Tag: وہیل

  • سائنس دانوں نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا

    سائنس دانوں نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا

    کینیڈا: میرین سائنٹسٹس نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس بحری ممالیہ جانوروں کو بھی اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا کی ہیلی فیکس ڈیل ہاؤس یونی ورسٹی میں وہیل، ڈولفن اور سیل جیسے بحری ممالیہ جانوروں میں کو وِڈ 19 کے احتمال پر تحقیق کی گئی ہے، جس کے بعد یہ امر سامنے آیا کہ بحری ممالیہ جانور پانی کے ذریعے کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    بحری حیات کے ماہرین (میرین بائیو لوجسٹس) کا کہنا ہے کہ سمندروں میں آلودہ پانی کی نکاسی کی وجہ سے ممالیہ سمندری جانور کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    جریدے دی ٹوٹل انوائرمنٹ میں شایع ہونے والی تحقیق میں 36 بحری ممالیہ جانوروں کے جینوم کا مشاہدہ کیا گیا اور کم از کم 15 ممالیہ اقسام کو کو وِڈ 19 کا خطرہ لاحق ہونے کا نتیجہ اخذ کیا گیا، جو بلاشبہ فکر انگیز ہے۔

    ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری ممالیہ جانوروں کے ACE2 نامی پروٹین انزائمز ان میں وبا کا سبب بن سکتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمندری جانور انسانوں کے مقابلے میں وبا کے آگے زیادہ بے بس ہیں، کیوں کہ وہ وبا کے خطرے سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔

    تحقیق کے بعد ماہرین نے وارننگ دی کہ سمندروں میں آلودہ پانی کی نکاسی کے سبب وہیل، ڈولفن اور فوک جیسے ممالیہ کی نسل کو خاتمے کا خطرہ لاحق ہے، واضح رہے کہ اسی تحقیقی ٹیم نے یہ بھی کہا ہے کہ سمندری حیات پہلے بھی مختلف اقسام کے کو وِڈ نائٹین کا شکار ہوتی رہی ہے۔

    محققین کے مطابق اس سے قبل کرونا وائرسز ممالیہ جانوروں کے پھیپھڑوں اور جگر کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔

  • دیو ہیکل وہیل نے ٹرین کو خوفناک حادثے سے بچا لیا

    دیو ہیکل وہیل نے ٹرین کو خوفناک حادثے سے بچا لیا

    ایمسٹر ڈیم: یورپی ملک نیدر لینڈز میں ایک میٹرو ٹرین آخری اسٹیشن کی رکاوٹیں توڑ کر آگے نکل گئی اور قریب تھا کہ کوئی خوفناک حادثہ پیش آجاتا، وہاں پر نصب وہیل کے مجسمے نے ٹرین کو روک لیا۔

    مقامی میڈیا کے وقت واقعہ آدھی رات کے وقت پیش آیا جب روٹر ڈیم میٹرو نیٹ ورک کی ایک ٹرین کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے اپنے آخری اسٹیشن پر رک نہ سکی اور آگے نکلتی چلی گئی۔

    اسٹیشن کا اختتام ایک پل کے ساتھ ہو رہا تھا جو ایک جھیل کے اوپر 30 فٹ بلند تھا اور امکان یہی تھا کہ یہ ٹرین بلندی سے جھیل میں جا گرتی اور ایک ہولناک حادثہ پیش آجاتا۔

    تاہم خوش قسمتی سے پل کے اختتام پر وہیل مچھلیوں کے 2 دیوہیکل مجسمے نصب ہیں جن کی دم سے ٹکرا کر ٹرین رک گئی، تاحال ٹرین فضا میں 10 میٹر بلند اسی مجسمے کی دم پر ٹکی ہوئی ہے۔

    حادثے کے وقت ٹرین میں کوئی مسافر سوار نہیں تھا جبکہ ٹرین کا ڈرائیور بھی محفوظ رہا جسے معمولی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔

