Tag: وکٹر ہیوگو

  • وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

    وکٹر ہیوگو کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے جس کے ناولوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا اور فلمیں بنائی‌ گئیں۔ وکٹر ہیوگو ناول نگار ہی نہیں بحیثیت شاعر اور صحافی بھی مشہور ہے۔ وکٹر ہیوگو 1885ء میں آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    وکٹر ہیوگو نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا بطور شاعر کی تھی لیکن پھر وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ناول نگاری اور ڈرامے لکھنا شروع کیے اور اس کی کہانیاں‌ فرانس کے علمی و ادبی حلقوں اور عام قارئین میں مقبول ہونے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وکٹر ہیوگو نے بطور ناول نگار فرانسیسی ادب میں بڑا مقام پایا اور دنیا بھر میں اپنے ناولوں کی بدولت شہرت حاصل کی۔

    عالمی شہرت یافتہ وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فوج میں‌ اعلیٰ‌ عہدے پر فائز تھا اور اسی سبب اکثر یہ کنبہ اپنے گھر کے سربراہ کا تبادلہ ہونے پر مختلف شہروں میں رہتا رہا اور انھیں اسپین بھی جانا پڑا۔ یوں وکٹر ہیوگو کو مختلف ماحول اور ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ والدین میں علیحدگی کے بعد وکٹر ہیوگو اپنے والد کے ساتھ رہا۔ بطور نثر نگار وکٹر ہیوگو کا پہلا ناول 1823ء میں شایع ہوا اور عالمی ادب میں اسے رومانوی تحریک سے وابستہ تخلیق کار شمار کیا گیا۔

    وکٹر ہیوگو حسن و جمال کا دلداہ تھا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ بھی آئیں۔ اس ادیب کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو نے ناول لکھنے کے ساتھ اس وقت کے سب سے مقبول میڈیم یعنی اسٹیج کے لیے کئی کھیل بھی تحریر کیے اور ساتھ ہی شاعری میں طبع آزمائی بھی جاری رکھی۔ وکٹر ہیوگو ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ صحافت کے علاوہ عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور انسانی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتا رہا۔

    Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے جسے اردو زبان میں‌‌ بھی ترجمہ کیا گیا اور اس پر متعدد فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اردو زبان کے علاوہ یہ ناول اب تک بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں یہ وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ناول اس ادیب نے 1845ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کی تکمیل 1861ء میں ہوئی۔ باقر نقوی نے بھی اسے اردو کا جامہ پہنایا اور وہ اس شاہکار کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’یہ تصنیف بدلتے ہوئے فرانس کی بدحالی کے زمانے کی بہترین عکاس ہے۔ اس پر مستزاد ہیوگو کی باریک بینی نے اس میں چار چاند لگادیے ہیں، اگرچہ ناول بدنصیبی، خستہ حالی، ظلم، بدامنی، بغاوت، سرکشی، سازش،مکاری، لوٹ مار، قتل و خون وغیرہ سے عبارت ہے۔ اس میں جنگ بھی ہے، مذہب بھی ہے اور محبت بھی۔ تاہم اس میں ایسے کردار بھی ہیں جو بے انتہا فیاض ہیں، مذہبی ہیں، نیک نیت والے اور عام شہری ہیں، جنہوں نے اُس دورِ ابتلا میں پریشاں حال لوگوں کے لیے بھلائی کے کام بھی کیے تھے۔ اپنے زمانے میں ہیوگو کو وہی درجہ حاصل تھا جیسا کہ جرمن زبان میں گوئٹے کو اور اردو میں غالب و میر کو ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مصنف موضوع میں اتنا ڈوب کر اور اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ تحریر کرتا ہے گویا وہ فکشن نہیں، تاریخ لکھ رہا ہو۔‘‘

    اس کے علاوہ وکٹر ہیوگو کا The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ اسے بھی دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے دراصل اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور لوگوں کے رویّوں کے ساتھ اجتماعی زندگی کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ اس طرح‌ پیش کیے کہ وہ قارئین کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی چونکاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے عہد کے بڑے نقّادوں نے اہمیت دی اور اس کی تخلیقات پر مضامین سپردِ قلم کیے۔

  • وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    دنیائے ادب میں وکٹر ہیوگو نے اُن تخلیق کاروں میں جگہ پائی جن کا نام ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی زندہ ہے۔ اس فرانسیسی ادیب، شاعر اور صحافی نے اپنے ناولوں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ آج وکٹر ہیوگو کا یومِ وفات ہے۔

    وکٹر ہیوگو کو اُنیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس کی شہرت بطور شاعر تھی، لیکن بتدریج وہ ناول نگار اور ڈراما نویس کے طور پر مقبول ہوا اور اس کی کہانیوں‌ نے فرانس کے علمی و ادبی حلقوں کو ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ بطور ناول نگار وکٹر ہیوگو نے ادب میں بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    26 فروری 1802 کو پیدا ہونے والا یہ عظیم ناول نگار اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہوئے عالمی ادب کی رومانوی تحریک سے بھی وابستہ رہا، اور اس کے اثرات، وکٹر ہیوگو کی ذاتی زندگی پر بھی پڑے۔ وہ حسن و جمال کا دلداہ اور فطرت سے محبّت کرتا رہا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ آئیں، لیکن اس کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔

    وکٹر ہیوگو نے ناول نگاری کے ساتھ اس وقت کئی کھیل بھی تحریر کیے اور شاعری جیسی صنف میں‌ طبع آزمائی بھی کی۔ وہ ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وکٹر ہیوگو زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب اور صحافت کے علاوہ عملی سیاست بھی کی اور انسانی حقوق کا علم بردار بھی رہا۔

    انیسویں صدی کے اس فرانسیسی ادیب کے ناولوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار ہوتا ہے جسے مختلف ادیبوں نے اردو زبان میں‌‌ ڈھالا ہے اور اس پر فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔ اردو کے علاوہ اسے بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرکے قارئین تک پہنچایا گیا اور آج بھی اس ناول کو وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر گنا جاتا ہے۔ وکٹر ہیوگو نے 1845 میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ 1861 میں وہ اسے مکمل کر سکا۔ اسی طرح The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ ناول فرانس اور دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور رویّوں کے ساتھ معاشرے کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیے جنھیں قارئین کی توجہ حاصل ہوئی‌ اور ناقدین نے بھی اسے سراہا۔

    وکٹر ہیوگو کی زندگی کا سفر 1885 میں‌ پیرس میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو دنیائے ادب کے ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہے جن کا نام اور کام صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔

    وکٹر ہیوگو کا وطن فرانس ہے۔ اس لکھاری نے ناول نگاری، ڈراما نویسی اور شاعری بھی کی اور ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔

    وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور شاعر و ادیب ہی نہیں صحافی اور سیاست داں بھی تھا۔

    اُنیسویں صدی کے اس نام ور لکھاری کی شہرت کا سفر بہ طور شاعر شروع ہوا تھا، اور بعد میں ناول نگار کے طور پر مقبولیت حاصل کی۔

    اس فرانسیسی ادیب کا ایک ناول لیس مزرایبل عالمی ادب میں عظیم اور بڑا ناول شمار ہوتا ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر ناولوں کی شہرت اور مقبولیت بھی آج تک برقرار ہے۔

    وکٹر ہیوگو نے اس دور میں سماجی حقائق اور رویوں کے ساتھ اور معاشرے کے مخلتف روپ کو اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    وکٹر ہیوگو کے مشہورِ زمانہ ناول مزرابیل کا انگریزی کے علاوہ 22 مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس میں اردو بھی شامل ہے۔ اس ناول کے لیے وکٹر ہیوگو نے 1845 میں قلم تھاما تھا اور کہتے ہیں یہ 1861 میں مکمل ہوا۔

    وکٹر ہیوگو کا سنِ پیدائش 1802 ہے اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1885 تک جاری رہا۔