Tag: ونسٹن چرچل

  • ونسٹن چرچل: ایک زیرک سیاست داں اور سفاک و ناپسندیدہ شخصیت

    ونسٹن چرچل: ایک زیرک سیاست داں اور سفاک و ناپسندیدہ شخصیت

    ونسٹن چرچل کو دنیا ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں اور سفاک حکم راں کہتی ہے۔ چرچل کو سخت متعصب، موقع پرست اور احساسِ برتری کا شکار بھی کہا جاتا ہے جس نے دوسری قوموں کی معاشرت اور مذاہب کی نہ صرف تحقیر کی بلکہ ان کے حوالے سے بے رحم اور سفاک ثابت ہوا۔ چرچل کی اکثر تقاریر اس کی کوتاہ بینی اور پست ذہنیت کا بھی ثبوت ہیں۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سَر ونسٹن چرچل گیارہ برس تک برطانیہ کا وزیرِ اعظم اور وہاں کے عوام کا ہیرو بھی رہا، لیکن برصغیر کی بات کی جائے تو یہاں وہ ایک سفاک حکم راں سمجھا جاتا ہے جو لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار بھی تھا۔

    اس سے قطع نظر اگر چرچل کے ذوق و شوق کی بات کی جائے تو وہ علم و فنون کا دلدادہ تھا۔ چرچل خود بھی ایک مصنّف اور بہترین مصوّر تھا۔ اس برطانوی سیاست داں اور لیڈر کے بارے میں‌ مزید جاننے سے پہلے سر سیّد احمد خان کی ایک تحریر پڑھیے:

    "انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔”

    سر سیّد جیسے عظیم لیڈر اور مصلح قوم نے تعصّب اور قوم پرستی کو بدترین قرار دیا ہے اور چرچل اسی کا شکار تھا جس نے بالآخر ہندوستان میں‌ عوام کو بدترین حالات سے دوچار کیا۔ ایک موقع پر چرچل نے کہا تھا کہ اُسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے ہندوستان میں‌ بسنے والوں کو وحشی قوم کہا تھا۔ وہ یہاں کے لوگوں ہی سے متنفر نہیں‌ تھا بلکہ ہندوستان کے مختلف مذاہب کے لیے بھی اس نے اپنی بیزاری اور شدید ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔ تاہم نو آبادیاتی دور میں برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اُس وقت کے بعض ہندو اور مسلمان راہ نما بھی برطانوی حکومت میں مختلف منصب پر فائز رہتے ہوئے چرچل کے اقدامات کو بُرا نہیں سمجھتے۔

    دنیا دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جرمنی کے خلاف فتح کو چرچل کی دور اندیشی اور مدبّرانہ سوچ اور حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین، مؤرخین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔ بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    کہا یہ بھی جاتا ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت برطانوی وزیرِاعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اس رویّے کے باعث بنگال میں صورتِ حال بگڑتی گئی اور ایک انسانی المیہ نے جنم لیا۔ چرچل کو امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل ونسٹن چرچل خود کو ایک برطانوی ہونے کے ناتے دنیا کی دیگر اقوام سے برتر خیال کرتا تھا اور اس بے جا احساسِ تفاخر نے اسے اپنے جیسے ہی کروڑوں انسانوں‌ کی عزّتِ نفس کو مجروح کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ اس کی نظر میں دنیا کی دیگر اقوام کا احترام نہیں رہا تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ وہ کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہا اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں‌ چل بسا تھا۔

    بحیثیت سیاست داں اپنا سفر شروع کرنے سے قبل چرچل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقہ میں ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا تھا۔ 1901ء میں چرچل پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ وزارتِ‌ خزانہ اور داخلہ میں خدمات انجام دیں اور بعد میں وہ وزارتِ عظمٰی کے منصب پر فائز ہوا۔