    ڈچ حکام کے مطابق وہیل کے مذکورہ مجسسے سنہ 2002 میں نصب کیے گئے تھے اور یہ پلاسٹک سے بنائے گئے تھے۔

    مجسمہ ساز کو جب واقعے کا پتہ چلا تو اس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ مجسمے اتنے مضبوط ہوں گے کہ پوری رفتار سے چلتی ٹرین کو روک سکیں گے۔

    حکام کے مطابق فی الوقت ان کے لیے اس ٹرین کو وہاں سے ہٹانا ایک چیلنج ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ مجسمہ کتنی دیر تک اس ٹرین کا بوجھ سنبھال سکتا ہے، علاوہ ازیں نیچے پانی ہونے کی وجہ سے وہاں سے کرین کا آپریٹ کرنا بھی مشکل ہے۔

    حکام ماہرین کی ٹیم کے ساتھ مل کر ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں تاکہ ٹریک کو کلیئر کر کے جلد کھولا جاسکے۔

  • وہیل مچھلی راستہ بھول کر مگر مچھوں سے بھرے دریا میں پہنچ گئی

    وہیل مچھلی راستہ بھول کر مگر مچھوں سے بھرے دریا میں پہنچ گئی

    آسٹریلیا میں ایک وہیل مچھلی اپنی ہجرت کے مقررہ راستے سے بھٹک کر مگر مچھوں سے بھرے دریا میں نکل آئی، حکام اب وہیل کو وہاں سے کسی طرح نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک ہمپ بیک وہیل مچھلی (وہیل کی ایک قسم) آسٹریلیا کے ایلی گیٹر ریور میں آگئی ہے۔ مگر مچھوں سے بھرا یہ دریا آسٹریلیا کے سب سے بڑے کاکاڈو نیشنل پارک میں موجود ہے۔

    یہ نیشنل پارک اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

    یہاں پر یہ وہیل مچھلی چند دن قبل بوٹنگ کرتے افراد کو دکھائی دی، اس علاقے میں پہلے کبھی وہیل مچھلی کو نہیں دیکھا گیا چنانچہ حکام کو فوری طور پر اس کی اطلاع دی گئی۔

    حکام کے مطابق یہ وہیل اس وقت بھٹکی جب وہیل مچھلیوں کی سالانہ ہجرت جاری تھی، یہ مچھلیاں جنوب سے انٹارکٹیکا کی طرف موسمی ہجرت کرتی ہیں تاہم ان میں سے کچھ وہیل مچھلیاں راستہ بھٹک کر مشرق کی جانب مڑ گئیں۔

    غلط موڑ لینے والی وہیل مچھلیاں بعد ازاں واپس صحیح راستے پر چلی گئیں تاہم کم از کم ایک وہیل تاحال یہیں موجود ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ وہیل کی لمبائی 52 فٹ ہے، یہ اپنے مقررہ راستے سے اس وقت 30 کلو میٹر دور آچکی ہے۔

    ان کے مطابق فی الحال وہ دریا کی گہرائی میں موجود ہے لیکن جیسے ہی وہ کم گہرے پانی کی طرف نکلے گی، وہ پھنس سکتی ہے اور یہیں مگر مچھ اس کا شکار کرنے پہنچ جائیں گے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس وہیل مچھلی کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں وہیل مچھلیوں کی ریکارڈڈ آوازیں استعمال کی جارہی ہیں، جبکہ کشتیوں سے شور شرابہ کر کے اسے اس راستے پر لانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے جہاں سے وہ اپنی صحیح منزل پر جاسکے۔

