Tag: وٹامن ڈی

  • کیا وٹامن ڈی کووڈ 19 کی شدت میں کمی کرسکتا ہے؟

    کیا وٹامن ڈی کووڈ 19 کی شدت میں کمی کرسکتا ہے؟

    انسانی جسم میں وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ 19 کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم کرتا ہے، ماہرین اس حوالے سے کافی تحقیق کر چکے ہیں۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق آئر لینڈ کے ٹرینیٹی کالج، اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح، سورج کی روشنی سے جلد میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔

    اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا، مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے، زیادہ عمر یا کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 5 لاکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔ نتائج سے عندیہ ملا کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے، اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خلاف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ڈی کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھلا رکھا جائے۔

  • وٹامن ڈی کے ذریعے کرونا وائرس سے تحفظ؟ تحقیق میں نیا انکشاف

    وٹامن ڈی کے ذریعے کرونا وائرس سے تحفظ؟ تحقیق میں نیا انکشاف

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ وٹامن ڈی کرونا وائرس سے تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

    تفصیلات کے مطابق ایک طبی جریدے PLoS میں شائع شدہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کو کرونا وائرس کے خطرے سے جوڑا گیا ہے لیکن کسی بھی طبی مطالعے میں اس کے ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔

    خیال رہے کہ وٹامن ڈی کے شدید کرونا وائرس کی بیماری کے حوالے سے بچانے میں معاونت پر لوگوں کی کافی دل چسپی رہی ہے، منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپلیمنٹس کے ذریعے وٹامن ڈی کی سطح بڑھانے سے اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

    وٹامن ڈی کرونا وائرس کے خاتمے میں کتنا اہم؟ وجہ جانئے

    اس سلسلے میں محققین نے 11 ممالک سے یورپی نسب کے 12 لاکھ افراد کا مطالعہ کیا، ان میں سے کچھ ایسے تھے جن میں جینیاتی طور پر قدرت کی طرف سے وٹامن ڈی کی سطح زیادہ تھی۔

    مطالعے میں دیکھا گیا کہ مذکورہ افراد میں بھی کرونا وائرس انفیکشن کا خطرہ کچھ کم نہ تھا، نہ ہی ان میں اسپتال داخل ہونے کے کیسز کم تھے، ان نتائج کو دیکھ کر محققین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی ہے، ان میں یہ بڑھانے سے غالب یہی ہے کہ کرونا وائرس سے جنگ نہیں ہو سکے گی۔

    تاہم کچھ ماہرین چاہتے ہیں کہ اب مزید تجربات اس سلسلے میں افریقی اور دیگر غیر یورپی نسب والے لوگوں پر بھی کیے جائیں۔

  • خواتین: کیسے معلوم ہوگا کہ وٹامن ڈی کی کمی ہو چکی ہے؟

    خواتین: کیسے معلوم ہوگا کہ وٹامن ڈی کی کمی ہو چکی ہے؟

    وٹامن ڈی نہ صرف جسم کے لیے مفید ہے بلکہ کئی امراض سے بچاتا بھی ہے، اس کی کمی یا نقص سے کئی مہلک امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے اگر کوئی کرونا وائرس کا شکار ہو جائے تو بھی اس کے نظام تنفس کی بہتری کے لیے وٹامن ڈی مفید ہوتا ہے۔

    ڈائٹ آف ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت عبیر ابو راجیلی نے وٹامن ڈی کی کمی کی علامات کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

    سب سے زیادہ خطرہ کن لوگوں کو؟

    کچھ لوگوں کو وٹامن ڈی کی کمی کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں شامل ہیں 65 سال سے زیادہ عمر کے مرد و خواتین، حاملہ عورتیں، بچوں کو دودھ پلانے والی عورتیں، موٹاپے کا شکار افراد، آنتوں میں سوزش والے افراد، سخت جلد والے افراد اور ایسے لوگ جو سورج کی روشنی نہیں لیتے۔

