Tag: وٹامن ڈی

  • وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی اور ​کیلشیم مضبوط ہڈیوں اور صحت عامہ کے لئے بہت ضروری ہے، انسان کو روزانہ وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کتنی خوراک درکار ہوتی ہے۔

    کیلشیم کی ہی طرح وٹامن ڈی بھی ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے ضروری ھے، وٹامن ڈی کو ” سن شائن” وٹامن بھی کہتے ہیں۔

    وٹامن ڈی ایک ضروری ہارمون کی قسم ہے جو کیلشیم کے جذب میں مدد دیتا ہے، مضبوط ہڈیوں اور دانتوں کے لیے ضروری ہے، مدافعتی نظام کو سہارا دیتا ہے اور موڈ کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس کا اہم ترین ذریعہ سورج کی روشنی ہے، لیکن یہ کچھ خوراکوں اور سپلیمنٹس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، وٹامن ڈی کی کمی ہڈیوں کی کمزوری، مدافعتی نظام کی خرابی اور دیگر صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

    وٹامن ڈی کی کمی کی عام علامات میں تھکاوٹ، ہڈیوں اور پٹھوں میں درد یا کمزوری، موڈ میں تبدیلیاں (جیسے ڈپریشن)، بال گرنا، اور کمزور مدافعتی نظام شامل ہیں، شدید کمی کی صورت میں، بالغوں میں آسٹیومالیشیا (ہڈیوں کا نرم ہونا) اور بچوں میں رکٹس (ہڈیوں کا جھکنا) ہو سکتا ہے۔

    انسان کی صحت کیلئے وٹامنز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں وٹامنز میسر نہ ہوں تو صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ہماری بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔

    طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration)بھی ہوسکتی ہے۔

    مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ میکولر ڈجنریشن مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکٹو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔

  • جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی سے مفت حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہمارے جسم کے لیے بالخصوص ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اس کی کمی سے ہڈیاں ہی نہیں بلکہ دل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد کو شناخت کیا گیا جو دل کی شریانوں کے امراض اور وٹامن ڈی کی کمی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار والے افراد کے مقابلے میں امراض قلب کا خطرہ دگنا سے زیادہ ہوتا ہے، عالمی سطح پر دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا سی وی ڈی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی دل کی صحت پر منفی کردار ادا کرتی ہے اور اس پر توجہ دے کر دل کی شریانوں کے امراض کے عالمی بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی کا مسئلہ بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر معتدل کمی کی روک تھام کرکے دل کو منفی اثرات سے بچانا بہت ضروری ہے، بالخصوص ایسے افراد جو چار دیواری سے باہر سورج کی روشنی میں زیادہ گھومتے نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم وٹامن ڈی کو غذا بشمول مچھلی، انڈوں اور فورٹیفائیڈ غذاؤں اور مشروبات سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر غذا وٹامن ڈی کے حصول کا زیادہ اچھا ذریعہ نہیں اور صحت بخش غذا سے بھی عموماً وٹامن ڈی کی کمی دور نہیں کی جاسکتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ سورج کے ذریعے وٹامن ڈی کا حصول مفت اور آسان ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر روزانہ سپلیمنٹ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص یا پھلبہری کی بیماری کو انگریزی زبان میں ویٹیلیگو کہا جاتا ہے، پھلبہری قوت مدافعت کی بیماری ہے جس میں جسم کا مدافعتی نظام جلد میں روغن کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر کاشف نے برص کی وجوہات اور اس کے علاج کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ برص ایک جِلد کی بیماری ہے یہ بیماری لاحق ہونے کی صورت میں جِلد کی میلانن کم یا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ میلانن ان پگمنٹس کو کہا جاتا ہے جن کی وجہ سے جلد میں رنگت پائی جاتی ہے۔

    ایک عام غلط فہمی :

    انہوں نے بتایا کہ یہ غلط فہمی بہت زیادہ عام ہے کہ یہ بیماری مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے ہوتی ہے، جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اس مرض کی وجہ سے پگمنٹس کی پیدائش اور افزائش رک جاتی ہے جس کی وجہ سے برص یا پھلبہری شدت اختیار کرنا شروع ہو جاتی ہے۔