  • دیوہیکل وہیل کی سمندر میں مستیاں، دلچسپ ویڈیو وائرل

    دیوہیکل وہیل کی سمندر میں مستیاں، دلچسپ ویڈیو وائرل

    دبئی: متحدہ عرب امارات کے سمندر میں دیوہیکل وہیل اپنے موج میں مگن تیرتی ہوئی نظر آئی جس کی دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق یو اے ای کے محکمہ ماحولیات نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ایک پرلطف ویڈیو پوسٹ کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے ایک بڑی قامت والی وہیل مچھلی خوشگوار موڈ میں تیررہی ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ مچھلیاں برائڈز وہیل کے نام سے پہچانی جاتی ہیں جن کے دانت نہیں ہوتے، اور زیرسمندر کئی منٹ تک اپنی سانس روک سکتی ہیں۔ جبکہ آکسیجن کے لیے بہت مختصر وقت کے لیے سمندری سطح پر آتی ہیں۔ مذکورہ ویڈیو میں اسی وہیل کے عکس ہیں۔

    محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ ان مچھلیوں کا وزن عموماً 20 سے 21 ٹن ہوتا ہے۔ جبکہ آبی جانورں میں ان کی عمریں کافی طویل ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برائڈز وہیل 50 سے 70 سال جیتی ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    . شوهد الحوت البريدي في مياه إمارة أبوظبي، وهو من الحيتان البالينية التي تتميز بوجود صفائح عوضاً عن الأسنان لتصفية الطعام من الماء. يصل طوله إلى 15.6 متراً، ووزنه يبلغ حوالي 20.3 طناً، ويتراوح متوسط عمره بين 50 – 70 سنة. يمكن أن يقضي هذا النوع من الحيتان 5 – 15 دقيقة تحت الماء قبل أن يصعد إلى سطح الماء للتنفس. Bryde’s Whales were spotted in Abu Dhabi waters! The whale is a filter feeder and does not have teeth! They grow up to 15.6m length and weighs 20.3 tons and are thought to live between 50 to 70 years! They can spend 5 to 15 minutes under the water before they return to the surface of water to breathe.

    A post shared by Environment Agency – Abu Dhabi (@environmentabudhabi) on

  • ہمارے پرفیوم میں کس جانور کا فضلہ شامل ہے؟

    ہمارے پرفیوم میں کس جانور کا فضلہ شامل ہے؟

    ہم اپنی روزمرہ زندگی میں پرفیومز کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں، لیکن ان پرفیومز کے بارے میں ایک راز ایسا ہے جسے جان کر آپ پریشان ہوسکتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے پرفیومز میں خوشبو پیدا کرنے والی شے وہیل مچھلی کا فضلہ ہے؟

    یہ بات سننے میں تو نہایت حیرت انگیز ہے لیکن آپ کو شاید علم نہیں کہ وہیل مچھلی کا فضلہ ایک نہایت قیمتی شے سمجھا جاتا ہے۔

    وہیل مچھلی کا فضلہ ۔ ایمبرگرز

    وہیل کی ایک قسم اسپرم وہیل کا فضلہ جسے ایمبرگرز کہا جاتا ہے خاصا قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ وہیل کے جسم سے نکلنے کے کچھ عرصے بعد یہ ایک چٹانی ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس کے ایک گرام کی مالیت چاندی کی مالیت کے 30 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

    اس مادے کی طلب خوشبویات کی صنعت میں بے تحاشہ ہے اور یہاں پر یہ خاصے مہنگے داموں خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ وجہ اس کی خوشبو ہے جو پرفیومز کو دیرپا بنا دیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق براہ راست وہیل کے جسم سے نکلنے والا فضلہ کارآمد نہیں ہوتا، یہ وہیل کے جسم سے نکلنے کے بعد کافی عرصے تک سمندر میں رہتا ہے جس کے بعد اس کی ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے، اس کے بعد ہی یہ ہمارے کام آسکتا ہے۔

    حیران کن بات یہ ہے کہ ایمبرگرز بننے والا فضلہ صرف 1 فیصد اسپرم وہیلز کے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ جاننے سے قاصر ہیں کہ وہ کیا عوامل ہیں جو کسی وہیل کے فضلے کو خاص بنا دیتے ہیں۔

    اسی کمیابی کی بدولت یہ مادہ خاصا بیش قیمت ہے اور اس کا ملنا کسی حد تک مشکل بھی ہے۔