    وٹامن ڈی کے ذرائع

    سورج کی شعاعوں کے سامنے رہنے سے انسانی جسم وٹامن ڈی خود کار طریقے سے پیدا کرتا ہے، سورج کی روشنی میں روزانہ 10-15 منٹ بیٹھنے سے جسم کو وٹامن ڈی ملتا ہے، اس کے علاوہ کھانے کے ذرائع جیسے انڈے کی زردی، پنیر، دودھ سے تیار کردہ اشیا، اور سالمن مچھلی وغیرہ سے بھی اس کی کافی مقدار مہیا ہوتی ہے۔

    روزانہ مطلوبہ مقدار

    بچوں کو روزانہ 400 IU وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایک سال سے 70 سال کی عمر تک انھیں روزانہ 600 IU کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ 70 سے زیادہ عمر کے افراد کو روزانہ 800 IU کی ضرورت ہوتی ہے۔

    خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی کی علامات

    قوت مدافعت کی کمزوری

    وٹامن ڈی جسم کی قوت مدافعت کو تیز کرنے، نزلہ زکام اور انفلوئنزا سے بچنے اور بیماری کی مدت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ وٹامن سفید خون کے خلیوں کی سرگرمی کو بڑھاتا ہے جو بیکٹیریا سے لڑتے ہیں۔

    اگر آپ آسٹیوپوروسس، دائمی تھکاوٹ، اکتاہٹ، دائمی درد، جوڑوں میں سوزش وغیرہ سے دو چار ہیں تو یہ آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جسم میں وٹامن ڈی اور موسمی اختلافات، جسم میں انفیکشن کی موجودگی خاص طور پر سانس کے انفیکشن، کے درمیان گہرا تعلق ہے۔

    دل اور شریانوں کی بیماری

    وٹامن ڈی عمر رسیدہ افراد کو قوت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، خصوصاً دل کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر، یا دل کی بیماریوں سے دو چار ہیں، یا پہلے دل کا دورہ پڑا ہے تو یہ وٹامن ڈی کی کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔

    ذہنی دباؤ

    کچھ مطالعات میں وٹامن ڈی اور افسردگی کے مابین ایک ربط دکھایا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افسردگی کے خطرے کے تناظر میں وٹامن ڈی کی سطح کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

  • کیا وٹامن ڈی کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

    کیا وٹامن ڈی کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات جاری ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کرونا وائرس کے حملے کو شدید بنا سکتی ہے جبکہ اس وٹامن کی مناسب سطح کرونا وائرس کے حملے کو کمزور کرسکتی ہے۔

    امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے بائیو میڈیکل انجنیئرنگ پروفیسر ویڈم بیکہم کا کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وٹامن ڈی کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، اگرچہ کہ اب تک اس کی وجہ اور اثرات کو دریافت یا ثابت نہیں کیا جاسکا۔

    اس سے قبل اسپتالوں میں زیر علاج کووڈ 19 کے 200 سے زائد مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ 80 فیصد کرونا مریض وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے۔

    تحقیق میں پتہ چلا کہ وٹامن ڈی کے کمی کے شکار مریض کے خون میں ورم کا باعث بننے والے عناصر کی شرح بھی زیادہ ہے، تاہم محققین وٹامن ڈی کی کمی اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق دریافت نہیں کر سکے۔

    اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی شرح کووڈ 19 سے لوگوں کے اسپتال میں داخلے پر اثرانداز ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں 50 مریضوں کو وٹامن ڈی کا استعمال کروایا گیا تو ان میں سے صرف ایک کو آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا جبکہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، جبکہ 26 ایسے مریض جن کو یہ وٹامن استعمال نہیں کروایا گیا، ان میں سے 13 کو آئی سی یو میں داخل کروانا پڑا اور 2 ہلاک ہو گئے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی اسپتالوں میں زیر علاج 235 کووڈ 19 کے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور پھر ان کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جن مریضوں کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح معمول پر تھی، ان میں کووڈ سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس کی مکمل تصدیق کے لیے ایک بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد ہوشیار

    کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد ہوشیار

    کرونا وائرس کے بارے میں نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ جن افراد میں وٹامن ڈی کی سطح کم ہوتی ہے ان میں کرونا وائرس پوری شدت سے حملہ آور ہوسکتا ہے۔

    امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح کووڈ 19 کے مریضوں میں مختلف پیچیدگیوں بشمول سائٹوکائین اسٹروم (خون میں مدافعتی پروٹینز کا بہت زیادہ اخراج ہونا) کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    وٹامن ڈی سورج کی روشنی سے جلد میں قدرتی طور پر بنتا ہے مگر مخصوص غذاؤں اور سپلیمنٹس کے ذریعے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    نیویارک کے لیونکس ہل ہاسپٹل کے ڈاکٹر لین ہوروٹز کا کہنا ہے کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کووڈ 19 کے مریضوں میں بدترین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے حیران کن نہیں کیونکہ وٹامن ڈی مدافعتی نظام کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کے اسپتالوں میں زیرعلاج 253 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، جن میں ورم کا باعث بننے والے سی ری ایکٹیو پروٹین اور بیماری سے لڑنے والے مدافعتی خلیات کی ایک قسم لمفوسائٹ کی تعداد کو بھی دیکھا گیا۔

    تحقیق میں اس کی وجہ اور اثرات کو ثابت نہیں کیا گیا مگر یہ ضرور دیکھا گیا کہ جن مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح مناسب حد تک تھی، ان میں کووڈ 19 سے سنگین پیچیدگیوں بشمول خون میں آکسیجن کی کمی اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 40 سال سے زائد عمر کے ایسے مریض جن میں وٹامن ڈی کی سطح زیادہ ہوتی ہے ان میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ اس وٹامن کی کمی کے شکار افراد کے مقابلے میں 51.5 فیصد کم ہوتا ہے۔

  • محققین نے ایک اور سستا اور محفوظ کرونا علاج دریافت کر لیا؟

    محققین نے ایک اور سستا اور محفوظ کرونا علاج دریافت کر لیا؟

    برسلز: بیلجیئم کے محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ کو وِڈ 19 کی وبا سے لڑنے کے لیے وٹامن ڈی سپلیمنٹ ایک سستا اور محفوظ طریقہ ہو سکتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق محققین نے کہا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ لوگوں میں سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والے غذائی جز کی کمی کرونا وائرس کے لیے بڑا رسک فیکٹر بن جاتی ہے۔

    صحت کے برطانوی سرکاری ادارے NHS نے برطانوی شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران روزانہ 10 مائیکرو گرام کی ‘دھوپ’ کی غذائیت لیں، تاکہ آپ کی ہڈیاں اور پٹھے صحت مند رہیں، تاہم ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر یہ بھی کہا ہے کہ اس بات کے کافی ثبوت میسر نہیں ہیں کہ قوت مدافعت کو بڑھانے والے غذائی اجزا کرونا وائرس کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔

    اب بیلجیئم کے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وٹامن ڈی سپلیمنٹس عالمگیر وبا کے دوران کرونا وائرس کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ایک سستی حکمت عملی ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں برسلز فری یونی ورسٹی کی ٹیم نے دیکھا کہ اسپتالوں میں کرونا وائرس کے زیر علاج ان مریضوں میں رسک پانچ گنا زیادہ تھا جن میں دھوپ والی وٹامن کی کمی تھی۔

    اب تک ایسی بہت ساری تحقیقات کی جا چکی ہیں جن میں غذائی اجزا اور کو وِڈ نائنٹین کی انفکشس بیماری کے درمیان ربط تلاش کیا گیا ہے، انڈونیشیا میں چھپی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپتال داخل 99 فی صد کرونا مریض، جن میں وٹامن ڈی کی کمی تھی، مر گئے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی والے مریضوں کی تعداد مجموعی کیسز کی تعداد کا صرف 4.1 فی صد ہی تھے، دیگر سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار پڑ جاتا ہے تو وٹامن ڈی کی سطح ویسے بھی گر جاتی ہے۔