    چرچل برطانیہ کی کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور عملی سیاست کے ساتھ تصنیف و تالیف کا شغل بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد کتب کا مصنّف تھا۔ چرچل نے بطور مصوّر کئی فن پارے تخلیق کیے جن میں‌ ایک فن پارہ اس کا شاہکار مانا جاتا ہے جو مراکش کی مشہور جامع مسجد، مسجدِ کتبیہ کا ہے۔ یہ مسجد 1184ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ پینٹنگ چرچل نے دوسری عالمی جنگ کے دوران سابق امریکی صدر روز ویلٹ کے لیے بنائی تھی۔ چرچل کی بنائی ہوئی یہ تصویر عالمی شہرت یافتہ امریکی اداکارہ انجیلینا جولی کی ملکیت تھا جسے چند سال قبل ہی ایک کروڑ 15 لاکھ ڈالر (ایک ارب 80 کروڑ روپے) میں نیلام کیا گیا۔ چرچل کی اس کی پینٹنگ کو ٹاور آف کتبیہ کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس فن پارے میں‌ چرچل نے مسجد کے مینار اور ارد گرد کی منظر کشی کی ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ اس مسجد کے ساتھ لگ بھگ دو ڈھائی سو کتابوں کی دکانیں موجود تھیں‌ اور اسی مناسبت سے اسے مسجدِ کُتبیہ پکارا جانے لگا تھا۔

    برطانیہ کی اس ممتاز مدبّر اور باتدبیر مگر متنازع شخصیت کو 1953ء میں ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔ چرچل کی زندگی کے مختلف ادوار کا احاطہ کرنے کے لیے کئی ابواب باندھنا ہوں گے، کیوں کہ بطور برطانوی وزیر مختلف جنگوں اور محاذوں کے دوران وہ اپنی رائے، بعض فیصلوں‌ اور احکامات کی وجہ سے بھی نمایاں‌ ہوا اور وزیراعظم کے منصب پر رہتے ہوئے اس نے بہت اہم اور ایسے فیصلے کیے جن کا تعلق برطانویوں اور دوسرے ممالک میں بسنے والوں کی زندگی سے تھا اس کے علاوہ وہ اپنے قلم اور مُوقلم کے ذریعے بھی اپنے نظریات اور افکار کا اظہار کرتا رہا جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔

  • ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ونسٹن چرچل کو دنیا اعلٰی درجے کا مدبّر تسلیم کرتی ہے، لیکن اسے سخت متعصّب اور انتہائی قدامت پرست سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب کا یہ پامرد سپاہی اور سیاسی ہیرو برصغیر میں‌ لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

    تعصّب کیا بلا ہے اور اگر کسی قوم کا حکم ران اس کا شکار ہو تو اس کے کیا ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس کا اندازہ‌ آپ سر سیّد احمد خان کے ایک مضمون کے چند پارے پڑھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس نے کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر گزارے اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں انتقال کر گیا۔ اس کی عمر 90 برس تھی۔

    وہ سیاست میں آنے سے قبل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کرچکا تھا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ سمیت وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا۔

    ونسٹن چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور سیاست کے ساتھ اس نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں۔ وہ مصوّر بھی تھا اور کئی فن پارے تخلیق کیے۔ 1953ء میں چرچل نے ادب کا نوبل انعام وصول کیا تھا۔

  • 11 مئی 1947 کو بجھائے گئے ایک سگار کی دل چسپ کہانی

    11 مئی 1947 کو بجھائے گئے ایک سگار کی دل چسپ کہانی

    برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ونسٹن چرچل کو دنیا ایک زیرک سیاست داں اور مدبر کہتی ہے جب کہ اس دور میں اسے ہندوستان میں متعصب انگریز سمجھا جاتا تھا۔

    ونسٹن چرچل کا خاندان برطانیہ میں‌ سیاست اور عسکری میدان میں‌ خدمات کے لیے مشہور تھا اور ایک وقت آیا جب ونسٹن چرچل برطانیہ کے حکم راں بنے۔ چرچل فنونِ لطیفہ کے رسیا تھے۔ مطالعے، نثر و نظم میں‌ دل چسپی اور تصویر کشی کے اس شائق نے اپنے دور میں جنگ کا میدان بھی سجایا۔ یہاں‌ ہم تاریخ کے اس اہم اور مشہور کردار کے ایک سگار کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو یقینا آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    یہ 11 مئی 1947 کی بات ہے۔ ونسٹن چرچل اس وقت پیرس کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ وہ واپس اپنے وطن جانے کے منتظر تھے۔ اڑان بھرنے سے پہلے انتظار کے دوران انھوں نے اپنی جیب سے سگار نکالا اور سلگا لیا، لیکن زیادہ دیر اس سے لطف اندوز نہ ہوسکے، تھوڑا سا پینے کے بعد ونسٹن چرچل نے سگار سے ہاتھ روک لیا۔