    اسپرم وہیلز پر 15 سال تک تحقیق کرنے والے ایک کینیڈین ماہر ڈاکٹر شین گرو کا کہنا ہے کہ اپنی تحقیق کے 15 سالوں میں وہ ایک بار بھی ایمبرگرز کو نہیں دیکھ پائے۔

    البتہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ساحل پر جانے والے افراد کو بغیر کسی محنت کے یہ شے مل جاتی ہے۔

    کچھ عرصے قبل آسٹریلیا میں ساحل پر جانے والے ایک جوڑے کو ایمبرگرز کا 32 پاؤنڈ وزنی ٹکڑا ملا، بعد ازاں اس کی مالیت کا اندازہ 3 لاکھ ڈالرز تک لگایا گیا، گویا اس خوش قسمت جوڑے کی لاٹری نکل آئی تھی۔

    دوسری جانب امریکا میں ایمبرگرز کی خرید و فروخت حتیٰ کہ اسے جمع کرنا بھی غیر قانونی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسپرم وہیلز کو معدومی کے خطرے کا شکار جانورں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چند دہائیوں قبل تک ہمارے سمندروں میں لاکھوں اسپرم وہیلز موجود تھیں تاہم اب ان کا صرف پانچواں حصہ ہی بچا ہے۔

    گو کہ ایمبرگرز کو حاصل کرنے کے لیے کسی وہیل کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا، پھر بھی ماہرین کا خیال ہے کہ خطرے کا شکار ایک جانور کی کسی شے کی خرید و فروخت کرنا اخلاقی طور پر غلط ہے۔

  • اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    سمندر میں جانے والے غوطہ خوروں کو اکثر اوقات شارک اور وہیلز کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی سمندری جانور کسی انسان کو نگل لے اور وہ زندہ سلامت اس کے منہ سے واپس آجائے۔

    سمندر میں خوف کی علامت شارک انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن اس کے برعکس وہیل ایسا کوئی شوق نہیں رکھتی، وہ جارح بھی نہیں ہوتی اور حملہ کرنے کے بجائے صرف اپنا بڑا سا منہ کھول دیتی ہے جس سے ڈھیر سارے جانور اس کے منہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس انسان کے ساتھ کیا ہوگا؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    انسان کے مقابلے میں وہیل بہت بڑی ہوتی ہے اور وہ بیک وقت کئی انسانوں کو نگل سکتی ہے۔ بلیو وہیل کو زمین پر موجود سب سے بڑا جانور قرار دیا جاتا ہے۔ بلیو وہیل کی صرف زبان کا وزن ہاتھی کے برابر ہوتا ہے جبکہ اس کے منہ میں بیک وقت 400 سے 500 افراد سما سکتے ہیں۔

    البتہ بلیو وہیل کا جسمانی نظام انہیں اس قدر بڑا جاندار (انسان) نگلنے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم اس کے خاندان کی دیگر وہیلز جیسے اسپرم وہیل باآسانی انسان کو نگل سکتی ہے۔

    سنہ 1981 میں کچھ رپورٹس سامنے آئیں کہ سمندر میں سفر کرنے والے جیمز برٹلے نامی شخص کو وہیل نے نگل لیا ہے۔ جیمز کی کشتی پر وہیل نے حملہ کیا تھا اور اسے نگل لیا، اگلے دن کشتی کے دیگر عملے نے وہیل کو مار ڈالا۔

    وہ اسے کھینچ کر خشکی پر لائے اور اس کا پیٹ چیرا تو اندر سے جیمز بے ہوش لیکن زندہ حالت میں ملا، وہیل کے معدے میں موجود تیزاب کی وجہ سے جیمز کا چہرہ اور بازو سفید ہوگئے تھے جبکہ وہ اندھا بھی ہوچکا تھا۔

    کچھ عرصے بعد لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا کہ آیا واقعی جیمز کو وہیل نے نگلا تھا یا نہیں، اگر ہاں تو ان کے خیال میں وہیل کا تیزاب اس سے کہیں زیادہ جیمز کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ جدید دور میں سائنس نے اس سوال کا مفصل جواب دے دیا ہے۔