    نئی تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی کرونا مریض کے لیے خطرناک ثابت

    ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 1 ارب لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی ہے، اسے صحت عامہ کا عالمی بحران بھی کہا جاتا ہے، اب سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہینوں تک گھروں میں محدود لوگوں میں وٹامن ڈی کی مزید کمی ہو گئی ہے۔

    واضح رہے کہ انسانی جسم جب سورج کی شعاعوں (الٹرا وائلٹ بی ریڈی ایشن) کے براہ راست سامنے آتا ہے تو یہ وٹامن ڈی پیدا کرتا ہے، روزانہ دھوپ لینے سے یہ غذائی جز کافی مقدار میں حاصل ہوتا ہے تاہم لوگ اسے انڈوں، گوشت اور دودھ وغیرہ سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

    یہ بھی یاد رہے کہ اگر وٹامن ڈی زیادہ مقدار میں لیا گیا تو اس سے ہڈیوں میں درد اور گردوں کی پتھری کی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک سال کی عمر کے بعد بچوں اور بڑوں کو روزانہ 10 مائیکروگرام وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک سال سے کم عمر بچوں کو 8.5 سے 10 مائیکرو گرام کے درمیان دینا چاہیے۔

    برسلز فری یونی ورسٹی کے ماہرین نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ اسپتال داخل کرونا مریضوں میں صحت مند افراد کی نسبت وٹامن ڈی کی کمی تھی، محققین نے یہ بھی دیکھا کہ کرونا کی خواتین مریضوں میں صحت مند مریضوں کی نسبت وٹامن ڈی کی کمی نہیں تھی۔

  • نئی تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی کرونا مریض کے لیے خطرناک ثابت

    نئی تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی کرونا مریض کے لیے خطرناک ثابت

    نیویارک: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی سطح جتنی کم ہوگی اتنا ہی کرونا وائرس کا خطرہ زیادہ ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے کرونا وائرس لگنے اور کو وِڈ نائنٹین انفیکشن سے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ابتدائی تحقیق میں یہ عارضی ثبوت سامنے آیا ہے کہ حیاتین ڈی کی کم سطح کی وجہ سے زیادہ امکان ہے کہ کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض مر جائے گا۔

    اس تحقیق میں 20 یورپی ممالک میں اوسطاً وٹامن ڈی کی سطح کا موازنہ کیا گیا ہے جہاں کو وِڈ نائنٹین کے انفیکشن اور اس سے اموات کا ریکارڈ موجود تھا، اس سے یہ معقول انکشاف ہوا کہ جن ممالک میں حیاتین ڈی کی سطح کم تھی وہاں کو وِڈ نائنٹین انفیکشن کی شرح کے ساتھ اموات کی شرح بھی زیادہ تھی۔

    اس تحقیقی مطالعے کا ابھی دیگر سائنس دانوں نے جائزہ (peer-review) نہیں لیا ہے، جس سے مذکورہ ثبوت کی مزید توثیق نہیں ہوئی ہے، تاہم کوئین الزیبتھ اسپتال فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور یونی ورسٹی آف ایسٹ انجلیا کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ‘ہم یقین کے ساتھ سارس کو وِڈ 2 انفیکشن کے خلاف تحفظ کے لیے وٹامن ڈی سپلیمنٹ کی تجویز دے سکتے ہیں۔’

    اس تحقیق کو اس سے قبل ہونے والی ایک اور تحقیق بھی سہارا دیتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کے استعمال سے کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض کی صحت یابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف گریناڈا کی 10 ہفتوں پر مشتمل ٹرائل ابھی جاری ہے، جو کہ ٹرینٹی کالج ڈبلن کی ایک حالیہ تحقیق کے بعد شروع کیا گیا ہے، جس میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے وٹامن ڈی سپلیمنٹ لیا ان میں چیسٹ انفیکشن 50 فی صد کم ہوا۔