    عمومی طور پر اس مرض کی ابتداء ایک چھوٹے سے سفید دھبے سے ہوتی ہے لیکن بعد میں یہ دھبے آہستہ آہستہ جسم کے کسی خاص حصے یا سارے جسم پر پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیوں لاحق ہوتی ہے؟

    اس بیماری کی وجوہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیوں لاحق ہوتی ہے۔

    یہ موروثی بیماریوں کی فہرست میں اس لیے شامل نہیں ہے کیوں کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی فیملی میں پہلے کسی کو اور خاص طور پر والدین کو یہ بیماری لاحق نہیں ہوتی۔

    برص یا پھلہری کا علاج :

    انہوں نے بتایا کہ اس مرض کے علاج کیلئے وٹامن ڈی سے بھرپور غذاؤں کو خوراک میں لازمی شامل کرنا بہت ضروری ہے اور سپلیمنٹیشن ضروری ہے، بہترین ذرائع میں کوڈ لیور آئل شامل ہیں۔ مچھلی بشمول سالمن، ٹونا کچا دودھ اور انڈوں کا استعمال کریں۔

    اس کے علاوہ جلد کی مجموعی صحت کے لیے کیروٹینائڈز ضروری ہیں، بیٹا کیروٹین، لیوٹین اور لیکوپین میٹھے آلو، گاجر اور ٹماٹر جیسے ذائقے دار کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔

    بیٹا کیروٹین کینسر مخالف خصوصیات، آنکھوں کی صحت کے ساتھ لیوٹین کینسر کے کم خطرے کے ساتھ لائکوپین سے وابستہ اور جلد کو میلانوما سمیت نقصان سے بچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

  • 89 سالہ بزنس مین وٹامن ڈی کی گولی سے ہلاک

    89 سالہ بزنس مین وٹامن ڈی کی گولی سے ہلاک

    ایک حیران کن واقعے میں 89 سالہ بزنس مین وٹامن ڈی کی ’اوور ڈوز‘ استعمال کرنے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    جب 89 سالہ ریٹائرد بزنس مین ڈیوڈ مچنر کو ان کی علالت کے باعث سپتال میں داخل کرایا گیا تو ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ ان کے جسم مں وٹامن ڈی کا لیول بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ ان کے تمام ٹیسٹ این ایچ ایس لیبارٹری کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ جو سپلیمنٹس انھوں نے استعمال کی تھیں اس کی پیکجنگ میں دوا کو زائد مقدار میں استعمال کرنے کے خطرات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا، جس کے باعث ان کی موت واقع ہوئی۔

    این ایچ ایس کی گائیڈ لائنز کے تحت چار سال سے زیادہ عمر کے ہر فرد کو موسم سرما اور خزاں کے مہینوں میں وٹامن ڈی کی روزانہ خوراک لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

    ان مہینوں میں چوںکہ سورج نہیں نکلتا یا اس کی حدت کافی کم ہوتی ہے جو جس میں وٹامن ڈی کے قدرتی اثرات پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

    اسپتال میں داخل ہونے کے دس دن بعد ڈیوڈ مچنر ہائپر کیلسیمیا نامی بیماری کے باعث انتقال کر گئے، یہ بیماری بہت زیادہ وٹامن ڈی لینے سے منسلک ہے جس سے جسم میں کیلشیم کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے۔

    اس حالت میں نہ صرف مریض کی ہڈیوں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ گردوں اور دل کے لیے بھی مضر ثابت ہوتی ہے۔

    ان کی غیرطبعی موت کی تحقیق کرنے والوں نے ’مستقبل میں ہونے والی اموات کی روک تھام‘ کے حوالے سے رپورٹ لکھی ہے

    اس روپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریٹائرڈ بزنس میں مچنر کم از کم پچھلے نو مہینوں تک جو سپلیمنٹس لے رہے تھے ان میں بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کے مخصوص خطرات یا مضر اثرات کے بارے میں کوئی انتباہ موجود نہیں تھا۔

  • ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے ان ہدایات پر لازمی عمل کریں

    ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے ان ہدایات پر لازمی عمل کریں

    جب انسان کی عمر 30 سال ہوجاتی ہے تو ہڈیوں کا حجم عروج تک پہنچ جاتا ہے اور 40 سال کے بعد ہڈیوں کو مضبوط و صحت مند رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

    اگر صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں کا حجم گھٹنے لگتا ہے، جس سے ہڈیوں کی کمزوری یا دیگر مسائل کا خطرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

    ہڈیاں

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں جناح اسپتال کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر عبدالرؤف نے ناظرین کو ہڈیوں کی مضبوطی سے متعلق اہم ہدایات اور معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو پھلوں اور سبزیوں میں وٹامنز اور معدنیات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو انسانی جسم کو بیش بہا فوائد پہنچاتے ہیں لیکن ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے ڈیری مصنوعات اور وٹامن ڈی سب سے اہم ہے۔

    خوراک

    اس کے علاوہ وٹامن ڈی جیسا ضروری وٹامن سورج کی روشنی کے ذریعے ایک بہترین مقدار میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں کی صحت اور مدافعتی نظام سمیت صحت کے بہت سے پہلوؤں میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

    ڈاکٹر عبدالرؤف نے بتایا کہ اچھی غذا کے ساتھ ورش نہایت ضروری ہے کم از کم آدھا گھنٹے کی واک ضروری ہے تاکہ مستقبل میں بماریون سے محفوظ رہ سکیں۔

  • یہ عام غذا کھائیں اور وٹامن ڈی کی کمی کو دور کریں

    یہ عام غذا کھائیں اور وٹامن ڈی کی کمی کو دور کریں

    ہڈیوں، دانتوں، مسلز اور دیگر متعدد جسمانی افعال کے لیے وٹامن ڈی انتہائی اہمیت رکھتا ہے, اس وٹامن کی کمی سے جسم کے لیے کیلشیئم یا فاسفورس کی مقدار کو ریگولیٹ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    اس وٹامن کی کمی متعدد علامات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور یہ متعدد امراض کا خطرہ بھی بڑھاتی ہے، جیسے بال گرنا، جوڑوں کا درد، چڑچڑا پن، ڈپریشن، ہر وقت تھکاوٹ اور مسلز کی کمزوری سمیت دیگر۔

    سورج کی روشنی بھی وٹامن ڈی کے لیے اہم ہوتی ہے، تاہم دیگر پھل، غذائیں اور قدرتی اشیاء کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بناکر وٹامن ڈی سے بھرپور رہا جاسکتا ہے۔

     وٹامن ڈی کی کمی کیوں ہوتی ہے اور کیسے پوری کی جائے؟

    درج ذیل قدرتی اشیاء وٹامن ڈی میں مددگار ہوتی ہیں۔

    سورج کی روشنی

    کاڈ لِورِ آئل (مچھلی کے کیپسول) سپلیمینٹ

    مچھلی

    جھینگے

    دودھ

    انڈے کی زردی

    مشروم

    اورینج

    گندم اور جو سے بنے مختلف سیریلز

    بادام

    گاجر

    خوبانی

    آڑو

    پپیتا

    بلیو اینڈ بلیک بیریز

  • وٹامن ڈی کی کمی موت سے ہمکنار کرسکتی ہے

    وٹامن ڈی کی کمی موت سے ہمکنار کرسکتی ہے

    انسانی جسم کے لیے مختلف وٹامنز کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی بھی بہت ضروری ہے جس کی کمی مختلف طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس کی کمی کو جلد موت کا سبب بھی قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ وٹامن ڈی کی کمی قبل از وقت موت کا سبب بن سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کی ایک نئے تحقیق کے محققین کا کہنا ہے کہ صحت مند انسان کے جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار ہونا ضروری ہے، وٹامن ڈی کی کمی جتنی شدید ہوگی، اموات کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