    فرض کیا کہ کسی انسان کو وہیل نے زندہ نگل لیا، سب سے پہلے اس کا سامنا وہیل کے خطرناک دانتوں سے ہوگا۔ اسپرم وہیل کے منہ میں موجود دانت نہایت تیز دھار ہوتے ہیں اور ہر دانت 20 سینٹی میٹرز طویل ہوتا ہے۔

    یہ دانت ایسا ہوتا ہے جیسے کسی شیف کے زیر استعمال تیز دھار چھری، وہیل کے منہ میں ایسے 40 سے 50 دانت موجود ہوتے ہیں اور وہیل کے نگلتے ہی یہ دانت کسی بھی شے کو کاٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

    فرض کیا کہ کوئی خوش قسمت شخص ان دانتوں سے بچ کر وہیل کے حلق میں پھسل گیا، اب یہاں اندھیرا ہوگا اور آکسیجن کی کمی اور میتھین کی زیادتی کی وجہ سے اسے سانس لینے میں بے حد مشکل ہوگی۔

    وہیل کے منہ میں موجود سلائیوا انسان کو نیچے دھکیلتا جائے گا۔ اب وہاں موجود ہائیڈرو کلورک تیزاب سے اس شخص کو اپنی جلد پگھلتی محسوس ہوگی۔

    اس کے بعد یہ شخص وہیل کے پہلے اور سب سے بڑی معدے میں گرے گا، یہاں اس کے استقبال کو وہ ننھے سمندری جانور موجود ہوں گے جن سے روشنی پھوٹتی ہے اور انہی وہیل بہت شوق سے کھاتی ہے۔ جب بھی معدے میں کوئی شے پہنچتی ہے تو یہ جانور اسے دیکھنے آتے ہیں کہ آیا وہ اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں۔

    ان جانوروں کے فیصلے سے قبل معدے میں موجود مائع انسان کو دوسرے، اور پھر تیسرے معدے میں دھکیل دے گا۔ اس دوران تیزاب سے اس کی پوری جلد پگھل چکی ہوگی اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی ہوں گی جو کسی بھی لمحے وہیل کے فضلے کے ساتھ اس کے جسم سے خارج ہوجائیں گی۔

    اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہیل کے نگلے جانے کے بعد کوئی شخص اس حالت میں نہیں رہ سکتا کہ واپس لوٹ کر اپنے اس سفر کی کہانیاں سنا سکے، ایسا دعویٰ کرنے والے جیمز کو بھی سائنس نے جھوٹا قرار دے دیا۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ وہیل مچھلیاں انسانوں کو نگلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، البتہ آپ کو کبھی زیر آب جانے کا اتفاق ہو اور آپ کی مڈبھیڑ وہیل سے ہوجائے تو اس سے فاصلے پر رہیں کہ کہیں پانی کا دباؤ آپ کو اس کے کھلے منہ میں نہ پہنچا دے۔

  • امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    واشنگٹن: امریکی ساحلوں پر وہیل کی اموات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور 6 ماہ میں مختلف ساحلوں پر 70 مردہ وہیلز پائی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے مغربی ساحلوں (ویسٹ کوسٹ) پر اب تک 70 گرے وہیل مردہ پائی گئی ہیں جس سے ایک جانب تو سمندری حیات کے ماہرین پریشان ہیں تو دوسری جانب ان مردہ وہیلوں کو تلف کرنا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔

    امریکی اداروں نے سمندر کے کنارے جائیدادوں کے مالک سے کہا ہے کہ وہ وہیل کے لیے کچھ جگہ چھوڑیں تاکہ وہ قدرتی طور پر گل سڑ کر تلف ہوسکیں۔

    ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں وہیل کی ہلاکتوں کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ ماہرین ابھی اس پر غور کر رہے ہیں لیکن خیال ہے کہ یہ عظیم الجثہ جاندار بھوک سے مرے ہیں کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی سے سمندروں میں اتنے بڑے جانداروں کے لیے غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

