتب کریں گے، یہ ملک میں انتہائی اہم الیکشن ہیں۔

    واضح رہے کہ پیوٹن کو سابق سوویت لیڈر بورس یلسن نے 1999 میں نائب صدر مقرر کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے سن 2000 سے 2008 تک دوبار صدارت اور پھر سن 2012 تک وزارت عظمیٰ کا منصب اپنے پاس رکھا۔

    ’روس جوہری جنگ کیلیے تیار‘: پیوٹن کی امریکا اور مغربی ممالک کو دھمکی

    روسی صدر پیوٹن 2012 میں تیسری بار اور 2018 میں چوتھی بار صدر کے منصب پر فائز ہوئے، انہیں مزید دو بار آئینی طور پر صدر بننے کی اجازت حاصل ہے۔

  • پیوٹن نے گزشتہ امریکی انتخابات سے متعلق بڑا دعویٰ کر دیا

    پیوٹن نے گزشتہ امریکی انتخابات سے متعلق بڑا دعویٰ کر دیا

    اسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے پچھلے امریکی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔

    روئٹرز کے مطابق منگل کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ امریکی انتخابات میں پوسٹل ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی کی گئی تھی۔

    روسی صدر نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں بیلٹ پیپرز 10 ڈالرز کے عوض خریدے گئے، انھوں نے کہا ’’پچھلے امریکی انتخابات میں پوسٹل ووٹنگ کے ذریعے جعل سازی کی گئی، انھوں نے دس ڈالر میں بیلٹ خریدے، انھیں بھرا، اور مبصرین کی نگرانی کے بغیر میل باکس میں ڈال دیے، اور بس۔‘‘

    روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں پیوٹن کے مخالفین کے حوالے سے خود روسی انتخابات پر بھی سوال اٹھایا ہے، لکھا کہ پیوٹن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ روس میں مارچ میں ہونے والے انتخابات کوئی حقیقی انتخابات نہیں ہیں، کیوں کہ صدر پیوٹن کا کوئی حریف میدان میں نہیں ہے، اور اہم حریف الیکسی ناوالنی 30 سال سے زیادہ جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ ناوالنی کے مطابق ان پر لگے الزامات جھوٹے ہیں۔

    یوکرین کی جنگ انتہائی مشکل ہوچکی ہے، نیٹو سربراہ کا اعتراف

    مخالفین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے استعمال سے حکام آسانی کے ساتھ صدر پیوٹن کے حق میں ووٹ میں ہیرا پھیری کر سکتے ہیں، اور اس کی چھان بین بھی نہیں کی جا سکے گی۔

  • 2012 سے مسلسل صدر رہنے والے ولادیمیر پیوٹن کا اہم اعلان

    2012 سے مسلسل صدر رہنے والے ولادیمیر پیوٹن کا اہم اعلان

    ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اگلی مدت کے لیے بھی صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ولادیمیر پیوٹن نے اگلے برس صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، وہ پہلے ہی آئینی اصلاحات کے باعث 2012 سے مسلسل روسی صدر ہیں۔

    پیوٹن کے عہدِ صدارت کی مدت اگلے برس مکمل ہو رہی ہے اور آئندہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں یہ ان کا لگاتار تیسرا اور مجموعی طور چھٹا دورِ صدارت ہوگا۔

    پیوٹن 2000 سے 2008 تک روس کے صدر رہے، پھر 2008 میں صدارتی مدت پوری ہونے کے بعد اگلے 4 سال کے لیے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ پیوٹن 2012 تک وزیر اعظم رہے اور پھر مدت پوری ہونے پر دوبارہ صدر بن گئے۔

    روس میں مارچ 2024 میں صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے

    2012 میں صدر بنتے ہی پیوٹن نے آئین تبدیل کر کے صدر کے عہدے کی مدت کو 12 سال کر دیا جو 6,6 سال کے دو حصوں پر مشتمل تھا، یہ مدتِ صدارت بھی اب 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔

    اگلے برس مارچ میں روسی صدارتی انتخابات منعقد کیے جائیں گے، اگر صدر پیوٹن پھر سے صدر بن جاتے ہیں تو وہ کم سے کم 2030 اور زیادہ سے زیادہ 2036 تک صدر رہ سکتے ہیں۔

  • ’پیوٹن سعودی عرب پہنچ گئے، شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات‘

    ’پیوٹن سعودی عرب پہنچ گئے، شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات‘

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اپنے غیر معمولی سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے جہاں اُن کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیوٹن اور سعودی ولی عہد کی ملاقات کے موقع پر سعودی ولی عہد نے مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل کیلئے دونوں ممالک روس اورسعودی عرب کے مشترکہ کردار کو سراہا۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی اور روس باہمی مفادات سمیت روس، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کیلئے فائدہ مند منصوبوں پر مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

    سعودی روس تعلقات میں اضافے پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ روس اور سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات کے لیول کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی، اور ہمارے تعلقات میں مزید اضافے کو کوئی نہیں روک سکتا۔

    روسی وزارت خارجہ کے ترجمان دمیتری پاسکوف کے مطابق روسی صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اوپیک کوآپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا اور مستقل میں بھی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

    اس سے قبل پیوٹن کے یو اے ای کے دورے کے دوران اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید النیہان سے ملاقات میں غزہ کی صورتحال کے علاوہ توانائی، انفرااسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں باہمی تعاون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

    سعودی عرب کا نیا بجٹ کتنا ہے؟

    اماراتی طیاروں نے ابوظبی پہنچنے پر آسمان پر روسی پرچم کے رنگ بکھیر کر روسی صدر کو خوش آمدید کہا، روسی صدر کے طیارے کو روسی لڑاکا طیاروں نے حصار میں لے کر روس سے ابوظبی تک پہنچایا۔

  • الیکشن میں مداخلت: روسی صدر نے امریکا کو خبردار کر دیا

    الیکشن میں مداخلت: روسی صدر نے امریکا کو خبردار کر دیا

    ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس میں ہونے والے الیکشن میں مداخلت نہ کرے۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جاری کردہ بیان میں مارچ 2024 میں ہونے والے انتخابات سے قبل مغرب کو خبردار کیا اور کہا کہ روس میں کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو جارحیت تصور کیا جائے گا۔

    روسی صدر نے کہا کہ مغرب روسوفوبیا میں مبتلا ہو چکا ہے، امیرکا روس کے وسیع وسائل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور لوٹنا چاہتا ہے،کسی نے بھی الیکشن میں مداخلت کی تو اسے جارحیت سمجھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ روس اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں اور روس کو اہم مواقعوں پر خدشات لاحق رہتے ہیں کہ امریکا روس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    دوسری جانب روس یوکرین جنگ میں بھی امریکا کی جانب سے یوکرین کو مختلف طریقوں سے امداد فراہم کی جا رہی ہے۔