    وٹامن ڈی ایک اہم غذائی جز ہے جو اچھی صحت کو برقرار رکھنے اور ہماری ہڈیوں اور پٹھوں کو مضبوط اور صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہمارے جسم کو صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے وٹامن ڈی ضروری ہے، وٹامن ڈی کی کمی کی عام علامات میں تھکاوٹ، ہڈیوں کا درد، پٹھوں کی کمزوری اور موڈ میں تبدیلی کی علامات وغیرہ ہیں۔

    وٹامن ڈی کے حصول کا سب سے عام ذریعہ سورج کی روشنی ہے جبکہ بعض غذاؤں جیسے مچھلی اور انڈے میں بھی وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مصنف جوش سدر لینڈ ا کہنا ہے کہ اگرچہ آسٹریلیا کے نوجوانوں میں وٹامن ڈی کی شدید کمی پائی جاتی ہے جو دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے جو صحت مند ہیں اور غذائی ذرائع سے کافی مقدار میں وٹامن ڈی حاصل نہیں کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالعہ وٹامن ڈی کی کم سطح اور شرح اموات کے درمیان تعلق کا مضبوط ثبوت فراہم کرتا ہے۔

  • جسم میں سوزش پیدا کرنے والی اہم وجہ سامنے آگئی

    جسم میں سوزش پیدا کرنے والی اہم وجہ سامنے آگئی

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ڈی کی کمی سوزش کا سبب بن سکتی ہے، تحقیق کے لیے 2 لاکھ سے زائد افراد پر تحقیق کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دائمی سوزش کا مسئلہ کسی بھی انسان میں وٹامن ڈی کی
    کمی کے باعث ہوسکتا ہے، تاہم اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔

    عام طور انفلیمیشن جسے سوزش یا سوجن بھی کہا جاتا ہے ڈپریشن، زائد العمری، خراب طرز زندگی اور ناقص خوراک سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

    تاہم حال ہی میں ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دائمی سوزش کا مسئلہ وٹامن ڈی کی قلت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔

    برطانوی ماہرین کی جانب سے تقریباً 3 لاکھ افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خون میں سی ری ایکٹر پروٹین (سی آر پی) نامی پروٹین بڑھنے اور وٹامن ڈی کی کمی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جن افراد میں یہ مسئلہ ہوتا ہے، وہ دائمی سوزش کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ماہرین نے 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد افراد کے خون کے سیمپلز لینے سمیت ان کے مختلف ٹیسٹس کیے اور ان سے طرز زندگی اور خوراک سے متعلق سوالات بھی کیے۔

    مذکورہ تمام افراد سفید فام نسل سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے زیادہ افراد کے خون میں سی آر پی کی مقدار زیادہ پائی گئی اور وہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار تھے۔

    ماہرین کے مطابق جن افراد میں سی آر پی کی زائد مقدار اور وٹامن ڈی کی کمی نوٹ کی گئی، ان افراد نے دائمی سوزش یا سوجن کا شکار ہونے کا اعتراف بھی کیا۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ طے نہیں ہے کہ سی آر پی کی زائد مقدار وٹامن ڈی کی کمی کا سبب ہے، تاہم ان کا کچھ نہ کچھ آپس میں تعلق ضرور ہے۔

    ماہرین کے مطابق دائمی سوزش یا سوجن کے شکار افراد کو وٹامن ڈی سے بھرپور غذائیں یا دوائیاں دے کر انہیں مذکورہ مسئلے سے بچایا جا سکتا ہے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    جسم میں وٹامن ڈی کی کمی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے اور اس کی مناسب مقدار مختلف مسائل سے بچاتی ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی کی کمی کو دور کرنے والی سپلیمنٹس لینے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ماہرین کی جانب سے 1256 افراد پر 3 سال تک کی جانے والی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سپلیمنٹس لیتے ہیں ان میں نہ صرف ذیابیطس ٹائپ 2 کے ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ ان میں انسولین کی مقدار بھی بہتر رہتی ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے رضا کاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کو ماہرین نے یومیہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کی انتہائی کم مقدار فراہم کی، جبکہ دوسرے گروپ کو صرف سادہ گلوکوز دیا گیا۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران رضا کاروں کے ہر 3 ماہ کے بعد مختلف ٹیسٹ کیے، جن میں ان کے باڈی ماس انڈیکس کے علاوہ دیگر ٹیسٹ بھی شامل تھے اور ان میں ذیابیطس کو بھی چیک کیا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے والے سپلیمنٹس لے رہے تھے ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے ہونے کے امکانات 11 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لینے والے افراد کے نتائج میں کوئی بہت بڑا نمایاں فرق نہیں تھا، تاہم یہ دیکھا گیا کہ سپلیمنٹ لینے والے افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ ذیابیطس ٹائپ 2 سے بچنے کے لیے لوگ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس لے سکتے ہیں۔