    اگرچہ وہیل کی لاشوں پر مردار خور پرندے اور دیگر جانور آرہے ہیں تاہم اس کے باوجود وہیل کو تلف ہونے میں وقت لگے گا اور ان کا تعفن ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ وہیل ریاست واشنگٹن کے ساحلوں پر ملی ہیں جن کی تعداد 30 ہے۔

    دوسرے نمبر پر کیلی فورنیا ہے جہاں 37 مردہ وہیل پائی گئیں، جبکہ 3 وہیل اوریگون میں پائی گئی ہیں۔

    سائنسدانوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اگلے چند ماہ میں مزید وہیلوں کی ہلاکت کے واقعات ہوسکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی بڑی تعداد مرنے کے بعد دور افتادہ چھوٹے جزیروں پر جمع ہو رہی ہو اور یوں اصل نقصان کا اندازہ لگانا محال ہے۔

    ایک خیال یہ ہے کہ گرے وہیل روزانہ بڑی مقدار میں کرل اور ایمفی پوڈز نامی سمندری جاندار کھاتی ہیں لیکن سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنے سے ان جانوروں کی تعداد ختم ہو رہی ہے اور نتیجہ وہیل کی بھوک کے باعث اموات کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔

  • فلپائن میں پلاسٹک سے بنا 24 میٹر لمبا وہیل کا مجسمہ، جسے دیکھنے والے دنگ رہ گئے

    فلپائن میں پلاسٹک سے بنا 24 میٹر لمبا وہیل کا مجسمہ، جسے دیکھنے والے دنگ رہ گئے

    منیلا : فلپائن میں ماہر فنکار نے پلاسٹک کا استعمال کرتے ہوئے ایسا انوکھا اور منفرد وہیل کا مجسمہ تخلیق کیا ہے جسے دیکھنے والے حیران رہ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ جس سے سمندری حیات تو متاثر ہورہی ہے ساتھ ہی ساتھ دنیا میں سالانہ 90 لاکھ افراد کو موت کا شکار کر رہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فلپائن میں ایسے ہی ماہر فنکار نے پلاسٹک کا استعمال کرتے ہوئے ایسا انوکھا اور منفرد وہیل کا مجسمہ تخلیق کیا ہے کہ جسے دیکھنے والے حیران رہ گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 13 اعشاریہ 8 میٹر لمبا یہ آرٹ کا نمونہ ماحولیاتی آلودگی سے آگاہی کے لئے تیار کیا گیا ہے جس کی تیاری میں پلاسٹک کی ہزاروں بوتلوں اور اسٹراز کااستعمال کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس مجسمے کو کرائی آف دی ڈیڈ وہیلز کا نام دیا گیا ہے جسے 40 کلو پلاسٹک سے تیار کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے متعلق نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی نا صرف انسانی جسم کے لیے خطرناک ہے بلکہ انسانی ذہن کو بھی شدید ترین نقصان پہنچاتی ہے ا ور اس کے سبب انسان متعدد ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

    محققین کو شک ہے کہ آلودگی کا شکار دماغ میں آئرن آکسائیڈ کے یہ ذرے الزائمر جیسے بیماریوں کا باعث بنتے ہیں تاہم اس حوالے سے شواہد کی کمی ہے۔

    محققین نے ان نتائج کو ’خوفناک حد تک حیران کن‘ قرار دیا ہے۔ اور اس سے فضائی آلودگی کے سبب صحت کو لاحق خطرات کے بارے میں نئے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔

  • وھیل کے منہ سے زندہ سلامت باہر آنے والا خوش قسمت

    وھیل کے منہ سے زندہ سلامت باہر آنے والا خوش قسمت

    جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے، جنوبی افریقہ کا ٹور آپریٹر 45 فٹ لمبی وہیل کے منہ سے زندہ نکل آیا، وھیل کے منہ میں انہوں نے کم از کم دو منٹ گزارے۔

