Tag: ولی دکھنی

  • گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    سلطان قلی قطب شاہ، اویس قلی کا بیٹا تھا جو بہمنی سلطنت کے زوال پر ایران سے جان بچا کر د کن آیا اور اپنی قابلیت، جاں بازی اور وفا داری کی بدولت تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا گیا۔

    وہ سنہ 1495ء میں تلنگانہ کا صوبے دار بنایا گیا اور 1518ء میں محمود شاہ بہمنی کی موت کے بعد سلطان ولی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ اس نے گول کنڈا کو محمد نگر کا نام دے کر اپنا پایۂ تخت بنایا۔ اس طرح قطب شاہی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ یہ سلطنت کم و بیش ایک سو اسی سال تک سر زمینِ دکن پر قائم رہی۔ اورنگ زیب نے ابوالحسن تانا شاہ کے دور میں گول کنڈا فتح کر لیا جس کے ساتھ ہی بہمنی سلطنت کا نشان بھی مٹ گیا۔

    دکن میں جب اردو ادب کا چرچا ہوا اور اسے دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی نظر گجری ادب پر ہی گئی۔ اس روایت کو معیار تسلیم کرکے انھوں نے اس کے ان تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کرلیا جو ان حالات میں تہذیبی اور لسانی سطح پر جذب کیے جاسکتے تھے۔ اس تہذیبی، معاشی اور سیاسی صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات ویران ہونے لگا اور دکن کے ادبی مراکز ابھرنے لگے۔

    بہمنی بادشاہوں کے جانشینوں میں قطب شاہی خاندان کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اردو (دکھنی) ادب کی سرپرستی کے لحاظ سے ان کا دور ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس دور میں اردو زبان و ادب نے غیر معمولی ترقی کی۔ ان کے عہدِ اردو ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

    گول کنڈا کے پہلے چار بادشاہ سلطان قلی، جمشید قلی، سبحان قلی اور ابراہیم قلی زیادہ تر جنگ وجدل میں مصروف رہے۔ ابراہیم قطب شاہ کے انتقال کے وقت گول کنڈا اردو کا مرکز بن چکا تھا۔ وجہی، احمد اور غواصی اسی کے دور میں پیدا ہوئے۔

    اس کا فرزند قلی قطب شاہ تو علم و ادب کا پروانہ تھا۔ قطب شاہی حکم رانوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اپنی وسیع المشربی، عوام دوستی اور کشادہ دلی کے اوصافِ حسنہ کے علاوہ شعر و سخن کا اعلٰی مذاق بھی رکھتے تھے۔

    ان کی خوش ذوقی کے سبب گول کنڈا اور حیدرآباد میں علمی اور ادبی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ابراہیم قلی قطب شاہ نے اپنے بیرونی محل کا ایک حصہ شاعروں اور خوش نویسوں کے لیے مختص کر رکھا تھا جہاں ادباء تالیف و تصنیف کا کام کرتے تھے۔ محل کا ایک حصہ ادبی تبادلۂ خیال اور شعر خوانی کے لیے مخصوص تھا۔

    قلی قطب شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے ایک کثیر الجہات شاعر تھا۔قلی قطب شاہ کی کلیات میں مثنویاں، قصیدے، ترجیع بند، مراثی بزبان فارسی و دکھنی اور رباعیاں موجود ہیں۔ دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے تھے۔

    اس کے دور میں ملا وجہی اور احمد گجراتی ایسے شعراء منظر عام پر آئے۔ قطب شاہی سلطنت کا آخری تاج دار ابوالحسن تانا شاہ بھی نہایت قابل اور علم کا قدر دان تھا۔ تانا شاہ کی اورنگزیب کے ہاتھوں شکست اور گرفتاری پر دکن کی یہ علم پرور اور ادب دوست سلطنت اپنے اختتام کو پہنچی۔ سلاطینِ گول کنڈا عقیدے کے لحاظ سے اہلِ تشیع تھے۔ ان کے تعلقات ایران کے ساتھ ہمیشہ گہرے رہے۔ شاید اسی وجہ سے قطب شاہی خاندان کے بادشاہوں نے ایرانی تہذیب و ادب کو اتنی اہمیت دی کہ فارسی اسلوب، آہنگ، لہجہ، اصناف اور مذاقِ سخن ابتداء ہی سے یہاں کی مشترکہ زبان اردو پر چھا گئے۔

    قطب شاہی عہد میں غزل ایک اہم اور مقبول صنف سخن کے طور پر ابھری۔ گول کنڈا میں مثنوی کی روایت بھی بڑی مستحکم ہے اور قصیدے کا رواج بھی ملتا ہے۔

    گول کنڈا میں نثر کی روایت بھی موجود ہے۔ ابتداء میں نثر صرف تبلیغی مقاصد تک محدود رہی۔ اس میں ادبی چاشنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملّا وجہی کی سب رس جو اردو نثر کا شاہ کار ہے، تاریخی اعتبار سے اسی دور کی یاد گار ہے۔

    مختصر یہ کہ قطب شاہی دور کا ادب فکری، تخلیقی، اسلوب و آہنگ، اصناف اور اوزان کے اعتبار سے فارسی ادب سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ اسے اپنانے کی شعوری کوشش کرتا رہا ہے۔

    (جی۔ ایم۔ اصغر کے مضمون سے اقتباسات)

  • ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔

    اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کا جنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف و مقبول ہوئی۔

    صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور ادبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہلِ زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازع اسی دور کی پیداوار ہے۔

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہلِ ایران کو حاصل ہے۔ اس رویّے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر و خیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔

    چناں چہ سراج الدّین علی خاں آرزو نے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعر گوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کو ان کے گھر پر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کر دی اور ان کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی۔ یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواجِ زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

    اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کا یہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    شمالی ہند میں جب اردو شاعری کا پہلا دور شروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیرِ سایہ پرورش پارہے تھے، لہٰذا اردو شعرا نے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعلِ راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

    ’’دیوانِ ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کا حصّہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال و جنوب کے ادبی و تہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل و تدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوانِ ولی کے زیر اثر پروان چڑھی۔‘‘

    ایہام گوئی شمالی ہند میں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقّی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔

    ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنٰی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔‘چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑ جاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔

    ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنٰی بعید سے ہو۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایہام کے معنٰی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنٰی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔‘‘

    ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقاد شمس الرّحمٰن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

    اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

    ایہام گوئی کی اس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

    ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطاکیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اور ان کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے، البتہ ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفٰی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدّین حاتم وغیرہ کا نام کافی اہمیت کاحامل ہے۔

    (ڈاکٹر محمد خلیق الزّماں کے علمی و ادبی مضمون سے اقتباسات)