  • نئی قسم کے ٹماٹر کا کامیاب تجربہ، کب دستیاب ہوں گے؟

    نئی قسم کے ٹماٹر کا کامیاب تجربہ، کب دستیاب ہوں گے؟

    برطانوی سائنس دان ایک اہم تجربہ کر کے ٹماٹر میں کافی مقدار میں وٹامن ڈی شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے، یہ کارنامہ انھوں نے ٹماٹر کی جین ایڈیٹنگ کر کے انجام دیا ہے۔

    طبی جریدے نیچر میں شائع شدہ برطانوی ماہرین کے تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ کرسپر کاس 9 جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹماٹروں کی ساخت تبدیل کر دی گئی، اب ممکنہ طور پر ٹماٹروں کو وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

    کرسپر کاس 9 جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے تحت ماہرین نے ٹماٹروں کے پتوں میں موجود پرو وٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے والے بیکٹیریاز کو بلاک کیا، جس کے بعد پودا ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری کو منتقل کرنے لگا۔

    سائنس دانوں نے بتایا کہ اگر پودے کے پتے پرو وٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے کی بجائے وٹامن ڈی تھری کی صورت میں پکے ہوئے ٹماٹروں میں منتقل کرتے ہیں، تو ایک ٹماٹر میں 28 گرام مچھلی یا پھر 2 انڈوں کے برابر وٹامن ڈی آ جائے گی۔

    وٹامن ڈی کی کمی سے کیا ہوتا ہے؟

    وٹامن ڈی کی کمی جہاں ہڈیوں میں درد، مسلز کے سکڑنے، جوڑوں کے مسائل اور دانتوں میں تکلیف کا سبب بنتی ہے، وہیں اس کا تعلق بانجھ پن سمیت کینسر کے امکانات سے بھی جوڑا گیا ہے۔

    دنیا بھر میں کروڑوں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں اور لوگ اس سے بچنے کے لیے فوڈ سپلیمنٹس اور دوائیاں لیتے رہتے ہیں۔

    نئے ٹماٹروں کی پیداوار

    اس کامیاب تجربے کے بعد اب برطانوی حکومت زرعی پیداوار کے قوانین میں تبدیلیاں کر کے نئے ٹماٹروں کی پیداوار کی منظوری دے گی اور دیکھا جائے گا کہ ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری منتقل ہوتی ہے یا نہیں۔

    خیال رہے کہ عام طور پر دنیا بھر میں وٹامن ڈی تھری کو سورج کی روشنی یا شعاعوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور سورج کی روشنی سے ہی ٹماٹروں کے پتے وٹامن ڈی تھری حاصل کرتے رہتے ہیں مگر جب پودے میں ٹماٹر تیار ہو جاتے ہیں تو وٹامن ڈی تھری کولیسٹرول یا دیگر بیکٹیریاز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

    مگر اب سائنس دانوں نے ٹماٹر کے پتوں میں جین ایڈیٹنگ کر کے وٹامن ڈی تھری کو اپنی صورت میں ہی ٹماٹر میں موجود رہنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

    کہا جا رہا ہے کہ اگر کاشت کے دوران ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری پائی گئی تو یہ میڈیکل کی تاریخ کا سب سے انوکھا تجربہ ہوگا اور لوگ ٹماٹروں کو دوائی کے طور پر بھی استعمال کرنے لگیں گے۔