    تفصیلات کے مطابق رینر شمف نامی شخص سمندر میں سارڈین نامی مچھلیوں کے تیزی سے حرکت کرنے کا منظر فلما رہا تھا کہ اچانک ایک طویل الجثہ وھیل اسے نگل گئی۔

    یہ واقعہ جنوبی افریقہ کے پورٹ الزبتھ ہاربر پر پیش آیا جہاں کثیر تعداد میں پین گوئن، اودھ بلاؤ، ڈولفن ، وھیل اور شارک موجود ہوتی ہیں۔
    ان کا کہنا کہ اچانک ایک بڑی وہیل مچھلی نے انہیں نگل لیا۔

    انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کہ اگر کوئی 15 ٹن سے زائد بھاری بھرکم مخلوق آپ کو اپنے جبڑے میں لے لے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس دنیا میں ہم انسان کتنے چھوٹے ہیں۔

    اکیاون سالہ شمف کے مطابق وہ اور ان کے دو ساتھی پانی میں ہی تھے جب وھیل انہیں سالم نگل گئی تھی اور یہ دورانیہ کم ازکم دو منٹ کا تھا جس کے بعد اس نے انہیں باہر اگل دیا۔

    انہوں نےمزید کہا کہ فلم بناتے وقت ان کی تمام تر توجہ شارکس پر مرکوز تھی کہ جب شار ک آپ کے آس پاس ہوں تو آپ کو دھیان کرنا ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے ، اگر وہ آپ کی پشت پر آجائے تو یہ خطرناک ہوتا ہے۔ ابھی ہم فلم بنا رہی رہے تھے کہ اچانک اندھیرا چھا گیا۔ میں خوف زدہ تھا لیکن میں نے اس لمحے خوف کا اظہار کرنے کے بجائے خود پر قابو پائے رکھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس شارک نے انہیں نگلا وہ کم از کم 45 فٹ طویل اور 20 ٹن وزنی تھی ۔

  • ایمازون کے جنگلات میں مردہ وہیل دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں مردہ وہیل دریافت

    جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگل میں ہمپ بیک وہیل مردہ پائی گئی جس نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    11 میٹر طویل اور 10 ٹن وزنی یہ وہیل ایمازون جنگلات کے درمیان ایک جزیرے میں پائی گئی جہاں تیمر کے جنگلات موجود ہیں۔

    گو کہ سمندری حیات کا ساحل پر آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ماہرین حیران ہیں کہ یہ وہیل جنگل کے اتنے اندر تک کیسے آگئی۔

    مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقام پر پرندوں کے جھنڈ دیکھے جو وہیل کی لاش کھانے کے لیے وہاں اترے ہوئے تھے۔ پرندوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کچھ غیر معمولی حالات کا احساس ہوا جس کے بعد وہ وہاں پہنچے۔

    مزید پڑھیں: قوی الجثہ وہیل کی ہوا میں اچھلتی ہوئی ویڈیو وائرل

    وہیل کی لاش کا معائنہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاش کئی دن پرانی ہے۔ رناتا ایمن نامی ایک وائلڈ لائف پروفیسر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہیل ساحل تک آگئی ہو جس کے بعد کسی اونچی لہر نے اسے جنگل میں اٹھا پھینکا ہو۔

    نہ صرف اس وہیل کے جنگل کے اس حصے تک پہنچنے، بلکہ اس علاقے میں وہیل کی موجودگی نے ہی ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمپ بیک وہیل عام طور پر اگست سے نومبر کے درمیان جنوبی برازیل کے ساحلوں پر ہوتی ہیں۔ ان کا اتنی دور ہزاروں کلومیٹر شمال تک سفر کر کے آنا وہ بھی اس موسم میں نہایت حیران کن ہے۔

    تاحال وہیل کی موت کا سبب بھی اندھیرے میں ہے، مقامی حکام کے مطابق اس مقام تک پہنچنا اور پھر وہاں سے وہیل کی لاش کو اٹھانا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ یہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