    یہ کیوبن سگار تھا جو اس زمانے میں‌ بہت شوق سے پیے جاتے اور خوب فروخت ہوتے تھے۔ اس سگار پر کمپنی کا سرخ اور سنہری لیبل چمک رہا تھا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ونسٹن چرچ کا یہ بچا ہوا سگار برطانوی رائل ایئر فورس کے ایئرمین نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہی شخص چرچل لندن سے پیرس اور وہاں‌ سے واپس لندن لایا تھا۔

    ‘اس نے اس سگار کے ساتھ منسلک کی گئی ایک تصویر پر لکھا کہ ونسٹن چرچل نے اپنا سگار ایش ٹرے میں بجھایا اور میں نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا۔

    بعد میں‌ جب وہ اہل کار اس سگار اور اس سے جڑی اپنی یاد کو منظرِ عام پر لایا تو سبھی نے اس میں‌ بہت دل چسپی لی۔ بعد میں‌ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کا یہ سگار ہزاروں‌ ڈالر میں نیلام کردیا گیا۔

  • جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    برصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم موڑثابت ہونے والے واقعے ’جلیاں والا باغ‘ کو 100 سال بیت گئے ہیں‘اس واقعے نے برصغیرمیں آزادی کی مہم کو مہمیزکیا تھا‘ سنہ 1997 میں بھارت کے دورے پرملکہ برطانیہ نے اس تاریخ کا افسوس ناک باب قراردیا تھا۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق’’ اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا‘‘۔

    دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

    جلیاں والا باغ میں تعمیر کردہ یاد گار

    تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیرکسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔

    انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔

    سنہ 1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئیں تھی‘ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر بھارت میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کمار گجرال کہتے نظر آئے تھے کہ’’اس سانحے کے وقت ملکہ پیدا نہیں ہوئی تھیں لہذا انہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

    وہ کنواں جس میں سے سینکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

    اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:

    بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔ میں وہاں کل جاؤں گی۔ مگر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، چاہے ہم کتنی کوشش کر لیں۔ اس کے اپنے دکھ اور خوشی کے لمحات ہیں۔ ہمیں رنج سے سیکھ کر اپنے لیے خوشیاں جمع کرنی چاہیئں۔

    14 اکتوبر، 1997ء کو ملکہ الزبتھ دوم نے جلیاں والا باغ کا دورہ کیا اور نصف منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس وقت ملکہ نے زعفرانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیا تھا جو سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل رنگ ہے۔ یادگار پر پہنچ کر انہوں نے اپنے جوتے اتارے اور پھول چڑھائے۔

    اگرچہ انڈین لوگوں نے پچھتاوے کے اظہار اور ملکہ کے رنج کو قبول تو کیا مگر بعض نقاد کہتے ہیں کہ یہ معافی نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کے انڈین وزیرِ اعظم اندر کمار گجرال نے ملکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ملکہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔

    ملکہ برطانیہ الزبتھ جلیاں والا باغ کے دورے پر

    8 جولائی، 1920ء کو ونسٹن چرچل نے ایوانِ نمائندگان کو کرنل ڈائر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چرچل نے ہاؤس کو کرنل ڈائر کو زبردستی ریٹائر کرنے پر آمادہ کر لیا مگر چرچل چاہتے تھے کہ کرنل کو سزا بھی ملتی۔

    فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو ‘برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا‘۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔

    دو روز قبل پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت برطانیہ جلیاں والاباغ قتل عام اور قحط بنگال پرپاکستان، بھارت اوربنگلا دیش سے معافی مانگے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ برطانیہ کو کوہ نور ہیرا بھی لاہورمیوزیم کو واپس کرنا چاہیے، ساتھ ہی معافی مانگنی چاہیے۔

  • ہالی ووڈ کے 8 لازوال تاریخی کردار

    ہالی ووڈ کے 8 لازوال تاریخی کردار

    ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور دنیا کی تمام فلم انڈسٹریز میں تاریخی شخصیات اور موضوعات پر فلم بنانے کا رجحان بہت پرانا ہے۔ اب تک متنازعہ موضوعات سمیت کئی تاریخی واقعات کو فلم کی شکل میں ڈھالا جا چکا ہے۔

