Tag: وہیل مچھلیاں

  • شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    میامی: ایک سائنسی تحقیق کے مطابق گرین لینڈ میں پائی جانے والی شارک کی عمر 400 سال تک طویل ہوسکتی ہے۔ اس طرح یہ زمین پر سب سے طویل العمر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار ہوسکتے ہیں۔

    یہ تحقیق گرین لینڈ انسٹیٹیوٹ آف نیچرل ریسورسز میں کی گئی۔ اس سے قبل کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ان مچھلیوں کی عمر کا دورانیہ 272 سال ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جہازوں کا شور وہیل مچھلی کی صحت پر منفی اثرات کا باعث

    سائنسدانوں کے مطابق ان شارکس کی افزائش بہت سستی سے ہوتی ہے اور ان کی جسمانی لمبائی میں صرف ایک سینٹی میٹر سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی ان کی طویل العمری کی وجہ ہے۔

    whale-2

    تازہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھلیاں انسانی چہروں کو شناخت کرسکتی ہیں

    یہ تحقیق اس وقت عمل میں لائی گئی جب کچھ شارکس اتفاقاً مچھیروں کے ہاتھ لگ گئیں۔ ماہرین کے مطابق اس اقسام کی اب تک 2 طویل ترین شارکس دیکھی جا چکی ہیں جن کی لمبائی 16 فٹ ہے۔ ان شارکس کی عمر کا اندازہ 335 سے 392 سال کے درمیان لگایا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    برلن: جرمنی کی ایک ساحلی ریاست میں 2 دیو قامت مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین کے مطابق ان وہیلوں کے پیٹ میں لاتعداد پلاسٹک کے اجزا ہیں۔

    جرمنی کی ریاست شیلسوگ ہولسٹن کے ساحل پر 2 مردہ وہیل مچھلیاں سمندر کی لہروں کے ساتھ بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین نے جب ان مچھلیوں کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان مچھلیوں کے معدے پلاسٹک کے اجزا سے بھرے پڑے تھے۔

    مزید پڑھیں: جہازوں کا شور وہیل مچھلی کی صحت پر منفی اثرات کا باعث

    جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق ان کے پیٹ میں 13 میٹر طویل مچھلیوں کے جال، 70 سینٹی میٹر لمبے کار کے ایک پلاسٹک کے ٹکڑے سمیت دیگر پلاسٹک کی اشیا ملی ہیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ان مچھلیوں نے ان اشیا کو خوراک سمجھ کر کھایا ہوگا۔

    ریاست کے وزیر برائے ماحولیات رابرٹ ہیبک کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ پلاسٹک نہ صرف ہماری زندگیوں کا لازمی جز بن چکا ہے بلکہ ہم انہیں استعمال کے بعد بہت لاپرواہی سے پھینکنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

    whale-2

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک اشیا کا سمندر میں جانا سمندری حیات کے لیے سخت خطرے کا باعث ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ مچھلیاں پلاسٹک سے پیٹ بھرے ہونے کے باوجود بھوکی تھیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک براہ راست ان کی موت کی وجہ نہیں بنا البتہ اس پلاسٹک کے باعث ان کا وزن بے ہنگم ہوگیا اور غلطی سے کم گہرے پانی میں آنے کے بعد ان کے لیے گہرے پانی میں واپس جانا مشکل ہوگیا، یوں جلد ہی ان کے جسمانی اعضا ناکارہ ہوتے گئے جو ان کی موت کا سبب بنا۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    مزید پڑھیں: برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں جو سمندر میں جا کر آبی حیات کی بقا کو سخت خطرات پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی حیات ان کو کھانے کی اشیا سمجھ کر بھی نگل جاتے ہیں جس کے بعد یہ ان کے معدے میں پھنس جاتے ہیں اور بالآخر یہ آبی حیات موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