Tag: وہم

  • بالی ووڈ اداکارہ کس وہم کی شکار ہے؟

    بالی ووڈ اداکارہ کس وہم کی شکار ہے؟

    عام لوگوں کی طرح بعض اداکار بھی مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہوتے ہیں، ان ہی میں ایک بالی ووڈ کی ابھرتی ہوئی خوب صورت اداکارہ کیارا اڈوانی بھی شامل ہیں۔

    کیارا اڈوانی، جو فلم کبیر سنگھ کی دلہنیا کے نام سے مشہور ہو گئی ہیں، نے ایک شو میں شرکت کے دوران اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اپنی توہم پرستی کا بھی ذکر کیا ہے۔

    کیارا نے انکشاف کیا کہ وہ زندگی میں صرف ایک چیز کو لے کر توہم پرست ہیں، اداکارہ نے کہا ’میں صرف ایک چیز کے حوالے سے توہم پرست ہوں کہ جب تک میں کوئی فلم سائن نہ کروں کسی کو اس بارے میں نہیں بتاتی۔‘

    خیال رہے کہ کیارا اڈوانی اپنی نئی فلم کی تشہیر کے لیے فلم کی کاسٹ کے ساتھ اسٹینڈ اپ کامیڈین کپل شرما کے شو میں سوالات کے جواب دے رہی تھیں۔

    یاد رہے کہ کیارا نے کامیڈی فلم ‘فگلی’ سے اپنی فلمی لائف کا آغاز کیا تھا، اس کے بعد بایوپک ’ایم ایس دھونی‘ میں سراہا جانے والا کردار نبھایا، اس کے بعد ان کو فلم لسٹ اسٹوریز، تیلگو پولیٹیکل تھرلر بھارت انے نینو، کبیر سنگھ اور شیر شاہ جیسی ہندی فلموں میں کام ملا۔

  • کیا یہ ساز  بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    کیا یہ ساز بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    بلوچستان کی لوک موسیقی سروز کے بغیر ادھوری اور پھیکی معلوم ہوگی۔ یہ وہ ساز ہے جو کسی ماہر کے ہاتھ لگے تو کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

    مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے ساتھ اگر طنبورہ یا کوئی اور ساز ملا لیا جائے تو موسیقی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

    سروز بنانے کے طریقے مختلف ہیں اور اس میں‌ مختلف لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
    اس ساز میں تاروں کی تعداد بارہ سے سترہ ہو سکتی ہے۔ سروز کو بجانے والا اسی ساز کی نسبت سروزی کہلاتا ہے۔

    یہ قدیم بلوچی ساز ہے جسے اب سازندے میسر نہیں اور جو اس کے وجود سے سُر اور لَے چھیڑنا جانتے ہیں، وہ فکرِ معاش میں ایسے غرق ہوئے کہ اُس خوشی اور مسرت سے دور ہوگئے جو سروز کے تاروں میں پوشیدہ ہے۔

    نئی نسل جدید آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور دوسرے سازوں کی طرح اس کا مستقبل بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔

    کب اور کس نے سروز ایجاد کیا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، مگر یہ صدیوں سے خوشی کے گیت گانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سروز لفظ سُر سے نکلا ہے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں اور سال ہا سال سے یہ ساز خوشی کی تقاریب میں شادمانی کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔

    دل چسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ساز کو گوات نیمون نامی ایک بیماری کے علاج میں مددگار تصور کیا جاتا ہے۔

  • جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    زمانہ قدیم سے ہماری صحت اور جسم کے حوالے سے کچھ ایسے تصورات قائم ہیں جنہیں درست سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے درست ثابت کر دیے ہیں۔

    لیکن کچھ وہم یا تصورات ایسے بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ غلط ثابت ہوتے گئے۔ ان میں سے بعض ہمارے لیے نقصان دہ بھی ہیں لیکن یہ ہمارے بڑوں کے زمانے سے اب تک مستعمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    آج ہم آپ کو صحت اور غذاؤں کے حوالے سے کچھ ایسے ہی غلط تصورات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو ہمارے جسم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری

    کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر شخص کی نیند کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔

    کچھ افراد کی نیند کم وقت میں پوری ہوجاتی ہے جبکہ کچھ افراد کو 8 گھنٹوں سے بھی زائد نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔


    براؤن شوگر زیادہ صحت بخش

    آپ نے شوگر کے اکثر مریضوں کو براؤن شوگر استعمال کرتے دیکھا ہوگا۔ یہ عام چینی سے کم میٹھی تو ضرور ہوتی ہے مگر نہ تو یہ صحت بخش ہوتی ہے نہ ہی عام چینی سے کم نقصان دہ۔

    دونوں اقسام کی چینی جسم پر یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔


    وٹامن کی زیادہ گولیاں فائدہ مند

    عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ جتنی زیادہ وٹامن کی گولیاں کھائی جائیں گی جسم اتنا ہی توانا اور طاقت ور ہوگا لیکن یہ تصور سراسر غلط ہے۔

    دن میں وٹامن کی صرف ایک گولی ہی جسم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ مقدار جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔


    اینٹی بائیوٹکس وائرس کے خاتمے میں معاون

    یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اینٹی بائیوٹکس، وائرس کو ختم کر سکتی ہیں۔ یہ دوا صرف بیکٹریا کو ختم کر سکتی ہیں۔ ہمارے کئی امراض بشمول نزلہ اور زکام وائرس کا شاخسانہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس سے آرام نہیں آتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سر درد سے چھٹکارے کے لیے سر پر بینڈیج لگا لیں۔


    دماغ کے بائیں اور دائیں حصہ کا کام مختلف

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کا دایاں حصہ تخلیقی خیالات جنم دیتا ہے جو بعض اوقات تصورات اور غیر حقیقی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دماغ کا دایاں حصہ عقل مندانہ خیالات کو جنم دیتا ہے۔

    موجودہ دور کے ماہرین نے اس خیال کو بالکل غلط قرار دے دیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    ہماری دنیا جیسے جیسے ترقی یافتہ ہورہی ہے ویسے ویسے ہماری زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں کئی فوائد دیے ہیں وہیں بیماریوں اور نقصانات کی شکل میں ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔

    انہی میں ایک تحفہ ذہنی امراض کا بھی ہے جن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    یہاں ہم آپ کو دماغی امراض کے بارے میں قائم کچھ مفروضات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ بھی ان مفروضوں کو درست سمجھتے ہوں، اور ان کی بنیاد پر دماغی امراض کا شکار افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوں، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    :پہلا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    :حقیقت

    درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    :دوسرا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کم پائے جاتے ہیں۔

    :حقیقت

    ہم میں سے ہر 4 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہوتا ہے۔

    :تیسرا مفروضہ

    بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔

    :حقیقت

    یہ واقعی ایک نارمل بات ہے لیکن یہ 10 میں سے 1 نوجوان کی دماغی صحت میں ابتری کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو درست طریقے سے ہینڈل  کیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہیں بصورت دیگر یہ دماغی مرض کی شکل میں نوجوان کو سختی سے جکڑ لیں گی اور تاعمر اپنا نشانہ بنائے رکھیں گی۔

    :چوتھا مفروضہ

    نوجوانوں کے لیے آسان عمل ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اپنے جذبات بیان کریں۔

    :حقیقت

    درحقیقت نوجوان افراد اپنے خیالات بتانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ دونوں صورتوں میں یہ چیز ان کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    :پانچواں مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کی واحد جگہ نفسیاتی اسپتال ہیں۔

    :حقیقت

    دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

    :چھٹا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد بعض اوقات برے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ رویہ مستقل ہوتا ہے۔

    :حقیقت

    ایسے وقت میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ برے رویے کی وجہ ان کا مرض ہے، اور یہ رویہ عارضی ہے۔

    :ساتواں مفروضہ

    دماغی امراض ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شکار شخص کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔

    :حقیقت

    مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