    ان فلموں میں بعض دفعہ حقائق کو بالکل صحیح انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ فلم ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ بعض دفعہ فلم میں تاریخی غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی تاریخی واقعہ کو صرف بنیاد بناتے ہوئے فکشن فلم بنادی جاتی ہے۔ بہرحال فلم کا موضوع اور فلم بندی ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہے۔

    تاریخی فلموں میں کرداروں کی بھی اہم حیثیت ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جن تاریخی شخصیات کو پیش کیا جارہا ہو ان کی صحیح مشابہت رکھنے والے اداکاروں کو ہی فلم کا حصہ بنایا جائے۔ بعض دفعہ مجموعی طور پر فلم ناکام ہوجاتی ہے مگر اس کے کرداروں کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    یہاں ہم ہالی ووڈ کے کچھ ایسے ہی کرداروں کا ذکر کر رہے ہیں جو بہترین طریقہ سے ادا کیے گئے اور ناقدین نے بھی انہیں پسند کیا۔ کردار ادا کرنے والوں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔

    :قلوپطرہ

    ch-8

    سنہ 1963 میں بننے والی فلم ’قلوپطرہ‘ مصر کی حسین اور ذہین شہزادی پر بنائی گئی۔ فلم میں مرکزی کردار الزبتھ ٹیلر نے ادا کیا۔ قلوپطرہ کے بارے میں کوئی مصدقہ تصاویر موجود نہیں ہیں۔ بعض محققین کے مطابق قلوپطرہ سیاہ فام تھی، لیکن یہ الزبتھ ٹیلر کی جادوئی اور سحر انگیز اداکاری کا کمال تھا کہ اس کے بعد جب بھی قلوپطرہ کا ذکر ہوا، ذہن میں الزبتھ ٹیلر کی تصویر ابھر آئی۔

    :کرسٹین کولنز

    ch-7

    امریکا میں 1920 کی دہائی میں کرسٹین کولنز نامی ایک خاتون اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بن گئی جب اس نے اپنے 9 سالہ گمشدہ بیٹے کو ڈھونڈنا شروع کیا، اور بیٹے کی بازیابی پر اسے اپنانے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ اس کے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا اور خود کو اس کا بیٹا ظاہر کرنے والا شخص کوئی اور تھا۔

    اس خاتون پر 2008 میں ’چیلنجنگ‘ نامی فلم بنائی گئی جس میں کرسٹین کا کردار انجلینا جولی نے نہایت شاندار طریقہ سے ادا کیا۔ انجلینا جولی کو اس کردار پر اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا

    :آڈرے ہپ برن

    ch-6

    مشہور ہالی ووڈ فلم ’رومن ہالی ڈے‘ سے لازوال شہرت پانے والی اداکارہ آڈرے ہپ برن کی زندگی پر 2000 میں ایک ٹیلی فلم بنائی گئی جس میں جینیفر لو ہیوٹ نے مرکزی کردار ادا کیا۔

    :اسٹیفن ہاکنگ

    ch-5

    عصر حاضر کے مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ پر 2014 بننے والی فلم ’دا تھیوری آف ایوری تھنگ‘ میں مرکزی کردار ایڈی ریڈمن نے بخوبی ادا کیا۔

    :جارج ششم

    ch-4

    برطانیہ کے کنگ جارج ششم پر 2000 میں بنائی جانے والی دستاویزی فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ میں مرکزی کردار کولن فرتھ نے ادا کیا۔

    :ایڈگر ایلن پو

    ch-3

    مشہور امریکی مصنف ایڈگر ایلن پو پر 2012 میں اس کے تخلیقی مجموعہ ’دا ریوین‘ کے نام پر فلم بنائی گئی۔ فلم میں ایڈگر کا کردار جان کیوسک نے ادا کیا۔

    :ایلوس پریسلے

    ch-2

    مشہور امریکی گلوکار ایلوس پریسلے پر 2005 میں ٹیلی فلم بنائی گئی جس میں مرکزی کردار جوناتھن میئرز نے ادا کیا۔

    :ونسٹن چرچل

    ch-1

    سنہ 2000 میں بنائی جانے والی فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ میں مختلف تاریخی کرداروں کو دکھایا گیا ہے جس میں ایک کردار سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا بھی ہے۔ یہ کردار ٹموتھی اسپل نے ادا کیا۔