    حالیہ تحقیق نے اس سے قبل کی تحقیقاتی اسٹڈیز کی مدد سے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن معمر افراد میں وٹامن ڈی کی سطح کم تھی، ان میں کرونا وائرس لگنے سے اموات کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔

    تحقیق کے مطابق جن یورپی ممالک سے سیرم سیمپلز لیے گئے ان میں وٹامن ڈی کی اوسطاً مقدار 56nmol/l پائی گئی، جب کہ 30nmol/l سے کم سطح شدید کمی کا اشارہ کرتی ہے۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ اسپین میں وٹامن ڈی کی سطح 26nmol/L تھی، اٹلی میں 28nmol/L، سوئٹزرلینڈ کے نرسنگ ہومز میں 23nmol/L، اٹلی میں 70 سالہ عورتوں کے 76 فی صد میں 30nmol/L سے کم سطح تھی۔ خیال رہے کہ ان ممالک میں کرونا کیسز اور اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

    واضح رہے کہ وٹامن ڈی مچھلی اور مشروم جیسی غذاؤں کے ذریعے انسانی جسم میں اپنا راستہ بناتا ہے یا سورج کی روشنی میں جلد میں موجود خلیات کے ذریعے پیدا ہو سکتا ہے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    ہمارے جسم کو صحت مند رہنے کے لیے مختلف وٹامنز اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی میں سے ایک وٹامن ڈی بھی ہے جس کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ سورج کی روشنی ہے۔

    وٹامن ڈی ہماری ہڈیوں کی مضبوطی اور اعصاب کی نشونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کی کمی ہمارے جسم کو سخت ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

    یہ وٹامن کچھ غذاؤں جیسے مچھلی، اورنج جوس، پنیر اور انڈے کی زردی وغیرہ میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن اسے صرف ان غذاؤں کی مدد سے مکمل طور پر حاصل کرنا ناممکن ہے۔

    جسم کو درکار وٹامن ڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سپلیمنٹس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی ہمارے اندر بہت سے طبی مسائل پیدا کرسکتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    ہڈیوں کی کمزوری

    وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ہڈیوں میں کیلشیئم کو جذب ہونے میں مدد دیتا ہے جس سے ہڈیوں کی نشونما میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کی کمی کمر، جوڑوں اور گھٹنوں وغیرہ میں درد کا سبب بن سکتی ہے جو اس قدر شدید ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے روزمرہ کے کام انجام دینے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔

    بہت زیادہ پسینہ آنا

    وٹامن ڈی کی کمی جسم میں پسینہ کے غدود کو فعال کرتی ہے جس سے زیادہ پسینہ آتا ہے۔ یہ علامت نومولود بچوں میں بھی پائی جاسکتی ہے۔

    اگر کسی شخص یا بچے کو بہت زیادہ پسینہ آرہا ہے تو یہ وٹامن ڈی کی کمی کی علامت ہے اور ایسی صورت میں فوری طور پر اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔

    ڈپریشن

    وٹامن ڈی کی کمی خون کے بہاؤ کی رفتار کو کم کرتی ہے جس سے ایک طرف تو اعصاب اور پٹھوں کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دوسری جانب دماغ کی طرف خون کا کم بہاؤ ڈپریشن، مایوسی اور اداسی کے جذبات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    بالوں کا جھڑنا

    بالوں کا تیزی سے جھڑنا ذہنی دباؤ کے باعث ہوتا ہے تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ خواتین میں خاص طور پر بال جھڑنے کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہی ہے۔

    پٹھوں میں درد

    وٹامن ڈی کی کمی پٹھوں میں درد اور الرجی کا سبب بھی بن سکتی ہے جو جلد کو زخمی بھی کرسکتی ہے۔ ایسے افراد سپلیمنٹس کے ذریعے وٹامن ڈی کی کثیر مقدار لے کر اس تکلیف سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

  • ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈبلن: آئرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ افراد ’وٹامن ڈی‘ کی کمی کے باعث ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ماہرین نے ذہنی تناؤ کے حوالے سے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بالخصوص عمر رسیدہ افراد میں ڈپریشن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 75 فیصد ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وٹامنز کی کمی ہی ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    چار سالہ تحقیق اور سروے ی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عمر رسیدہ افراد معمولی اختیاط کر کے ذہنی تناؤ سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح نوجوان بھی وٹامنز کی مقدار کو یقینی بنائیں تو مستقبل میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر یا پچاس سال کی عمر کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے معیار زندگی اس قدر دشوار بنادیتا ہے کہ قبل از وقت انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    وٹامن ڈی کیا ہے؟

    ہمارے جسم میں موجود کروڑوں خلیات کو چوبیس گھنٹے غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ان ہی سے وٹامنز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو توانائی اور جسم کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی کمی انسانی جسم کو نڈھال اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    وٹامنز کیمیائی مرکبات ور اہم غذائی ضرورت ہیں جو کسی بھی خلیے کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انسان کو متحرک رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    قدرتی طور پر انسانی جسم میں کئی اقسام کے وٹامنز پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی، بی 6 ، بی 12، وٹامن سی، ڈی، ای اور سمیت دیگر شامل ہیں، تمام وٹامنز اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی کی اہمیت

    جسم کو درکار وٹامنز میں وٹامن ڈی سب سے اہم وٹامن ہے جو جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انسانی جسم جذبات خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

  • سورج کی روشنی ذیابیطس کے مرض کو روکنے میں‌ معاون

    سورج کی روشنی ذیابیطس کے مرض کو روکنے میں‌ معاون

    کیلی فورنیا: امریکا کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ سورج کی روشنی لینے والے افراد کے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار بڑھتی ہے جو شوگر (ذیابیطس) کے مرض کو روکنے میں مددگار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی سیؤل یونیورسٹی کے ماہرین نے ذیابیطس کے مرض کی روک تھام اور اس مرض کے بڑھنے کی وجوہات جاننے کے لیے مطالعاتی تحقیق کی۔

    مطالعاتی کمیٹی کی سربرا ڈاکٹر سو پارک نے کہا کہ ’تحقیق کے دوران ہم نے شرکت کرنے والے لوگوں کے  جسم میں موجود وٹامن ڈی کی موجودگی کا تناسب دیکھا، جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جن کے جسم میں 30 این جی ملی میٹر وٹامن ڈی موجود ہے اُن کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کے خطرات ایک تہائی حد تک ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: دانتوں کی صفائی، شوگر سے محفوظ رکھنے میں‌ معاون

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی شہریوں میں 1980 کے مقابلے میں وٹامن ڈی کی شرح بہت زیادہ حد تک کم ہوگئی جو انتہائی خطرناک ہے تاہم مطالعے میں شامل 903 افراد ایسے بھی تھے جن کی عمریں 74 کے قریب تھیں وہ بالکل تندرست زندگی گزار رہے تھے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’وٹامن ڈی کی انسانی جسم میں کمی کے باعث ذیابیطس کا مرض بڑھنے کے خدشات بہت زیادہ حد تک بڑھ جاتے ہیں اور وہ بڑھتی عمر میں اعصاب کمزور ہونے کی وجہ سے شوگر کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں: فوری توجہ کی متقاضی ذیابیطس کی 8 علامات

    اسے بھی پڑھیں: تنہائی پسند افراد کو شوگر کا مرض لاحق ہوسکتا ہے، ماہرین

    امریکی طبی جریدے پلس ون میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص شوگر کی بیماری سے محفوظ رہنا چاہتا ہے تو وہ روزانہ سورج کی روشنی میں باہر نکلے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سورج کی شعاعیں جب انسانی جسم پر پڑھتی ہیں تو اس کی وجہ سے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جب وٹامنز کی مقدار مقررہ ہوگی تو شوگر کی بیماری سے وہ خود بہ خود محفوظ رہے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